آغا خان چہارم مسلم ثقافت کے علمبردار…

مسلم ورثے کے اہم حصہ کے ضائع ہونے کا خطرہ موجود تھا لیکن شکر ہے کہ اس ایوارڈ کی بدولت اسے محفوظ بنانے میں کافی مدد ملی


عائشہ جمال December 14, 2013

BAHAWALPUR: پرنس کریم آغا خان (آغا خان چہارم) مسلم رہنما ہیں۔ وہ ایک انسان دوست شخصیت ہیں ۔انہوں نے امدادی اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے انقلابی اقدامات کئے' اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلم ورثے کو محفوظ بنانے کے حوالے سے سرگرم ہیں۔آغا خان چہارم 13 دسمبر 1936ء کو پیدا ہوئے۔ وہ پرنس علیٰ خان اور پرنسس تاج الدولہ اعلیٰ خان کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کا شجرہ نسب پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کے چچازاد بھائی حضرت علیؓ ،ان کی زوجہ حضرت فاطمہؓ جو پیغمبرؐ کی صاحبزادی ہیں کے توسط سے براہ راست حضرت محمدؐ سے جا ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال نیروبی، کینیا میں بسر کئے اور مزید تعلیم سوئٹزرلینڈ کے سکول میں حاصل کی۔ آپ ہارورڈ یونیورسٹی میں شعبہ اسلامی تاریخ میں تعلیم مکمل کر رہے تھے کہ آپ کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان وصال کر گئے۔یوں آپ نے محض 21 برس کی عمر میں اسماعیلیوں کی امامت کے فرائض سنبھالے۔

پرنس کریم آغا خان برداشت اور متوازن زندگی گزارنے کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ان کی گہری بصیرت افروز تقاریر یقین کی قوت' اسلام کے اصولوں پر کاربند رہنے اور اسلامی ورثے پر فخر کی عکاسی کرتی ہیں۔1967ء میں پشاور یونیورسٹی کے کانووکیشن میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے روایتی قدروں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے بتایا کہ زندگی کے لئے کیسے جدوجہد کی جائے' مسلمانوں کو نادار افراد کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بھولنا نہیں چاہئے' یتیموں' مسافروں' تنہا عورتوں کے حوالے سے اپنے فرائض اور خالق کی طرف سے عائد فرائض کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ وہ دن کہ جب ہم نہ جان سکیں گے' نہ ہمارے پاس اللہ کے لئے وقت رہے گا اور نہ اس کے آگے سربسجود ہونے کے لئے ایمان' کیونکہ انسانی روح' جسے اس نے ابدی کہا ہے' ہمارے لئے ایک گھنٹے کے روزمرہ کے کام' منافع کمانے کے وقت سے زیادہ اہم نہیں رہی' وہ دن مایوسی کا ایک بے نور دن ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ کیسے تکثیریت یا پلورل ازم اور سماجی ترقی میں معاونت کے اصول اسلام میں موجود ہیں اور انہوں نے نہ صرف ان اصولوں پر عمل کر کے دکھایا بلکہ مسلم ورثے کو عظیم سرمایہ بھی ثابت کیا۔ انہوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں اسے محفوظ بنانے اور مسلم ثقافت کے ورثے کے احیاء کے حوالے سے بھی بھرپور کاوشیں کیں۔

آغا خان چہارم نے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے سیاست سے گریز کیا۔ انہوں نے بطور اسماعیلی امام کئی ادارے قائم کئے ہیں جو نہ صرف اسماعیلی کمیونٹی بلکہ دنیا بھر کی مظلوم کمیونٹیز کے لئے اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آغا خان نے آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (اے کے ڈی این) کے ذریعے جدت آمیز طریقوں سے غربت اور افلاس کے برسوں پرانے مسائل کو حل کیا اور 50 برسوں میں انہیں اسے حوالے سے قابل ذکر کامیابی بھی ملی ہے۔

دنیا بھر میں حکومتوں اور این جی اوز نے اے کے ڈی این کے پیش کردہ پروگراموں کو اختیار کیا ہے۔ ترقیاتی عمل کا مرکزی حصہ بننے کے لئے کمیونٹیز کی حوصلہ افزائی اورمعاونت کی جاتی ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لئے کثیر المقاصد راہیں اختیار کی جاتی ہیں۔ صحت'تعلیم' صفائی' بنیادی ڈھانچے اور آمدن بڑھانے کے حوالے سے بیک وقت کئی شعبوں میں کام کیا جاتا ہے۔ اے کے ڈی این نے کبھی مختصر مدتی کام نہیں کئے' ان کے طویل المدتی مقاصد میں غربت زدہ علاقوں میں بہتری لانا اور انہیں خودکفیل بنانا شامل ہے۔ ایسی کئی کمیونٹیز ہیں جو اے کے ڈی این کے تعاون کی وجہ سے آج تعلیم یافتہ ہیں اورآمدنی کی مناسب بچت بھی کر رہی ہیں۔ ایسی کمیونٹیز اپنے سکول' صحت کے مراکز اور دوسرے ترقیاتی پروجیکٹ کو خود چلا رہی ہیں۔ انہوں نے ثقافتی ورثے اور ماحولیات کا خیال رکھنا اور ان کا موزوں استعمال سیکھ لیا ہے' چاہے وہ سیاحت کا شعبہ ہو یا پھلوں کے باغات لگانا ہو۔

اسماعیلی کمیونٹی کی انسان دوستی کی روایت' رضا کارانہ خدمات' خودانحصاری' امام کی قیادت اور تحریر کردہ ورثے اور امامت کے وسائل سے اے کے ڈی این کو بے پناہ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ایک بلاامتیاز خدمت کرنے والے ادارے' نسل' علاقے یا جنس کی تفریق کے بغیر ضرورت مندوں کی امداد کرنے کے عزم پر کاربند ہے۔ دنیا بھر میں گلگت' پاکستان سے ٹمبکٹو' افریقہ تک مذہب' نسل یا جنس کی تفریق کے بغیر کمیونٹیز اے کے ڈی این کے پروگراموں سے مستفیض ہو رہی ہیں۔تعلیم کے شعبے پر آغا خان کی خصوصی نگاہ ہے کیونکہ روایتی طور پر اسماعیلی اماموں نے تعلیم پر کافی زور دیا ہے۔ جیسے فاطمی خلیفہ نے جامہ ازہر کی بنیاد رکھی۔ زمانہ قریب کی مثالیں تو پرنس کریم کے دادا آغا خان سوئم نے بھارت' پاکستان اور افریقہ میں ڈائمنڈ جوبلی اسکولز کی بنیاد رکھی۔ پرنس کریم آغا خان نے آغا خان یونیورسٹی کے لئے پاکستان کا انتخاب کیا جو 1983ء میں قائم ہوئی اور یہ پاکستان میں پہلی پرائیویٹ انٹرنیشنل یونیورسٹی ہے۔ پاکستان' مشرقی افریقہ' یونائیٹڈ کنگڈم' شام اور افغانستان سمیت کئی ممالک میں دس جگہوں پر اکیڈمک پروگرامز کے ساتھ اے کے یو نے خود کو بین الاقوامی ادارے کے طور پر منوایا ہے۔

ہسپتال اور پرائمری میڈیکل سینٹرز آغا خان ہیلتھ سروسز کا حصہ ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے بہترین نجی غیر منافع بخش ہیلتھ کیئر سسٹمز میں سے ایک ہے۔ اس کے 164 ہیلتھ سینٹرز' 7 ہسپتال' میٹرنٹی ہوم' 2 میڈیکل سینٹر' فزیو تھراپی یونٹ اور 7 کمیونٹی ڈینٹل یونٹس پاکستان میں شہری اور دیہی سندھ' پنجاب' خیبر' شمالی علاقہ جات اور چترال میں 581000 سے زائد افراد کی پہنچ میں ہیں۔ آغا خان ہاسپٹل سروسز (اے کے ایچ ایس) اب بھارت' پاکستان' کینیا' تنزانیہ اور شام میں پرائمری ہیلتھ کیئر اور کیوریٹو میڈیکل کیئر فراہم کر رہی ہے۔ آغا خان ایجوکیشن سروسز پاکستان ملک بھر میں 1186 سکولوں اور 4 ہاسٹلوں کے ذریعے 75000 طالب علموں کو تعلیم کی سہولت بلاامتیاز فراہم کر رہی ہے۔ ایک اہم شعبہ جس پر آغا خان نے دوران امامت بھرپور توجہ دی وہ مسلم ورثے کو محفوظ بنانا ہے۔ آغا خان ایوارڈ برائے تعمیرات دنیا کا معتبر ترین تعمیرات کا ایوارڈ ہے۔ جدید دور میں روایتی اسلامی تعمیرات کی اہمیت کم ہونے لگی تو اس کی ضرورت محسوس کی گئی۔ 1976ء میں لاہور میں منعقدہ اسلامی سربراہی کانفرنس میں اس کا اعلان کیا گیا۔ 23 اکتوبر 1980ء کو شالامار باغ لاہور کو پہلا ایوارڈ دیا گیا۔ مسلم دنیا میں کچھ نئی عمارات اور جگہیں اسلامی تعمیراتی روایات کی حقیقی عکاسی کرتی ہیں۔

اسی طرح مسلم ورثے کے اہم حصہ کے ضائع ہونے کا خطرہ موجود تھا لیکن شکر ہے کہ اس ایوارڈ کی بدولت اسے محفوظ بنانے میں کافی مدد ملی۔اے کے ڈی این دنیا بھر میں موجود مسلم ورثے کی بحالی کی نگرانی کر رہی ہے۔ پاکستان میں 900 سال پرانے قلعہ التیت کی بحالی کی وجہ سے اس نے 2011ء میں یونیسکو ایوارڈ برائے ثقافتی ورثے کی حفاظت جیتا۔ حال ہی میں ہزہائنس نے ٹمبکٹو' مالی میں افریقہ کے صحرائے اعظم صحارا کی ریتلی مٹی سے بنی قدیم ترین مسجد کی تعمیر نو کرائی ہے۔ سب سے حیران کن امر یہ ہے کہ قاہرہ میں 123 ایکڑ پر واقع کچرا پھینکنے والے گراؤنڈ کو دنیا کے خوبصورت ترین پارکوں میں سے ایک پارک کی صورت دے دی گئی اورہر سال 20 لاکھ سے زائد افراد اس پارک میں سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں۔آغا خان چہارم نے شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کے امام کی حیثیت سے ایک عہد کو متاثر کیا ہے۔ ان کی ذہانت' برداشت' تکثیریت یا پلورل ازم اور اسلامی اقدار سے وابستگی مثالی ہیں۔ دنیا کے سب سے کامیاب ترقیاتی نیٹ ورکس میں سے ایک کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے دنیا پر ثابت کیا ہے کہ مسلمان تعلیم' صحت' ترقی اور ورثے کو محفوظ بنانے کے سلسلے میں کیا کیا کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں