قیام پاکستان کے دوران قربانیوں کی داستانیں آج بھی کئی سینوں میں محفوظ
74 سال گزرنے کے باوجود قیام پاکستان کی قربانیوں کی داستانیں آج بھی کئی سینیوں میں محفوظ ہیں
1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے پاکستان پہنچے اوریہاں سے سینکڑوں سکھ اورہندوخاندان انڈیا چلے گئے تھے۔ 74 سال پہلے قیام پاکستان کے وہ مناظراورقربانیوں کی داستانیں آج بھی کئی سینوں میں محفوظ ہیں۔
لاہورکے سرحدی علاقہ منہالہ کے رہائشی 85 سالہ بزرگ سردارمحمد نے بتایا کہ وہ لوگ امرتسر کے ایک گاؤں میں رہتے تھے، یہ لوگ پانچ بھائی اورچاربہنیں تھیں۔1947 میں جب ہندوستان کی تقسیم اورآزادی کا اعلان ہوا تو ان کا خاندان ہجرت کرکے یہاں منہالہ میں آباد ہوگیا۔ یہ گاؤں پاک بھارت سرحد کے قریب ہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ جس گاؤں سے ہجرت کرکے وہ لوگ یہاں آئے تھے وہاں مسلمانوں اورسکھ، ہندوؤں میں کوئی تصادم نہیں ہوا تھا۔ لیکن راستے میں انہوں نے جو مناظردیکھے آج بھی جب وہ سوچتے ہیں تورونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اورآنکھوں میں پانی آجاتا ہے۔
سردارمحمدنے بتایا کہ جب وہ لوگ سرحد عبورکرکے نروڑ گاؤں جو کہ پاکستان کا حصہ ہے اس کے قریب پہنچے تویہاں سکھوں کے ایک جتھے نے مسلمانوں کے قافلے پرحملہ کیا تھا، سکھ مسلمان لڑکیوں کو اٹھاکرلے گئے، جبکہ جن خواتین کے پاس شیرخوار اور چھوٹے بچے تھے، ان بچوں کو ماؤں کی گود سے چھین کرزمین پرپھینکتے اورپھربرچھی مارکرشہید کردیتے ،معصوم بچوں کی لاشیں برچھیوں پرلہراکر کہتے کہ ہم نے ایک مسلمان کو ماردیا ہے۔
اسی گاؤں کے رہائشی ہدایت علی کا کہنا تھا اس منہالہ گاؤں میں مسلمان ، سکھ اورہندو تینوں قومیں آباد تھیں، گاؤں کے آٹھ ذیلدارتھے جن میں سے سات سکھ اورہندوجبکہ ایک ذیلدارمسلمان تھا، جب آزادی کا اعلان ہواتو کسی مسلمان نے سکھوں اورہندوؤں کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ انہیں حفاظت کے ساتھ بارڈر جوکہ یہاں بمشکل ایک سے دوکلومیٹردور ہے وہاں تک چھوڑ کرآئے تھے۔ لیکن جب ہندوستان سے مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے یہاں پہنچناشروع ہوئے ، لاشوں سے لدی بیل گاڑیاں اورٹرین لاہورپہنچی توپھرہنگامے شروع ہوگئے، پھریہاں مسلمانوں نے بھی بدلہ لینے کے لیے قتل عام شروع کردیا ، وہ حالات تھے کہ مائیں اپنے بچے نہیں سنبھال سکتی تھیں۔ہدایت علی کا کہنا تھا ان کے کچھ سکھ اورہندودوست تھے ،وہ سب اکھٹے کھیلتے تھے لیکن آزادی کے بعد ہمارا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
ملک سراجدین بھی منہالہ گاؤں کے قدیم باسی ہیں ، انہوں نے ایکسپریس کوبتایا کہ یہاں بسنے والے سکھ اورہندوخاندانوں کو امید تھی کہ یہ علاقہ انڈیا میں چلاجائیگا ، انہوں نے اپنے جتھے بنارکھے تھے تاکہ جب مسلمان یہاں سے ہجرت کریں توان کے گھروں میں لوٹ مارکی جاسکے،ملک سراجدین کہتے ہیں ان کے گھر کے ساتھ ہی ایک سردار کی حویلی تھی ، سکھوں کا ایک جتھہ اسی حویلی کی چھت پرجمع تھا جب ریڈیوپراعلان ہوا کہ منہالہ گاؤں انڈیا میں شامل ہوگا، سکھوں نے للکارے مارناشروع کردیئے، جس سے ہم مسلمان گھبراگئے کہ ناجانے اب کیا ہوگا، لیکن چندہی منٹوں پر ریڈیو پر دوبارہ اعلان نشر ہوا کہ نہیں واہگہ سے ہڈیارہ تک کے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے، منہالہ بھی پاکستان میں آگیا جس پرسکھ غصے میں آئے اورانہوں نے ریڈیو ہی توڑ دیا تھا۔
ملک سراجدین نے بتایا ہندوستان سے جو مسلمان ہجرت کرکے یہاں آئے تھے اس گاؤں میں موجود سکھ اور ہندوخاندانوں کے گھر اورحویلیاں ان کو الاٹ ہوئی تھیں مقامی لوگوں کو کچھ نہیں ملا تھا۔ اس گاؤں کے بزرگوں کا کہنا تھا کہ آج جوملک کے حالات ہیں انہیں دیکھ کرافسوس ہوتا ہے، ان کا دل خون کے آنسوروتا ہے، یہ وہ ملک تونہیں ہے جس کے لئے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دی تھیں۔ بزرگوں نے بتایا کہ حقیقی آزادی کا خواب آج 74 برس بعد بھی ادھورا ہے۔
لاہورکے سرحدی علاقہ منہالہ کے رہائشی 85 سالہ بزرگ سردارمحمد نے بتایا کہ وہ لوگ امرتسر کے ایک گاؤں میں رہتے تھے، یہ لوگ پانچ بھائی اورچاربہنیں تھیں۔1947 میں جب ہندوستان کی تقسیم اورآزادی کا اعلان ہوا تو ان کا خاندان ہجرت کرکے یہاں منہالہ میں آباد ہوگیا۔ یہ گاؤں پاک بھارت سرحد کے قریب ہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ جس گاؤں سے ہجرت کرکے وہ لوگ یہاں آئے تھے وہاں مسلمانوں اورسکھ، ہندوؤں میں کوئی تصادم نہیں ہوا تھا۔ لیکن راستے میں انہوں نے جو مناظردیکھے آج بھی جب وہ سوچتے ہیں تورونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اورآنکھوں میں پانی آجاتا ہے۔
سردارمحمدنے بتایا کہ جب وہ لوگ سرحد عبورکرکے نروڑ گاؤں جو کہ پاکستان کا حصہ ہے اس کے قریب پہنچے تویہاں سکھوں کے ایک جتھے نے مسلمانوں کے قافلے پرحملہ کیا تھا، سکھ مسلمان لڑکیوں کو اٹھاکرلے گئے، جبکہ جن خواتین کے پاس شیرخوار اور چھوٹے بچے تھے، ان بچوں کو ماؤں کی گود سے چھین کرزمین پرپھینکتے اورپھربرچھی مارکرشہید کردیتے ،معصوم بچوں کی لاشیں برچھیوں پرلہراکر کہتے کہ ہم نے ایک مسلمان کو ماردیا ہے۔
اسی گاؤں کے رہائشی ہدایت علی کا کہنا تھا اس منہالہ گاؤں میں مسلمان ، سکھ اورہندو تینوں قومیں آباد تھیں، گاؤں کے آٹھ ذیلدارتھے جن میں سے سات سکھ اورہندوجبکہ ایک ذیلدارمسلمان تھا، جب آزادی کا اعلان ہواتو کسی مسلمان نے سکھوں اورہندوؤں کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ انہیں حفاظت کے ساتھ بارڈر جوکہ یہاں بمشکل ایک سے دوکلومیٹردور ہے وہاں تک چھوڑ کرآئے تھے۔ لیکن جب ہندوستان سے مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے یہاں پہنچناشروع ہوئے ، لاشوں سے لدی بیل گاڑیاں اورٹرین لاہورپہنچی توپھرہنگامے شروع ہوگئے، پھریہاں مسلمانوں نے بھی بدلہ لینے کے لیے قتل عام شروع کردیا ، وہ حالات تھے کہ مائیں اپنے بچے نہیں سنبھال سکتی تھیں۔ہدایت علی کا کہنا تھا ان کے کچھ سکھ اورہندودوست تھے ،وہ سب اکھٹے کھیلتے تھے لیکن آزادی کے بعد ہمارا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
ملک سراجدین بھی منہالہ گاؤں کے قدیم باسی ہیں ، انہوں نے ایکسپریس کوبتایا کہ یہاں بسنے والے سکھ اورہندوخاندانوں کو امید تھی کہ یہ علاقہ انڈیا میں چلاجائیگا ، انہوں نے اپنے جتھے بنارکھے تھے تاکہ جب مسلمان یہاں سے ہجرت کریں توان کے گھروں میں لوٹ مارکی جاسکے،ملک سراجدین کہتے ہیں ان کے گھر کے ساتھ ہی ایک سردار کی حویلی تھی ، سکھوں کا ایک جتھہ اسی حویلی کی چھت پرجمع تھا جب ریڈیوپراعلان ہوا کہ منہالہ گاؤں انڈیا میں شامل ہوگا، سکھوں نے للکارے مارناشروع کردیئے، جس سے ہم مسلمان گھبراگئے کہ ناجانے اب کیا ہوگا، لیکن چندہی منٹوں پر ریڈیو پر دوبارہ اعلان نشر ہوا کہ نہیں واہگہ سے ہڈیارہ تک کے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے، منہالہ بھی پاکستان میں آگیا جس پرسکھ غصے میں آئے اورانہوں نے ریڈیو ہی توڑ دیا تھا۔
ملک سراجدین نے بتایا ہندوستان سے جو مسلمان ہجرت کرکے یہاں آئے تھے اس گاؤں میں موجود سکھ اور ہندوخاندانوں کے گھر اورحویلیاں ان کو الاٹ ہوئی تھیں مقامی لوگوں کو کچھ نہیں ملا تھا۔ اس گاؤں کے بزرگوں کا کہنا تھا کہ آج جوملک کے حالات ہیں انہیں دیکھ کرافسوس ہوتا ہے، ان کا دل خون کے آنسوروتا ہے، یہ وہ ملک تونہیں ہے جس کے لئے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دی تھیں۔ بزرگوں نے بتایا کہ حقیقی آزادی کا خواب آج 74 برس بعد بھی ادھورا ہے۔