اپوزیشن سے اپوزیشن تک
بھٹو دورمیں حکومت اوراپوزیشن سیاسی جماعتوں کے درمیان جومحاذ آرائی شروع ہوئی تھی وہ 1976ء میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی
لاہور:
بھٹو دور میں حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے درمیان جو محاذ آرائی شروع ہوئی تھی وہ 1976ء میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
لیکن اپوزیشن متحد نہیں تھی شاید اسی وجہ سے وزیراعظم بھٹو نے مارچ 77ء میں انتخابات کا اعلان کر دیا۔ لیکن نواب زادہ نصراللہ کی کوششوں سے چند دنوں میں ہی پھر نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد وجود میں آ گیا۔ جس نے ''ہل'' کے مشترکہ انتخابی نشان کے تحت انتخاب لڑنے کا اعلان بھی کر دیا۔ لاہور کے تاریخی ایمبیسیڈر ہوٹل میں پی این اے کی قیادت کے انتخاب کے لیے ان نو سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس جاری تھا۔ عام تاثر یہی تھا کہ ائیر مارشل اصغر خان کی زوردار شخصیت مقبولیت اور جرأت پر انہیں بھٹو کے مقابلے میں پی این اے کے قائد کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اُس زمانے کے مقبول ہفت روزہ ''زندگی'' اور دیگر اخبارات میں اس تاثر پر مبنی خبریں آ چکی تھیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ پی این اے کی سربراہی اجلاس میں نواب زادہ نصراللہ نے باقاعدہ منصوبہ بندی اور ہوشیاری کے ساتھ یہ بندوبست کر لیا کہ ائیر مارشل اصغر خان پی این اے کے سربراہ نہ بن سکیں۔ چنانچہ اجلاس نے مفتی محمود کو پی این اے کا سربراہ اور رفیق باجوہ کو جنرل سیکرٹری منتخب کر لیا۔
اجلاس ختم ہونے پر جب قائدین باہر آئے تو ملکی اور غیر ملکی پریس اُن کا منتظر تھا۔ نواب زادہ نصراللہ آگے آئے تو صحافیوں نے اُن پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ نصراللہ خان نے جب بتایا کہ مفتی محمود کو پی این اے کا سربراہ منتخب کر لیا گیا ہے تو ہفت روزہ ''زندگی'' کے ایڈیٹر جناب مجیب الرحمن شامی جنہیں اس وقت ایک اپوزیشن صحافی ہی نہیں، اپوزیشن لیڈر کا درجہ بھی حاصل تھا، سخت اشتعال میں آ گئے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی جذبات کے برعکس اس طرح کا فیصلہ کیسے کیا گیا؟ اس کے جواب میں نواب زادہ نصراللہ نے کمال تحمل سے جواب دیا کہ تاریخ بتائے گی کہ یہ فیصلہ درست ہے۔ جس پر مجیب الرحمن شامی مزید مشتعل ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مورخ تو میں ہوں، تاریخ میں لکھوں گا اور لوگوں کو بتاؤں گا کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہے۔ یہ عوام کے ساتھ ایک سازش ہے۔ تاہم نواب زادہ نصراللہ نے اس کے جواب میں کسی ترشی کا اظہار نہیں کیا لیکن شاید اس بات کو نوٹ ضرور کر لیا۔
7 مارچ 77ء کو پولنگ ہوئی تو شاید منصوبہ بندی کے تحت پی این اے کے تمام لیڈرز تو جیت گئے لیکن باقی تمام نشستوں پر جھرلو پھر گیا۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار 38 منتخب ارکان قومی اسمبلی نے حلف لینے سے انکار کیا تو شہرشہر ایک ایسی عوامی تحریک ازخود منظم ہو گئی جو بالآخر اس حکومت کے خاتمے پر ہی ختم ہوئی۔ پھر جب ضیاء الحق مرحوم نے پی این اے کو شرکتِ اقتدار کی دعوت دی تو تحریک استقلال اور جمعیت علمائے پاکستان نے یہ دعوت مسترد کر دی جبکہ باقی جماعتوں نے اس دعوت کو قبول کرکے اپنے اپنے وزراء کے نام دے دئیے۔ خود نواب زادہ نصراللہ کی سربراہی پاکستان جمہوری پارٹی نے نوابزادہ افتخار احمد انصاری اور ارشد چودھری کو اپنی پارٹی کی جانب سے نامزد کیا، چنانچہ یہ دنوں حضرات مقررہ وقت تک ضیاء کابینہ کا حصہ رہے۔
لیکن جب حکومت نے انتخابات کا اعلان کیا تو یہ وزراء انتخاب میں حصہ لینے اور صدارتی حکم (کابینہ میں شامل ارکان انتخاب نہیں لڑ سکیں گے) کی پابندی کے باعث باہر آئے۔ گویا اُس وقت تک نواب زادہ نصراللہ حکومت وقت کے ساتھ تھے لیکن جب حکومت نے انتخابات ملتوی کیے تو نواب زادہ کے اندر کا باغی اور اپوزیشن لیڈر باہر آ گیا۔ انہوں نے فوری طور پر بیگم نصرت بھٹو اور دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایم آر ڈی بنا ڈالی اور ضیاء آمریت کے خلاف ایک ایسی تحریک شروع کی جو آخرکار بے نظیر کی وطن واپسی اور ضیاء حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئی۔
بھٹو دور میں حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے درمیان جو محاذ آرائی شروع ہوئی تھی وہ 1976ء میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
لیکن اپوزیشن متحد نہیں تھی شاید اسی وجہ سے وزیراعظم بھٹو نے مارچ 77ء میں انتخابات کا اعلان کر دیا۔ لیکن نواب زادہ نصراللہ کی کوششوں سے چند دنوں میں ہی پھر نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد وجود میں آ گیا۔ جس نے ''ہل'' کے مشترکہ انتخابی نشان کے تحت انتخاب لڑنے کا اعلان بھی کر دیا۔ لاہور کے تاریخی ایمبیسیڈر ہوٹل میں پی این اے کی قیادت کے انتخاب کے لیے ان نو سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس جاری تھا۔ عام تاثر یہی تھا کہ ائیر مارشل اصغر خان کی زوردار شخصیت مقبولیت اور جرأت پر انہیں بھٹو کے مقابلے میں پی این اے کے قائد کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اُس زمانے کے مقبول ہفت روزہ ''زندگی'' اور دیگر اخبارات میں اس تاثر پر مبنی خبریں آ چکی تھیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ پی این اے کی سربراہی اجلاس میں نواب زادہ نصراللہ نے باقاعدہ منصوبہ بندی اور ہوشیاری کے ساتھ یہ بندوبست کر لیا کہ ائیر مارشل اصغر خان پی این اے کے سربراہ نہ بن سکیں۔ چنانچہ اجلاس نے مفتی محمود کو پی این اے کا سربراہ اور رفیق باجوہ کو جنرل سیکرٹری منتخب کر لیا۔
اجلاس ختم ہونے پر جب قائدین باہر آئے تو ملکی اور غیر ملکی پریس اُن کا منتظر تھا۔ نواب زادہ نصراللہ آگے آئے تو صحافیوں نے اُن پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ نصراللہ خان نے جب بتایا کہ مفتی محمود کو پی این اے کا سربراہ منتخب کر لیا گیا ہے تو ہفت روزہ ''زندگی'' کے ایڈیٹر جناب مجیب الرحمن شامی جنہیں اس وقت ایک اپوزیشن صحافی ہی نہیں، اپوزیشن لیڈر کا درجہ بھی حاصل تھا، سخت اشتعال میں آ گئے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی جذبات کے برعکس اس طرح کا فیصلہ کیسے کیا گیا؟ اس کے جواب میں نواب زادہ نصراللہ نے کمال تحمل سے جواب دیا کہ تاریخ بتائے گی کہ یہ فیصلہ درست ہے۔ جس پر مجیب الرحمن شامی مزید مشتعل ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مورخ تو میں ہوں، تاریخ میں لکھوں گا اور لوگوں کو بتاؤں گا کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہے۔ یہ عوام کے ساتھ ایک سازش ہے۔ تاہم نواب زادہ نصراللہ نے اس کے جواب میں کسی ترشی کا اظہار نہیں کیا لیکن شاید اس بات کو نوٹ ضرور کر لیا۔
7 مارچ 77ء کو پولنگ ہوئی تو شاید منصوبہ بندی کے تحت پی این اے کے تمام لیڈرز تو جیت گئے لیکن باقی تمام نشستوں پر جھرلو پھر گیا۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار 38 منتخب ارکان قومی اسمبلی نے حلف لینے سے انکار کیا تو شہرشہر ایک ایسی عوامی تحریک ازخود منظم ہو گئی جو بالآخر اس حکومت کے خاتمے پر ہی ختم ہوئی۔ پھر جب ضیاء الحق مرحوم نے پی این اے کو شرکتِ اقتدار کی دعوت دی تو تحریک استقلال اور جمعیت علمائے پاکستان نے یہ دعوت مسترد کر دی جبکہ باقی جماعتوں نے اس دعوت کو قبول کرکے اپنے اپنے وزراء کے نام دے دئیے۔ خود نواب زادہ نصراللہ کی سربراہی پاکستان جمہوری پارٹی نے نوابزادہ افتخار احمد انصاری اور ارشد چودھری کو اپنی پارٹی کی جانب سے نامزد کیا، چنانچہ یہ دنوں حضرات مقررہ وقت تک ضیاء کابینہ کا حصہ رہے۔
لیکن جب حکومت نے انتخابات کا اعلان کیا تو یہ وزراء انتخاب میں حصہ لینے اور صدارتی حکم (کابینہ میں شامل ارکان انتخاب نہیں لڑ سکیں گے) کی پابندی کے باعث باہر آئے۔ گویا اُس وقت تک نواب زادہ نصراللہ حکومت وقت کے ساتھ تھے لیکن جب حکومت نے انتخابات ملتوی کیے تو نواب زادہ کے اندر کا باغی اور اپوزیشن لیڈر باہر آ گیا۔ انہوں نے فوری طور پر بیگم نصرت بھٹو اور دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایم آر ڈی بنا ڈالی اور ضیاء آمریت کے خلاف ایک ایسی تحریک شروع کی جو آخرکار بے نظیر کی وطن واپسی اور ضیاء حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئی۔