غذائی اشیا کی برآمدات

ماہ اکتوبر سے ہی اچانک سبزیوں اور دیگر اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ۔۔۔


ایم آئی خلیل December 14, 2013
[email protected]

RAWALPINDI: دنیا کے بہت سے ملکوں میں غذائی اشیا کے پیداکاروں نے تیل کی اجناس کی پیداوار میں اضافہ کردیا تھا جس کے باعث پھل، سبزیوں اور دیگر غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی چلی جارہی تھی۔ بعض ملکوں نے جوکہ عالمی منڈی میں چاول کی رسد فراہم کرتے تھے اپنے ملک میں چاول کی کھپت کو مدنظر رکھتے ہوئے چاول کی برآمدات میں کمی کردی تھی یا پابندی عاید کردی تھی جس کے منفی اثرات گندم پر بھی مرتب ہوئے کہ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا۔ اس طرح کئی ملکوں نے اپنے ہاں غذائی پیداوار میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے نیز غذائی اجناس کی کھپت کو سامنے رکھتے ہوئے ان اشیا کی پیداوار کی برآمد میں کمی کردی تھی تاکہ ملک کی طلب کو احسن طریقے سے پورا کیا جاسکے اور اشیائے خوراک کی قیمتیں مستحکم رہیں اور غذائی اشیا کی کسی طور پر بھی قلت واقع نہ ہو اور نہ ہی قیمتوں میں اضافہ ہو۔ اگر پاکستان کی غذائی اشیا کی برآمدات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو اس میں اضافہ ہوا ہے۔

جولائی تا اکتوبر 2013 کے دوران فوڈ گروپ کی برآمدات کا تخمینہ ایک کھرب 35 ارب 74 کروڑ روپے کا لگایا گیا ہے جب کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران ایک کھرب 16 ارب 20 کروڑ روپے کا تخمینہ پیش کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرورت کی اشیا کی برآمدات میں کمی بیشی یا پابندی عاید کی جانی چاہیے۔ ان ہی دنوں جب کہ عالمی منڈی میں غذائی اشیا کی طلب بڑھ رہی تھی اور غذائی پیداوار میں کمی کے باعث ان اشیا کی رسد میں کمی ہو رہی تھی۔ دوسری طرف پاکستانی کرنسی کی قدر مسلسل گرتی چلی جارہی تھی، لہٰذا دیگر اشیا کے ساتھ پاکستان سے سبزیوں کی برآمدات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جولائی تا اکتوبر 2013 کے دوران 4 ارب 80 کروڑ روپے کی سبزیاں برآمد کی گئیں جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران 3 ارب 41 کروڑ روپے کی سبزیاں برآمد کی گئی تھیں، اسی طرح فروٹس کی برآمدات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ماہ اکتوبر سے ہی اچانک سبزیوں اور دیگر اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا۔ ماہ جولائی سے ہی عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا چلا جارہا تھا۔ غذائی بحران کے خدشات کے پیش نظر کئی ملکوں نے اپنی غذائی برآمدات پر پابندی عائد کردی تھی لیکن پاکستان میں چونکہ اشیائے خوراک پر اتنی گہری نظر نہیں رکھی جاتی کہ عوام کو غذائی اشیا مناسب قیمت پر دستیاب ہوتی رہے۔ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں، اسمگلروں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہو جیسے۔ اس طرح گزشتہ 2 ماہ سے مختلف اجناس آٹا، گندم، سبزیاں اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوتا رہا۔ جس کے باعث بہت سی اشیا جن کا تعلق روز مرہ کے استعمال سے تھا، نہ صرف ناپید ہوتی رہیں بلکہ یک بیک تمام اشیائے خوراک کی قیمتیں بڑھتی ہی چلی گئیں۔ ایسا کبھی نہ ہوا ہوگا کہ سبزیوں کی قیمت ڈیڑھ سو روپے فی کلو یا دو سو روپے فی کلو تک جا پہنچی ہو، آٹا 50 روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے۔

ادھر عالمی غذائی قلت کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کو بھی یہ کہنا پڑا کہ غذائی بحران پر قابو پانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زرعی اجناس کی قلت پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو سرفہرست رکھا جارہا ہے۔ پاکستان کو بھی سبزیاں، پھل، دالیں، گندم، چاول اور دیگر اجناس کی پیداوار میں کمی اور ان کی قیمتوں میں اضافے کے مسئلے کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ پاکستان سے سبزیوں کی بڑی مقدار افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھیج دی جاتی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال پیداوار میں اضافے کے بجائے ذخیرہ اندوز منافع خور ان اشیا کو اسٹور کرنے میں کر رہے ہیں۔ ادھر کسی شے کی پیداوار ہوئی دوسری طرف فوراً ہی ذخیرہ کرلیا گیا اور مارکیٹ میں شدید قلت پیدا کرکے پھر زائد قیمت پر رسد پہنچائی گئی۔ اس طرح عوام کی جیب سے اربوں روپے لوٹ لیے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ سارا سال چلتا رہتا ہے لیکن اس دفعہ سرمایہ کاروں سے ذخیرہ اندوزوں ناجائز منافع کمانے والوں نے سبزیوں پر بھی ایسا ہاتھ صاف کیا کہ آلو، ٹماٹر جوکہ 20 تا 30 روپے فی کلو دستیاب ہوتا تھا اسے ڈیڑھ سو سے دو سو روپے تک پہنچا دیا گیا تھا۔ اسی طرح پیاز اور دیگر سبزیوں کی قیمت بڑھا کر ان تمام اشیا کو عوام کی اکثریت سے دور کردیا گیا۔ ادرک کی قیمت میں اضافے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ تھائی لینڈ میں ادرک کی پیداوار میں کافی کمی واقع ہوگئی ہے لہٰذا اس کی قیمت میں اضافہ ہوگیا۔

ٹماٹر کی کل پیداوار کا 38 فیصد بلوچستان سے حاصل ہوتا ہے اور ستمبر سے نومبر تک ٹماٹر کی فصل مارکیٹ میں آجاتی ہے اور جولائی تا دسمبر تک سندھ سے ٹماٹر کی فصل آتی ہے، اسی طرح پنجاب سے مئی سے جولائی تک پیاز کی پیداوار ہوتی ہے، اگست سے نومبر تک بلوچستان میں، اگست سے اکتوبر تک KPK میں، اس کے بعد سندھ سے پیاز کی فصل مارکیٹ میں آتی ہے۔ آلو پنجاب میں اپریل سے جون تک پیداوار ہوتی ہے، KPK میں جولائی سے دسمبر تک آلو کی فصل حاصل ہوتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر سبزی، ہر پھل، دالیں اور مختلف اجناس کی پیداوار ہوتی رہتی ہے اور پاکستان بھر میں سارا سال یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اگر حکومت اپنی رٹ قائم کرے، طلب و رسد اور ملکی کھپت کو مد نظر رکھے، مختلف اشیا کی قیمتوں کو بڑھانے والوں پر کڑی نظر رکھی جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ملک میں کبھی بھی سبزیوں اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں اس طرح کا اضافہ ہو جیسا کہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ نیز جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ زرعی سائنسدانوں کی بھرپور خدمات حاصل کی جائیں۔ نیز زرعی مداخل کی قیمتیں کم کرنا بھی ضروری ہے۔

کیونکہ کسان برادری کا کہنا ہے کہ گندم کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہورہا ہے۔ بعض زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ پانی کی شدید قلت بھی ہے۔ ادھر بھارت کی طرف سے دریاؤں پر بند باندھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ملک میں زراعت کے لیے دستیاب پانی کی مقدار میں بھی کمی ہوتی چلی جارہی ہے۔ پانی کی قلت کے مسئلے پر توجہ دیے بغیر زرعی پیداوار میں اضافہ ناممکن ہے۔ گزشتہ 40 سال سے پاکستان میں کسی بڑے ڈیم کی تعمیر نہیں ہوئی ہے، ملک کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں جب فصل کو نہری پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے، انھی دنوں پانی کی شدید قلت کے باعث زرعی پیداوار انتہائی کم ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ کئی عشروں سے چلا آرہا ہے۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں سالہا سال سے قیمتیں مستحکم رہتی ہیں۔ اس کے لیے حکومت نے سخت ترین نگرانی کا نظام اپنا رکھا ہے۔ پاکستان میں ایک اور اہم مسئلہ غذائی اشیا میں ملاوٹ کا بھی ہے، جس کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، محض منافع کمانے کی خاطر سماج دشمن تاجر عوام کی صحت سے کھیلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔