آزادی کے لیے قربانی
سماجی سطح پر ماں باپ اولاد کی خاطر اور اولاد ماں باپ کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں۔
ایک مسلمان کے لیے قربانی کے معروف معنی اﷲ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر سیّدنا ابراہیمؑ کی سُنّت کی تجدید ہے۔
اﷲ تعالی کے وہ عظیم نبیؑ جنہیں آزمائشوں کی بھٹّی سے گزار کر کندن بنایا گیا اور جس کے عوض انہیں ''امام النّاس'' کا اعزاز عطا ہوا۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیمؑ کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے۔ اﷲ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔''
اسی عظیم نبیؑ کی سُنّت کے احیاء کے لیے مسلمان ہر سال حج کے موقع پر اور جنہیں حج کی سعادت نصیب نہیں ہوئی وہ اپنے مقام پر ہی قربانی کی سنّت کا فریضہ انجام دیتے ہیں جیسا کہ ابھی پچھلے دنوں بہ توفیق الہی مسلمانوں نے یہ فریضہ ادا کیا۔ حج بیت اﷲ ارکان اسلام کا پانچواں ستون ہے اور اسی ستون سے جُڑا اہم جز جانوروں کی قربانی ہے۔ سورۃ الحج میں دو بنیادی ارکان بیان ہوئے ہیں۔ ایک اﷲ کے نام پر جانور کی قربانی اور دوسرے بیت اﷲ کا طواف۔ ان دونوں ارکان میں قربانی پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔
گویا حج بیت اﷲ کا ایک بڑا مقصد اس واقعے کی یاد تازہ کرنا ہے۔ جس میں اﷲ کے خلیلؑ نے ہر آزمائش پر پورا اتر کر اﷲ کے حضور سُرخ روئی حاصل کی تھی۔ حتیٰ کہ اپنے بیٹے کے گلے پر اﷲ کے حکم کی بجا آوری میں چُھری چلادی ا ور اس جلیل القدر باپ کا سعادت مند فرزند اسمٰعیل علیہ السلام بھی باپ کی اس کڑی آزمائش میں شانے سے شانہ ملا کر کھڑا تھا اور اس طرح ان دونوں پدر و پسر نے آدابِ بندگی اور اطاعت خداوندی کی ایک انوکھی مثال کتابِ زیست کے اوراق پر رقم کر دی۔
یہ تو وہ سنّت ابراہیمؑ ہے جو مسلمان سال میں ایک بار ماہِ ذوالحجہ میں ادا کرتے ہیں۔ مگر قربانی کے ا س کینوس کو پھیلا کر دیکھیں تو یہ منظر سامنے آتا ہے کہ ایک مسلمان کی پوری زندگی ہی قربانیوں کی ایک طویل داستا ن ہے۔ اس میں کئی مواقع پر اپنے احساسات، جذبات، اور نظریات کی قربانی دینا پڑتی ہے۔
سماجی سطح پر ماں باپ اولاد کی خاطر اور اولاد ماں باپ کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں۔ کبھی اپنے نصب العین، مفادات اور اپنے حقوق کے گلے پر چُھری پھیرنا پڑجاتی ہے۔ وطن عزیز میں اتحادِ باہمی کے طور پر انفرادی حقوق کو قربان کر دینا اور اجتماعیت کے مفادات اور اس کی فلاح و بہبود کو ترجیح دینا بھی قربانی ہی کی ایک قسم ہے۔ اﷲ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنے جان و مال اور اوقات کا ر کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے اور اس سے گریز کم از کم ایک مسلمان کے لیے تو ممکن ہی نہیں اور اس راہ میں اگر اپنی جان کا نذرانہ بھی دینا پڑے تو یہ قربانی کا اعلیٰ درجہ ہے۔
آج بھی مسلمان طاغوتی قوّتوں سے فکری، ذہنی اور جسمانی آزادی کے لیے دنیا کے کئی مما لک میں نبرد آزما ہیں۔ کشمیر مسلمان مَردوں، عورتوں اور بچوں کی قربان گاہ بنا ہوا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب برہمن سام راج کی وحشت و درندگی اور سفاکیت کے مناظر دیکھنے میں نہ آتے ہوں۔ آزادی کی جدوجہد کی پاداش میں انسانی جانوں اور عزتوں کی قربانیاں نہ جانے کب تک دی جاتی رہے گی، کب ظلم کا یہ اندھیرا چھٹے گا ، کب وحشت و درندگی کے یہ بادل صاف ہوں گے اور ایک گل رنگ صبح نمودار ہوگی۔
آخر کب تک؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے، ان لوگوں کے لیے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ انسانیت سکون و انبساط کی دہلیز تک آ پہنچی ہے۔
اﷲ تعالی کے وہ عظیم نبیؑ جنہیں آزمائشوں کی بھٹّی سے گزار کر کندن بنایا گیا اور جس کے عوض انہیں ''امام النّاس'' کا اعزاز عطا ہوا۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیمؑ کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے۔ اﷲ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔''
اسی عظیم نبیؑ کی سُنّت کے احیاء کے لیے مسلمان ہر سال حج کے موقع پر اور جنہیں حج کی سعادت نصیب نہیں ہوئی وہ اپنے مقام پر ہی قربانی کی سنّت کا فریضہ انجام دیتے ہیں جیسا کہ ابھی پچھلے دنوں بہ توفیق الہی مسلمانوں نے یہ فریضہ ادا کیا۔ حج بیت اﷲ ارکان اسلام کا پانچواں ستون ہے اور اسی ستون سے جُڑا اہم جز جانوروں کی قربانی ہے۔ سورۃ الحج میں دو بنیادی ارکان بیان ہوئے ہیں۔ ایک اﷲ کے نام پر جانور کی قربانی اور دوسرے بیت اﷲ کا طواف۔ ان دونوں ارکان میں قربانی پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔
گویا حج بیت اﷲ کا ایک بڑا مقصد اس واقعے کی یاد تازہ کرنا ہے۔ جس میں اﷲ کے خلیلؑ نے ہر آزمائش پر پورا اتر کر اﷲ کے حضور سُرخ روئی حاصل کی تھی۔ حتیٰ کہ اپنے بیٹے کے گلے پر اﷲ کے حکم کی بجا آوری میں چُھری چلادی ا ور اس جلیل القدر باپ کا سعادت مند فرزند اسمٰعیل علیہ السلام بھی باپ کی اس کڑی آزمائش میں شانے سے شانہ ملا کر کھڑا تھا اور اس طرح ان دونوں پدر و پسر نے آدابِ بندگی اور اطاعت خداوندی کی ایک انوکھی مثال کتابِ زیست کے اوراق پر رقم کر دی۔
یہ تو وہ سنّت ابراہیمؑ ہے جو مسلمان سال میں ایک بار ماہِ ذوالحجہ میں ادا کرتے ہیں۔ مگر قربانی کے ا س کینوس کو پھیلا کر دیکھیں تو یہ منظر سامنے آتا ہے کہ ایک مسلمان کی پوری زندگی ہی قربانیوں کی ایک طویل داستا ن ہے۔ اس میں کئی مواقع پر اپنے احساسات، جذبات، اور نظریات کی قربانی دینا پڑتی ہے۔
سماجی سطح پر ماں باپ اولاد کی خاطر اور اولاد ماں باپ کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں۔ کبھی اپنے نصب العین، مفادات اور اپنے حقوق کے گلے پر چُھری پھیرنا پڑجاتی ہے۔ وطن عزیز میں اتحادِ باہمی کے طور پر انفرادی حقوق کو قربان کر دینا اور اجتماعیت کے مفادات اور اس کی فلاح و بہبود کو ترجیح دینا بھی قربانی ہی کی ایک قسم ہے۔ اﷲ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنے جان و مال اور اوقات کا ر کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے اور اس سے گریز کم از کم ایک مسلمان کے لیے تو ممکن ہی نہیں اور اس راہ میں اگر اپنی جان کا نذرانہ بھی دینا پڑے تو یہ قربانی کا اعلیٰ درجہ ہے۔
آج بھی مسلمان طاغوتی قوّتوں سے فکری، ذہنی اور جسمانی آزادی کے لیے دنیا کے کئی مما لک میں نبرد آزما ہیں۔ کشمیر مسلمان مَردوں، عورتوں اور بچوں کی قربان گاہ بنا ہوا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب برہمن سام راج کی وحشت و درندگی اور سفاکیت کے مناظر دیکھنے میں نہ آتے ہوں۔ آزادی کی جدوجہد کی پاداش میں انسانی جانوں اور عزتوں کی قربانیاں نہ جانے کب تک دی جاتی رہے گی، کب ظلم کا یہ اندھیرا چھٹے گا ، کب وحشت و درندگی کے یہ بادل صاف ہوں گے اور ایک گل رنگ صبح نمودار ہوگی۔
آخر کب تک؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے، ان لوگوں کے لیے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ انسانیت سکون و انبساط کی دہلیز تک آ پہنچی ہے۔