شفاف انتخابات اور بصیرت
الیکشن کمیشن کے عملے نے انتہائی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایک اسکول میں 10،10 پولنگ اسٹیشن قائم کیے
عام انتخابات میں مقناطیسی سیاہی استعمال نہیں کی گئی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے انکشاف نے 11 مئی کے انتخابات کی شفافیت پر اٹھائے گئے اعتراضات کی تصدیق کردی۔ وزیر داخلہ نے نادرا کے سربراہ محمد طارق ملک کو یکطرفہ طور پر ان کے عہدے سے معزول کرنے کے فیصلے سے پیدا ہونے والے تنازعے پر قومی اسمبلی میں نمایندگی کرنے والی جماعتوں کے پارلیمانی سربراہوں کے نام خط میں نادرا پر الزام عائد کیا ہے کہ نادرا نے مطلوبہ آلات کے بغیر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق شروع کردی۔ ان کا کہنا ہے کہ نادرا دیانتدار افراد کا ادارہ ہے، ایک شخص کی محبت میں اہم مسئلے کو سیاسی بنانا مناسب نہیں۔ 11 مئی 2013 کے انتخابات کی ایک سال قبل تیاری شروع ہوگئی تھی۔ آئین میں کی گئی 20 ویں ترمیم کے تحت متفقہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر عمل میں آیا تھا۔ اسی طرح عبوری حکومت کا طریقہ کار بھی طے ہوا تھا۔ الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کے لیے ایک جامع حکمت عملی کو عیاں کیا تھا۔
اس حکمت عملی کے تحت نادرا کے ڈیٹابیس کی بنیاد پر ووٹر لسٹیں تیار ہوئی تھیں۔ سپریم کورٹ نے کراچی میں ووٹر لسٹ پر ہونے والے اعتراضات کے ازالے کے لیے خصوصی فیصلہ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح شفاف انتخابات کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال، مقناطیسی سیاہی اور پولنگ اسٹیشنوں پر نگراں کیمروں کی تنصیب کا منصوبہ بنایا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اس سال یوم ووٹ مناتے ہوئے مختلف شہروں میں سیمینار منعقد کیے تھے۔ محسوس ہوتا تھا کہ اتنے مضبوط انتظامات کی بناء پر ملک میں تاریخ ساز شفاف انتخابات منعقد ہوں گے مگر 11 مئی کو حقائق نے ثابت کیا کہ یہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ غیر منظم انتخابات تھے۔ ووٹرز لسٹیں جب حتمی طور پر شایع ہوئیں تو یہ انکشافات ہوئے تھے کہ ایک ہی خاندان کے افراد کے ووٹ مختلف حلقوں میں بانٹ دیے گئے تھے، مگر انتخاب والے دن جو افراتفری ہوئی وہ ناقابلِ تصور تھی۔
الیکشن کمیشن کے عملے نے انتہائی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایک اسکول میں 10،10 پولنگ اسٹیشن قائم کیے تھے۔ بہت سے پولنگ اسٹیشن گنجان آبادیوں کے درمیان قائم تھے جہاں سیکیورٹی فراہم کرنا ناممکن تھا۔ ملک میں بہت سے مقامات پر پولنگ کے عملے کا تقرر ہی نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح بیلٹ پیپرز، بیلٹ بکس اور مقناطیسی سیاہی بہت دیر سے فراہم کی گئی تھی۔ بہت کم مقامات پر وقت پر پولنگ شروع ہوئی تھی۔ اکثر پولنگ اسٹیشنوں میں 10 بجے صبح کے بعد پولنگ شروع ہوئی تھی۔ کراچی میں تو بعض پولنگ اسٹیشنوں میں دوپہر 2 بجے پولنگ شروع ہوپائی تھی۔ جب پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹوں کی گنتی کا مرحلہ آیا تو فوج، رینجرز اور پولیس کے دستے لاپتہ ہوگئے تھے۔ اس طرح مسلح گروپوں کو پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کا موقع ملا۔ بعض سیاسی جماعتوں کے ارکان نے الزام لگایا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کے بعد جعلی انگوٹھے لگائے گئے اور اپنے حامی امیدواروں کے خانے میں مہریں لگائی گئیں۔
مسلم لیگ ن کے علاوہ تمام بڑی جماعتوں نے انتخابات کی شفافیت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا مگر جب تحریک انصاف کے کارکنوں نے کراچی اور لاہور میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف دھرنے دیے تو مسلم لیگ کا یہ واضح موقف تھا کہ دھاندلیوں کے ثبوت الیکشن ٹریبونل کے سامنے پیش کیے جانے چاہئیں۔ اس دفعہ ان پٹیشنوں کی بھرمار ہوگئی۔ ہارنے والے امیدواروں نے پہلی دفعہ ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ نادرا نے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے لیے لاکھوں روپے طلب کیے، بعض امیدواروں نے یہ رقوم جمع کرادیں۔ انتخابی پٹیشن میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا معاملہ سب سے پہلے کراچی میں اٹھایا گیا۔ نادرا نے دو قومی اسمبلی کے حلقوں میں ہزاروں ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہ ہونے کی رپورٹ پیش کی۔ ان میں ایک حلقہ کراچی سے کامیاب ہونے والے مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی حکیم بلوچ کا تھا۔
اگرچہ الیکشن ٹریبونلز نے ابھی تک نادرا کی ووٹروں کے انگوٹھوں کی رپورٹ کی بنیاد پر کسی انتخاب کو کالعدم قرار نہیں دیا مگر تحریک انصاف کے امیداروں نے پنجاب میں بھی اسی طرح کی درخواستوں پر زور دینا شروع کردیا۔ الیکشن ٹریبونلز کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہے اور اس عمل میں دو سال سے زائد کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے مگر وفاقی حکومت نے خطرے کی بو کو محسوس کرلیا۔ حکومت نے نادرا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اس کے چیئرمین محمد طارق ملک کو بغیر نوٹس دیے عہدے سے ہٹادیا۔ پھر ان کے تقرر کے طریقہ کار کو غیر قانونی قرار دے کر ان کی برطرفی کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے نادرا کے چیئرمین محمد طارق ملک کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کو غیر قانونی قرار دینے پر وفاقی حکومت دفاعی رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئی۔ یوں اب مقناطیسی سیاہی کی عدم دستیابی کا انکشاف کرکے نادرا کو اس معاملے سے علیحدہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کا استعفیٰ تھا۔ فخر الدین جی ابراہیم نے ساری زندگی سچائی کے اصولوں کی پاسداری میں گزرای اور اپنے آدرش کی خاطر جنرل ضیاء الحق جیسے آمر کی پیشکش کو مسترد کردیا تھا۔ بظاہر تو فخر الدین جی ابراہیم نے ذاتی وجوہات کی بناء پر استعفیٰ دیا تھا مگر صدارتی انتخاب کے فوراً بعد ان کا استعفیٰ الیکشن کمیشن کے اپنے نظام میں تضادات کا اظہار تھا۔
18ویں ترمیم کے تحت مکمل خودمختاری حاصل کرنے والے الیکشن کمیشن کے 4 اراکین کو چاروں صوبوں کے چیف جسٹس نامزد کرتے ہیں۔ یہ اراکین آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ جب 18ویں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کے اراکین کے تقرر کا طریقہ کار طے ہوا تھا تو یہ بات مدنظر رکھی گئی تھی کہ الیکشن کمیشن کے اراکین آزادانہ طور پر نامزد کیے جائیں گے تاکہ وہ ہمیشہ اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھ سکیں۔ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اور چاروں صوبوں کے نامزد کردہ اراکین میں عملی طور پر ہم آہنگی نہ پیدا ہوپائی۔ یہ اراکین جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی ڈاکٹرائن کو قبول نہیں کر پائے، سابق چیف الیکشن کمشنر نے نجی ملاقاتوں میں اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ان کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ کمیشن کی بیوروکریسی اپنی مرضی سے فیصلے کرتی رہی جس کے نتیجے میں انتخابات کے ناقص انتظامات ہوئے۔ چوہدری نثار علی خان کا پولنگ اسٹیشنوں پر مقناطیسی سیاہی فراہم نہ کرنے کا انکشاف الیکشن کمیشن کے اپنے تضادات کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب فخر الدین جی ابراہیم نے استعفیٰ دیا تھا تو وزیراعظم نواز شریف نے جسٹس صاحب کی خدمات کو مختصر خراج تحسین پیش کر کے معاملے کو نمٹادیا تھا جب کہ پیپلز پارٹی نے ان پر تنقید کرکے اپنی شکست کا بدلہ لیا تھا۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کو فخر الدین جی ابراہیم کے استعفیٰ پر تفصیلی بحث کرنی چاہیے تھی اور ضروری محسوس ہوتا تو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن قائم ہوسکتا تھا۔ اب جب الیکشن ٹریبونل کے فیصلے سامنے آنے کا وقت ہوا ہے تو اسلام آباد میں پریشانی بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ بعض حلقوں کو خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ نان سویلین اسٹیبلشمنٹ انگوٹھوں کی تصدیق کے معاملے سے مسلم لیگ ن کی حکومت کو بلیک میل کرکے اس کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرسکتی ہے مگر اب سوال جمہوری نظام کی ساکھ کا بن گیا ہے۔ یہ معاملہ چوہدری نثار کے اقرار کرنے اور جسٹس وجیہہ الدین کو سپرد کرنے سے اختتام پذیر نہیں ہوگا بلکہ پارلیمنٹ میں اس صورتحال پر تفصیلی بحث ہونی چاہیے۔ اس بحث کے اختتام پر تمام سیاسی جماعتوں کو یہ یقین دہانی کرانی چاہیے کہ وہ موجودہ جمہوری ڈھانچے کو غیر مستحکم نہیں کریں گی۔ پارلیمانی کمیشن کو گزشتہ انتخابات میں ہونے والی خامیوں کا جائزہ لینا چاہیے اور آیندہ انتخابات میں ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ امریکا میں الگور اور بش جونئیر کے انتخابی تنازعہ میں سنگین بے قاعدگی کا انکشاف ہوا تھا مگر امریکی سیاستدانوں نے جارج بش کو صد ر تسلیم کرکے جمہوری نظام کو مستحکم کیا تھا۔ اب پاکستانی سیاستدانوں کو اپنی بصیرت کو آزمانا چاہیے۔