چیف جسٹس تصدق جیلانی کا چیلنج
چیف جسٹس کی ذات پرطعنوں، تشنئوں سے بھرپورحملے متوقع تھے، بہت سے دلوں میں چھپے ہوئے بغض صرف اس دن کا انتظار کررہےتھے
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
میرا ارادہ تھا کہ آج میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں ہونے والی اُن ذاتی اور عدالتی غلطیوں کی نشاندہی کروں جن کی وجہ سے وہ اُس غیر معمولی موقع سے صحیح فائدہ نہ اُٹھا سکے جو قدرت نے اُن کو عطا کیا تھا۔ پچھلے دو کالموں کے بعد آج مجھے تصویر کے دوسرے رخ پر روشنی ڈالنی تھی تا کہ ایک متوازن نقطہ نظر سامنے آ سکے اور پچھلے چند سال میں ہونے والے واقعات منطقی تجزیے کے پیرائے میں پیش کیے جا سکیں مگر میں نے اب یہ ارادہ ترک کر دیا ہے۔ چیف جسٹس کے مسند سے اترتے ہی جو طوفان بدتمیزی بپا کر دیا گیا ہے' اُس کے پس منظر میں کہا اور لکھا ہر تنقیدی جملہ اُسی گند کا حصہ لگے گا جو غلاظت کے بیوپاری اِس وقت ہر طرف اچھال کر اِترا رہے ہیں۔ یہی معاملہ آج کا موضوع ہے۔
چیف جسٹس کی ذات پر طعنوں، تشنئوں سے بھرپور حملے متوقع تھے۔ بہت سے دلوں میں چھپے ہوئے بغض صرف اس دن کا انتظار کر رہے تھے کہ جب وہ کسی پوچھ اور احتساب کے خوف سے آزاد ہو کر گالم گلوچ کی صورت میں رونما ہوں۔ بدقسمتی سے ارسلان افتخار کی متنازعہ دوستیوں نے آخری دن بھی خوامخواہ کا اسکینڈل کھڑا کر کے یہ موقع مزید آسان بنا دیا۔ صحافی بہت کچھ برداشت کر لیتے ہیں مگر معلومات دینے میں عدم انصاف اور بے اصولی پر مبنی ترجیح ہضم نہیں کرتے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جس شد و مد کے ساتھ چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ کے فوراً بعد اُن کے نام پر کالک ملی جا رہی ہے اُس کا تعلق آخری روز ہونے والے کسی واقعہ سے نہیں ہے۔ یہ سب کچھ پہلے سے تیار شدہ تھا۔ تیزاب کی اس بارش کا اہتمام بڑی احتیاط سے کیا گیا تھا۔
اس کے باوجود جس بدزبانی اور چھوٹے پن کے مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں' وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ تنقید غیر معیاری ہو سکتی ہے۔ مگر اتنی گھٹیا؟ اتنی گری ہوئی؟ اتنی اوچھی؟ یہ صرف وہی کر سکتے ہیں جو کر رہے ہیں۔ ویسے کیا ہی اچھا ہوتا کہ جن کیمروں کی طرف منہ کر کے یہ سب واویلا کر رہے ہیں' اُن پر ایک آئینہ بھی لگا ہوتا۔ بات کرتے ہوئے اگر یہ اپنا چہرہ اور ٹوٹے ہوئے بٹنوں والا گریبان دیکھ لیتے تو شاید ایک آدھ مرتبہ نظر ہی نیچی کر لیتے۔ مگر شاید یہ پھر بھی نہ چوکتے آج کل داغدار دامن ایک شاندار مستقبل کی ضامن ہیں۔ لاج سونے کے بھائو بکتی ہے۔ آنکھ میں بال نولکھے ہار سے زیادہ قیمتی ہے۔ منڈے ہوئے سر اور بھنوئیں خوبصورتی کی علامت ہیں۔ اِن حالات میں ایک آئینہ کیا کر لیتا۔
آپ اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف چلنے والی مہم ایک انفرادی معاملہ ہے جس پر خوامخواہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تو یہ ایک غلط فہمی ہے۔ نہ ہی آپ اس خیال کو ذہن میں جگہ دیں کہ میں ان سطروں کے ذریعے اُن کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہرگز نہیں۔ میں نے پہلے ہی عرض کر دیا تھا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے عدالتی دور میں کئی ایسے افعال کیے جو ناقص اور عیب والے تھے۔ اُن کو افسرانہ ٹھاٹ باٹ اور حکم صادر فرمانے کا شوق تھا۔ میڈیا میں اپنی موجودگی اُن کو بھاتی تھی اور سب سے بڑھ کر وہ اپنی اولاد کے طور طریقوں اور اعمال کو اپنے منصب کے تقاضوں کے مطابق ڈھال نہ سکے۔ وہ چاپلوسی اور عزت میں تفریق بھی نہیں کرتے تھے۔ جبھی تو درباری قلم کاروں اور طوطا چشم سیاستدانوں کے سات سلاموں کو آخری دن تک اپنی مقبولیت کی دلیل سمجھتے رہے۔ مگر اِن دنوں اُن کے خلاف کھلا ہوا محاذ کوئی عام ردعمل نہیں ہے۔ کردار کشی کی اس مہم میں تمام عدلیہ (بشمول اور بالخصوص نئے چیف جسٹس تصدق جیلانی محترم) کے لیے کھلا پیغام ہے کہ اگر انھوں نے اپنے طور طریقے نہ بدلے تو ان کا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہو گا۔
ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری پر تنقید کے اس تمام عمل میں موجودہ جج صاحبان کی طرف بھی کافی کیچڑ پھینکا جا رہا ہے۔ سازش نہ ہونے کی صورت میں بھی سازش تو ہو رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اپنے تمام تر اختیارات کے باوجود سنیئر جج صاحبان کی مدد، منشاء اور مشورے سے عدالت چلاتے تھے۔ اُن کے زمانے میں اگر عدالت عظمیٰ نے غیر معمولی تندی کا مظاہرہ کیا تھا تو اُس میں تھوڑا یا بہت حصہ سب نے ڈالا تھا۔ ہم میں سے جس کسی کو بھی عدالت عظمیٰ کی مختلف کارروائیوں کو قریب سے دیکھنے اور مختلف جج صاحبان کے بیانات قلم بند کرنے کا موقع ملا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اس وقت کا عدالتی مزاج صرف ایک جج کی شخصیت کا پر تو نہیں تھا۔ بہت سے از خود اُس طرز عمل کو اپنائے ہوئے تھے جس کو اب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ذاتی ترجیح قرار د ے کر افواہ سازی اور بہتان تراشی کی جا رہی ہے۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری تمام ججز کی مرضی کے خلاف من مانیاں کرتے تھے تو بھی تمام عدلیہ پر یہ حرف تو آئے گا کہ وہ ان مبینہ ماورائے منصب و مسند و مرتبے کارروائیوں کو اتنے لمبے عرصے کیسے ہضم کرتے رہے۔
کیا اُن کے ایمان اتنے ہی کمزور تھے کہ وہ منہ سے یا اپنے فیصلوں سے سپریم کورٹ کے طریقہ کار سے متعلق ایک بھی اختلافی نکتہ نہ اُٹھا سکے؟ آ پ جس زاویے سے بھی دیکھیں گے ذرایع ابلاغ کے ذریعے افتخار چوہدری پر ہونے ولی نشانہ بازی کا اصل حدف عدلیہ ہی بنتی ہے۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ اگر سابق چیف جسٹس یا اُن کے خاندان کے کسی فرد کے خلاف بے ضابطگیوں کے ثبوت ہیں تو قانونی کارروائی کے ذریعے احتساب کیا جا ئے۔ مگر حالات حاضرہ کی آڑ میں اوچھے وار کرنے کی موجودہ واردات کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اگر محترم چیف جسٹس تصدق جیلانی کو عدالت عظمیٰ کی قدر و منزلت اور تقدس کو بچانا ہے تو ما ضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے ساتھ ان گٹروں پر سختی سے ڈھکن جمانے ہوں گے جو عدالت کے بخیے ادھیڑنے میں مصروف ہیں۔ نئی عدالت کے لیے چکنی چپڑی خوشامد کرنے والے اگر میٹھا زہر ہیں تو زہر اگلنے والے بھی ایک واضح خطرہ ہیں۔ جج صاحبان کو ان دونوں کو دھتکارنا پڑے گا۔