وہ کہاں گئے
آج بھی جب ان کی یاد آجاتی ہے دل بے تاب ہو جاتا ہے۔ وہ صاحب علم ہی نہیں، صاحب قلم بھی تھے۔
''وہ کہاں گئے'' لکھتے لکھتے مظہر محمود شیرانی خود ان سے جا ملے جنھیں وہ یاد کر رہے تھے۔ یہ کتاب اشاعت کے لیے بالکل تیار تھی، صرف شیرانی صاحب کے ایک صفحے کے تعارفی مضمون کا انتظار تھا کہ اسی جون کی 12 تاریخ کو ان کا انتقال ہو گیا۔ راشد اشرف کہتے ہیں، کتاب تو آگئی لیکن دل کی کلی جو اس موقع پر کھلنی تھی وہ نہ کھلی۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
''وہ کہاں گئے'' میں گیارہ شخصیتوں اور ان سے وابستہ یادوں کا ذکر ہے۔ ان خاکوں میں جہاں ممدوحین کی شخصیت اجاگر ہوتی ہے وہیں مظہر محمود شیرانی کی اپنی شخصیت کے مختلف پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں۔ وہ ایک نامور علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ خود بھی صاحب علم تھے۔ خاکہ نگاری میں کمال تھا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی فرماتے ہیں ''ایک ماہر مصور کی طرح رنگوں کو ٹھیک ٹھیک صرف کرتے ہوئے مو قلم کی دو چار جنبشوں میں وہ بسا اوقات ایک بولتی تصویر بنا دیتے ہیں۔''
''وہ کہاں گئے'' میں پہلا خاکہ ''فردِ فرید'' ایس۔ایم اکرام کا ہے۔ اکرام صاحب کو اردو، انگریزی اور فارسی تینوں زبانوں پر عبور تھا۔ انھوں نے اپنی تحقیقات کے بیشتر نتائج اردو میں پیش کیے۔ مسلمانان ہند کی معاشرت اور تمدن کے بارے میں ان کی تین کتابیں آبِ کوثر، رودِ کوثر اور موج کوثر مشہور ہیں۔
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی لکھتے ہیں ''اکرام صاحب کے سارے علمی کام تو پڑھے لکھے لوگوں کی نظر میں ہیں۔ یہاں میں ان کی شخصیت کے ایک ایسے پہلو کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کا علم بہت کم لوگوں کو ہوگا۔ وہ یہ کہ موصوف ایام جوانی میں شعر گوئی سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ اطلاع والد مرحوم اختر شیرانی کے رسالے ''رومال'' کے چند شماروں سے ملتی ہے۔''
مظہر شیرانی کو اکتوبر 1936 کے شمارے میں اکرام صاحب کی ایک نظم نظر آئی جو انھوں نے درج کی ہے۔ اس میں چار چار مصرعوں کے چار بند ہیں، پہلا یہ ہے:
ہوئی ہے تو مری غم گسار رہنے دے
جفا سے اپنی ہے اب شرم سار رہنے دے
ستم رسیدوں سے ہے تجھ کو پیار رہنے دے
نہ چھیڑ مجھ کو تغافل شعار' رہنے دے
جسٹس ایس اے رحمان کے خاکے میں مظہر محمود شیرانی لکھتے ہیں۔ ہماری عدلیہ کے اعلیٰ مراتب پر فائز افراد میں دو اشخاص شعر و ادب کے دائرے میں بھی معروف ہوئے۔ ایک جسٹس ایم آر کیانی اور دوسرے جسٹس ایس اے رحمان۔ کیانی صاحب نثر کے مردِ میدان تھے اور رحمان صاحب سخن سرائی کے۔ رحمان صاحب کا ایک شعر ہے:
جہانِ عشق میں دستِ فنا کو بار نہیں
یہاں حیات زبوں و نفس شمار نہیں
شیرانی لکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے فیصلہ کن مراحل سے گزرنے اور پھر نئی مملکت کے قیام کے نتیجے میں رحمان صاحب نے روایتی شاعری سے دستکش ہوکر اپنی توجہ قومی شاعری کی طرف مبذول کرلی تھی۔ رحمان صاحب کا سب سے اہم حوالہ ان کی علم پرستی اور ادب دوستی تھا۔پیر حسام الدین راشدی سے پہلی ملاقات ہی میں مظہر محمود شیرانی ان کے اور وہ ان کے گرویدہ ہوگئے۔ شیرانی صاحب کہتے ہیں کہ مجھ پر ان کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ اگر میری جانب سے خط لکھنے میں تاخیر ہوتی تو اِدھر اُدھر سے میری خیریت دریافت کرتے۔
شیرانی صاحب لکھتے ہیں ''پیر صاحب کو علم سے عشق تھا اور اہل علم کے مزاج میں جو ایک قسم کی۔۔۔۔۔پیدا ہو جاتی ہے اس سے وہ مستثنیٰ تھے۔ وہ تہذیب و شائستگی کے ساتھ زندہ دلی اور خوش مزاجی کے اعتبار سے باغ و بہار شخص تھے۔ جس محفل میں بیٹھتے وہ بارونق ہو جاتی۔ خوب چہکتے اور اپنے چٹکلوں سے محفل کو زعفران زار بنائے رکھتے۔ فارسی زبان اور ادب پر راشدی صاحب کے تحقیقی کام کی ایران میں شایان شان قدر کی گئی اور انھیں نشان سپاس کا اعزاز عطا کیا گیا۔ لیکن وہ چیزوں سے بے نیاز تھے۔''خورشید احمد خاں یوسفی کے خاکے کو مظہر محمود شیرانی نے ''ہر فن مولا'' کا عنوان دیا ہے اور واقعی وہ تھے بھی یہی۔
شیرانی لکھتے ہیں ''پاکستان اور قائد اعظم کے پروانے تو بہت ہیں لیکن خورشید احمد خاں جیسے سوختہ جاں کم ہوں گے۔ یہ محبت ان کے ایمان کا جزو تھی۔ قائد اعظم سے تعلق میں ان کی پہلی کتاب ''قائد اعظم کے شب و روز'' مقتدرہ قومی زبان کے توسط سے 1986 میں منظر عام پر آئی۔'' خورشید صاحب نے ہارڈویئر کا کاروبار کیا، اس سے دل اچاٹ ہوا تو تحریر و طباعت کے دائرے میں قدم رکھا۔ اپنا اشاعتی ادارہ قائم کیا۔ تحقیق و تدوین میں ان کی دلچسپی نے بعض ایسی چیزیں چھوڑی ہیں جو ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ ہومیو پیتھی کی باقاعدہ سند بھی لی اور کلینک میں مریضوں کا علاج بھی کیا۔ شیرانی کہتے ہیں کہ خورشید صاحب نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ ان کی رنگا رنگ دلچسپیوں اور مشاغل کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔
سردار عبدالحمید نکئی مظہر محمود کے بابا اختر شیرانی کے شاگرد تھے۔ وہ سیاست میں شرافت کی نشانی تھے۔ مظہر محمود سے ان کی ملاقات اس وقت ہوئی جب مظہر پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے کے طالب علم تھے۔ ان کے خاکے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان کیسی قربت تھی۔ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی لکھتے ہیں ''میں اپنے آپ کو خوش قسمت اس اعتبار سے سمجھتا ہوں کہ اپنی تعلیم کے آغاز سے یونیورسٹی کی سطح تک مجھے بڑے باکمال اساتذہ میسر ہوئے۔ ان میں ایک ناقابل فراموش نام ڈاکٹر میاں عبدالشکور احسن مرحوم و مغفور کا ہے جن کا کرم میرے حال پر ہمیشہ رہا۔
آج بھی جب ان کی یاد آجاتی ہے دل بے تاب ہو جاتا ہے۔ وہ صاحب علم ہی نہیں، صاحب قلم بھی تھے۔ انھیں اردو، فارسی اور انگریزی تینوں زبانوں میں اظہار خیال پر قدرت حاصل تھی۔ میاں صاحب کی فارسی زبان و ادب کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت ایران نے اپنا سب سے بڑا ادبی اعزاز ''نشان سپاس'' تفویض کیا تھا۔مظہر محمود شیرانی نے حکیم سید محمود احمد برکاتی کی قلمی تصویر کو ''تہذیب مجسم'' کا عنوان دیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں ''قرونِ وسطیٰ کے مسلمان اطبّا محض امراضِ جسمانی کے معالج نہیں ہوتے تھے بلکہ علم اخلاق، نفسیات، فلسفہ، منطق، علم کیمیا وغیرہ علوم پر بھی عبور رکھتے تھے۔ اس بنا پر ان کو لفظِ حکیم سے مخاطب کیا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے پاک و ہند میں آنے کے بعد اس علمی روایت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ پروان چڑھایا۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ دور آخر میں ہند میں اسلامی تہذیب کا عَلم جس انداز سے ہمارے حکما نے تھاما اور بلند رکھا اس کی مثال کوئی دوسرا طبقہ پیش نہ کرسکا۔پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ حکیم محمود احمد برکاتی اس سلسلۃالذہب کی آخری کڑی تھے۔''
''وہ کہاں گئے'' میں گیارہ شخصیتوں اور ان سے وابستہ یادوں کا ذکر ہے۔ ان خاکوں میں جہاں ممدوحین کی شخصیت اجاگر ہوتی ہے وہیں مظہر محمود شیرانی کی اپنی شخصیت کے مختلف پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں۔ وہ ایک نامور علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ خود بھی صاحب علم تھے۔ خاکہ نگاری میں کمال تھا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی فرماتے ہیں ''ایک ماہر مصور کی طرح رنگوں کو ٹھیک ٹھیک صرف کرتے ہوئے مو قلم کی دو چار جنبشوں میں وہ بسا اوقات ایک بولتی تصویر بنا دیتے ہیں۔''
''وہ کہاں گئے'' میں پہلا خاکہ ''فردِ فرید'' ایس۔ایم اکرام کا ہے۔ اکرام صاحب کو اردو، انگریزی اور فارسی تینوں زبانوں پر عبور تھا۔ انھوں نے اپنی تحقیقات کے بیشتر نتائج اردو میں پیش کیے۔ مسلمانان ہند کی معاشرت اور تمدن کے بارے میں ان کی تین کتابیں آبِ کوثر، رودِ کوثر اور موج کوثر مشہور ہیں۔
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی لکھتے ہیں ''اکرام صاحب کے سارے علمی کام تو پڑھے لکھے لوگوں کی نظر میں ہیں۔ یہاں میں ان کی شخصیت کے ایک ایسے پہلو کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کا علم بہت کم لوگوں کو ہوگا۔ وہ یہ کہ موصوف ایام جوانی میں شعر گوئی سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ اطلاع والد مرحوم اختر شیرانی کے رسالے ''رومال'' کے چند شماروں سے ملتی ہے۔''
مظہر شیرانی کو اکتوبر 1936 کے شمارے میں اکرام صاحب کی ایک نظم نظر آئی جو انھوں نے درج کی ہے۔ اس میں چار چار مصرعوں کے چار بند ہیں، پہلا یہ ہے:
ہوئی ہے تو مری غم گسار رہنے دے
جفا سے اپنی ہے اب شرم سار رہنے دے
ستم رسیدوں سے ہے تجھ کو پیار رہنے دے
نہ چھیڑ مجھ کو تغافل شعار' رہنے دے
جسٹس ایس اے رحمان کے خاکے میں مظہر محمود شیرانی لکھتے ہیں۔ ہماری عدلیہ کے اعلیٰ مراتب پر فائز افراد میں دو اشخاص شعر و ادب کے دائرے میں بھی معروف ہوئے۔ ایک جسٹس ایم آر کیانی اور دوسرے جسٹس ایس اے رحمان۔ کیانی صاحب نثر کے مردِ میدان تھے اور رحمان صاحب سخن سرائی کے۔ رحمان صاحب کا ایک شعر ہے:
جہانِ عشق میں دستِ فنا کو بار نہیں
یہاں حیات زبوں و نفس شمار نہیں
شیرانی لکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے فیصلہ کن مراحل سے گزرنے اور پھر نئی مملکت کے قیام کے نتیجے میں رحمان صاحب نے روایتی شاعری سے دستکش ہوکر اپنی توجہ قومی شاعری کی طرف مبذول کرلی تھی۔ رحمان صاحب کا سب سے اہم حوالہ ان کی علم پرستی اور ادب دوستی تھا۔پیر حسام الدین راشدی سے پہلی ملاقات ہی میں مظہر محمود شیرانی ان کے اور وہ ان کے گرویدہ ہوگئے۔ شیرانی صاحب کہتے ہیں کہ مجھ پر ان کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ اگر میری جانب سے خط لکھنے میں تاخیر ہوتی تو اِدھر اُدھر سے میری خیریت دریافت کرتے۔
شیرانی صاحب لکھتے ہیں ''پیر صاحب کو علم سے عشق تھا اور اہل علم کے مزاج میں جو ایک قسم کی۔۔۔۔۔پیدا ہو جاتی ہے اس سے وہ مستثنیٰ تھے۔ وہ تہذیب و شائستگی کے ساتھ زندہ دلی اور خوش مزاجی کے اعتبار سے باغ و بہار شخص تھے۔ جس محفل میں بیٹھتے وہ بارونق ہو جاتی۔ خوب چہکتے اور اپنے چٹکلوں سے محفل کو زعفران زار بنائے رکھتے۔ فارسی زبان اور ادب پر راشدی صاحب کے تحقیقی کام کی ایران میں شایان شان قدر کی گئی اور انھیں نشان سپاس کا اعزاز عطا کیا گیا۔ لیکن وہ چیزوں سے بے نیاز تھے۔''خورشید احمد خاں یوسفی کے خاکے کو مظہر محمود شیرانی نے ''ہر فن مولا'' کا عنوان دیا ہے اور واقعی وہ تھے بھی یہی۔
شیرانی لکھتے ہیں ''پاکستان اور قائد اعظم کے پروانے تو بہت ہیں لیکن خورشید احمد خاں جیسے سوختہ جاں کم ہوں گے۔ یہ محبت ان کے ایمان کا جزو تھی۔ قائد اعظم سے تعلق میں ان کی پہلی کتاب ''قائد اعظم کے شب و روز'' مقتدرہ قومی زبان کے توسط سے 1986 میں منظر عام پر آئی۔'' خورشید صاحب نے ہارڈویئر کا کاروبار کیا، اس سے دل اچاٹ ہوا تو تحریر و طباعت کے دائرے میں قدم رکھا۔ اپنا اشاعتی ادارہ قائم کیا۔ تحقیق و تدوین میں ان کی دلچسپی نے بعض ایسی چیزیں چھوڑی ہیں جو ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ ہومیو پیتھی کی باقاعدہ سند بھی لی اور کلینک میں مریضوں کا علاج بھی کیا۔ شیرانی کہتے ہیں کہ خورشید صاحب نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ ان کی رنگا رنگ دلچسپیوں اور مشاغل کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔
سردار عبدالحمید نکئی مظہر محمود کے بابا اختر شیرانی کے شاگرد تھے۔ وہ سیاست میں شرافت کی نشانی تھے۔ مظہر محمود سے ان کی ملاقات اس وقت ہوئی جب مظہر پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے کے طالب علم تھے۔ ان کے خاکے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان کیسی قربت تھی۔ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی لکھتے ہیں ''میں اپنے آپ کو خوش قسمت اس اعتبار سے سمجھتا ہوں کہ اپنی تعلیم کے آغاز سے یونیورسٹی کی سطح تک مجھے بڑے باکمال اساتذہ میسر ہوئے۔ ان میں ایک ناقابل فراموش نام ڈاکٹر میاں عبدالشکور احسن مرحوم و مغفور کا ہے جن کا کرم میرے حال پر ہمیشہ رہا۔
آج بھی جب ان کی یاد آجاتی ہے دل بے تاب ہو جاتا ہے۔ وہ صاحب علم ہی نہیں، صاحب قلم بھی تھے۔ انھیں اردو، فارسی اور انگریزی تینوں زبانوں میں اظہار خیال پر قدرت حاصل تھی۔ میاں صاحب کی فارسی زبان و ادب کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت ایران نے اپنا سب سے بڑا ادبی اعزاز ''نشان سپاس'' تفویض کیا تھا۔مظہر محمود شیرانی نے حکیم سید محمود احمد برکاتی کی قلمی تصویر کو ''تہذیب مجسم'' کا عنوان دیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں ''قرونِ وسطیٰ کے مسلمان اطبّا محض امراضِ جسمانی کے معالج نہیں ہوتے تھے بلکہ علم اخلاق، نفسیات، فلسفہ، منطق، علم کیمیا وغیرہ علوم پر بھی عبور رکھتے تھے۔ اس بنا پر ان کو لفظِ حکیم سے مخاطب کیا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے پاک و ہند میں آنے کے بعد اس علمی روایت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ پروان چڑھایا۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ دور آخر میں ہند میں اسلامی تہذیب کا عَلم جس انداز سے ہمارے حکما نے تھاما اور بلند رکھا اس کی مثال کوئی دوسرا طبقہ پیش نہ کرسکا۔پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ حکیم محمود احمد برکاتی اس سلسلۃالذہب کی آخری کڑی تھے۔''