حقیقی زندگی کے ہیروز
اب بھی اس دنیا میں بھلائی کے بہت سے معمولی کام کئے جاسکتے ہیں جو انسانوں کی زندگیاں بدل سکتے ہیں
بھلائی کا جذبہ ہر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے، صرف اسے تلاش کرنے کی دیر ہوتی ہے۔ اس جذبے کے لیے مذہب، نسل، وطنیت یا عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔
دنیا کے اکثر لوگ اچھائی اور نیکی کے کام کرنے کے لئے مناسب وقت اور وسائل کے انتظار میں عمر گزار دیتے ہیں۔ کبھی خود کو وقت نہ ملنے کی توجیح دے کر مطمئن کرتے ہیں تو کبھی وسائل کی کمی کو بہانہ بنا کر خود کو تسلی دیتے ہیں۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ ہر شخص بڑے پیمانے پر ہی فلاحی کام کو ہی اپنا مقصد حیات قرار دیتا ہے۔ اس لیے مواقع کے حصول کی ناکام کوشش پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اور روزمرہ کی زندگی میں حاصل بھلائی کے مواقع کو نظر انداز کرتا چلا جاتا ہے۔
ہمیں یہ چیز سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی کے مدد کرنے اور کام آنے کا کوئی معمولی سے معمولی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے، بہت سے بھلائیکے کام ایسے ہیں جن کے لیے بہت زیادہ وسائل اور افرادی قوت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف آپ کے اندر قوت ارادی اور مدد کرنے کا جذبہ ہو تو دوسروں کو سہولت پہنچانے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھا کر محدود وسائل اور کم وقت میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہاں ہم ایسے ہی دوسروں کے کام آنے کی معمولی نظر آنے والی مثالیں ذکر کرتے ہیں، جہاں مدد کرنے کے جذبے سے سرشار لوگوں نے اپنی عمر، وسائل اور افرادی قوت کے بغیر بھی دوسروں کی مدد کی اور روشن مثال قائم کی۔
٭ایک چار سالہ بچہ آسٹین ایک دن اپنے والد کے ہمراہ بے گھر لوگوں کے ایک مرکز کے پاس سے گزرا، وہاں مقیم افراد کو دیکھ کر اس کے ننھے دل و دماغ میں ان کے لیے کچھ کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے اپنے ماہانہ جیب خرچ سے رقم بچا کر ہر ہفتے ایک مشہور ریستوران سے برگر خرید کر ان لوگوں کو فراہم کرنا شروع کیے۔
وہ چہرے پر مسکراہٹ لیے بے گھر افراد کو کھانا پیش کرتا اور کہتا کہ :''محبت کا اظہار کرنا اور محسوس کرنا کبھی ترک نہ کریں۔'' جب آسٹین کی یہ کوشش ریستوران انتظامیہ کے علم میں آئی، تو انہوں نے اس مقصد میں بچے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور ہر ہفتے بے گھر افراد کے مرکز میں مفت کھانے کی فراہمی شروع کر دی۔ یوں اس ننھے سے بچے کے دل میں آنے والے بھلائیکے خیال نے بڑی عمر کے افراد کو بھی بھلائیکی جانب راہ دکھا دی۔
٭جیریٹ اور کرس ڈکسن دو دوست جارجیا کے ایک قصبے کے پاس سے سائیکل سواری کر رہے تھے، انہوں نے درختوں کے جھنڈ کے پاس کسی چھوٹی سی چیز کو حرکت کرتے دیکھا۔ وہ دونوں رک گئے اور جھنڈ کے پاس جا کر دیکھا تو وہ ایک پلا تھا، جس کی ٹانگ زخمی تھی اور وہ درد سے بے حال تھا۔ جیریٹ نے پلے کو اپنی پشت پر سوار کر کے سات میل کا فاصلہ طے کیا تا کہ قریبی قصبے تک پہنچ کر اس کے لیے طبی امداد کا انتظام کر سکے۔
وہ اسے ماہر حیوانات کے پاس لے گئے، جسے دیکھتے ہی پلا اس کی طرف ایسے لپکا، جیسے وہی اس کی مالکن ہوں۔ پلے کی اس بے ساختہ حرکت پر ماہر حیوانات نے اسے اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ ان کی زرعی رہائش گاہ پر دیگر بہت سے جانوروں کی ہم راہی میں ہنسی خوشی رہ رہا ہے۔ جیریٹ اور کرس ڈکسن کی ایک معمولی سی بھلائی نے اس معصوم جانور کو ایک اچھی اور آرام دہ زندگی فراہم کر دی۔
٭نامور موسیقار فریڈی کو یقین ہے کہ موسیقی میں ایک خاص طاقت ہے جو لوگوں کے دلوں کو آسودہ کرتی ہے۔ جب اس کی کینسر کی مریض والدہ ہسپتال میں بستر مرگ پر تھیں، تو اس نے والدہ کی فرمائش پرکچھ دھنیں بجائیں اور اپنی والدہ کو پرسکون ہوتا محسوس کیا۔ والدہ کی وفات کے بعد اسی احساس کے زیر اثر فریڈی نے زندگی سے مایوس لوگوں کے لیے آخری خواہش کے طور پر موسیقی کا اہتمام شروع کیا۔ وہ دائمی بیماروں کے لیے ان کی پسندیدہ موسیقی بجاتا ہے۔ بہت سی خطرناک بیماریوں میں چونکہ سننا ہی آخری حس رہ جاتی ہے، اس لیے فریڈی ایسے لوگوں کے آخری لمحات کو ان کی پسندیدہ دھنیں بجا کر پرسکون کرنا چاہتا ہے۔
٭سوینہ فلپس نامی خاتون جہاز میں سوار ہو کر اپنی مخصوص نشست پر بیٹھیں تو انہوں نے اپنے ساتھی مسافر کی فون اسکرین دیکھی کہ وہ ان کے زیادہ وزن کے حوالے سے کسی کو نازیبا پیغامات بھیج رہا تھا۔ پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے مسافر عروین نے بھی اس اجنبی شخص کی فون اسکرین پر نظر آتے ان پیغامات کو پڑھا۔ وہ اپنی نشست سے اْٹھا اور اس شخص سے اپنے ساتھ نشست تبدیل کرنے کی درخواست کی، تاکہ مس فلپس کو سارے سفر میں اس ناخوشگوار صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
فلپس اور عروین نے سارا سفر اچھے ساتھیوں کی طرح گپ شپ کرتے گزارا۔ اس نے فلپس کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنی ظاہری شخصیت کے حوالے سے اپنے پہلے ساتھی کے ناخوشگوار ریمارکس کو نظر انداز کرے اور اپنی شخصیت میں کوئی کمی محسوس نہ کرے۔ بعض اوقات کسی کا چھوٹا سا جملہ آپ کی پراعتماد شخصیت کو مسخ کر دیتا ہے، ویسے ہی حوصلہ افزائی اور مہربانی کے معمولی سے جملے اعتماد کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
٭کراؤڈر نامی ایک بچہ اپنے ہم جماعت ساتھیوں سے اس لیے مختلف تھا کہ وہ پیدائشی طور پر ایک بازو سے محروم تھا۔ اس کے ہم جماعت اس معذوری پر اس کا مذاق اڑاتے اور اسے تنگ کرتے تو اس کی ماں بہت پریشان ہو گئی۔ بچے اسے اپنے ساتھ کھلانے کو تیار نہیں تھے اور وہ محض انہیں کھیلتے دیکھتے رہنے تک محدود تھا۔
پریشانی کے انہی دنوں میں کراؤڈر کی ماں نے مقامی ٹی وی پر ایک ہاتھ سے معذور ایک آٹھویں جماعت کے لڑکے کی باسکٹ بال کھیلتے ہوئے ایک کہانی پڑھی۔ اس نے فوراً ولز نامی اس لڑکے سے رابطہ کیا اور اسے اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا۔ ولز نے اس کی مدد کی ہامی بھری۔ وہ اس کے بیٹے سے ملا اور اسے سمجھایا کہ کیسے وہ اپنی اس کمی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے، بہادری اور اعتماد سے دنیا کا سامنا کر سکتا ہے، اس کی معذوری اسے کسی کھیل سے یا اپنی مرضی کے کسی بھی کام سے روک نہیں سکتی، رکاوٹ تب تک ہے جب تک آپ اپنی کسی خامی سے ہار مان لیتے ہیں، اس کی باتوں اور کاؤنسلنگ کا کراؤڈر پر بہت اچھا اثر ہوا اور اب وہ بھی سکول کی باسکٹ بال ٹیم کا ایک رکن ہے۔
٭امریکا میں بے گھر افراد کی مجموعی تعداد لگ بھگ ساڑھے پانچ لاکھ ہے۔ یہ تمام افراد بنیادی ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ایسے افراد کی طبی مدد کا بیڑا ڈاکٹر جم اور ان کے ساتھیوں نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔ وہ روزانہ بوسٹن کے مختلف علاقوں میں جا کر بے گھر بیمار افراد کو علاج کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
ڈاکٹر جم کی ٹیم میں ماہر نفسیات، نرسز، ماہر بحالیات اور دیگر مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹر شامل ہیں۔ وہ سارا دن مختلف پارکوں، پلوں کے نیچے اور دیگر ایسے مقامات جہاں بے گھر افراد رہائش پذیر ہو تے، کا دورہ کرتے ہیں۔ وہ روزانہ سات سو سے زائد افراد کو علاج کی سہولت مہیا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر جم خود روزانہ دوسو سے زیادہ مریض دیکھتے ہیں۔ معمولی نوعیت کے مریضوں کو فوراً فارغ کر دیا جاتا ہے، جب کہ سنجیدہ نوعیت کے مریضوں کو وہ مختلف رفاہی تنظیموں کے تعاون سے ہسپتال داخل کراتے ہیں، تا کہ ان کا مکمل علاج کیا جا سکے، ڈاکٹر جم اور ان کے ساتھیوں کا جذبہ لائقِ تحسین ہے کہ وہ اپنے پیشے کے تقدس کا حقیقی معنوں میں حق ادا کر رہے ہیں۔
٭ایک قصبے کے رہائشی رچرڈ کو اپنے قصبے میں پے درپے ہونے والی اموات نے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ یہ معاشی اعتبار سے پسماندہ علاقہ تھا جہاں لوگ ناقص غذا کی وجہ سے دل کی بیماری کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن رہے تھے۔ رچرڈ نے قصبے کے نوجوانوں کو جمع کیا اور انہیں اپنی سوچ سے آگاہ کر کے اس امر پر زور دیا کہ انہیں گاؤں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خود تازہ پھل اور سبزیاں کاشت کرنی چاہئیں۔ گاؤں کے لوگ اس مشورے کی حوصلہ افزائی کی۔
مقامی عبادت گاہ والوں نے اس مقصد کے لیے زرعی زمین اور آلات فراہم کیے، رچرڈ نے نوجوانوں کی ٹیم کی ہمراہی میں کام شروع کیا، اس نے نوجوانوں کو اپنی ضرورت کے مطابق پھل اور سبزیاں کاشت کرنے کی تربیت دی تا کہ ہر گھر اپنی ضرورت کے مطابق خود کاشت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ رچرڈ کی کاشت کاری کے نتیجے میں اْگنے والی سبزیاں اور پھل پورے قصبے کے گھروں میں پہنچنا شروع ہوئے، تو تھوڑے ہی عرصے میں قصبے کے باسیوں کے وزن اور بلند فشارِ خون میں کمی ہونا شروع ہوئی۔ یوں محض ایک فرد کی نیک نیتی پر مبنی سوچ نے کئی لوگوں کی زندگیاں محفوظ کر دیں، اور انہیں غیر صحت مند خوراک سے صحت بخش اور صاف خوراک کی طرف منتقل کر دیا۔
٭گرے میسینا نے اپنی صبح کی دوڑ کے دوران ایک آدمی کو نیویارک شہر کے مشرقی دریا میں چھلانگ لگاتے دیکھا، اس کے خیال میں وہ کوئی تیراک ہو گا، جو علی الصبح تیراکی کی مشق کے لیے دریا میں اتر رہا تھا، لیکن تھوڑی ہی دیر میں اسے اندازہ ہوا کہ وہ آدمی تیراکی سے نابلد تھا اور مدد کے لیے چیخ رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے مدد کی نیت سے چھلانگ لگائی تو اسے دو اور لوگوں کے بھی جوتے دکھائی دیئے، جو ڈوبتے شخص کو بچانے کے لیے چھلانگ لگا چکے تھے، یہ ڈیوڈ اور جان گرین تھے، جو اس کی چیخ پکار پر مدد کو آئے تھے۔ تینوں نے مل کر اسے دریا کی متلاطم لہروں کے تھپیڑوں سے بچانے کی بھر پور کوشش کی، پورے پندرہ منٹ وہ اسے مضبوطی سے پکڑ کر سطح آب پر تیرتے رہے، تب ایک ہنگامی مدد کرنے والی کشتی ان تک پہنچی۔ اگر وہ تینوں بروقت دریا میں نہ کودتے تو وہ آدمی یقیناً ڈوب جاتا اور اس کی زندگی کی کہانی اختتام پذیر ہو جاتی۔
٭اپنے کسی پیارے کو حادثاتی موت کے بعد کھونے کے بعد نارمل زندگی میں واپسی بہت مشکل ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک خاندان نے جب نوجوان بیٹے کو خودکشی کے نتیجے میں کھویا، تو ان میں آنے والے سالانہ مذہبی تہوار کے لیے کسی قسم کی تیاری کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ ایسے میں ایک اجنبی نوجوان کارسن نے ان کے گھر کی سجاوٹ کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ کارسن ایسے خاندانوں کی تلاش میں رہتا ہے تا کہ اپنی کسی عمل سے ان کی تکلیف کم کر سکے۔ وہ ہر ممکن طریقے سے حادثاتی موت کے نہ بھول سکنے والے غم سے لوگوں کو باہر نکالنا چاہتا ہے اس کی ذرا سی ہمدردی، تھوڑا سا وقت اور معمولی رقم خرچ کرنے سے اگر غم زدہ افراد کی زندگیوں میں امید کی تازہ ہوا آ سکتی ہے تو اسے یہ سودا مہنگا نہیں لگتا۔
٭جنوبی واشنگٹن کے ایک گاؤں کومٹی کے تودے گرنے سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس گاؤں کے رہائشی فلپ نے اپنی بیوی کی طرف سے اس صورت حال کی اطلاع ملتے ہی گھر پہنچنے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے تودے گرنے کی وجہ سے سڑک بھی بند ہو گئی۔ اس نے گاڑی وہیں چھوڑ کر بھاگ کر گھر پہنچنے کا رستہ اختیار کیا، راستے میں بہت سے گھر اور لوگ مٹی کے طوفان میں دبے ہوئے تھے، اس نے گھر پہنچنے کی جلدی کو بھول کر لوگوں کی ہر ممکن مدد کی اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مدد دی۔ جب وہ امدادی کاموں سے فارغ ہو کر اپنے گھر پہنچا تو خوش قسمتی سے اس کا گھر اور اہلِ خانہ محفوظ تھے۔ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دینے کے اس عمل پر فلپ کو ہلال احمر کی طرف سے ملکی سطح کا ایوارڈ دیا گیا۔
یہ تمام بظاہر بھلائی کے کاموں کی معمولی سی کہانیاں ہیں، ایسے کام کرنے کے ہم میں سے ہر ایک کو روزانہ مواقع ملتے ہیں لیکن ہم سْستی، لا تعلقی یا کسی بڑی بھلائی کے کاموں کے انتظار میں شان دار مواقع سے فائدہ نہیں اْٹھاتے۔ اگر ہم کوشش کریں تو نیکی کے ان چھوٹے چھوٹے پھولوں سے اپنی اور دوسروں کی زندگی معطر کر سکتے ہیں۔ کسی کو آسانی فراہم کرنے والی معمولی سی کوشش بھی ضائع نہیں جاتی بلکہ آپ کی دنیا و آخرت دونوں کو خوبصورت بناتی ہے۔
دنیا کے اکثر لوگ اچھائی اور نیکی کے کام کرنے کے لئے مناسب وقت اور وسائل کے انتظار میں عمر گزار دیتے ہیں۔ کبھی خود کو وقت نہ ملنے کی توجیح دے کر مطمئن کرتے ہیں تو کبھی وسائل کی کمی کو بہانہ بنا کر خود کو تسلی دیتے ہیں۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ ہر شخص بڑے پیمانے پر ہی فلاحی کام کو ہی اپنا مقصد حیات قرار دیتا ہے۔ اس لیے مواقع کے حصول کی ناکام کوشش پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اور روزمرہ کی زندگی میں حاصل بھلائی کے مواقع کو نظر انداز کرتا چلا جاتا ہے۔
ہمیں یہ چیز سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی کے مدد کرنے اور کام آنے کا کوئی معمولی سے معمولی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے، بہت سے بھلائیکے کام ایسے ہیں جن کے لیے بہت زیادہ وسائل اور افرادی قوت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف آپ کے اندر قوت ارادی اور مدد کرنے کا جذبہ ہو تو دوسروں کو سہولت پہنچانے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھا کر محدود وسائل اور کم وقت میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہاں ہم ایسے ہی دوسروں کے کام آنے کی معمولی نظر آنے والی مثالیں ذکر کرتے ہیں، جہاں مدد کرنے کے جذبے سے سرشار لوگوں نے اپنی عمر، وسائل اور افرادی قوت کے بغیر بھی دوسروں کی مدد کی اور روشن مثال قائم کی۔
٭ایک چار سالہ بچہ آسٹین ایک دن اپنے والد کے ہمراہ بے گھر لوگوں کے ایک مرکز کے پاس سے گزرا، وہاں مقیم افراد کو دیکھ کر اس کے ننھے دل و دماغ میں ان کے لیے کچھ کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے اپنے ماہانہ جیب خرچ سے رقم بچا کر ہر ہفتے ایک مشہور ریستوران سے برگر خرید کر ان لوگوں کو فراہم کرنا شروع کیے۔
وہ چہرے پر مسکراہٹ لیے بے گھر افراد کو کھانا پیش کرتا اور کہتا کہ :''محبت کا اظہار کرنا اور محسوس کرنا کبھی ترک نہ کریں۔'' جب آسٹین کی یہ کوشش ریستوران انتظامیہ کے علم میں آئی، تو انہوں نے اس مقصد میں بچے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور ہر ہفتے بے گھر افراد کے مرکز میں مفت کھانے کی فراہمی شروع کر دی۔ یوں اس ننھے سے بچے کے دل میں آنے والے بھلائیکے خیال نے بڑی عمر کے افراد کو بھی بھلائیکی جانب راہ دکھا دی۔
٭جیریٹ اور کرس ڈکسن دو دوست جارجیا کے ایک قصبے کے پاس سے سائیکل سواری کر رہے تھے، انہوں نے درختوں کے جھنڈ کے پاس کسی چھوٹی سی چیز کو حرکت کرتے دیکھا۔ وہ دونوں رک گئے اور جھنڈ کے پاس جا کر دیکھا تو وہ ایک پلا تھا، جس کی ٹانگ زخمی تھی اور وہ درد سے بے حال تھا۔ جیریٹ نے پلے کو اپنی پشت پر سوار کر کے سات میل کا فاصلہ طے کیا تا کہ قریبی قصبے تک پہنچ کر اس کے لیے طبی امداد کا انتظام کر سکے۔
وہ اسے ماہر حیوانات کے پاس لے گئے، جسے دیکھتے ہی پلا اس کی طرف ایسے لپکا، جیسے وہی اس کی مالکن ہوں۔ پلے کی اس بے ساختہ حرکت پر ماہر حیوانات نے اسے اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ ان کی زرعی رہائش گاہ پر دیگر بہت سے جانوروں کی ہم راہی میں ہنسی خوشی رہ رہا ہے۔ جیریٹ اور کرس ڈکسن کی ایک معمولی سی بھلائی نے اس معصوم جانور کو ایک اچھی اور آرام دہ زندگی فراہم کر دی۔
٭نامور موسیقار فریڈی کو یقین ہے کہ موسیقی میں ایک خاص طاقت ہے جو لوگوں کے دلوں کو آسودہ کرتی ہے۔ جب اس کی کینسر کی مریض والدہ ہسپتال میں بستر مرگ پر تھیں، تو اس نے والدہ کی فرمائش پرکچھ دھنیں بجائیں اور اپنی والدہ کو پرسکون ہوتا محسوس کیا۔ والدہ کی وفات کے بعد اسی احساس کے زیر اثر فریڈی نے زندگی سے مایوس لوگوں کے لیے آخری خواہش کے طور پر موسیقی کا اہتمام شروع کیا۔ وہ دائمی بیماروں کے لیے ان کی پسندیدہ موسیقی بجاتا ہے۔ بہت سی خطرناک بیماریوں میں چونکہ سننا ہی آخری حس رہ جاتی ہے، اس لیے فریڈی ایسے لوگوں کے آخری لمحات کو ان کی پسندیدہ دھنیں بجا کر پرسکون کرنا چاہتا ہے۔
٭سوینہ فلپس نامی خاتون جہاز میں سوار ہو کر اپنی مخصوص نشست پر بیٹھیں تو انہوں نے اپنے ساتھی مسافر کی فون اسکرین دیکھی کہ وہ ان کے زیادہ وزن کے حوالے سے کسی کو نازیبا پیغامات بھیج رہا تھا۔ پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے مسافر عروین نے بھی اس اجنبی شخص کی فون اسکرین پر نظر آتے ان پیغامات کو پڑھا۔ وہ اپنی نشست سے اْٹھا اور اس شخص سے اپنے ساتھ نشست تبدیل کرنے کی درخواست کی، تاکہ مس فلپس کو سارے سفر میں اس ناخوشگوار صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
فلپس اور عروین نے سارا سفر اچھے ساتھیوں کی طرح گپ شپ کرتے گزارا۔ اس نے فلپس کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنی ظاہری شخصیت کے حوالے سے اپنے پہلے ساتھی کے ناخوشگوار ریمارکس کو نظر انداز کرے اور اپنی شخصیت میں کوئی کمی محسوس نہ کرے۔ بعض اوقات کسی کا چھوٹا سا جملہ آپ کی پراعتماد شخصیت کو مسخ کر دیتا ہے، ویسے ہی حوصلہ افزائی اور مہربانی کے معمولی سے جملے اعتماد کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
٭کراؤڈر نامی ایک بچہ اپنے ہم جماعت ساتھیوں سے اس لیے مختلف تھا کہ وہ پیدائشی طور پر ایک بازو سے محروم تھا۔ اس کے ہم جماعت اس معذوری پر اس کا مذاق اڑاتے اور اسے تنگ کرتے تو اس کی ماں بہت پریشان ہو گئی۔ بچے اسے اپنے ساتھ کھلانے کو تیار نہیں تھے اور وہ محض انہیں کھیلتے دیکھتے رہنے تک محدود تھا۔
پریشانی کے انہی دنوں میں کراؤڈر کی ماں نے مقامی ٹی وی پر ایک ہاتھ سے معذور ایک آٹھویں جماعت کے لڑکے کی باسکٹ بال کھیلتے ہوئے ایک کہانی پڑھی۔ اس نے فوراً ولز نامی اس لڑکے سے رابطہ کیا اور اسے اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا۔ ولز نے اس کی مدد کی ہامی بھری۔ وہ اس کے بیٹے سے ملا اور اسے سمجھایا کہ کیسے وہ اپنی اس کمی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے، بہادری اور اعتماد سے دنیا کا سامنا کر سکتا ہے، اس کی معذوری اسے کسی کھیل سے یا اپنی مرضی کے کسی بھی کام سے روک نہیں سکتی، رکاوٹ تب تک ہے جب تک آپ اپنی کسی خامی سے ہار مان لیتے ہیں، اس کی باتوں اور کاؤنسلنگ کا کراؤڈر پر بہت اچھا اثر ہوا اور اب وہ بھی سکول کی باسکٹ بال ٹیم کا ایک رکن ہے۔
٭امریکا میں بے گھر افراد کی مجموعی تعداد لگ بھگ ساڑھے پانچ لاکھ ہے۔ یہ تمام افراد بنیادی ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ایسے افراد کی طبی مدد کا بیڑا ڈاکٹر جم اور ان کے ساتھیوں نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔ وہ روزانہ بوسٹن کے مختلف علاقوں میں جا کر بے گھر بیمار افراد کو علاج کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
ڈاکٹر جم کی ٹیم میں ماہر نفسیات، نرسز، ماہر بحالیات اور دیگر مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹر شامل ہیں۔ وہ سارا دن مختلف پارکوں، پلوں کے نیچے اور دیگر ایسے مقامات جہاں بے گھر افراد رہائش پذیر ہو تے، کا دورہ کرتے ہیں۔ وہ روزانہ سات سو سے زائد افراد کو علاج کی سہولت مہیا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر جم خود روزانہ دوسو سے زیادہ مریض دیکھتے ہیں۔ معمولی نوعیت کے مریضوں کو فوراً فارغ کر دیا جاتا ہے، جب کہ سنجیدہ نوعیت کے مریضوں کو وہ مختلف رفاہی تنظیموں کے تعاون سے ہسپتال داخل کراتے ہیں، تا کہ ان کا مکمل علاج کیا جا سکے، ڈاکٹر جم اور ان کے ساتھیوں کا جذبہ لائقِ تحسین ہے کہ وہ اپنے پیشے کے تقدس کا حقیقی معنوں میں حق ادا کر رہے ہیں۔
٭ایک قصبے کے رہائشی رچرڈ کو اپنے قصبے میں پے درپے ہونے والی اموات نے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ یہ معاشی اعتبار سے پسماندہ علاقہ تھا جہاں لوگ ناقص غذا کی وجہ سے دل کی بیماری کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن رہے تھے۔ رچرڈ نے قصبے کے نوجوانوں کو جمع کیا اور انہیں اپنی سوچ سے آگاہ کر کے اس امر پر زور دیا کہ انہیں گاؤں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خود تازہ پھل اور سبزیاں کاشت کرنی چاہئیں۔ گاؤں کے لوگ اس مشورے کی حوصلہ افزائی کی۔
مقامی عبادت گاہ والوں نے اس مقصد کے لیے زرعی زمین اور آلات فراہم کیے، رچرڈ نے نوجوانوں کی ٹیم کی ہمراہی میں کام شروع کیا، اس نے نوجوانوں کو اپنی ضرورت کے مطابق پھل اور سبزیاں کاشت کرنے کی تربیت دی تا کہ ہر گھر اپنی ضرورت کے مطابق خود کاشت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ رچرڈ کی کاشت کاری کے نتیجے میں اْگنے والی سبزیاں اور پھل پورے قصبے کے گھروں میں پہنچنا شروع ہوئے، تو تھوڑے ہی عرصے میں قصبے کے باسیوں کے وزن اور بلند فشارِ خون میں کمی ہونا شروع ہوئی۔ یوں محض ایک فرد کی نیک نیتی پر مبنی سوچ نے کئی لوگوں کی زندگیاں محفوظ کر دیں، اور انہیں غیر صحت مند خوراک سے صحت بخش اور صاف خوراک کی طرف منتقل کر دیا۔
٭گرے میسینا نے اپنی صبح کی دوڑ کے دوران ایک آدمی کو نیویارک شہر کے مشرقی دریا میں چھلانگ لگاتے دیکھا، اس کے خیال میں وہ کوئی تیراک ہو گا، جو علی الصبح تیراکی کی مشق کے لیے دریا میں اتر رہا تھا، لیکن تھوڑی ہی دیر میں اسے اندازہ ہوا کہ وہ آدمی تیراکی سے نابلد تھا اور مدد کے لیے چیخ رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے مدد کی نیت سے چھلانگ لگائی تو اسے دو اور لوگوں کے بھی جوتے دکھائی دیئے، جو ڈوبتے شخص کو بچانے کے لیے چھلانگ لگا چکے تھے، یہ ڈیوڈ اور جان گرین تھے، جو اس کی چیخ پکار پر مدد کو آئے تھے۔ تینوں نے مل کر اسے دریا کی متلاطم لہروں کے تھپیڑوں سے بچانے کی بھر پور کوشش کی، پورے پندرہ منٹ وہ اسے مضبوطی سے پکڑ کر سطح آب پر تیرتے رہے، تب ایک ہنگامی مدد کرنے والی کشتی ان تک پہنچی۔ اگر وہ تینوں بروقت دریا میں نہ کودتے تو وہ آدمی یقیناً ڈوب جاتا اور اس کی زندگی کی کہانی اختتام پذیر ہو جاتی۔
٭اپنے کسی پیارے کو حادثاتی موت کے بعد کھونے کے بعد نارمل زندگی میں واپسی بہت مشکل ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک خاندان نے جب نوجوان بیٹے کو خودکشی کے نتیجے میں کھویا، تو ان میں آنے والے سالانہ مذہبی تہوار کے لیے کسی قسم کی تیاری کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ ایسے میں ایک اجنبی نوجوان کارسن نے ان کے گھر کی سجاوٹ کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ کارسن ایسے خاندانوں کی تلاش میں رہتا ہے تا کہ اپنی کسی عمل سے ان کی تکلیف کم کر سکے۔ وہ ہر ممکن طریقے سے حادثاتی موت کے نہ بھول سکنے والے غم سے لوگوں کو باہر نکالنا چاہتا ہے اس کی ذرا سی ہمدردی، تھوڑا سا وقت اور معمولی رقم خرچ کرنے سے اگر غم زدہ افراد کی زندگیوں میں امید کی تازہ ہوا آ سکتی ہے تو اسے یہ سودا مہنگا نہیں لگتا۔
٭جنوبی واشنگٹن کے ایک گاؤں کومٹی کے تودے گرنے سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس گاؤں کے رہائشی فلپ نے اپنی بیوی کی طرف سے اس صورت حال کی اطلاع ملتے ہی گھر پہنچنے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے تودے گرنے کی وجہ سے سڑک بھی بند ہو گئی۔ اس نے گاڑی وہیں چھوڑ کر بھاگ کر گھر پہنچنے کا رستہ اختیار کیا، راستے میں بہت سے گھر اور لوگ مٹی کے طوفان میں دبے ہوئے تھے، اس نے گھر پہنچنے کی جلدی کو بھول کر لوگوں کی ہر ممکن مدد کی اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مدد دی۔ جب وہ امدادی کاموں سے فارغ ہو کر اپنے گھر پہنچا تو خوش قسمتی سے اس کا گھر اور اہلِ خانہ محفوظ تھے۔ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دینے کے اس عمل پر فلپ کو ہلال احمر کی طرف سے ملکی سطح کا ایوارڈ دیا گیا۔
یہ تمام بظاہر بھلائی کے کاموں کی معمولی سی کہانیاں ہیں، ایسے کام کرنے کے ہم میں سے ہر ایک کو روزانہ مواقع ملتے ہیں لیکن ہم سْستی، لا تعلقی یا کسی بڑی بھلائی کے کاموں کے انتظار میں شان دار مواقع سے فائدہ نہیں اْٹھاتے۔ اگر ہم کوشش کریں تو نیکی کے ان چھوٹے چھوٹے پھولوں سے اپنی اور دوسروں کی زندگی معطر کر سکتے ہیں۔ کسی کو آسانی فراہم کرنے والی معمولی سی کوشش بھی ضائع نہیں جاتی بلکہ آپ کی دنیا و آخرت دونوں کو خوبصورت بناتی ہے۔