اپوزیشن میں عدم اتفاق تحریک چلتی نظر نہیں آتی
اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر ماضی کی طرز پر تحریک چلائیں گی لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
پانچ ماہ کے طویل وقفے کے بعد ملک بھر میں کاروبارِ زندگی بحال ہونا شروع ہو گیا ہے،کورونا کی وباء رواں سال مارچ میں جب پاکستان پہنچی تو اس کے بعد حالات ایسے ہوئے کہ معمولات زندگی کو برقراررکھنا مشکل ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے زندگی معطل ہوکر رہ گئی اور اس صورت حال کی وجہ سے جہاں دیگر شعبہ جات متاثر ہوئے وہیں سیاسی سرگرمیاں بھی ماند پڑگئیں، گوکہ اس دوران سیاسی جماعتوں کی جانب سے مختلف نوعیت کی سرگرمیاں کسی نہ کسی حد اور طریقے سے جاری تو رہیں تاہم ان میں وہ روایتی زور نہیں تھا، تاہم اب چوں کہ کورونا وباء کا پھیلاؤ کم ہونا شروع ہو گیا ہے اور حکومت نے مختلف شعبہ جات کوکھولتے ہوئے معمولات کو بحال کرنا شروع کردیا ہے تو ساتھ ہی سیاسی سرگرمیاں بھی بحال ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
سیاست میں ستمبر کو بہت اہمیت حاصل ہے، اسی وجہ سے اس ماہ کو ستمگرکے نام سے جاناجاتا ہے۔ مولانافضل الرحمٰن کا آزادی مارچ ناکامی سے کیوں دوچار ہوا؟کون کس کے وعدوں کی وجہ سے غلطی کا شکا ر ہوا؟ اور کون دوڑ لگاتے ہوئے اچانک پیچھے ہٹ گیا؟یہ باتیں ماضی کا حصہ بن چکی ہیں تاہم مولانا فضل الرحمٰن اب ایک مرتبہ پھر میدان میں نکلے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو یکجا کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے خلاف میدان میں نکالیں لیکن جو مسئلہ انھیں اکتوبر،نومبر2019ء میں درپیش تھا وہی مسئلہ آج بھی ہے۔
کل بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی مسلم لیگ( ن) اورپیپلزپارٹی ان کی وکٹ پر کھیلنے کے لیے تیار نہیں تھیں اور اپنی ،اپنی لائن لیے ہوئے تھیں اور آج بھی صورت حال ایسی ہی ہے کہ یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنی ہی لائن پر لگی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن یقینی طور پر مایوسی کا شکار ہوئے ہیں اور وہ ایک بار پھر تنہا میدان میں نکلنے اور تحریک شروع کرنے کی تیاری کررہے ہیں ۔
اسی تیاری کے سلسلے میں انہوں نے اگلے ماہ دو پروگراموں کے انعقاد کا اعلان کیا ہے، جن کا مقصد پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنا ہے تاہم یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ جس طرح گزشتہ سال وہ میدان میں نکلے اور سیاسی جماعتیں صرف اپنی موجودگی کا احسا س دلانے کی حد تک ان کے ساتھ رہیں، اسی طرح اس مرتبہ بھی اگر وہ اکیلے ہی میدان میں اترتے ہیں اور اس امید پر اترتے ہیں کہ وہ عمران خان حکومت کو ہٹاکر ہی گھر جائیں گے تو شاید ہی ایسا ہوسکے۔
کیوں کہ ایسا اسی صورت میں ممکن ہوسکتاہے کہ جب اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر ماضی کی طرز پر تحریک چلائیں گی لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی اپنی مجبوریاں ہیں اور مجبوریوں کی ان بیڑیوں کی وجہ سے وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کے شانہ بشانہ کھڑی ہوسکیں۔ ان حالات میں یا تو مولانافضل الرحمٰن اپنی پارٹی کی دھاک بٹھانے کے لیے ایک مرتبہ پھر اکیلے ہی میدان میں کود پڑیں گے یا پھر وہ بڑی سیاسی جماعتوں کا انتظار کریں گے۔
مولانافضل الرحمٰن کی طرح قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمدخان شیرپاؤ بھی حکومت کی رخصتی کے خواہاں ہیں اور اس کے لیے میدان میں اترنے کے لیے پر تول رہے ہیں لیکن یہ بات وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ بات تب ہی بنے گی کہ جب سب اکٹھے ہوں گے اور سب کے اکٹھے ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ عوامی نیشنل پارٹی اپنی جگہ مختلف سرگرمیوں کے ذریعے میدان کو گرمانے کی خواہاں ہے لیکن اس وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں، عمران خان حکومت سے مستعفی ہونے کے مطالبات تک محدود ہیں۔
خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو وزیراعلیٰ محمودخان بھی بخوبی کھیل رہے ہیں جو اپوزیشن کو ترقیاتی فنڈز کی لال بتی کے پیچھے لگائے معاملات کوآگے کی طرف چلارہے ہیں اور اپنے اقتدار کے دو سال مکمل کرگئے ہیں۔
وزیراعلیٰ محمودخان کی صورت حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف بغاوت میں شامل تین وزراء میں سے شہرام ترکئی کے ساتھ صلح کربھی لی ہے لیکن اس کے باوجود شہرام ترکئی کو تاحال اپنی ٹیم میں واپس لے کر نہیں آئے حالانکہ جب گورنر شاہ فرمان کے توسط سے وزیراعلیٰ اور شہرام ترکئی میں صلح ہوئی تو اس وقت امکان ظاہر کیاجارہا تھا کہ اب جلد ہی شہرام ترکئی ،محمودخان کابینہ اورٹیم کا حصہ بن جائیں گے لیکن وزیراعلیٰ محمودخان کسی بھی قسم کی جلد بازی سے کام نہیں لے رہے اور وہ یہ احتیاط اس لیے بھی برت رہے ہیں۔
تاکہ کوئی ایسا فیصلہ نہ ہونے پائے کہ جس کی وجہ سے کوئی مشکل پیش آئے لیکن مشکلات انھیں اسمبلی کی جانب سے پیش آرہی ہیں کیونکہ روٹی اور آٹے کے ایشو پر جس انداز میں صوبائی اسمبلی نے ردعمل کا اظہار کیاہے اس کا حکومتی ارکان مناسب انداز میں دفاع نہیں کرسکے اور پھر رہی سہی کسر سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی نے پوری کردی جنہوں نے ڈپٹی کمشنروں اور ساتھ ہی چیف سیکرٹری کو جس انداز میں لتاڑا وہ براہ راست حکومت کو سنانے والی بات تھی۔ اندر کی خبر رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ اور سپیکر کے درمیان ان بن چل رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جس دن وزیراعلیٰ محمودخان ،گورنر شاہ فرمان کے ساتھ وزیراعظم عمران سے ملاقات کے لیے اسلام آباد میں تھے اسی دن سپیکر مشتاق غنی بھی ڈپٹی سپیکر محمودجان کے ہمراہ اسلام آباد میں رہے، جس سے سب کے کان کھڑے ہوگئے کہ آخر چکر کیا ہے؟ اور اسی حوالے سے واقفان حال بتاتے ہیں کہ ہر کوئی خود کو بچانے اور دوسروں کے ساتھ حساب برابر کرنے کے لیے شہر اقتدار میں موجود تھا، تاہم سپیکر نے سخت الفاظ کے ذریعے نہ صرف عوام کے جذبات کی ترجمانی کی بلکہ ان کی مایوسی کو بھی کم کرنے کی کوشش کی۔
سیاست میں ستمبر کو بہت اہمیت حاصل ہے، اسی وجہ سے اس ماہ کو ستمگرکے نام سے جاناجاتا ہے۔ مولانافضل الرحمٰن کا آزادی مارچ ناکامی سے کیوں دوچار ہوا؟کون کس کے وعدوں کی وجہ سے غلطی کا شکا ر ہوا؟ اور کون دوڑ لگاتے ہوئے اچانک پیچھے ہٹ گیا؟یہ باتیں ماضی کا حصہ بن چکی ہیں تاہم مولانا فضل الرحمٰن اب ایک مرتبہ پھر میدان میں نکلے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو یکجا کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے خلاف میدان میں نکالیں لیکن جو مسئلہ انھیں اکتوبر،نومبر2019ء میں درپیش تھا وہی مسئلہ آج بھی ہے۔
کل بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی مسلم لیگ( ن) اورپیپلزپارٹی ان کی وکٹ پر کھیلنے کے لیے تیار نہیں تھیں اور اپنی ،اپنی لائن لیے ہوئے تھیں اور آج بھی صورت حال ایسی ہی ہے کہ یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنی ہی لائن پر لگی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن یقینی طور پر مایوسی کا شکار ہوئے ہیں اور وہ ایک بار پھر تنہا میدان میں نکلنے اور تحریک شروع کرنے کی تیاری کررہے ہیں ۔
اسی تیاری کے سلسلے میں انہوں نے اگلے ماہ دو پروگراموں کے انعقاد کا اعلان کیا ہے، جن کا مقصد پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنا ہے تاہم یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ جس طرح گزشتہ سال وہ میدان میں نکلے اور سیاسی جماعتیں صرف اپنی موجودگی کا احسا س دلانے کی حد تک ان کے ساتھ رہیں، اسی طرح اس مرتبہ بھی اگر وہ اکیلے ہی میدان میں اترتے ہیں اور اس امید پر اترتے ہیں کہ وہ عمران خان حکومت کو ہٹاکر ہی گھر جائیں گے تو شاید ہی ایسا ہوسکے۔
کیوں کہ ایسا اسی صورت میں ممکن ہوسکتاہے کہ جب اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر ماضی کی طرز پر تحریک چلائیں گی لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی اپنی مجبوریاں ہیں اور مجبوریوں کی ان بیڑیوں کی وجہ سے وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کے شانہ بشانہ کھڑی ہوسکیں۔ ان حالات میں یا تو مولانافضل الرحمٰن اپنی پارٹی کی دھاک بٹھانے کے لیے ایک مرتبہ پھر اکیلے ہی میدان میں کود پڑیں گے یا پھر وہ بڑی سیاسی جماعتوں کا انتظار کریں گے۔
مولانافضل الرحمٰن کی طرح قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمدخان شیرپاؤ بھی حکومت کی رخصتی کے خواہاں ہیں اور اس کے لیے میدان میں اترنے کے لیے پر تول رہے ہیں لیکن یہ بات وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ بات تب ہی بنے گی کہ جب سب اکٹھے ہوں گے اور سب کے اکٹھے ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ عوامی نیشنل پارٹی اپنی جگہ مختلف سرگرمیوں کے ذریعے میدان کو گرمانے کی خواہاں ہے لیکن اس وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں، عمران خان حکومت سے مستعفی ہونے کے مطالبات تک محدود ہیں۔
خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو وزیراعلیٰ محمودخان بھی بخوبی کھیل رہے ہیں جو اپوزیشن کو ترقیاتی فنڈز کی لال بتی کے پیچھے لگائے معاملات کوآگے کی طرف چلارہے ہیں اور اپنے اقتدار کے دو سال مکمل کرگئے ہیں۔
وزیراعلیٰ محمودخان کی صورت حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف بغاوت میں شامل تین وزراء میں سے شہرام ترکئی کے ساتھ صلح کربھی لی ہے لیکن اس کے باوجود شہرام ترکئی کو تاحال اپنی ٹیم میں واپس لے کر نہیں آئے حالانکہ جب گورنر شاہ فرمان کے توسط سے وزیراعلیٰ اور شہرام ترکئی میں صلح ہوئی تو اس وقت امکان ظاہر کیاجارہا تھا کہ اب جلد ہی شہرام ترکئی ،محمودخان کابینہ اورٹیم کا حصہ بن جائیں گے لیکن وزیراعلیٰ محمودخان کسی بھی قسم کی جلد بازی سے کام نہیں لے رہے اور وہ یہ احتیاط اس لیے بھی برت رہے ہیں۔
تاکہ کوئی ایسا فیصلہ نہ ہونے پائے کہ جس کی وجہ سے کوئی مشکل پیش آئے لیکن مشکلات انھیں اسمبلی کی جانب سے پیش آرہی ہیں کیونکہ روٹی اور آٹے کے ایشو پر جس انداز میں صوبائی اسمبلی نے ردعمل کا اظہار کیاہے اس کا حکومتی ارکان مناسب انداز میں دفاع نہیں کرسکے اور پھر رہی سہی کسر سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی نے پوری کردی جنہوں نے ڈپٹی کمشنروں اور ساتھ ہی چیف سیکرٹری کو جس انداز میں لتاڑا وہ براہ راست حکومت کو سنانے والی بات تھی۔ اندر کی خبر رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ اور سپیکر کے درمیان ان بن چل رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جس دن وزیراعلیٰ محمودخان ،گورنر شاہ فرمان کے ساتھ وزیراعظم عمران سے ملاقات کے لیے اسلام آباد میں تھے اسی دن سپیکر مشتاق غنی بھی ڈپٹی سپیکر محمودجان کے ہمراہ اسلام آباد میں رہے، جس سے سب کے کان کھڑے ہوگئے کہ آخر چکر کیا ہے؟ اور اسی حوالے سے واقفان حال بتاتے ہیں کہ ہر کوئی خود کو بچانے اور دوسروں کے ساتھ حساب برابر کرنے کے لیے شہر اقتدار میں موجود تھا، تاہم سپیکر نے سخت الفاظ کے ذریعے نہ صرف عوام کے جذبات کی ترجمانی کی بلکہ ان کی مایوسی کو بھی کم کرنے کی کوشش کی۔