بے چارے ہم۔۔۔
چھ دسمبر گزر گیا لیکن ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے حوالے سے چھ دسمبر کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔۔۔
FAISALABAD:
چھ دسمبر گزر گیا لیکن ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے حوالے سے چھ دسمبر کبھی بھلایا نہیں جاسکتا، جب ہزاروں بلوائیوں نے ایودھیا کے ویران علاقے میں قائم بابری مسجد پر دھاوا بول کر اسے شہید کردیا اور اس واقعے کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ اکیس برس گزر جانے کے بعد بھی اس واقعے کی چبھن کم نہیں ہوتی لیکن پھر بھی ہم ہی ظالم اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں کا داغ لیے بیٹھے ہیں کہ اس دنیائے عالم میں ایک چھوٹے، قرضوں کے بوجھ میں پھنسے، معاشی، اقتصادی طور پر خستہ حال، غربت کی پستیوں میں دھنسے، دہشت گردی کے مستقل شعلوں میں جھلستے ملک کی کیا شنوائی؟
امن کا راگ الاپتے الاپتے ہم یہ سمجھنے لگے تھے کہ شاید اس طرح ہم دنیا کے سامنے بھارت کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کے قابل تو ہوسکے ہیں کہ بھارت تو ہمارا خیر خواہ ہے لیکن یہ ہماری خوش قسمتی ہے کیونکہ جس میٹھی چھری سے وہ ہمارا اکثر و بیشتر قتل کرتا رہا ہے کیسے باز رہ سکتا ہے، اسی امن کے پیغام کی دھوم نے بہت سے پاکستانیوں کو اتنا متاثر کیا کہ انھیں حقیقی طور پر اپنا غم گسار بھائی بند سمجھنے لگے۔ امریکا میں ایسے ہی پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹروں کی ایک تنظیم ''اپنا'' ہندوستان کے ایک خیر سگالی دورے کے تحت وہاں جانے کے منصوبے بنانے لگی۔ امریکی سٹیزن شپ دنیا بھر میں خاصی معتبر سمجھی جاتی ہے، جب کوئی کالا، دیسی یا بدیسی امریکی پاسپورٹ کے ساتھ کسی بھی ملک کی سرحد میں داخل ہوتا ہے تو وہاں کی انتظامیہ کی نظروں میں خود بخود اس کا مقام بلند ہوجاتا ہے لیکن ''اپنا'' کے 234 امریکی نژاد پاکستانی ڈاکٹروں کو اس ڈبل اسٹینڈرڈ کا ادراک ہی نہ تھا جو ان کے ساتھ بھارتی انتظامیہ نے برتا۔
پاکستانی نژاد ان امریکی ڈاکٹرز نے اپنے لیے ہوٹلز میں کمروں کی بکنگ بھی کروالی تھی، بس ویزوں کی دیر تھی لیکن آخری وقت میں بھارتی انتظامیہ نے انھیں ویزے دینے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے وہ ڈاکٹر حضرات اپنی پاکستانی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ پیش کریں تب ان کو بھارتی ویزہ جاری کیا جائے گا۔ یوں پاکستانی ہونے کے ناتے ان ڈاکٹرز کی امریکی شہریت کو بھی مسترد کردیا گیا اور انھیں پاکستان میں پیدا ہونے کی سزا دی گئی۔ اس قسم کے واقعات آئے دن پیش آتے ہی رہتے ہیں مثلاً کچھ عرصہ پہلے ہی پاکستانی گلوکار علی ظفر کو بھی ویزہ نہیں جاری کیا گیا تھا حالانکہ انھیں اپنی فلم کی پبلسٹی کے سلسلے میں بھارت جانا ضروری تھا۔ یہ حرکتیں دراصل اس حسد، اس عناد کو ظاہر کرتی ہیں جو بھارت ہزار بار اپنے دل کے کھلے پن کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود چھپا نہیں سکتا۔
بات شروع ہوئی تھی بابری مسجد سے جس کے اکیس برس گزر جانے کے بعد بھی بہت سے ملزموں پر ابھی تک مقدمے ہی چل رہے ہیں اور سزائیں سنانے کی نوبت ہی نہیں آرہی اور 50 گواہوں کو اب تک قتل کیا جاچکا ہے جب کہ مقدمہ 49 افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ اکیس برس گزر جانے کے بعد بھی چھ دسمبر کو کشیدگی کے باعث غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کیا گیا تھا، لیکن یہ روگ تو لگ چکا ہے۔ بھارت کے سیکولرازم کا دعویٰ پارہ پارہ ہوچکا ہے، لیکن جب بڑے بڑے پیٹھ تھپکنے کو بیٹھے ہوں تو مجرم خود ہی منصف بن جاتا ہے۔
گو بھارت ظاہری طور پر ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے لیکن اب بھی غربت اور پسماندگی میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے البتہ عریانیت، فحاشی اور خواتین کی بے حرمتی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، جس مغربی طرز پر چلتے چلتے وہ خاصے دور نکل چکے ہیں اب وہی ترقی پسندی ان کے لیے خوبصورت پنجرہ بنتی جارہی ہے۔ عورتوں کے حوالے سے بہت سی ترقی پسند تحریک نسواں کی علمبردار خواتین اب کھلے عام اس فحاشی اور عریانیت پر بند باندھنے کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں جس کے نتیجے میں عورت کا کمزور طبقہ مستقل پستا چلا آرہا ہے، لیکن مغرب کی دوستی کا دم بھرتے بھرتے اب بہت دیر گزر چکی ہے، مغرب کی دوستی اثر تو دکھاتی ہی ہے، گو سونیا گاندھی پہلے اس زعم میں مبتلا تھیں کہ انھوں نے جس زہریلے فحاشی اور عریانی کے نشے سے پڑوسی ملک کو شناسا کرا دیا ہے وہ ان کی بربادی کے لیے بہت ہے لیکن وہاں تو الٹی آنتیں ہی گلے پڑ چکی ہیں۔ اب کوئی سونیا بی بی سے پوچھے اب آپ کے دعوے کیا کہتے ہیں؟
سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے بھارت کا دورہ کیا اور نئی دہلی کی ایک تقریب میں اپنے ان خیالات کا اظہار کیا جس سے ان کی بھارت سے پکی دوستی تو ظاہر ہوتی ہی ہے لیکن ان کے (ناقص معلومات یا جان بوجھ کر) پاکستان پر الزامات عائد کرنے سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ''چاہے کوئی مجھے کچھ بھی کہے۔۔۔'' کونڈا لیزا رائس نے بڑے واضح الفاظ میں دہشت گردی کو پاکستان کے ساتھ نتھی کیا۔ محترمہ فرماتی ہیں کہ دہشت گردی پاکستان کے خلاف خطرہ ہے، بے نظیر بھٹو بھی اس کا نشانہ بنیں، شدت پسندی کے خاتمے کے لیے امریکا اور بھارت کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ مزید فرماتی ہیں کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات کی کوئی حد نہیں دونوں ممالک دہشت گردی سے پاک دنیا، جنوبی اور وسطی ایشیا میں استحکام، توانائی کے بحران کے خاتمے اور ایسے عالمی نظام کے حامی ہیں جس میں قانون کی حکمرانی ہو، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد آصف علی زرداری سے کہا تھا کہ جو کچھ ہوا وہ قابل قبول نہیں، حملوں کا ذمے دار پاکستان ہے، انھوں نے الزام لگایا کہ پاکستان وہ ملک ہے کہ جس نے اپنی سرحد پر موجودہ مبینہ دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے گروپوں کے حوالے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ پاکستان کو ان دہشت گردوں پر دباؤ بڑھا کر ان کے خلاف کارروائیاں کرنی چاہئیں۔ اتنا کچھ کہنے پر بھی انھوں نے بس نہیں کیا اور مزید فرماتی ہیں کہ ممبئی حملے کے بعد وہ جنوبی ایشیا آئیں اور آصف علی زرداری سے کہا کہ اس حوالے سے جو کچھ ہوا وہ ناقابل برداشت ہے اور اس کا ذمے دار پاکستان ہے، انھوں نے اعتراف کیا کہ اس حوالے سے تیزی سے کام نہیں ہوا۔
کونڈولیزا رائس نے جو کچھ اپنی اس تقریر میں کہا اس سے یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ پاکستان کو دہشت گردی اور افغانستان کی جنگ میں الجھانے اور جانی اور مالی نقصان کے بعد بھی سارا ملبہ ہمارے ہی دامن میں گرایا جارہا ہے۔ ممبئی حملے کے اصل کردار جن کو ہمارے اپنے کچھ میڈیا گروپس نے انتہائی نامعقول انداز میں ایسے پورٹریٹ کیا تھا کہ جیسے اجمل قصاب نے حملے سے پہلے پوری پلاننگ انھیں بتا رکھی تھی۔ اسی طرح پوری ایک کہانی بنی کہ ہم اپنے ہی پلو میں منہ چھپانے لگے اور کہنے کو کچھ بچا ہی نہ تھا، بہرحال بعد میں جو کہانی اجمل قصاب کے حوالے سے سامنے آئی وہ فیس بک پر اس کی فوٹیج نے ظاہر کردی تھی لیکن سب کچھ ہوجانے کے بعد کہانی کے اینڈ کو دھندلا کردیا گیا، یوں کہانی کے شروع کے حصے کو ہی دنیا بھر میں اچھالا گیا لیکن دہشت گردی کے کسی حل کے لیے جب پاکستان میں ایک فورم بن چکا تھا تو ایک ڈرون حملے نے برسوں کے سفر کو پھر وہیں لا کر کھڑا کردیا کہ جہاں سے یہ سفر شروع ہوا تھا۔
چھ دسمبر گزر گیا لیکن ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے حوالے سے چھ دسمبر کبھی بھلایا نہیں جاسکتا، جب ہزاروں بلوائیوں نے ایودھیا کے ویران علاقے میں قائم بابری مسجد پر دھاوا بول کر اسے شہید کردیا اور اس واقعے کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ اکیس برس گزر جانے کے بعد بھی اس واقعے کی چبھن کم نہیں ہوتی لیکن پھر بھی ہم ہی ظالم اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں کا داغ لیے بیٹھے ہیں کہ اس دنیائے عالم میں ایک چھوٹے، قرضوں کے بوجھ میں پھنسے، معاشی، اقتصادی طور پر خستہ حال، غربت کی پستیوں میں دھنسے، دہشت گردی کے مستقل شعلوں میں جھلستے ملک کی کیا شنوائی؟
امن کا راگ الاپتے الاپتے ہم یہ سمجھنے لگے تھے کہ شاید اس طرح ہم دنیا کے سامنے بھارت کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کے قابل تو ہوسکے ہیں کہ بھارت تو ہمارا خیر خواہ ہے لیکن یہ ہماری خوش قسمتی ہے کیونکہ جس میٹھی چھری سے وہ ہمارا اکثر و بیشتر قتل کرتا رہا ہے کیسے باز رہ سکتا ہے، اسی امن کے پیغام کی دھوم نے بہت سے پاکستانیوں کو اتنا متاثر کیا کہ انھیں حقیقی طور پر اپنا غم گسار بھائی بند سمجھنے لگے۔ امریکا میں ایسے ہی پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹروں کی ایک تنظیم ''اپنا'' ہندوستان کے ایک خیر سگالی دورے کے تحت وہاں جانے کے منصوبے بنانے لگی۔ امریکی سٹیزن شپ دنیا بھر میں خاصی معتبر سمجھی جاتی ہے، جب کوئی کالا، دیسی یا بدیسی امریکی پاسپورٹ کے ساتھ کسی بھی ملک کی سرحد میں داخل ہوتا ہے تو وہاں کی انتظامیہ کی نظروں میں خود بخود اس کا مقام بلند ہوجاتا ہے لیکن ''اپنا'' کے 234 امریکی نژاد پاکستانی ڈاکٹروں کو اس ڈبل اسٹینڈرڈ کا ادراک ہی نہ تھا جو ان کے ساتھ بھارتی انتظامیہ نے برتا۔
پاکستانی نژاد ان امریکی ڈاکٹرز نے اپنے لیے ہوٹلز میں کمروں کی بکنگ بھی کروالی تھی، بس ویزوں کی دیر تھی لیکن آخری وقت میں بھارتی انتظامیہ نے انھیں ویزے دینے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے وہ ڈاکٹر حضرات اپنی پاکستانی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ پیش کریں تب ان کو بھارتی ویزہ جاری کیا جائے گا۔ یوں پاکستانی ہونے کے ناتے ان ڈاکٹرز کی امریکی شہریت کو بھی مسترد کردیا گیا اور انھیں پاکستان میں پیدا ہونے کی سزا دی گئی۔ اس قسم کے واقعات آئے دن پیش آتے ہی رہتے ہیں مثلاً کچھ عرصہ پہلے ہی پاکستانی گلوکار علی ظفر کو بھی ویزہ نہیں جاری کیا گیا تھا حالانکہ انھیں اپنی فلم کی پبلسٹی کے سلسلے میں بھارت جانا ضروری تھا۔ یہ حرکتیں دراصل اس حسد، اس عناد کو ظاہر کرتی ہیں جو بھارت ہزار بار اپنے دل کے کھلے پن کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود چھپا نہیں سکتا۔
بات شروع ہوئی تھی بابری مسجد سے جس کے اکیس برس گزر جانے کے بعد بھی بہت سے ملزموں پر ابھی تک مقدمے ہی چل رہے ہیں اور سزائیں سنانے کی نوبت ہی نہیں آرہی اور 50 گواہوں کو اب تک قتل کیا جاچکا ہے جب کہ مقدمہ 49 افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ اکیس برس گزر جانے کے بعد بھی چھ دسمبر کو کشیدگی کے باعث غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کیا گیا تھا، لیکن یہ روگ تو لگ چکا ہے۔ بھارت کے سیکولرازم کا دعویٰ پارہ پارہ ہوچکا ہے، لیکن جب بڑے بڑے پیٹھ تھپکنے کو بیٹھے ہوں تو مجرم خود ہی منصف بن جاتا ہے۔
گو بھارت ظاہری طور پر ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے لیکن اب بھی غربت اور پسماندگی میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے البتہ عریانیت، فحاشی اور خواتین کی بے حرمتی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، جس مغربی طرز پر چلتے چلتے وہ خاصے دور نکل چکے ہیں اب وہی ترقی پسندی ان کے لیے خوبصورت پنجرہ بنتی جارہی ہے۔ عورتوں کے حوالے سے بہت سی ترقی پسند تحریک نسواں کی علمبردار خواتین اب کھلے عام اس فحاشی اور عریانیت پر بند باندھنے کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں جس کے نتیجے میں عورت کا کمزور طبقہ مستقل پستا چلا آرہا ہے، لیکن مغرب کی دوستی کا دم بھرتے بھرتے اب بہت دیر گزر چکی ہے، مغرب کی دوستی اثر تو دکھاتی ہی ہے، گو سونیا گاندھی پہلے اس زعم میں مبتلا تھیں کہ انھوں نے جس زہریلے فحاشی اور عریانی کے نشے سے پڑوسی ملک کو شناسا کرا دیا ہے وہ ان کی بربادی کے لیے بہت ہے لیکن وہاں تو الٹی آنتیں ہی گلے پڑ چکی ہیں۔ اب کوئی سونیا بی بی سے پوچھے اب آپ کے دعوے کیا کہتے ہیں؟
سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے بھارت کا دورہ کیا اور نئی دہلی کی ایک تقریب میں اپنے ان خیالات کا اظہار کیا جس سے ان کی بھارت سے پکی دوستی تو ظاہر ہوتی ہی ہے لیکن ان کے (ناقص معلومات یا جان بوجھ کر) پاکستان پر الزامات عائد کرنے سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ''چاہے کوئی مجھے کچھ بھی کہے۔۔۔'' کونڈا لیزا رائس نے بڑے واضح الفاظ میں دہشت گردی کو پاکستان کے ساتھ نتھی کیا۔ محترمہ فرماتی ہیں کہ دہشت گردی پاکستان کے خلاف خطرہ ہے، بے نظیر بھٹو بھی اس کا نشانہ بنیں، شدت پسندی کے خاتمے کے لیے امریکا اور بھارت کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ مزید فرماتی ہیں کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات کی کوئی حد نہیں دونوں ممالک دہشت گردی سے پاک دنیا، جنوبی اور وسطی ایشیا میں استحکام، توانائی کے بحران کے خاتمے اور ایسے عالمی نظام کے حامی ہیں جس میں قانون کی حکمرانی ہو، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد آصف علی زرداری سے کہا تھا کہ جو کچھ ہوا وہ قابل قبول نہیں، حملوں کا ذمے دار پاکستان ہے، انھوں نے الزام لگایا کہ پاکستان وہ ملک ہے کہ جس نے اپنی سرحد پر موجودہ مبینہ دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے گروپوں کے حوالے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ پاکستان کو ان دہشت گردوں پر دباؤ بڑھا کر ان کے خلاف کارروائیاں کرنی چاہئیں۔ اتنا کچھ کہنے پر بھی انھوں نے بس نہیں کیا اور مزید فرماتی ہیں کہ ممبئی حملے کے بعد وہ جنوبی ایشیا آئیں اور آصف علی زرداری سے کہا کہ اس حوالے سے جو کچھ ہوا وہ ناقابل برداشت ہے اور اس کا ذمے دار پاکستان ہے، انھوں نے اعتراف کیا کہ اس حوالے سے تیزی سے کام نہیں ہوا۔
کونڈولیزا رائس نے جو کچھ اپنی اس تقریر میں کہا اس سے یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ پاکستان کو دہشت گردی اور افغانستان کی جنگ میں الجھانے اور جانی اور مالی نقصان کے بعد بھی سارا ملبہ ہمارے ہی دامن میں گرایا جارہا ہے۔ ممبئی حملے کے اصل کردار جن کو ہمارے اپنے کچھ میڈیا گروپس نے انتہائی نامعقول انداز میں ایسے پورٹریٹ کیا تھا کہ جیسے اجمل قصاب نے حملے سے پہلے پوری پلاننگ انھیں بتا رکھی تھی۔ اسی طرح پوری ایک کہانی بنی کہ ہم اپنے ہی پلو میں منہ چھپانے لگے اور کہنے کو کچھ بچا ہی نہ تھا، بہرحال بعد میں جو کہانی اجمل قصاب کے حوالے سے سامنے آئی وہ فیس بک پر اس کی فوٹیج نے ظاہر کردی تھی لیکن سب کچھ ہوجانے کے بعد کہانی کے اینڈ کو دھندلا کردیا گیا، یوں کہانی کے شروع کے حصے کو ہی دنیا بھر میں اچھالا گیا لیکن دہشت گردی کے کسی حل کے لیے جب پاکستان میں ایک فورم بن چکا تھا تو ایک ڈرون حملے نے برسوں کے سفر کو پھر وہیں لا کر کھڑا کردیا کہ جہاں سے یہ سفر شروع ہوا تھا۔