کراچی پر عدلیہ صائب فیصلہ دے گی

دشمنوں نے کراچی پر نظریں گاڑ رکھی ہیں، صرف چنگاری سلگانے کے لیے ایک ’’دست غیر یا دست غیب ‘‘کی ضرورت ہے۔


Editorial August 14, 2020
دشمنوں نے کراچی پر نظریں گاڑ رکھی ہیں، صرف چنگاری سلگانے کے لیے ایک ’’دست غیر یا دست غیب ‘‘کی ضرورت ہے۔ (فوٹو : فائل)

PESHAWAR: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی کی اندوہ ناک صورتحال کے حوالہ سے اہم ریمارکس دیے ہیں۔ انھوں نے قرار دیا کہ یہاں مافیا آپریٹ کر رہے ہیں جن کا کام صرف کمائی کرنا ہے، قانون کی کوئی عمل داری نہیں، پوری حکومتی مشینری ملوث ہے، یہ مکمل ناکام لوگ ہیں، شہر اب جنگل بن گیا ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نالوں کی صفائی اور تجاوزات سے متعلق سماعت کی۔ چیف جسٹس اپنے فاضل ججز صاحبان کے ساتھ شہر قائد میں نالوں کی صفائی اور تجاوزات کے بارے میں مسائل کے ایک پیچیدہ دبستان کے اوراق کھلتے جا رہے ہیں، سماعت ابھی جاری رہے گی۔

اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے کراچی الیکٹرک کے سربراہ کے خلاف بجلی کا کرنٹ لگنے سے ہونے والی ہلاکتوں پر مقدمات قائم کرنے کی ہدایت کی، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ سندھ سلمان طالب الدین اور کمشنر کراچی افتخار شالوانی سے استفسارات ہوئے، میئر کراچی وسیم اختر بھی عدالت کے روبرو حاضر ہوئے، کراچی کے مسائل اور عروس البلاد کراچی کی تباہی کے مختلف پہلوؤں پر عدلیہ نے ہمہ جہتی بحث کی اور کئی فکر انگیز سوالات اٹھائے جوکہ وسیع تر معنوں میں ملکی سیاست، ریاستی نظم و نسق، طرز حکمرانی اور ایک گلوبل سیاق وسباق میں کراچی میٹروپولیٹن کی حیثیت اور اس کے بلدیاتی عروج اور سیاسی زوال سے جڑے ہوئے ہیں۔

عدالتی آبزرویشن میں کئی باتیں'' گنجینۂ معنی کا طلسم'' ہیں، ان میں گہری حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں۔ ادھر عوام کراچی اور سندھ کی مجموعی سیاسی صورتحال کو بلدیاتی آئینہ میں دیکھنے کے آرزومند ہیں،یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کی تباہی کی صورتحال کو کچھ لوگ ایک بدیہی سیاسی حقیقت کے طور پر قانونی اور آئینی جنگ کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، سندھ کے عوام، سیاسی جماعتیں، قوم پرست طاقتیں اور دیگر فہمیدہ عناصر کے لیے کراچی کا مقدمہ مرکز نگاہ بن گیا ہے، جس میں نئے آئینی اور قانونی امکانات اور توقعات و خدشات کے تناظر میں عوام، سیاسی اسٹیک ہولڈرز اور سندھ و کراچی کے فہمیدہ عناصر حالات و واقعات کی تجسیم کو مختلف زاویوں سے زیر بحث لا سکتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے روبرو اٹارنی جنرل نے چونکا دینے والے آپشنز پر غور کرنے کا حوالہ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کراچی یتیم شہر بن چکا ہے، اگر کراچی تباہ ہوا تو پاکستان تباہ ہوگا، انھوں نے عدلیہ کو بتایا کہ ان کی وزیر اعظم سے گفتگو ہوئی ہے جس کی تفصیل وہ اس وقت بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، تاہم انھوں نے کہا کہ کراچی کو بچانے کے لیے وفاق آئینی آپشنز پر غور کر رہا ہے، قانونی اور سیاسی مبصرین کا موقف ہے کہ اٹارنی جنرل جب عدلیہ کے سامنے ملک کے سب سے بڑے شہر کی بربادی کے بارے میں کچھ کہنے کے لیے پیش ہوئے ہیں تو انھیں عدلیہ کو بتانا چاہیے کہ کراچی کو تباہی سے بچانے کے لیے وہ کون سے واضح و مثبت آئینی آپشنز سامنے رکھتے ہیں، کیونکہ وہ کراچی کے مکین بھی ہیں، اس شہر کے دکھ درد سے واقف ہیں۔

کراچی کو درپیش معاملات سے ان کی نسبت آئینی و قانونی وابستگی اور کمٹمنٹ سے ہے، لیکن ان کا یہ کہنا کہ وفاق آئینی آپشنز پر غور کر رہا ہے کچھ مبہم اور تشنہ طلب ہے، وہ غالباً پردہ غیب سے کچھ ظہور میں لانا چاہتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ عوام ملکی سیاست کی انوکھی اور درد انگیز داخلی تاریخ اور بے ہنگم سیاسی جوڑ توڑ سے نا واقف نہیں اس لیے ان میں تشویش کی لہر کا دوڑ جانا فطری ہے، لہٰذا التباس، بے یقینی اور شکوک عوام کے ذہنوں میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

محسوس یہ ہوتا ہے کہ کراچی کے بلدیاتی نظام کی درستگی کا اصل معاملہ ہے جو مقامی حکومتی سیٹ اپ اور سسٹم کو فعال کرنے تک محدود نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کے کچھ ہے۔ بنیادی طور پر کراچی کا مسئلہ بلدیاتی ہے، ایک غیر انسانی صورتحال کو ختم کرنا ہے، سیاسی عناصر کراچی کے زوال کو ہمہ جہتی بحران کی شکل میں دیکھتے آئے ہیں، بالخصوص سندھ بھر کی سیاسی و قوم پرست طاقتیں کراچی کے معاملہ پر کسی انہونی کے متحمل نہیں ہوسکتیں، ان کا استدلال سنے جانے کے قابل ہے اور توقع ہے کہ عدالت عظمیٰ اپنی آیندہ سماعتوں میں کراچی کی بربادی کے نوحے میں ان دیدہ ور اور روشن ضمیر سیاسی و فکری حلقوں کو پیش نظر رکھے گی جو سندھ کی تباہی کا سارا ملبہ کسی اور پر ڈال کر خاموشی سے دور ہٹ جائیں گے، جہاں تک آرٹیکل 148 کی بات ہے تو اس کی حمایت کرنے والے وہی ابن الوقت لوگ اور سیاسی جماعتیں ہیں جو اس قانونی شق کی آڑ میں اپنا مقصد پورا کرنا چاہتی تھیں تاہم سندھ کی سیاسی قوتوں کی طرف سے مزاحمت کے اندیشے کے پیش نظر ایسے عناصر پیچھے ہٹ گئے۔

اب ایسا نہ ہو کہ یہی لوگ پھر کسی اور نام سے کوئی اور کھیل کھیل جائیں، ایسے تمام عناصر کی بات بڑھنے کی خواہاشات کے برعکس زمینی حقیقت اور مسائل کی بلدیاتی نوعیت کو سیاسی افراط و تفریط اور میڈیا پر کئی روز سے یہ بحث چل رہی ہے کہ کراچی کے نالوں، تجاوزات اور کچرے کو ٹھکانے لگانے اور صفائی کے انتظامات صوبائی حکومت کی نہیں بلکہ مقامی حکومت کی ذمے داری ہے اور میئر کراچی وسیم اختر کو چیف جسٹس نے بلدیاتی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کہا بھی تھا، میئر کراچی نے عدلیہ کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ وہ بے اختیار ہیں، ان کے پاس فنڈز نہیں، جس پر چیف جسٹس نے انھیں کہا کہ پھر تو آپ کو گھر جانا چاہیے، کیوں کرسی سے چمٹے ہوئے ہیں۔

میئر کراچی عموماً وفاق کے 70 فیصد علاقے کو کراچی کے شیئر سے مستفید کرنے کی بات کرتے ہیں تاہم یہ نہیں بتاتے کہ یہ فنڈز وہ کہاں استعمال کراتے رہے ہیں، اسی طرح وہ یہ بتائیں کہ کراچی میں اپنے زیرتصرف 10 فیصد علاقے کو کہاں تک رشک جنت بناتے رہے ہیں۔ ایک اور حقیقت کی طرف بھی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتیں اشارہ کرتی ہیں کہ ایم کیو ایم نے تقریباً 30 سال تک کراچی اور حیدرآباد میں سیاسی اقتدار کے مزے لوٹے، وہ بھی بتائے کہ اس شہر کی بربادی میں اس کا کتنا عمل دخل رہا یا کم از کم ان تین عشروں کے مثبت اثرات اور سیاسی عوامل کا کوئی نام ونشان تو آج بھی نظر آتا، یوں سیاسی تقسیم کے اس پار بھی اہل کراچی حقائق کی درست تفہیم کے منتظر ہیں، دوسری طرف میئر کراچی نے کراچی کے مسائل کا ایک دیو مالائی حل آرٹیکل148 میں تلاش کیا جب کہ سیاسی جماعتیں، آزاد مبصرین، قوم پرست تنظیمیں، سیاسی اسٹیک ہولڈرز اور عوامی حلقے اس انداز نظر کے حامی ہیں کہ عدلیہ اداروں کو فعال اور سرگرم دیکھنے کی خواہاں ہے، انتظامی جوابدہی ہونی چاہیے۔

سیاسی معروضیت کے حوالہ سے پی ٹی آئی سمیت دیگر پرو حکومت سیاسی قوتیں سندھ میں سیاسی تبدیلی کو بھی کراچی کی صورتحال سے جڑا ہوا دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے کئی بار کراچی کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کراچی کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔

وہ کراچی کے مسائل سے آگاہ ہیں، مگر دو سال میں کون سی تبدیلی کراچی کی عوام کی زندگیوں میں لائے، سیاسی رازوں سے واقف لوگ بتاتے ہیں کہ عمران خان کے کان کچھ لوگ بھرتے ہیں، یہ وہی عناصر ہیں جنھوں نے سندھ میں ہمیشہ سیاسی بحران پیدا کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا، ان ہی عناصر نے بے نظیر کی حکومت میں آپریشن کرایا، یہی لوگ چہرے بدل کر کراچی میں قتل عام کراتے رہے۔ اہل کراچی کی عدلیہ سے التماس یہی ہوگی کہ کراچی کے بحران کا دور اندیشی پر مبنی دیرپا اور مستقل دانشمندانہ حل قوم کے سامنے لایا جائے، قوم کو عدالت عظمیٰ پر پورا یقین ہے کہ کراچی کے برے دن جلد رخصت ہوںگے اور کسی طوفان اور تباہی کے بغیر موجودہ صورتحال کا بہترین اور شفاف و عوامی امنگوں کی عکاسی کرتا ہوا حل ڈھونڈ لیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ معلوم تھا بارش آرہی ہے کوئی پیشگی اقدامات نہیں کیے گئے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے موقف اختیار کیا کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو نقص امن کا مسئلہ ہوجاتا ہے، سلمان طالب الدین نے کہاکہ حاجی لیموں گوٹھ میں پتلی گلیاں ہیں، چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ آپ لوگوں نے پورے کراچی کو گوٹھ بنا دیا ہے، شہر غلاظت اور گٹر کے پانی سے بھرا ہوا ہے، مچھر، مکھیوں اور جراثیم کا ڈھیر لگا ہوا ہے، لوگ پتھروں پر چل کر جاتے ہیں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ریاست کی لائف لائن کراچی کو مافیا چلا رہی ہے، سندھ تباہی کے دہانے پر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کراچی کو دیگر صوبوں کی طرح گڈ گورننس کے مسائل کا سامنا ہے، وزیراعلیٰ سندھ وفاق سے معاملات طے کرنے کے لیے اسلام آباد چلے گئے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نیب کے روبرو بغیر پروٹوکول پیش ہوئے ہیں، کراچی کی بربادی نے ہر آنکھ کو پرنم کر دیا ہے، ایک عظیم شہر کو مجرمانہ غفلت نے کھوکھلا کر دیا ہے مگر اس بربادی میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ کوئی فرشتہ نہیں ہے، اس لیے عدلیہ کو اپنا کام کرنے کا موقع دیا جائے۔

قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، ارباب اختیار خبردار رہیں، سندھ میں کسی کو ایڈونچر ازم یا من پسند سیاسی تبدیلی کے لیے کھلی چھوٹ نہیں ملنی چاہیے، دشمنوں نے کراچی پر نظریں گاڑ رکھی ہیں، صرف چنگاری سلگانے کے لیے ایک ''دست غیر یا دست غیب ''کی ضرورت ہے۔ انشاء اللہ ایسی مدد کسی کو نہیں ملے گی۔ عدلیہ صائب فیصلہ دے گی۔ کراچی مزید برباد نہیں ہوگا۔ پیرزادہ قاسم کا شعر ہے،

شہر اگر طلب کرے تجھ سے علاج تیرگی

صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں