سیاسی احتساب
فالودے، ریڑھی والوں اور غریبوں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے آئے اور گئے مگر برآمد ایک روپیہ نہ ہو سکا۔
ملک میں کرپشن سے مال بنانے والوں کے احتساب کے ڈرامے بہت پرانے ہیں اور ملک میں کرپشن کو عروج سابق ادوار سے ہوتا ہوا کرپشن کے خاتمے کے نام پر آنے والی آج کی حکومت میں بھی جاری ہے، جس کو اب سب تسلیم کر رہے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی اپنے دور کی کرپشن کی تردید نہیں کر رہی بلکہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان پرکرپشن کا الزام ثابت نہیں کرسکتی۔
کیا میں سمجھوں اس بیان کا مطلب کرپشن تسلیم کرلینا ہے، جسے اپوزیشن ثابت نہیں کرسکتی۔ اپوزیشن کی سابقہ حکومتوں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی 1999 تک کی دو دو حکومتیں شامل تھیں کہ احتساب کے لیے پرویز مشرف نے ایک ادارہ نیب بنایا تھا مگر ڈھائی سالہ جاری سیاسی اور جانبدارانہ احتساب سے پی ٹی آئی حکومت سے کوئی خوش نہیں۔ اپوزیشن ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ق) جو حکومت کی حلیف ہے وہ بھی مطمئن نہیں اور دوسری حکومتی حلیف ایم کیو ایم کو نیب سے ابھی تک واسطہ نہیں پڑا وہ اسی لیے خاموش ہیں۔
ماضی میں وزیر اعظم نواز شریف کا سیف الرحمن کی سربراہی میں قائم کردہ سیاسی احتسابی ادارہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف بنا تھا ، جس کے سربراہ احتساب الرحمن کو سابق صدر آصف زرداری کے بقول ان کے قدموں میں گرنا پڑا تھا جو کچھ برآمد نہ کرسکنے پر حکومت جاتے ہی ملک سے فرار ہوگئے تھے۔
مسلم لیگ (ن) پر اب بھی پیپلز پارٹی سیاسی انتقام لینے کے لیے کرپشن کے جھوٹے مقدمات قائم کرنے کے الزامات لگاتی ہے۔ آصف زرداری کرپشن کے الزام میں ایک طویل عرصہ جیل میں رہے مگر پی پی دور میں نواز شریف کرپشن میں کبھی نہیں پکڑے گئے کیونکہ وہ خودکہتے تھے کہ پی پی کی حکومتوں میں انجینئرڈ کرپشن ہوئی جو کبھی گرفت میں نہیں آئی۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سے زیادہ کرپشن کے الزامات آصف زرداری پر لگے مگرکسی پر کبھی کوئی الزام عدالتوں میں ثابت نہ کیا جاسکا تھا۔ پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ارکان کو اپنی حکومت میں شامل کرایا تھا اور نواز شریف کو سزا کرپشن کیس میں نہیں بلکہ طیارہ اغوا کے بے بنیاد کیس میں دلائی گئی تھی جو وہ بھگتنے کے بجائے سمجھوتہ کرکے جلا وطن ہوگئے تھے۔
بے نظیر کو بھی ایک کرپشن مقدمہ میں سزا دلائی گئی تھی مگر وہ بھی عدالتی ضمانت کے بعد بیرون ملک چلی گئی تھیں اور مشرف اپنے دونوں سیاسیمخالفوں کے بعد آرام سے حکومت کرتے رہے تھے۔ موجودہ حکومت کا کہنا درست ہے کہ نیب انھوں نے نہیں بنائی مگر نیب نے پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف درجنوں مقدمات موجودہ حکومت میں بنائے اور اپوزیشن رہنماؤں کی سب سے زیادہ گرفتاریاں کیں ۔
اگر عمران خان حکومت میں آنے سے قبل اپنے اپوزیشن رہنماؤں کو جیل میں ڈالنے کا اعلان اور وزیروں، مشیروں کی طرف سے پیشگی گرفتاریوں کی خبریں نہ دیتے تب بھی احتساب غیر جانبدار نظر آتا اور احتساب منصفانہ سمجھا جاتا مگر ایسا نہ ہوا۔
وزیر اعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کی پریس کانفرنسوں اور نیب کی طرف سے بلند و بانگ دعوے کیے گئے تھے اور شریف اور زرداری فیملی پر اربوں کھربوں کی کرپشن کے انکشافات کیے گئے تھے۔ سندھ میں ڈاکٹر عاصم پر نیب نے 437 ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگایا تھا تین سالوں میں ان سے 437 روپے تک نہ نکلوائے جا سکے۔
اسپیکر سندھ اسمبلی سے کچھ ملا نہ شرجیل میمن کو سزا ہوئی۔ دونوں عدالتوں سے ضمانت پر ہیں۔ حمزہ شہباز، خورشید شاہ اور نیب کے دیگر گرفتار اہم ملزم طویل عرصے سے نیب کی حراست میں ہیں۔ اہم سیاسی ملزموں پر مہینوں بلکہ سالوں بعد بھی فرد جرم عائد ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی صرف قید رکھ کر سب مطمئن ہیں ،کہا جا رہا ہے کہ کرپشن میں مبینہ طور پر ملوث بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے جن میں اکثریت کو ضمانت مل جاتی ہے جس کا ذمے دار کمزور پراسیکیوشن کو قرار دیا جا رہا ہے۔
فالودے، ریڑھی والوں اور غریبوں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے آئے اور گئے مگر برآمد ایک روپیہ نہ ہو سکا۔ عوام ایسے دعوؤں سے خوش ہوئے نہ مطمئن مگر یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوگئے ہیں کہ جاری اس احتساب سے انھیں کیا ملا یا ملے گا۔ احتساب میں مبینہ کرپٹ تو پکڑے گئے اور چھوٹ بھی رہے ہیں مگر اربوں کھربوں کی مبینہ کرپشن میں کسی اہم ملزم کو سزا تو نہیں ہو رہی البتہ عوام پر شدید ترین بموں کی بمباری ہوش ربا مہنگائی کی صورت میں مسلسل جاری ہے جسے روکنے کے بجائے وفاقی اور صوبائی حکومتیں خود بڑھا رہی ہیں اور ان حکومتوں سے عوام کو کوئی ریلیف تک نہیں مل رہا تو ایسے احتساب کا کیا فائدہ؟