وزیر اعلیٰ جام کمال اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کیلئے متحرک

گورنر بلوچستان کی تبدیلی کی خبر آنے کے بعد کئی سیاسی شخصیات کے نام گورنر شپ کے لئے موضوع بحث رہے۔

گورنر بلوچستان کی تبدیلی کی خبر آنے کے بعد کئی سیاسی شخصیات کے نام گورنر شپ کے لئے موضوع بحث رہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
بلوچستان کے گورنر جسٹس (ریٹائرڈ) امان اﷲ خان یاسین زئی کی تبدیلی کی گردش کرنے والی خبر جس تیزی سے سوشل میڈیا پر پھیلی، اُسی تیزی سے یہ خبر افواہ بن کر دم توڑ گئی ہے۔

گورنر بلوچستان کی تبدیلی کی خبر آنے کے بعد کئی سیاسی شخصیات کے نام گورنر شپ کے لئے موضوع بحث رہے، جن میں ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی، فیض محمد کاکڑ، سردار روح اﷲ خلجی اور نوابزادہ ہمایوں جوگیزئی قابل ذکر ہیں، تاہم اسلام آباد کے حلقوں کے مطابق بلوچستان کے گورنر کی تبدیلی کے حوالے سے وفاقی حکومت نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کو بلوچستان سے این ایف سی ایوارڈ کیلئے غیر سرکاری رکن مقرر کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سابق وفاقی وزیر جاوید جبار کو بلوچستان سے این ایف سی ایوارڈ کیلئے رکن مقرر کیا گیا تھاتو ان کی نامزدگی پر صوبے کے سیاسی حلقوں میں سخت تنقید کی گئی یہاں تک کہ اُن کی نامزدگی کو بلوچستان ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا جس پر وہ مستعفی ہوگئے۔ بلوچستان حکومت کے وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر ڈاکٹر قیصر بنگالی کی نامزدگی کو ایک اچھا انتخاب قرار دیتے ہوئے اُمید ظاہر کی ہے کہ وہ بلوچستان کا کیس لڑیں گے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ جام کمال اور اُن کی اتحادی جماعت اے این پی کے درمیان چمن کے پاک افغان بارڈر کی بندش کے باعث جو تلخی پیدا ہوئی تھی اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ اے این پی اس صورتحال میں جام حکومت سے الگ ہوجائے گی یا اُسے الگ کردیا جائے گا، اس تلخی میں بتدریج کمی آنا شروع ہوگئی ہے، خصوصاً عید سے قبل چمن میں پاک افغان بارڈر پر جو افسوسناک صورتحال پیش آئی اُس میں جام حکومت کی اتحادی جماعت اے این پی خصوصاً پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کے مثبت رویے نے اہم کردار ادا کیا ہے، جس سے نہ صرف سرحد پر بگڑتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی بلکہ چمن پاک افغان بارڈر پر دھرنا دے کر احتجاج کرنے والوں کے مطالبات بھی تسلیم کرلئے گئے ہیں۔

اس سے قبل بلوچستان حکومت کی جانب سے قائم کمیٹی اور دھرنا کمیٹی کے درمیان طے شدہ دس نکات پر باقاعدہ دستخط بھی کرلئے گئے تھے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں پاک افغان بارڈر کی بندش کے حوالے سے اے این پی کے پارلیمانی لیڈر و رکن صوبائی اسمبلی اصغر اچکزئی کی جانب سے تحریک التواء پیش کئے جانے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی تھی اور جس طرح سے جام حکومت کی اتحادی جماعت اے این پی نے ردعمل میں شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا اُسے دور کرنے میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے جس سیاسی پختگی اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا وہ قابل ستائش ہے۔


سیاسی مبصرین کے مطابق دونوں اطراف سے سیز فائر کے بعد جام حکومت کے حوالے سے جس سیاسی میدان میں گرماگرمی پیدا ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں، اُن میں بھی خاموشی طاری ہوگئی ہے اور خود وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بھی متحرک نظر آرہے ہیں اور اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر چلنے اور ان کے ساتھ حکومت سازی کے دوران جومعاہدے ہوئے ہیں اُن پر عملدرآمد کی یقین دہانی بھی کراکے اپنی حکومت کو مضبوط بنا رہے ہیں۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق اے این پی جام حکومت کی تحریک انصاف کے بعد دوسری بڑی اتحادی جماعت ہے، اس جماعت کے ساتھ حکومت سازی کے وقت وزیراعلیٰ جام کمال اور اے این پی کی صوبائی قیادت کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اُس پر سست روی سے عملدرآمد بھی اے این پی کی ناراضگی کی ایک بڑی وجہ ہے جبکہ لیویز کے معاملے پر جام حکومت اور اتحادی جماعت اے این پی کے مابین اس وقت شدید اختلاف سامنے آیا جب جام حکومت نے کوئٹہ گوادر اور لسبیلہ کی لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا تو اے این پی نے نہ صرف اسمبلی فلور پر لیویز کے حق میں متفقہ قرار داد منظور کروائی بلکہ عدالت سے بھی رجوع کیا۔

اس کے علاوہ کوئٹہ ڈویژن کے انتظامی معاملات پر بھی حکمران جماعت بی اے پی اور اے این پی کے اختلافات اکثر و بیشتر کھل کر سامنے آتے رہے ہیں حکومت سازی کے دوران جب دونوں جماعتوں کے درمیان معاہدہ ہوا تو اُس میں یہ بات واضح کی گئی کہ کوئٹہ ڈویژن کو توڑ کر پشین کے نام سے ایک نیا ڈویژن بنایا جائے گا اور ضلع پشین کو بھی دو اضلاع میں تقسیم کرکے ضلع کاریزات اور خانوزئی کے نام سے نیا ضلع بنایا جائے گا اسی طرح قلعہ عبداﷲ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے چمن کے نام سے نیا ضلع بنانے پر اتفاق کیا گیا اسی طرح ژوب ڈویژن کو توڑکر لورالائی کے نام سے الگ ڈویژن بنانے کا وعدہ کیا گیا۔

بعض ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جام حکومت فی الحال اے این پی کی تجویز پر ایک ڈویژن اور ڈسٹرکٹ بڑھانے پر عملی کام کررہی ہے جس کے تحت ژوب ڈویژن کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک نیا ڈویژن لورالائی بننے جارہا ہے جبکہ قلعہ عبداﷲ کو دو اضلاع میں تقسیم کرکے نیا ضلع چمن تشکیل دیا جائے گا۔اسی طرح لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے معاملے پر بھی وزیراعلیٰ جام کمال نے اے این پی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کواعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کو اپنی اتحادی جماعت اے این پی کے ساتھ اس حد تک لے جانے کی اصل وجوہات کو بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اے این پی جام حکومت کی دوسری بڑی اتحادی جماعت ہے اُسے حکومت سے علیحدگی کا مشورہ دیا جانا اور اس سے قبل سیاسی حلقوں میں یہ بات پھیلانا کہ اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) حکومت میں شامل ہورہی ہے اور اے این پی کو نکالا جارہا ہے کیا یہ افواہیں جام حکومت کو کمزور کرنے کی سازش نہیں کیونکہ خود اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کی صوبائی قیادت جام حکومت میں شمولیت کی کسی قسم کی دعوت یا بات چیت کی تردید کرچکی ہے۔
Load Next Story