سندھی ٹوپی اور اجرک پہنے سے ایک پسماندہ صوبے کی تعمیر نو نہیں ہوگی

سندھ ترقی اور آگے بڑھنے کی صلاحیتوں کے باوجود نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برصغیر کے سب پسماندہ صوبوں میں سےایک ہے۔

پیسہ ہی وہ چیز ہے جس کی سندھ میں اہمیت ہے۔ یہ اشرافیہ اور مخصوص جاگیرداروں کی سرزمین ہے۔

KARACHI:
یہ ہر سال کی افراتفری ہے، جی ہاں، پس منظر میں چلتے ہوئے تیز بے ہنگم گانے اور سو دیگر دھنیں جو کہ کان کو بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن جب ان کا مطلب کسی کو پتا چلتا ہے تو وہ سوچ کے بالکل برعکس ہوتی ہیں، نفیس اور خوبصورت ڈیزائن والی اجرک اور نفاست سے تیار کی گئی ٹوپی کے میزبان ہونے کی وجہ سے ایک میلہ، ایک فیسٹیول اور ایک رنگوں کا جنون، یہ سب کچھ آخر میں بالکل کھوکھلا اور ناپائیدارلگتا ہے۔

ثقافت اور تہذیب کی سرزمین: درست۔

صوفی روایات اور انسانی سوچ کی ایک تاریخ: درست۔

تالپور سے جنرل ہوشو تک سامراجی راج کے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کا ماضی: درست۔

جناح کے بعد کے پاکستان میں ملک کے انتہائی کرشماتی اور بااثر رہنما پیداکیے: درست۔

لیکن، اب کہاں ہے؟

سندھ کے دیہی علاقے میں صرف 23 فیصد لڑکیاں تعلیم یافتہ ہیں، ایک این جی او (الف اعلان) کے حالیہ سروے میں پاکستان کے مختلف اضلاع کے سرکاری اسکولوں کی تعلیمی کارکردگی اور دستیاب انفراسٹریکچر کا موازنہ کیا گیا اور ٹاپ 50 میں سندھ شامل نہیں تھا۔ دیہی سندھ تو اگلے 10 نمبر میں بھی شامل نہیں تھا جب کہ کراچی کا صرف ایک ضلع 56 ویں نمبر موجود تھا۔

حکومتی محکموں کی کرپشن، اقربا پروری اور بے جا حمایت ہے جو کہ بھرتی کے عمل کے دوران لی یا دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ صوبے کے شعبہ صحت میں آپ کو بھرتی کے لیے اعلی حکام کی خوش آمد کے لیے 6 ہندسوں تک (یعنی لاکھوں روپے) کی رقم دینی پڑتی ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے اپنے صوبے کی بہترین میڈیکل یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ ہیں یا آپ نے اپنی ڈگری حاصل کرنے کے لئے پانچ سال تک محنت کی ہے۔

پیسہ ہی وہ چیز ہے جس کی سندھ میں اہمیت ہے۔ یہ اشرافیہ اور مخصوص جاگیرداروں کی سرزمین ہے۔

مڈل کلاس تقریباً غائب ہے۔

لوئر کلاس چونکہ بڑے پیمانے پر کمزور اور ہمیشہ ایک ہی طرح سے ووٹ دے گی اس لیے وہ طویل مدت میں بالکل غیراہم ہے۔

جب بھی کوئی سکھر، ہالا یا مورو کا دورہ کرے گا تو سندھ کی سڑکوں اور عوامی دھانچے کا معیار سامنے آ جائے گا، اگر آپ دیہی سندھ میں سفر کریں تو آپ وہاں کی پسماندگی کا لیول دیکھ کر دھنگ رہ جائیں گے۔


جی ہاں یہ معاشی ترقی کے تمام معیارات کے مطابق پسماندگی ہی ہے کیونکہ سڑکیں،نکاسی کا نظام اور اس پر تیرتے کچرے کے ڈھیر، سرکاری اسکولوں میں غیرحاضر اساتذہ ( جو پرائیوٹ ٹیوشنز پڑھاتے ہیں اور ہیڈ ماسٹر کو ان کی غیرحاضری نظرانداز کرنے کے ماہانہ ایک ہزار روہے دیتے ہیں) اور اندرونی دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات پسماندگی کی شمار کی جائیں گی۔

پاکستان اپنی اقتصادی ترقی میں پسماندہ ہو سکتا ہے، مگر سندھ نے اسے مار ڈالا ہے۔

مجموعی طور پر برے زمینی حالات اور حکمران ذمہ داروں کی جانب سے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے درپیش حل کے نہ ہونے نے عام سندھی کا جوش ختم کردیا ہے۔ وہ ہمیشہ سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے خفیہ معاہدوں اور پس پردہ حمایت کی تلاش میں رہتاہے، وہ وفاق کے خلاف مسلسل دشمنی رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ سندھیوں کو اس کے حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔

نتیجتا؟

سندھ ترقی اور آگے بڑھنے کی صلاحیتوں کے باوجود نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برصغیر کے سب پسماندہ صوبوں میں سے ایک ہے۔

قومیں اور نسلیں صرف لمبے عرصے تک افسانوی تاریخ میں ہی رہ سکتی ہیں۔ موئنجودڑو کی شہرت، تالپور کی انتظامی کارکردگی اور بھٹو کی تقاریر سب ماضی کی داستانیں بن گئی ہیں۔ شاہ بھٹائی کے دیئے گئے اخلاقی درس بھی غیرمؤثر ہیں کا اگر حقیقی معنوں میں ان کا اطلاق نہیں ہو۔

کہا جاتا ہے کہ 1258 میں عباسیوں سمجھتے تھے کہ قوموں کے اتحاد کے لحاظ سے بھی ان کی مملکت منفرد ہے اور انہوں نے فرض کر لیا تھا کہ زندگی کے تمام مادی حقائق کے حوالے سے ان کے فکری ارتقا کی تاریخ انہیں ہر قسم کی بدقسمتی یا آفت سے بچ بچاتی ہے۔ بغداد ميں خلیفہ چننا کائنات کی ترتیب لازمی اور تہذیب کی بھلائی کے لیے مددگار تصور کیا جاتا تھا۔ اگر وہ انتقال کر گیا تو سورج طلوع ہونے سے انکار کردے گا، بارش رک جائے گا اور پودے مزید بڑھنا رک جائیں گے۔

10 فروری 1258 سے ہلاکو خان کے منگول جنگجوؤں نے مسلسل 8 روز تک اس مشہور سرزمین پر لوٹ مار کی، یہ لوٹ مار اتنی زیادہ تھی لاشوں کا تعفن سرزمین کے پورے دارلحکومت میں پھیل گئی۔ غیر معمولی فکری ارتقا اور ثقافت کی تاریخ بغداد کے شہریوں کو بربادی سے بچانے کے لیے نہ آئی ۔

سندھ بھی سنگیں مشکلات سے دوچار ہے، اس کے منگول لشکروں نے صوبے میں ناخواندگی، خوراک کی قلت، بے روزگاری، تمدنی احساس کی کمی اور حکومت کیلئے کرپشن کی شکل اختیار کر لی ہے۔

ضروت اس امر کی ہے کہ پبلک آرڈر، اخلاقیات، ثقافتی اقدار اور اوپر سے نیچے تک ادارہ جاتی تنظیم نو کے لئے بنیادی تبدیلی لائی جائے تاکہ صوبہ سندھ میں غیر انسانی جاگیردارانہ نظام کے قدیم ڈھانچے، وسیع طبقاتی عدم مساوات اور عوامی خدمت کے فرسودہ نظام سمیت صدیوں کی بدحالی کا مکمل خاتمہ ہوسکے۔

سندھی ٹوپی اور اجرک ماضی کی تمام یادیں اور شان و شوکت تو رکھ سکتی ہے، لیکن یہ ہمارا حال ہے جو کہ نہ بھولنے والا اور مستقبل بہت خطرناک ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Load Next Story