انگلش کنڈیشنز میں بیٹنگ کا مشکل امتحان
اظہر علی اور اسد شفیق ٹیم پر بوجھ نظر آنے لگے
کورونا وائرس کے سائے میں انٹرنیشنل کرکٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو کئی خدشات موجود تھے، انگلش بورڈ نے بائیو سیکیور ماحول بنانے کے لیے سخت محنت کی، یہ منفرد تجربہ ابھی تک کامیاب رہا ہے، کوئی ناخوشگوار واقعہ سامنے نہیں آیا۔
انگلینڈ کی ویسٹ انڈیز، آئرلینڈ اور پاکستان کے خلاف سیریز سے دیگر ملکوں کا حوصلہ بھی جوان ہوا ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد میں غفلت نہ برتی جائے تو کورونا اور کرکٹ ایک ساتھ چل سکتے ہیں،تجربہ اس لیے بھی منفرد ہے کہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے سٹینڈز میں تماشائی موجود نہیں ہوتے،انگلینڈ کی ٹیم کو ہوم گراؤنڈز پر کنڈیشنز کا فائدہ تو حاصل تھا لیکن ماحول ایسا ہی ملا جو پاکستانی پلیئرز کو ایک عرصہ تک یو اے ای میں ملتا رہا۔
میزبان ٹیم کو دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اس کو پاکستان کے خلاف سیریز سے قبل ویسٹ انڈیز کے ساتھ 3 میچز کھیلنے کا موقع مل گیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ کنڈیشنز سے ہم آہنگی کے لیے میچز ضروری ہیں،مسابقتی کرکٹ میں غلطیوں کی نشاندہی اور ان کو سدھارنے کا موقع ملتا ہے، پاکستان ٹیم کو کاؤنٹیز کے ساتھ پریکٹس میچز تو کھیلنے کو نہیں مل سکے، بہرحال سکواڈ5 ہفتے قبل ہی انگلینڈ میں ڈیرے ڈال چکا تھا، کھلاڑیوں نے کئی نیٹ سیشنز کیساتھ آپس میں میچز بھی کھیلے لیکن بنیادی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کامیاب ہو سکتی تھی نہ ہوئی۔
ایک عرصہ سے ٹیم پر بوجھ نظر آنے والے بیٹسمین مانچسٹر کے اولڈ ٹریفورڈ اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں بھی جدوجہد کرتے نظر آئے، اگر کسی نے کارکردگی دکھائی تو اس میں تسلسل نظر نہیں آیا، پہلی اننگز میں عابد علی انگلش کنڈیشنز میں جدوجہد کرتے نظر آئے، دوسرے اوپنر شان مسعود خوش قسمت ثابت ہوئے کہ ڈراپ کیچز کی وجہ سے سنبھلنے کا موقع مل گیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ذمہ داری لینے کی کوشش بھی کی جس کے نتیجے میں پاکستان بہتر مجموعہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
صورتحال بہت اچھی ہو سکتی تھی اگر اظہرعلی اور اسد شفیق بھی سینئر کا حق ادا کرتے ہوئے اپنا حصہ ڈالتے یا پھر بابر اعظم اچھے آغاز کو بڑے سکور میں بدلنے میں کامیاب ہوتے، شاداب خان اور ٹیل اینڈرز کی مزاحمت خوش آئند رہی، پاکستان کو 107 رنز کی برتری حاصل ہونے کے بعد بیٹسمینوں پر دباؤ بہت کم ہو جانا چاہیے تھا، بہترین موقع تھا کہ اتنا بڑا ٹوٹل حاصل کر لیا جاتا جو انگلینڈ کی پہنچ سے باہر ہوتا مگر معاملہ کچھ عجیب ہوا، خسارے میں انگلینڈ کی ٹیم تھی، پریشانی کا شکار مہمان بیٹسمین ہوگئے۔
شان مسعود پہلی اننگز کی کارکردگی دہرانے میں ناکام رہے، عابد علی اچھا آغاز فراہم نہیں کر سکے، کپتان اظہر علی اور اسد شفیق نے ایک بار پھر خود کو کمزور کڑی ثابت کیا، دونوں میں سے کوئی ایک بھی ففٹی بنانے میں کامیاب ہوتا تو انگلینڈ کی پریشانی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا،میچ کے اہم ترین موڑ پر بیٹنگ کی یکسر ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اننگز کے ٹاپ سکورر یاسر شاہ تھے، بہرحال کنڈیشنز کو دیکھتے ہوئے277کا ہدف آسان نہیں تھا۔
پہلی اننگز میں 219 رنز بنانے والی انگلش ٹیم کے150 تک آؤٹ ہونے کی پیشگوئی کرنے والے مبصرین پاکستان کی فتح کا مشن مکمل ہونے کے منتظر تھے، 117 پر میزبان ٹیم کی نصف بیٹنگ لائن کا صفایا ہو چکا اور ہار کی تلوار سر پر لٹک رہی تھی، اس صورتحال میں جوز بٹلر اور کرس ووکس نے جوا کھیلتے ہوئے جوابی حملہ کیا۔
پاکستان کی بھاری بھر کم ٹیم مینجمنٹ میں انگلش کنڈیشنز کا وسیع تجربہ رکھنے والے ہیڈ کوچ مصباح الحق، معاونین وقار یونس، یونس خان اور مشتاق احمد کی موجودگی کے باوجود پاکستان کے پاس کوئی حکمت عملی، کوئی جواب نہیں تھا،یہ عمل اس لیے بھی پریشانی کا باعث ہے کہ آؤٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے جوز بٹلر کے لیے مانچسٹر ٹیسٹ آخری موقع سمجھا جا رہا تھا، ڈراپ کیچز کے ساتھ اگر اس اننگز میں بھی کارکردگی نہ دکھا پاتے تو باہر بٹھا دیا جاتا۔
کرس ووکس کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ شارٹ گیندوں پر خاصے پریشان ہو جاتے ہیں، اس کا عملی مظاہرہ ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے بعد انگلینڈ کی مانچسٹر میں پہلی اننگز میں بھی دیکھنے میں آیا،حیرت کی بات ہے کہ ٹیم کے ساتھ وقار یونس جیسا زیرک بولنگ کوچ ہونے کے باوجود پیسرز نے شارٹ گیندیں بہت کم کروائیں، اگر کروائیں بھی تو اس وقت جبکہ گیند نرم پڑ چکی اور میچ ہاتھ سے نکل گیا تھا۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید نے بھی ایک اہم پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کسی نے سوئنگ کے لیے موزوں گیند بنانے کی کوشش نہیں کی،ان کا کہنا ہے کہ کپتان یا کوئی ایک سینئر بولر بال کو ایک طرف سے چمکاتے ہوئے تیار کرتا ہے، محمد عباس سوئنگ کم کرتے ہیں، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ میں تجربہ کی کمی تھی تو مینجمنٹ میں سے کسی کو سمجھانا چاہئے تھا۔جیتی بازی ہارنے پر شائقین کو سخت مایوسی اور مبصرین کو حیرت ہوئی، چند ایک کا تو یہ کہنا تھا کہ اس طرح کا ''کارنامہ'' پاکستان ہی سر انجام دے سکتا ہے۔
مانچسٹر میں دوسرے ٹیسٹ میچ میں موسم ابر آلود ہونے کی وجہ سے کھیل میں بار بار تعطل کا خدشہ تھا، اس کے باوجود پاکستان نے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، دو روز کے کھیل میں مہمان ٹیم کی اننگز مکمل نہیں ہو سکی لیکن جس انداز میں وکٹیں گریں ثابت ہوگیا کہ انگلش کنڈیشنز میں پاکستانی بیٹنگ کا مشکل امتحان ختم نہیں ہوا،پہلے میچ میں سنچری کا اعتماد شان مسعود کے کام نہیں آیا، دو ڈراپ کیچز کے بعد عابد علی نے 60 رنز بنائے لیکن ایشیائی کنڈیشنز جیسی فارم کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے۔
اظہر علی ایک بار پھر اعتماد سے عاری اننگز کھیلے۔ اسد شفیق کی غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔فواد عالم کو 11 سال کے قریب انتظار کے بعد ایک ایسی سیریز میں کم بیک کا موقع ملا جس میں نامی گرامی بیٹسمین بھی ناکام ہو رہے ہیں۔ پہلے میچ میں شاداب خان نے ایک اننگز میں اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا تھا، ان کو ڈراپ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ میڈیا کے دباؤ پر فواد عالم کو میدان میں اتار تو دیا گیا لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا کہ طویل عرصہ بعد بیٹنگ کرتے ہوئے وہ خود کتنے دباؤ میں ہوں گے۔
بابر اعظم نے مشکل کنڈیشنز میں ایک بار پھر اچھا آغاز کیا لیکن ففٹی مکمل کرنے سے قبل وکٹ گنوا بیٹھے۔ محمد رضوان کو داد دینا چاہیے کہ انہوں نے بحرانی صورتحال میں اچھی اننگز کھیلی، ٹیل اینڈرز کے ساتھ مزاحمت کرتے ہوئے ٹیم کا ٹوٹل 200 سے اوپر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انگلش کنڈیشنز میں ہماری بیٹنگ کے ہاتھ پاؤں کیوں پھول جاتے ہیں۔
عابد علی انگلینڈ میں پہلی سیریز کھیل رہے ہیں، ان کو تو مارجن دیا جا سکتا ہے، اظہر علی اور اسد شفیق تو سینئرز ہیں، ان کو نوجوان بیٹسمینوں کے لیے مثال بننا چاہیے لیکن دونوں ٹیم پر بوجھ نظر آنے لگے ہیں۔
کسی ایک کے بھی ذمہ داری نہ لینے کی وجہ سے پوری بیٹنگ دباؤ کا شکار ہونے لگی ہے، صرف بابر اعظم پر توقعات کا بوجھ ڈالنے سے ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی،ٹاپ آرڈر میں سے کسی نے چیلنج نہ لیا تو اچھے ٹوٹل جوڑنے کا خواب پورا نہیں ہوگا، ذاتی کارکردگی ناقص ہونے کے باوجود اظہرعلی کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سونپ تو دی گئی لیکن اس کا دوسرا نقصان ہوا، اپنی تکنیک پر تو کام نہیں کر پائے، اعتماد میں کمی نے کپتانی کو بھی شدید متاثر کیا ہے، کیا اظہر علی اور اسد شفیق سے جان چھڑانے کا وقت تو نہیں آ گیا؟
انگلینڈ کی ویسٹ انڈیز، آئرلینڈ اور پاکستان کے خلاف سیریز سے دیگر ملکوں کا حوصلہ بھی جوان ہوا ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد میں غفلت نہ برتی جائے تو کورونا اور کرکٹ ایک ساتھ چل سکتے ہیں،تجربہ اس لیے بھی منفرد ہے کہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے سٹینڈز میں تماشائی موجود نہیں ہوتے،انگلینڈ کی ٹیم کو ہوم گراؤنڈز پر کنڈیشنز کا فائدہ تو حاصل تھا لیکن ماحول ایسا ہی ملا جو پاکستانی پلیئرز کو ایک عرصہ تک یو اے ای میں ملتا رہا۔
میزبان ٹیم کو دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اس کو پاکستان کے خلاف سیریز سے قبل ویسٹ انڈیز کے ساتھ 3 میچز کھیلنے کا موقع مل گیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ کنڈیشنز سے ہم آہنگی کے لیے میچز ضروری ہیں،مسابقتی کرکٹ میں غلطیوں کی نشاندہی اور ان کو سدھارنے کا موقع ملتا ہے، پاکستان ٹیم کو کاؤنٹیز کے ساتھ پریکٹس میچز تو کھیلنے کو نہیں مل سکے، بہرحال سکواڈ5 ہفتے قبل ہی انگلینڈ میں ڈیرے ڈال چکا تھا، کھلاڑیوں نے کئی نیٹ سیشنز کیساتھ آپس میں میچز بھی کھیلے لیکن بنیادی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کامیاب ہو سکتی تھی نہ ہوئی۔
ایک عرصہ سے ٹیم پر بوجھ نظر آنے والے بیٹسمین مانچسٹر کے اولڈ ٹریفورڈ اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں بھی جدوجہد کرتے نظر آئے، اگر کسی نے کارکردگی دکھائی تو اس میں تسلسل نظر نہیں آیا، پہلی اننگز میں عابد علی انگلش کنڈیشنز میں جدوجہد کرتے نظر آئے، دوسرے اوپنر شان مسعود خوش قسمت ثابت ہوئے کہ ڈراپ کیچز کی وجہ سے سنبھلنے کا موقع مل گیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ذمہ داری لینے کی کوشش بھی کی جس کے نتیجے میں پاکستان بہتر مجموعہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
صورتحال بہت اچھی ہو سکتی تھی اگر اظہرعلی اور اسد شفیق بھی سینئر کا حق ادا کرتے ہوئے اپنا حصہ ڈالتے یا پھر بابر اعظم اچھے آغاز کو بڑے سکور میں بدلنے میں کامیاب ہوتے، شاداب خان اور ٹیل اینڈرز کی مزاحمت خوش آئند رہی، پاکستان کو 107 رنز کی برتری حاصل ہونے کے بعد بیٹسمینوں پر دباؤ بہت کم ہو جانا چاہیے تھا، بہترین موقع تھا کہ اتنا بڑا ٹوٹل حاصل کر لیا جاتا جو انگلینڈ کی پہنچ سے باہر ہوتا مگر معاملہ کچھ عجیب ہوا، خسارے میں انگلینڈ کی ٹیم تھی، پریشانی کا شکار مہمان بیٹسمین ہوگئے۔
شان مسعود پہلی اننگز کی کارکردگی دہرانے میں ناکام رہے، عابد علی اچھا آغاز فراہم نہیں کر سکے، کپتان اظہر علی اور اسد شفیق نے ایک بار پھر خود کو کمزور کڑی ثابت کیا، دونوں میں سے کوئی ایک بھی ففٹی بنانے میں کامیاب ہوتا تو انگلینڈ کی پریشانی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا،میچ کے اہم ترین موڑ پر بیٹنگ کی یکسر ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اننگز کے ٹاپ سکورر یاسر شاہ تھے، بہرحال کنڈیشنز کو دیکھتے ہوئے277کا ہدف آسان نہیں تھا۔
پہلی اننگز میں 219 رنز بنانے والی انگلش ٹیم کے150 تک آؤٹ ہونے کی پیشگوئی کرنے والے مبصرین پاکستان کی فتح کا مشن مکمل ہونے کے منتظر تھے، 117 پر میزبان ٹیم کی نصف بیٹنگ لائن کا صفایا ہو چکا اور ہار کی تلوار سر پر لٹک رہی تھی، اس صورتحال میں جوز بٹلر اور کرس ووکس نے جوا کھیلتے ہوئے جوابی حملہ کیا۔
پاکستان کی بھاری بھر کم ٹیم مینجمنٹ میں انگلش کنڈیشنز کا وسیع تجربہ رکھنے والے ہیڈ کوچ مصباح الحق، معاونین وقار یونس، یونس خان اور مشتاق احمد کی موجودگی کے باوجود پاکستان کے پاس کوئی حکمت عملی، کوئی جواب نہیں تھا،یہ عمل اس لیے بھی پریشانی کا باعث ہے کہ آؤٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے جوز بٹلر کے لیے مانچسٹر ٹیسٹ آخری موقع سمجھا جا رہا تھا، ڈراپ کیچز کے ساتھ اگر اس اننگز میں بھی کارکردگی نہ دکھا پاتے تو باہر بٹھا دیا جاتا۔
کرس ووکس کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ شارٹ گیندوں پر خاصے پریشان ہو جاتے ہیں، اس کا عملی مظاہرہ ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے بعد انگلینڈ کی مانچسٹر میں پہلی اننگز میں بھی دیکھنے میں آیا،حیرت کی بات ہے کہ ٹیم کے ساتھ وقار یونس جیسا زیرک بولنگ کوچ ہونے کے باوجود پیسرز نے شارٹ گیندیں بہت کم کروائیں، اگر کروائیں بھی تو اس وقت جبکہ گیند نرم پڑ چکی اور میچ ہاتھ سے نکل گیا تھا۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید نے بھی ایک اہم پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کسی نے سوئنگ کے لیے موزوں گیند بنانے کی کوشش نہیں کی،ان کا کہنا ہے کہ کپتان یا کوئی ایک سینئر بولر بال کو ایک طرف سے چمکاتے ہوئے تیار کرتا ہے، محمد عباس سوئنگ کم کرتے ہیں، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ میں تجربہ کی کمی تھی تو مینجمنٹ میں سے کسی کو سمجھانا چاہئے تھا۔جیتی بازی ہارنے پر شائقین کو سخت مایوسی اور مبصرین کو حیرت ہوئی، چند ایک کا تو یہ کہنا تھا کہ اس طرح کا ''کارنامہ'' پاکستان ہی سر انجام دے سکتا ہے۔
مانچسٹر میں دوسرے ٹیسٹ میچ میں موسم ابر آلود ہونے کی وجہ سے کھیل میں بار بار تعطل کا خدشہ تھا، اس کے باوجود پاکستان نے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، دو روز کے کھیل میں مہمان ٹیم کی اننگز مکمل نہیں ہو سکی لیکن جس انداز میں وکٹیں گریں ثابت ہوگیا کہ انگلش کنڈیشنز میں پاکستانی بیٹنگ کا مشکل امتحان ختم نہیں ہوا،پہلے میچ میں سنچری کا اعتماد شان مسعود کے کام نہیں آیا، دو ڈراپ کیچز کے بعد عابد علی نے 60 رنز بنائے لیکن ایشیائی کنڈیشنز جیسی فارم کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے۔
اظہر علی ایک بار پھر اعتماد سے عاری اننگز کھیلے۔ اسد شفیق کی غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔فواد عالم کو 11 سال کے قریب انتظار کے بعد ایک ایسی سیریز میں کم بیک کا موقع ملا جس میں نامی گرامی بیٹسمین بھی ناکام ہو رہے ہیں۔ پہلے میچ میں شاداب خان نے ایک اننگز میں اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا تھا، ان کو ڈراپ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ میڈیا کے دباؤ پر فواد عالم کو میدان میں اتار تو دیا گیا لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا کہ طویل عرصہ بعد بیٹنگ کرتے ہوئے وہ خود کتنے دباؤ میں ہوں گے۔
بابر اعظم نے مشکل کنڈیشنز میں ایک بار پھر اچھا آغاز کیا لیکن ففٹی مکمل کرنے سے قبل وکٹ گنوا بیٹھے۔ محمد رضوان کو داد دینا چاہیے کہ انہوں نے بحرانی صورتحال میں اچھی اننگز کھیلی، ٹیل اینڈرز کے ساتھ مزاحمت کرتے ہوئے ٹیم کا ٹوٹل 200 سے اوپر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انگلش کنڈیشنز میں ہماری بیٹنگ کے ہاتھ پاؤں کیوں پھول جاتے ہیں۔
عابد علی انگلینڈ میں پہلی سیریز کھیل رہے ہیں، ان کو تو مارجن دیا جا سکتا ہے، اظہر علی اور اسد شفیق تو سینئرز ہیں، ان کو نوجوان بیٹسمینوں کے لیے مثال بننا چاہیے لیکن دونوں ٹیم پر بوجھ نظر آنے لگے ہیں۔
کسی ایک کے بھی ذمہ داری نہ لینے کی وجہ سے پوری بیٹنگ دباؤ کا شکار ہونے لگی ہے، صرف بابر اعظم پر توقعات کا بوجھ ڈالنے سے ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی،ٹاپ آرڈر میں سے کسی نے چیلنج نہ لیا تو اچھے ٹوٹل جوڑنے کا خواب پورا نہیں ہوگا، ذاتی کارکردگی ناقص ہونے کے باوجود اظہرعلی کو ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سونپ تو دی گئی لیکن اس کا دوسرا نقصان ہوا، اپنی تکنیک پر تو کام نہیں کر پائے، اعتماد میں کمی نے کپتانی کو بھی شدید متاثر کیا ہے، کیا اظہر علی اور اسد شفیق سے جان چھڑانے کا وقت تو نہیں آ گیا؟