شہریت
بہت سے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے بیرون ِ ملک جاتے ہیں اور پھر وہیں کی شہریت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں موجودہ حکومت نے دُہری شہریت والے وزراء اور سیاست دانوں کا نوٹس لے کر چند ایک کو حکومتی عہدے سے برطرف کیا ہے۔ اس اقدام سے کیا حاصل ہو گا، یہ وقت کے حکمران جانیں کیونکہ اس سے پہلے اور ان سے بھی پہلے حاکمان ِ اعلیٰ کو اس ایشو پر نہ کوئی پریشانی ہوئی نہ ہی انھوں نے اس پر کبھی توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی۔
لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور اُٹھتا ہو گا کہ حکمران اعلیٰ کا کام ہے، وہ دیکھے کہ جس نے کسی دوسرے ملک کا بھی حلف وفاداری اُٹھا رکھا ہے، اس ملک کی پالیسیوں کی ہسٹری کیا ہے اور کہیں وہ ملک پاکستان کے مفادات کو پس ِ پشت ڈال کر الٹا ہمیں کو نقصان تو نہیں پہنچانے لگے گا لہٰذا دوہری شہریت پر کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے بہ نظر ِ عمیق یہ دیکھنا اہم ہے کہ اس دوسرے ملک سے ہمارے تعلقات کیسے رہے ہیں اور ہر دو کے مفادات کا کہیں ٹکرائو تو نہیں۔
ہمارے تو سیکڑوں بیوروکریٹ بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں اور کئی درجن وزراء ہی نہیں حکمرانوں اور عہدیداروں کے بارے میں دستاویزی ثبوت ہیں کہ انھوں نے غیر ممالک میں پیسے کا کھیل کھیلنے کے لیے معمولی ملازمتوںکے اقامے لے رکھے ہیں۔ یہاں مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے ناموں اور ملازمتوں کا ذکر کیا جائے کیونکہ اس سے ملک کی حرمت مجروح ہو گی لیکن ان اقامہ ہولڈروں کے نام سے تمام لوگ واقف ہیں۔
دوہری شہریت کے ممبران حکومت کی تو ایک بات رہی، گزشتہ اسمبلیوں کے متعدد اور موجودہ حکومت کے کئی عہدیدار جعلی ڈگری ہولڈرز کی مشکوک لسٹ میں سمجھے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہم نے نالائق ڈگری ہولڈروں کو صوبائی اور قومی اسمبلی میں پورا پورا سیشن ہونق اور خاموش صرف مراعات حاصل کرنے کے لیے منتخب ہو کر حاضری لگوانے کے بعد اسمبلیوں سے غائب ہوتے دیکھا ہے۔
جنرل مشرف کی اسمبیلیوں میں تو کئی سو ممبر انڈر گریجویٹ تھے جنھوں نے پوری پانچ سال کی ٹرم ایک فقرہ تک Contribute کیے بغیر پوری کی۔ سابق حکومتوں کو چھوڑیے ذات برادری تعلقات ، دوستی ، سیاسی وابستگی ، پیسے کی بنیاد پر بار بار اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے والے آج بھی وہی پرانا کھیل کھیل رہے ہیں، وہ انگوٹھا چھاپ اور جی حضوریے ہیں اور اسمبلیوں کا ریکارڈ اس کی گواہی دے گا کہ ان کی Contribution یس سر نو سر اور شور شرابے تک محدود ہوتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب اہم سرکاری عہدوں پر تعیناتی کے لیے دیانتدار اور قابل ہونا معیار ہوتا تھا، پھر بتدریج بد دیانت اور جی حضوریے بیورکریٹوں کا اعلیٰ عہدوں پر قبضہ ہو گیا، مرضی کی تجاویز فائلوں پر تحریر کی جاتیں، فیصلوںکے لیے افسروں سے حسب ِ خواہش Summaries لکھوا کر منظور کی جاتیں اور خلاف ضابطہ فیصلوں کا ملبہ بیوروکریٹ پر ڈال کر اسے بچانے کا بندوبست بھی کر لیا جاتا ہے۔
جب وزیر ِ اعظم ، وزیر اور حکمران اپنی پسند، مرضی اور مزاج کا افسر بطور سیکریٹری اور PS لیتے ہیں تو یہ دونوں اصول، قانون ، ضابطے کو بالائے طاق رکھ کر حکمران کی مرضی کا کیس بنا کر ، قانون سے انحراف ہی کیوںنہ ہو ، منظوری لے لیتے ہیں۔ اگر دفتر کی فائلوں کا جائزہ لینے کے لیے کوئی کمیٹی یا کمیشن تشکیل دے کر جائزہ لیا جائے تو رونگٹے کھڑے کر دینے والے نتائج سامنے آئیں گے۔ یہ طریقہ اختیار کرنے میں اس لیے اجتناب کیا جاتا ہے کہ ہر حکمران کو کسی روز خود بھی ننگے ہو جانے کا خوف ہوتا ہے۔ ایسے پالتو ماتحت حکمرانوں کے سامنے یس سر ، اوکے سر کہتے دیکھے جاتے اور ماتحتوں کے منہ پر فائلیں دے مارتے ہیں۔
ذکر ہو رہا تھا دُہری شہریت والوں سے احتیاط کا کہ حکومت چلانے کے دوران حکومت خود کسی مشکل میں گرفتار ہو کر ملک کی تباہی کا رستہ نہ اختیار کر بیٹھے کیونکہ دوسرے ملک سے وفاداری کا عہد اپنی جگہ اہم ہوتا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ ایک ملک میں پیدا ہونے، اسی ملک میں رشتہ داریاں، دوستیاں اور تعلق رکھنے والے دوسرے ملک کی شہریت بھی کیوں لے لیتے ہیں ۔ مشاہدہ یہی ہے کہ اس کی جو چند وجوہات ہیں وہ ڈھکی چھپی نہیں ہیں، ایسی ہستیاں کئی ہیں اور نامی گرامی ہیں لیکن انھوں نے ہر حال میں اپنے وطن ہی کو فوقیت دی۔ وطن سے رشتہ ماں جیسا ہوتا ہے اور کوئی بدنصیب ہی اس سے روگردانی کر سکتا ہے۔
بہت سے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے بیرون ِ ملک جاتے ہیں اور پھر وہیں کی شہریت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ کئی لوگ آمد و رفت کی سہولت کے پیش نظر اور بہت سے لوگ کاروباری مقاصد کی غرض سے بھی دوسرے ملک کی شہریت لے لینا فائدہ مند پاتے ہیں۔ ہمارے بعض دوستوں نے البتہ بلا مقصد بھی دوہری شہریت لے رکھی ہے۔ الغرض خصلت بد نہ ہو تو دوہری شہریت سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور اُٹھتا ہو گا کہ حکمران اعلیٰ کا کام ہے، وہ دیکھے کہ جس نے کسی دوسرے ملک کا بھی حلف وفاداری اُٹھا رکھا ہے، اس ملک کی پالیسیوں کی ہسٹری کیا ہے اور کہیں وہ ملک پاکستان کے مفادات کو پس ِ پشت ڈال کر الٹا ہمیں کو نقصان تو نہیں پہنچانے لگے گا لہٰذا دوہری شہریت پر کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے بہ نظر ِ عمیق یہ دیکھنا اہم ہے کہ اس دوسرے ملک سے ہمارے تعلقات کیسے رہے ہیں اور ہر دو کے مفادات کا کہیں ٹکرائو تو نہیں۔
ہمارے تو سیکڑوں بیوروکریٹ بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں اور کئی درجن وزراء ہی نہیں حکمرانوں اور عہدیداروں کے بارے میں دستاویزی ثبوت ہیں کہ انھوں نے غیر ممالک میں پیسے کا کھیل کھیلنے کے لیے معمولی ملازمتوںکے اقامے لے رکھے ہیں۔ یہاں مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے ناموں اور ملازمتوں کا ذکر کیا جائے کیونکہ اس سے ملک کی حرمت مجروح ہو گی لیکن ان اقامہ ہولڈروں کے نام سے تمام لوگ واقف ہیں۔
دوہری شہریت کے ممبران حکومت کی تو ایک بات رہی، گزشتہ اسمبلیوں کے متعدد اور موجودہ حکومت کے کئی عہدیدار جعلی ڈگری ہولڈرز کی مشکوک لسٹ میں سمجھے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہم نے نالائق ڈگری ہولڈروں کو صوبائی اور قومی اسمبلی میں پورا پورا سیشن ہونق اور خاموش صرف مراعات حاصل کرنے کے لیے منتخب ہو کر حاضری لگوانے کے بعد اسمبلیوں سے غائب ہوتے دیکھا ہے۔
جنرل مشرف کی اسمبیلیوں میں تو کئی سو ممبر انڈر گریجویٹ تھے جنھوں نے پوری پانچ سال کی ٹرم ایک فقرہ تک Contribute کیے بغیر پوری کی۔ سابق حکومتوں کو چھوڑیے ذات برادری تعلقات ، دوستی ، سیاسی وابستگی ، پیسے کی بنیاد پر بار بار اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے والے آج بھی وہی پرانا کھیل کھیل رہے ہیں، وہ انگوٹھا چھاپ اور جی حضوریے ہیں اور اسمبلیوں کا ریکارڈ اس کی گواہی دے گا کہ ان کی Contribution یس سر نو سر اور شور شرابے تک محدود ہوتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب اہم سرکاری عہدوں پر تعیناتی کے لیے دیانتدار اور قابل ہونا معیار ہوتا تھا، پھر بتدریج بد دیانت اور جی حضوریے بیورکریٹوں کا اعلیٰ عہدوں پر قبضہ ہو گیا، مرضی کی تجاویز فائلوں پر تحریر کی جاتیں، فیصلوںکے لیے افسروں سے حسب ِ خواہش Summaries لکھوا کر منظور کی جاتیں اور خلاف ضابطہ فیصلوں کا ملبہ بیوروکریٹ پر ڈال کر اسے بچانے کا بندوبست بھی کر لیا جاتا ہے۔
جب وزیر ِ اعظم ، وزیر اور حکمران اپنی پسند، مرضی اور مزاج کا افسر بطور سیکریٹری اور PS لیتے ہیں تو یہ دونوں اصول، قانون ، ضابطے کو بالائے طاق رکھ کر حکمران کی مرضی کا کیس بنا کر ، قانون سے انحراف ہی کیوںنہ ہو ، منظوری لے لیتے ہیں۔ اگر دفتر کی فائلوں کا جائزہ لینے کے لیے کوئی کمیٹی یا کمیشن تشکیل دے کر جائزہ لیا جائے تو رونگٹے کھڑے کر دینے والے نتائج سامنے آئیں گے۔ یہ طریقہ اختیار کرنے میں اس لیے اجتناب کیا جاتا ہے کہ ہر حکمران کو کسی روز خود بھی ننگے ہو جانے کا خوف ہوتا ہے۔ ایسے پالتو ماتحت حکمرانوں کے سامنے یس سر ، اوکے سر کہتے دیکھے جاتے اور ماتحتوں کے منہ پر فائلیں دے مارتے ہیں۔
ذکر ہو رہا تھا دُہری شہریت والوں سے احتیاط کا کہ حکومت چلانے کے دوران حکومت خود کسی مشکل میں گرفتار ہو کر ملک کی تباہی کا رستہ نہ اختیار کر بیٹھے کیونکہ دوسرے ملک سے وفاداری کا عہد اپنی جگہ اہم ہوتا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ ایک ملک میں پیدا ہونے، اسی ملک میں رشتہ داریاں، دوستیاں اور تعلق رکھنے والے دوسرے ملک کی شہریت بھی کیوں لے لیتے ہیں ۔ مشاہدہ یہی ہے کہ اس کی جو چند وجوہات ہیں وہ ڈھکی چھپی نہیں ہیں، ایسی ہستیاں کئی ہیں اور نامی گرامی ہیں لیکن انھوں نے ہر حال میں اپنے وطن ہی کو فوقیت دی۔ وطن سے رشتہ ماں جیسا ہوتا ہے اور کوئی بدنصیب ہی اس سے روگردانی کر سکتا ہے۔
بہت سے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے بیرون ِ ملک جاتے ہیں اور پھر وہیں کی شہریت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ کئی لوگ آمد و رفت کی سہولت کے پیش نظر اور بہت سے لوگ کاروباری مقاصد کی غرض سے بھی دوسرے ملک کی شہریت لے لینا فائدہ مند پاتے ہیں۔ ہمارے بعض دوستوں نے البتہ بلا مقصد بھی دوہری شہریت لے رکھی ہے۔ الغرض خصلت بد نہ ہو تو دوہری شہریت سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔