اشرافیہ کی جمہوریت

ہم سمیت بے شمار لوگ اس الٹی جمہوریت کے سخت خلاف ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari August 18, 2020
[email protected]

پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، جمہوریت کی برانڈ ان میں سے ایک پرانی لیکن نئی برانڈ کا نظارہ 11 اگست کو ہم نے دیکھا، مریم نواز کی لاہور کے نیب آفس میں پیشی تھی۔ (ن) لیگ کے جذباتی اور مشتعل کارکن نیب کے آفس پر چڑھ دوڑے اور پھر پولیس اور لیگی کارکنوں کے درمیان مار دھاڑ شروع ہوگئی۔

نیب آفس پر پتھراؤ کیا گیا، پولیس نے بھی جوابی پتھر پھینکے، لاٹھی چارج ہوا اور لیگی کارکنوں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ مریم نواز کے ساتھ جو جلوس چلا تھا وہ اپنی پٹری سے اتر گیا۔ پھر پاکستانی عوام نے ایسے منظر ٹی وی اسکرینوں پر دیکھے کہ ہمارا دل بھی افسردہ ہوگیا۔ یہاں ایکسپریس کی ایک ہیڈنگ پیش خدمت ہے۔ ''مریم کی پیشی، لیگی کارکنوں کا نیب کے دفتر پر دھاوا، عمارت کے شیشے توڑ دیے، عملہ زخمی ہوا، پولیس پر پتھراؤ 50 گرفتار۔''

یہ مختصر سی جھلک ہم نے اس جمہوریت کی پیش کی، جس کے حامی اس جمہوریت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اور جمہوریت کی حمایت میں ایسے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں کہ عام آدمی سر پیٹ لیتا ہے۔ ایک جمہوریت عوامی ہوتی ہے جو عوام کی قیادت میں پرامن طور پر کام کرتی ہے۔ ایک جمہوریت خواصی ہوتی ہے جس کی ایک جھلک 11 اگست کو پیش کی گئی۔

ماضی میں سپریم کورٹ پر جو حملہ ہوا تھا اس کا کریڈٹ بھی اسی جماعت کو جاتا ہے جس نے 11اگست کو نیب کے آفس پر حملہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت میں کسی بھی سرکاری ادارے پر حملہ جمہوریت کی توہین ہوتاہے لیکن ہماری جمہوریت میں جب سپریم کورٹ پر حملہ ہو سکتا ہے تو ایک احتسابی ادارے نیب کی کیا حیثیت ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے تصور میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جس جمہوریت کو چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ ایسی ہوگی۔

دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں بھی پارلیمنٹ کے اندر گلونہ بازی ہوتی ہے لیکن ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ ایک احتسابی ادارے پر حملہ کیا جائے، وجہ کیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ تقریباً سات دہائیوں سے ہماری روایتی سیاسی پارٹیاںاقتدار میں آتی رہیں لیکن اب پہلی بار ایک احتسابی ادارہ ان کے کان کھینچنے آیا ہے جس کے نام سیان سیاستدانوں کو چڑ ہوگئی ہے۔ یہ ایک نئی جمہوریت ہے جس میں احتسابی اداروں کے دفاتر پر حملے کیے جاتے ہیں۔

پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے، اس طرح دنیا میں بہت سارے ملک پسماندہ ہیں لیکن ان کی جمہوریت اتنی پسماندہ نہیں جتنی پاکستان میں نظر آتی ہے۔ پاکستان میں جو جمہوریت ہے، اس کو دیکھنے کے بعد عوام کان پکڑ کر (اپنے) کہتے ہیں کہ اللہ میاں تو ہمارے ملک میں آمریت بھیج دے تاکہ جمہوریت بدنامی سے بچ جائے۔

ہم سمیت بے شمار لوگ اس الٹی جمہوریت کے سخت خلاف ہیں،اس جمہوریت کو یہ لوگ اگرچہ جمہوریت ماننے کے لے تیار نہیں کیونکہ جمہوریت کا مطلب عوام کی اکثریت کی حکمرانی ہوتا ہے لیکن ہماری جمہوریت کی پیدائش ہی محلات میں ہوئی، ہم نے ہزار بار اس حقیقت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ مٹھی بھر ایلیٹ کی حکمرانی کو جمہوریت کا نام دینا جمہوریت دشمنی کے علاوہ کچھ نہیں۔ پاکستان میں 22 کروڑ عوام رہتے ہیں، ہماری جمہوریت میں ان انسانوں کا حصہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ ہر پانچ سال بعد انتخابات کے دن سب سے پہلے پولنگ اسٹیشن جا کر اپنے ووٹ یا تو ایلیٹ کے ڈبے میں بھر دیں یا پھر گھروں میں یا گھروں کے قریب تاش کھیلتے رہیں۔ یہ 70 سالہ جمہوریت ابھی توانا و تندرست تو نظر آتی ہے جب کہ اندر سے ڈفر ہے۔

70سال سے اس ایلیٹی جمہوریت کی سزا پانے کے بعد اب عوام میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ وہ 70 سال سے جس جمہوریت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، وہ سرے سے جمہوریت ہی نہیں۔ سیاسی ایلیٹ کی آمریت ہے، بے شک عوام میں جمہوریت کا شعور پیدا ہو رہا ہے لیکن عوام کے ذہنوں کو عوامی جمہوریت کی طرف سے ہٹانے کے لیے ایسے ڈرامے رچائے جاتے رہے ہیں، جیسے 11 اگست کو لاہور میں نیب آفس کے سامنے رچائے گئے اور عوام کے ذہن کو منتشر کرنے کی کوشش کی گئی۔ سو دو سو ن لیگی کارکنوں نے نیب آفس کے سامنے ''طاقت'' کا جو مظاہرہ کیا وہ دراصل احتساب کے ادارے کو دباؤ میں لانیکی کوشش ہے۔

جمہوریت کے نام پر ایلیٹ 70 سال سے عوام کو دھوکا دیتی آ رہی ہے۔ ان برسوں میں حکمران طبقے نے اربوں روپے کی کھلی کرپشن کی ہے۔ اگر کسی سیاستدان پر مقدمہ ہو تو اس کے کارکن تشدد پر اتر آتے ہیں جس کا مقصد عوام کے ذہنوں کو کنفیوژ کرنا ہے لیکن عوام اب اتنے ہوشیار بہرحال ہوگئے ہیں کہ ایلیٹ کے بھونپو بننے کے لیے تیار نہیں۔ اس حوالے سے اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ غالباً یہ 1967 کی بات ہے۔ ہم نیپ، (نیب نہیں)کی میٹنگ میں شرکت کے لیے لاہور گئے تھے جہاں ماڈل ٹاؤن میں محترم عبدالمطلبی فرید آبادی کے گھر ٹھہرے تھے۔ یہیں نیپ کی میٹنگز ہوتی تھیں۔

ایک میٹنگ میں رائج الوقت جمہوریت پر گفتگو ہو رہی تھی کہ اس مبہم جمہوریت کی پہچان کے لیے جو نام تجویز ہوا، وہ عوامی جمہوریت تھا۔ مطلبی فرید آبادی کی بلائی گئی ایک ''غیر سرکاری'' میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ اس فراڈ جمہوریت کو بے نقاب کرنے کے لیے جمہوریت کے ساتھ عوامی کا اضافہ کیا جائے یعنی عوامی جمہوریت۔ مطلبی فرید آبادی، مرزا ابراہیم، سی آر اسلم وغیرہ سے مشاورت کے بعد عوامی جمہوریت نام کا ایک ہفت روزہ رسالہ عوامی جمہوریت کے نام سے نکالنا شروع کیا جس میں ہم بڑی پابندی کے ساتھ لکھا کرتے تھے۔ ہم نے کوشش کی کہ عوام میں فراڈ جمہوریت اور حقیقی عوامی جمہوریت کے فرق کو واضح کریں۔ عوامی جمہوریت کا رسالہ غالباً اب بھی شایع ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں