شاہ محمود قریشی سعودی عرب اور معافی تلافی

سعودی عرب سے متعلق شاہ محمود قریشی کے سخت بیان نے تحریک انصاف کو مشکل میں ڈال دیا ہے

یہ شاہ محمود قریشی کا صرف ایک بیان نہیں بلکہ مستقبل کا لائحہ عمل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر شاہ محمود قریشی یا سعودی عرب میں سے کوئی ایک بھی اکڑ گیا تو؟ اس ایک جملے میں شائد مستقبل کا منظرنامہ دھندلا سا گیا ہے۔ اگر واقعی دستیاب مفروضوں کی بنیاد پر دوست ملک ہمارے وزیر خارجہ کا استعفیٰ ہی مانگتا ہے تو پھر حکمران جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف کے پاس دو راستے ہیں۔

پہلی صورت میں وہ دوست کو راضی کرنے کےلیے مکمل طور پر شاہ محمود قریشی سے نط صرف استعفیٰ لیں بلکہ ان کی باز پرس بھی کی جائے۔ اور قوی امکان یہی ہے کہ اس کے نتیجے میں پارٹی کے سینئر رہنما کے راستے پاکستان تحریک انصاف سے الگ ہوسکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف خود کو اور شاہ محمود قریشی کو محفوظ راستہ دینے کا بندوست کرے۔ اب یہ محفوظ راستہ کیا ہوسکتا ہے؟ پہلی صورت تو یقینی طور پر ایک بہت بڑا جوا ہوگا لیکن دوسری صورت میں سعودی عرب جاکر جو کوششیں ہورہی ہیں، ان کے تحت معافی تلافی کا سین چلا لیا جائے۔ اور کچھ ایسا راستہ نکالا جائے کہ دوست بھی راضی رہے اور سینئر پارٹی رہنما بھی۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بہرصورت نقصان شاہ محمود قریشی کا سیاسی طور پر ہوگا۔ کیوں کہ معافی ملے یا نہ ملے، دونوں صورتوں میں ان کی سیاسی ساکھ داؤ پر لگ سکتی ہے۔

آخر شاہ محمود قریشی نے اتنا سخت بیان کیوں دیا؟ شاہ محمود قریشی نے پروگرام میں دوبارہ پوچھے جانے پر بھی جس طرح کے رویے کا مظاہرہ کیا اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ جلد بازی کا بیان نہیں تھا، بلکہ شاہ محمود قریشی اس بیان کے سیاق و سباق کو مکمل سمجھ کر الفاظ کی ادائیگی کررہے تھے۔ ایک ایٹمی ملک کا وزیر خارجہ اور وہ بھی ایسا سیاستدان جو اپنے سیاسی کیریئر کا کم و بیش مکمل عروج دیکھ چکا ہے۔ (اس نقطہ عروج سے آگے صرف ایک ہی منزل ہے جو ابھی قریشی صاحب کو نہیں مل سکتی)۔ تو یہ فرض بھی نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے یہ بیان بنا کسی مشاورت یا بنا کسی کے علم میں لائے دے دیا ہے۔ یہ بات بھی قریں از قیاس نہیں کہ جس طرح کشمیر کے محاصرے، ناکہ بندی اور کرفیو کو ایک سال ہوگیا ہے اور امت مسلمہ کی نیند ہے کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی، تو یہ بنیادی طور پر نیند سے جگانے کا ایک باقاعدہ مصنوعی درمیانی شدت کا زلزلہ پیدا کیا گیا ہو اور یہ بتانا مقصود ہو کہ جناب آپ اگر ہماری مدد کو نہیں آئیں گے تو امید ہم سے بھی نہ رکھیے گا۔ واقعی ہلکی شدت کا زلزلہ سا تو آیا ہے اور اب یقینی طور پر اس کے آفٹرشاکس کا سلسلہ جاری ہے۔ ان آفٹر شاکس کا تسلسل معافی تلافی پر ٹوٹتا ہے یا عہدے سے برخاستگی، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ لیکن خطے کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس بات کے واضح اشارے ملتے ہیں کہ اب شائد پاکستان ایسے بیانات افورڈ کرنے کی پوزیشن میں آتا جارہا ہے۔

خطے میں مشرقی سرحد پر مشکلات تو درپیش تھیں ہی، لیکن مسئلہ مغربی سرحد کا بھی تھا۔ بدلتے حالات کے تناظر میں یہ مشکلات صرف مشرقی سرحد تک محدود ہوتی جارہی ہیں۔ ایران کے ساتھ چین کی متوقع ڈیل نہ صرف چین و ایران کے تعلقات کو مضبوط بنائے گی بلکہ اس ڈیل کے پس منظر میں پاکستان بھی سکھ کا سانس اس لیے لے گا کہ اس سے قبل ایران میں تمام سرمایہ کاری بھارت کررہا تھا۔ کلبھوشن تو آپ کو یاد ہوگا ہی۔ چاہ بہار بندرگاہ کی خغرافیائی اہمیت اور اس میں بھارت کی سرمایہ کاری بھی بنا مقصد کے تو ہرگز نہیں تھی۔ ایران میں ریلوے لائن کی تعمیر کا منصوبہ بھی ذہن نشین رکھیے۔ یہ تمام سرمایہ کاری بھارت کی طرف سے اگر کی جارہی تھی تو یقینی طور پر بیل منڈھے چڑھ جانے پر بھارت کو ایک مضبوط بیس بھارت سے باہر میسر آجاتا پاکستان کے ساتھ پراکسی وار کے لیے۔ لیکن چین ایران متوقع ڈیل نے بھارت کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اور ریلوے پراجیکٹ سے بھارت کو نکالے جانے کی خبر بھی پاکستان کےلیے کم از کم تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ان تمام حالات کو مدنظر رکھیے اور اب سعودی عرب کی بھارت میں آئل ریفائنری لگانے کےلیے بھاری سرمایہ کاری کا جائزہ لیجیے۔ خطے میں پاکستان، ایران، چین، نیپال، جب ایک سمت کی طرف گامزن ہیں تو دوسری جانب سعودی عرب کی بھارت میں سرمایہ کاری اور مسئلہ کشمیر پر مسلسل خاموشی پاکستان کو کیسے ہضم ہوسکتی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا صرف ایک بیان نہیں بلکہ مستقبل کا لائحہ عمل ہے۔ اس بیان کی وجہ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک واضح سمت دکھائی گئی ہے سعودی عرب کو کہ ہم بھائی ہیں، جذباتی وابستگی ہے ہماری تو پھر کیوں آپ اس وابستگی کو توڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اور خطے کی بدلتی صورتحال پر شہزادہ محمد بن سلمان کی بھی یقینی طور پر نظر ہے۔ شاہ محمود قریشی کے بیان پر ناراضگی اپنی جگہ لیکن سعودی عرب بہرحال سی پیک، چین ایران ڈیل، پاکستان کا خطے میں کردار، نیپال و بنگلہ دیش کے رویوں سے حالات کا بغور جائزہ بھی لے گا۔ اور دانشمندی کی کمی شہزادہ محمد بن سلمان میں نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان ابتدا ہے خطے میں تعلقات کے ایک نئے دور کی۔


تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ سعودی عرب دانشمندی اور بردباری کے بجائے شاہ محمود قریشی کے بیان کو بس ایک بیان سمجھتے ہوئے اس پر اکڑ جاتا ہے تو پھر مشکلات پاکستان تحریک انصاف کےلیے اس لیے بڑھ جاتی ہیں کہ اگر وہ سعودی عرب کے کہنے پر شاہ محمود قریشی کو عہدے سے برخاست کرتے ہیں تو وہ نہ صرف ایک اہم رہنما کو کھو دیں گے بلکہ مستقبل میں یہ برخاستگی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اور اگر بات معافی تلافی پر منتج ہوتی ہے تو شاہ محمود قریشی معافی کی طرف آ بھی گئے (جو بہرحال ایک آپشن کے طور پر موجود ہے) تو ان کی سیاسی ساکھ کو ایسا نقصان پہنچے گا جسے بحال کرنا ان کےلیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اور شاہ محمود قریشی جیسا سیاستدان اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں مارے گا۔

فرض کیجیے سعودی عرب وضاحت مان لیتا ہے، معاملات بہتر ہوجائیں گے۔

فرض کیجیے سعودی عرب اکڑ جاتا ہے، غیر دانشمندانہ طور پر، تو حکومت کےلیے مسائل ہوں گے۔

اور فرض کیجیے شاہ محمود قریشی اکڑ جاتے ہیں تو حالات پاکستان تحریک انصاف کےلیے بہتری کی نوید نہیں لائیں گے۔

اور پاکستان سعودی عرب تعلقات کے حوالے سے نواز شریف کے کردار کو فرض بھی نہ کیجیے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story