تعمیرات منصوبوں کیلیے ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کی منظوری لازمی قرار

یہاں قانون صرف اس کیلیے ہے جو کمزور ہے، ریاست عام عوام کی خدمت نہیں کر رہی سب کچھ اشرافیہ کیلیے کرتی ہے، چیف جسٹس


ثاقب بشیر August 16, 2020
ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی پر اقدام قتل کی کارروائی کا عندیہ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی امین اسلم و دیگر 22 اگست کو طلب۔ فوٹو، فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد میں تمام تعمیراتی پراجیکٹس کیلیے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی منظوری لازمی قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ سی ڈی اے کوئی بھی تعمیراتی منصوبہ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی منظوری کے بغیر شروع کرے نہ کسی اور کو کرنے دے۔

عدالت نے وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم اور سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے چیئرمین سی ڈی اے کو بھی 22 اگست کو طلب کر لیا، عدالت نے پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کو آزاد حیثیت میں ایکٹ کے مطابق کارروائی کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہم اس وقت ایسی اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں کہ احتساب کا عمل شروع ہونا چاہئے، اسلام آباد میں سی ڈی اے ماحولیاتی قوانین کی مکمل خلاف ورزی کر رہی ہے، سی ڈی اے نے اسلام آباد میں نیشنل پارک کو بھی تباہ کردیا، سی ڈی اے نے جو گورننس کا حال کردیا وہ بہت افسوسناک ہے، جن کی شہریوں کی حفاظت کی ڈیوٹی ہے وہ تمام قانون شکن بنے ہوئے ہیں، محکمہ تحفظ ماحولیات کے ہوتے ہوئے سب کچھ ہورہا ہے،کیا آپ سو رہے ہیں یا آپ کا ادارہ ختم کردیں، آپ مستقبل کی نسلوںکے ساتھ کھیل رہے ہیں، آپ نے خود کہا کہ سی ڈی اے نے انوائرمنٹ کی اجازت کے بغیر کام شروع کیا، کیا آپ نے نوٹس لیا؟

چیف جسٹس نے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے حکام پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہاکہ اگر یہی کرنا ہے تو گڈ گورننس کیلیے جو قوانین ہیں پھر ان کو ختم ہی کر دیں، کئی فیصلوں میں لکھ چکے ہیں یہاں بااثر افراد کیلیے کوئی قوانین نہیں، ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ میں کیسز بیک لاگ گورننس کے نہ ہونے کی وجہ سے ہیں، یہاں قانون صرف اس کیلئے ہے جو کمزور ہے، ریاست عام عوام کی کوئی خدمت نہیں کر رہی وہ سب کچھ اشرافیہ کیلیے کرتی ہے، بڑوں کیلیے کہا جاتا ہے ریگولرائز کر دیں کمزور کو یہ سہولت میسر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں انوائرمنٹ پروٹیکشن کے حوالے سے کام کیوں نہیں ہو رہا، ایجنسی کو بے بس کیوں چھوڑا گیا ہے، جس ادارے نے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا ہے وہ کہتا ہے ہمارے پاس سٹاف پورا نہیں، اب اس عدالت کو یہ سوچنا ہے کہ کیوں نہ ان پر 307کے مقدمے کے پرچے دیئے جائیں، یہ وفاقی حکومت کی مجرمانہ غفلت ہے، وزارت موسمیاتی تبدیلی نے تو یہ نہیں کرنا، وزیراعظم کے معاون خصوصی امین اسلم اور سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں، انوائرمنٹل قوانین پر عمل درآمد کے بغیر کوئی پروجیکٹ شروع نہیں ہو گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں