دبئی چلو
عرب امارات کے نزدیک صرف اور صرف ترقی ہے جس کےلیے مودی کو ایوارڈ دینا پڑے یا اسرائیل سے ملنا پڑے
70 کی دہائی کے شروع میں چھ ریاستوں کے انضمام اور تیل کی دریافت نے ایسی برکت ڈالی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان ریاستوں پر مشتمل متحدہ عرب امارات بوم ہوئی اور صحرا میں لالہ و گل اگانے اور اس کے عوض درہم کمانے کےلیے اس کی سب سے بڑی ریاست دبئی خاص کربرصغیر کے کمائی پوتوں کےلیے 'زوم' ہوئی۔ ''دُبئی چلو'' سب سے بڑا ہیش ٹیگ بن گیا۔ ایک دو گھنٹے کی مسافت پر دس، بیس گنا کمائی اور سو سے دو سو گنا جفاکشی۔ غرض پنجابی، پٹھان، بھارتی، بنگالی صحراؤں میں اتر گئے اور اماراتی نظم و ضبط اور دولت تلے یورپین ٹیکنالوجی، صحرا پار لوگوں کی جفاکشی کے امتزاج سے متحدہ عرب امارات نے دنیا کے سب سے بڑے 'اسٹاپ اوور' کی حیثیت اختیار کرلی۔
دوسری عرب ریاستوں کے برعکس متحدہ عرب امارات سے تیل بہت جلدی کارآمد ہونے لگا اور تیل کی جگہ امارات ایئر لائنز، ڈیزرٹ سفاری، برج خلیفہ وغیرہ اس کی ترقی اور عالمی پہچان کے نشان بنتے گئے۔ دبئی دنیا بھر کی ٹاپ ٹورسٹ جگہ بن گئی۔ حتیٰ کہ یورپ کے ٹورسٹ بھی جوق در جوق آنے لگے۔ صحرائی گرمی بہت جلد ٹورسٹ ٹھنڈک میں تبدیل ہو گئی۔
عرب امارات کو سعودی عرب کا بغل بچہ بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ ماضی قریب میں کچھ عرب ملکوں قطر وغیرہ نے دوسری لائن لے رکھی ہے مگر عرب امارات کی سعودی عرب سے پالیسی میں بال برابر بھی فرق نہیں، بلکہ امارات سعودی عرب کی ہی ایکسٹنشن گردانی جاتی ہے جہاں سعودی عرب کی نسبت آزادیاں ہی آزادیاں ہیں۔ محمد بن سلیمان کی قیادت میں سعودی عرب جو ماڈرن ہونے جارہا ہے، اس سے پہلے یہ کامیاب تجربہ عرب امارات میں کیا جاچکا ہے جہاں شیخوں کے دن ریاض اور جدہ میں، جبکہ شامیں اور راتیں دبئی اور ابوظہبی میں گزرتی تھیں۔
عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ جو سفارتی تعلقات قائم کرکے ایک ارتعاش پیدا کیا ہے، وہ یقیناً حرمین شریفین کی پالیسی سے دیکھا جائے گا۔ چونکہ اسرائیل کو لے کر برف پہلے ہی کافی حد تک پگھل چکی تھی تو سعودی عرب کی قیادت تلے عربوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو حیرت انگیز ہو۔ کورونا وائرس کی بدولت جیسے بہت سی شادیاں ڈھول ڈھمکے کے بغیر اور مقررہ تاریخ سے پہلے انجام پارہی ہیں۔ تو عربوں اور اسرائیلیوں نے بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا کہ فون پر ہی سادگی سے مصالحت ان کے حق میں تھی۔ خاص کر جب 'مصالحت خواں' یعنی امریکا کے صدر ٹرمپ بھی جلدی میں تھے، جنھوں نے چند مہینوں بعد صدارتی الیکشن میں اترنا ہے۔
اگرچہ مصر و اردن کے بھی اسرائیل کے ساتھ عرب امارات سے پہلے سفارتی تعلقات ہیں، لیکن مصر میں فوج کی زبردستی اور اردن کی چھوٹی 'قابوسی' سلطنت کا اسرائیل کو تسلیم کرنا اتنی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ اس لیے عرب امارات کے تعلقات مسلمانوں اور اسرائیل کے درمیان ایک نقطہ آغاز اور ٹرمپ کا خارجہ محاذ پر چھکا سمجھے جارہے ہیں۔ پاکستان نے اس معاملے پر 'ایکسپرٹ' اور محتاط رائے دی کہ عرب اسرائیل معاہدے کے بہت دور رس مضمرات ہوں گے۔ مخالفانہ اور مواقفانہ کے بجائے پاکستان کا 'نیوٹرل تجزیہ' سن کر لگتا ہے پاکستان بہت جلد ایک انٹرنیشنل 'مبصر' ملک کی حیثیت اختیار کرلے گا۔
بظاہر موجودہ حالات میں پاکستان کے عرب امارات اور سعودی عرب سے تعلقات مبہم اور غیر واضح دور میں داخل ہیں۔ جہاں سعودی عرب اور امارات سے پاکستان کو سب سے زیادہ ترسیلات ملتی ہیں، وہیں سعودی عرب مشکل وقت میں بغیر ادھار پیسہ اور مفت تیل بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کے وزیر خارجہ چند دن قبل مسئلہ کشمیر پر ساتھ نہ دینے پر سعودی عرب سے اظہارِ ناراضگی کرچکے ہیں۔ اس سے پہلے عرب امارات پاکستان کے دشمن نمبر ایک مودی کو سب سے بڑا سویلین ایوارڈ دے چکا ہے، لیکن پاکستان نے تب مخالف بیان دینے سے گریز کیا تھا۔
پاکستان کی اگرچہ اسرائیل کے بارے میں پالیسی بڑی واضح ہے اور پاکستان اپنے پاسپورٹ میں بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن پاکستان کا محتاط بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جب عرب، جو اسرائیل کا براہِ راست شکار ہیں، وہ نارمل تعلقات کی طرف جارہے ہیں، تو پاکستان کو ترکی اور ایران کی طرح سخت بیان کی کیا ضرورت؟ اس لیے آرمی چیف معاملات کو پھر سے 'ایک پیج' پر کرنے کےلیے سعودی عرب روانہ ہوگئے۔ آرمی چیف کی ریاض یاترا اور پاکستان کے دور رس اثرات والے بیان سے لگتا یہی ہے کہ تعلقات دوبارہ شاہ محمود کے منہ 'کھلنے' سے پہلے کے دور میں داخل ہوجائیں گے۔
دنیا کی سب سے بلند عمارت بنانے کے بعد اپنے ہائی پروفائل اسپیس پروگرام کے تحت 2020 میں اماراتی مشن مریخ کے لیے بھی بھیجا جاچکا ہے۔ عرب امارات کے نزدیک صرف اور صرف ترقی ہے جس کےلیے مودی کو ایوارڈ دینا پڑے یا اسرائیل سے ملنا پڑے۔ واللہ واللہ
عرب اپنے براہِ راست مسئلہ فلسطین پر موقف سے پیچھے ہٹنے کا آغاز کرچکے ہیں تو پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر ساتھ نہ دینے کا بیان بے وقت کی راگنی اور بے جوڑ ہے۔ اسے شاہ محمود کا ایک اور 'مس فائر ایڈونچر' قرار دے کر مٹی ڈال دی جائے گی۔ ممکن ہے ریاض سے سلجھاؤ کے بعد اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم سے 'دبئی چلو' کی درخواست دے۔ ویسے بھی وہاں عمران خان کے فینز اور پی ٹی آئی کے فالورز بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دوسری عرب ریاستوں کے برعکس متحدہ عرب امارات سے تیل بہت جلدی کارآمد ہونے لگا اور تیل کی جگہ امارات ایئر لائنز، ڈیزرٹ سفاری، برج خلیفہ وغیرہ اس کی ترقی اور عالمی پہچان کے نشان بنتے گئے۔ دبئی دنیا بھر کی ٹاپ ٹورسٹ جگہ بن گئی۔ حتیٰ کہ یورپ کے ٹورسٹ بھی جوق در جوق آنے لگے۔ صحرائی گرمی بہت جلد ٹورسٹ ٹھنڈک میں تبدیل ہو گئی۔
عرب امارات کو سعودی عرب کا بغل بچہ بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ ماضی قریب میں کچھ عرب ملکوں قطر وغیرہ نے دوسری لائن لے رکھی ہے مگر عرب امارات کی سعودی عرب سے پالیسی میں بال برابر بھی فرق نہیں، بلکہ امارات سعودی عرب کی ہی ایکسٹنشن گردانی جاتی ہے جہاں سعودی عرب کی نسبت آزادیاں ہی آزادیاں ہیں۔ محمد بن سلیمان کی قیادت میں سعودی عرب جو ماڈرن ہونے جارہا ہے، اس سے پہلے یہ کامیاب تجربہ عرب امارات میں کیا جاچکا ہے جہاں شیخوں کے دن ریاض اور جدہ میں، جبکہ شامیں اور راتیں دبئی اور ابوظہبی میں گزرتی تھیں۔
عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ جو سفارتی تعلقات قائم کرکے ایک ارتعاش پیدا کیا ہے، وہ یقیناً حرمین شریفین کی پالیسی سے دیکھا جائے گا۔ چونکہ اسرائیل کو لے کر برف پہلے ہی کافی حد تک پگھل چکی تھی تو سعودی عرب کی قیادت تلے عربوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو حیرت انگیز ہو۔ کورونا وائرس کی بدولت جیسے بہت سی شادیاں ڈھول ڈھمکے کے بغیر اور مقررہ تاریخ سے پہلے انجام پارہی ہیں۔ تو عربوں اور اسرائیلیوں نے بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا کہ فون پر ہی سادگی سے مصالحت ان کے حق میں تھی۔ خاص کر جب 'مصالحت خواں' یعنی امریکا کے صدر ٹرمپ بھی جلدی میں تھے، جنھوں نے چند مہینوں بعد صدارتی الیکشن میں اترنا ہے۔
اگرچہ مصر و اردن کے بھی اسرائیل کے ساتھ عرب امارات سے پہلے سفارتی تعلقات ہیں، لیکن مصر میں فوج کی زبردستی اور اردن کی چھوٹی 'قابوسی' سلطنت کا اسرائیل کو تسلیم کرنا اتنی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ اس لیے عرب امارات کے تعلقات مسلمانوں اور اسرائیل کے درمیان ایک نقطہ آغاز اور ٹرمپ کا خارجہ محاذ پر چھکا سمجھے جارہے ہیں۔ پاکستان نے اس معاملے پر 'ایکسپرٹ' اور محتاط رائے دی کہ عرب اسرائیل معاہدے کے بہت دور رس مضمرات ہوں گے۔ مخالفانہ اور مواقفانہ کے بجائے پاکستان کا 'نیوٹرل تجزیہ' سن کر لگتا ہے پاکستان بہت جلد ایک انٹرنیشنل 'مبصر' ملک کی حیثیت اختیار کرلے گا۔
بظاہر موجودہ حالات میں پاکستان کے عرب امارات اور سعودی عرب سے تعلقات مبہم اور غیر واضح دور میں داخل ہیں۔ جہاں سعودی عرب اور امارات سے پاکستان کو سب سے زیادہ ترسیلات ملتی ہیں، وہیں سعودی عرب مشکل وقت میں بغیر ادھار پیسہ اور مفت تیل بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کے وزیر خارجہ چند دن قبل مسئلہ کشمیر پر ساتھ نہ دینے پر سعودی عرب سے اظہارِ ناراضگی کرچکے ہیں۔ اس سے پہلے عرب امارات پاکستان کے دشمن نمبر ایک مودی کو سب سے بڑا سویلین ایوارڈ دے چکا ہے، لیکن پاکستان نے تب مخالف بیان دینے سے گریز کیا تھا۔
پاکستان کی اگرچہ اسرائیل کے بارے میں پالیسی بڑی واضح ہے اور پاکستان اپنے پاسپورٹ میں بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن پاکستان کا محتاط بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جب عرب، جو اسرائیل کا براہِ راست شکار ہیں، وہ نارمل تعلقات کی طرف جارہے ہیں، تو پاکستان کو ترکی اور ایران کی طرح سخت بیان کی کیا ضرورت؟ اس لیے آرمی چیف معاملات کو پھر سے 'ایک پیج' پر کرنے کےلیے سعودی عرب روانہ ہوگئے۔ آرمی چیف کی ریاض یاترا اور پاکستان کے دور رس اثرات والے بیان سے لگتا یہی ہے کہ تعلقات دوبارہ شاہ محمود کے منہ 'کھلنے' سے پہلے کے دور میں داخل ہوجائیں گے۔
دنیا کی سب سے بلند عمارت بنانے کے بعد اپنے ہائی پروفائل اسپیس پروگرام کے تحت 2020 میں اماراتی مشن مریخ کے لیے بھی بھیجا جاچکا ہے۔ عرب امارات کے نزدیک صرف اور صرف ترقی ہے جس کےلیے مودی کو ایوارڈ دینا پڑے یا اسرائیل سے ملنا پڑے۔ واللہ واللہ
عرب اپنے براہِ راست مسئلہ فلسطین پر موقف سے پیچھے ہٹنے کا آغاز کرچکے ہیں تو پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر ساتھ نہ دینے کا بیان بے وقت کی راگنی اور بے جوڑ ہے۔ اسے شاہ محمود کا ایک اور 'مس فائر ایڈونچر' قرار دے کر مٹی ڈال دی جائے گی۔ ممکن ہے ریاض سے سلجھاؤ کے بعد اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم سے 'دبئی چلو' کی درخواست دے۔ ویسے بھی وہاں عمران خان کے فینز اور پی ٹی آئی کے فالورز بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔