مسئلہ فلسطین غاصب اسرائیل اور مسلم امہ کا نفاق

گزشتہ ایک دہائی سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات جاری ہیں

مسئلہ فلسطین بھلا کر مسلم امہ اپنے باہمی اختلافات میں گھری ہوئی ہے۔ (فوٹو: فائل)

مسئلہ فلسطین کے ویسے تو مختلف پہلو ہیں لیکن میں آج دو سب سے اہم اور بنیادی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا جو آج تک مسئلہ فلسطین کے حل نہ ہونے کی بڑی وجوہات ہوسکتی ہیں۔

مقبوضہ فلسطین مسلمانوں کےلیے قبلہ اول (مسجد اقصیٰ) کے باعث دنیا کے نقشے پر ایک ایسا خطہ ہے جو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ یہ مقدس ترین مقام گزشتہ 72 سال سے قابض صہیونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ صہیونی دشمن مسلمانوں کو فلسطین سے بے دخل کرنے کےلیے انسانیت کو شرمندہ کردینے والے اقدامات کو گزشتہ ستر سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف اقوام متحدہ نے سیکڑوں قراردادیں منظور کیں۔ درجنوں دیگر ممالک نے اسرائیلی مظالم کے خلاف بیانات جاری کیے۔ امداد دیں، اسرائیل کو لعن تعن کیا، لیکن وہ نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا، یعنی مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کےلیے اس کی روح کے مطابق اقدامات۔

اگر مشرق وسطیٰ کا جائزہ لیا جائے تو سعودی عرب کے سوا بیشتر ممالک تباہی کا شکار ہیں۔ اس خطے کا سب سے اہم ملک شام جو گزشتہ ایک دہائی سے خانہ جنگی کا شکار ہے، جس میں اب تک پانچ لاکھ سے زائد شامی شہید ہوچکے ہیں۔ میری رائے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تباہی شام پر قبضے کی جنگ ہے۔ جس کی شام پر گرفت مضبوط ہوگی وہی مشرق وسطیٰ پر حکومت کرے گا اور اس کےلیے سعودی عرب اور ایران بھرپور طاقت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ شام کے عوام اور مشرق وسطیٰ کی اکثریت سعودی عرب کی جانب سے بھرپور امداد کے باوجود ایران کے حق میں ہے۔ یہ تمام لوگ شیعہ مسلم نہیں ہیں۔ یہاں بہت بڑی تعداد سنی مسلمانوں کی بھی ہے، جو سعودی عرب کے مقابلے میں ایران کو پسند کرتی ہے۔ اس کی وجوہات شیعہ یا سنی ہونا نہیں بلکہ فلسطینیوں کےلیے حقیقی اقدامات کرنا ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مقبوضہ فلسطین کا محصور شہر غزہ جو گزشتہ 13 سال سے اسرائیلی غیر قانونی معاشی ناکہ بندی کا شکار ہے، جس کی بیس لاکھ کی آبادی میں سے آٹھ لاکھ لوگ بے روزگار ہیں، جہاں روٹی سے سستی موت ہے، وہاں رہنے والے مزاحمت کاروں نے ٹیکنالوجی میں اسرائیل کو کیسے پریشان کیا ہوا ہے۔

اسرائیل کے عسکری ذرائع کا کہنا ہے حماس کی فوج اور دوسرے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو ایرانی سائنسدان اور ٹیکنالوجسٹ کی مدد دستیاب ہے جو ان مزاحمت کاروں کو ڈرون بنانا سکھا رہے ہیں۔ ان کی مدد سے حماس نے ایسے ڈرون بنائے ہیں جو اسرائیلی ریڈار میں نہیں آتے اور یہی امر اسرائیل کی سلامتی کےلیے انتہائی خطرناک ہے۔


اسرائیل نے خطے کے تمام ممالک پر اپنی دھاک بٹھائی ہوئی ہے، لیکن لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے اسرائیل کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ 20 جولائی کو دمشق میں ایک اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کا ایک کمانڈر کامل محسن علی شہید ہوا، جس پر حزب اللہ نے اسرائیل سے انتقام لینے کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے حزب اللہ کے بیان پر اقوام متحدہ کے حکام کے ذریعے معذرت کی اور کہا کہ انھیں حزب اللہ کے کمانڈر کی وہاں موجودگی کی اطلاع نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے اپنی فوجوں کو ہائی الرٹ کردیا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حزب اللہ اسرائیل جیسی فوجی طاقت کےلیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔

اسرائیل کی طاقت کا طلسم اس وقت بھسم ہونا شروع ہوا جب لبنان پر 1982 سے اسرائیل کا جاری قبضہ 2000 میں حزب اللہ کے جوانوں کی مزاحمت کے سامنے دم توڑ گیا۔ اور اس طرح لبنان اسرائیل کے ناجائز قبضہ سے مکمل طور پر آزاد ہوا۔ فلسطین پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل سمیت دنیا میں اسرائیل کی حمایت کرنے والی حکومتوں، جن میں امریکا سرفہرست تھا، ان سب کےلیے یہ شکست ایک بہت بڑا جھٹکا تھی۔ جس نے دنیا پر اسرائیل کے تکبر اور گھمنڈ کو خاک میں ملا کر رکھ دیا تھا۔ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے لگا۔ اسرائیل کا بھرم خاک ہوتا رہا۔ اسرائیل جو عرب ممالک کی زمینوں پر قبضے کیا کرتا تھا، اب ذلیل و رسوا ہوکر لبنان سے نکل کھڑا ہوا۔ تاریخ میں اسرائیل اور اس کے حامیوں کی یہ بہت بڑی شکست ہے۔

حزب اللہ نے جولائی 2006 میں ایک بار پھر اسرائیل کو بدترین شکست دی۔ حزب اللہ لبنان کی شیعہ مسلم مزاحمتی تحریک ہے اور یہ بار بار ایک جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس خطرناک فوجی طاقت والے ملک اسرائیل کو ذلت آمیز شکست دے چکی ہے، اسی لیے ریاست سعودی عرب شیعہ اکثریتی ایران کو خطے میں اثر و رسوخ کی جدوجہد میں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان نے 2018 کو ایک امریکی جریدے 'دی اٹلانٹک' کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں پہلی بار کھل کر کہا تھا 'اسرائیل کو اس کی بقا کا حق حاصل ہے'۔ ساتھ ہی سعودی عرب کی اس دوسری طاقتور ترین شخصیت نے اس امریکی جریدے کو یہ بھی بتایا تھا کہ ان کا یہودیوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں۔

سعودی ولی عہد کا یہ بیان اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ خلیج کی یہ بااثر ترین عرب ریاست اب اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتی ہے۔ ساتھ ہی محمد بن سلمان نے یہ بھی کہا تھا ''اسرائیل کے رقبے کو دیکھا جائے تو تقابلی بنیادوں پر اس کی معیشت ایک بڑی معیشت ہے اور اسرائیل اور سعودی عرب کے بہت سے مفادات مشترک ہیں''۔

یہ بات تو ہر خاص و عام جانتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک پر سعودی عرب کا کس قدر اثرورسوخ ہے۔ گزشتہ دنوں اسرائیل کے ساتھ امارات کے دوستی کے معاہدے کو سن کر مجھے تو بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی۔ کیونکہ گزشتہ ایک دہائی سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات جاری ہیں۔ بلکہ سعودی عرب اور بحرین نے تو ''صدی کی ڈیل'' نامی امریکی منصوبے کی میزبانی بھی کرنی تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ سعودی عرب اپنے اتحادیوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کےلیے دباؤڈال رہا ہے۔

امریکا کے معروف صحافی ڈیوڈ اگناٹیس نے 14 اگست کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشرقی وسطیٰ کےلیے مشیر جیرڈ کوشنر کے حوالے سے لکھا کہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ دوستی کے معاہدے پر کوشنر کا کہنا ہے کہ یہ تو ابتدا ہے، ابھی دیگر خلیجی ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کےلیے اقدامات کریں گے۔ انھوں نے ان ممالک کا نام نہیں لیا لیکن امریکی صدر کے افسران کا کہنا ہے کہ دیگر خلیجی ممالک میں اومان، بحرین اور مراکش شامل ہیں جو جلد اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story