اگست کا مہینہ
ملک و قوم کو اس وقت سب سے زیادہ باہمی اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے کیونکہ دشمن ہمارا وجود مٹا دینے کے در پے ہیں۔
اگست کا مہینہ تاریخی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ماہ کی پہلی تاریخ کو برصغیر پاک و ہند کے معروف ترقی پسند اردو شاعر علی سردار جعفری نے اس جہان فانی سے کوچ کیا تھا جن کی بیسویں برسی گزشتہ یکم اگست کو منائی گئی۔
مرحوم کا رل مارکس کے بعد جس شخصیت سے سب سے زیادہ متاثر رہے وہ تھے علامہ اقبال ؒ تھے کیونکہ دونوں غریبوں سے ہمدردی رکھتے تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کے سخت ترین مخالف تھے۔ علامہ اقبال پر ان کی لکھی ہوئی کتاب '' اقبال شناسی '' کے عنوان سے 1977 میں شایع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے۔ اقبال کی انقلابی نظم '' خضر راہ '' کے اثرات جعفری صاحب کی مشہور نظم بعنوان '' ایک خواب اور '' میں نمایاں ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں یہ اقتباس :
سرکشی پھر میں تجھے آج صدا دیتا ہوں
میں ترا شاعر آوارہ و بے باک ، خراب
پھینک پھر جذبۂ بے تاب کی عالم پہ کمند
ایک خواب اور بھی اے ہمت دشوار پسند
ابھی گذشتہ 4 اگست کو بیروت میں دو زور دار بم دھماکوں نے دنیا کو ہلا دیا۔ ان دھماکوں نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے امریکی ایٹم بموں کے لگائے ہوئے زخم ہرے کر دیے۔ یہ زخم امریکا نے جا پان کے شہریوں پر اگست ہی کے ابتدائی ایام میں لگائے تھے۔ ہم نے ہیروشیما کی تباہی کا عکس اس کے عجائب گھر میں رکھے ہوئے باقیات کی صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جس کے بعد ہمیں اپنے آپ کو سنبھا لنا مشکل ہوگیا تھا اور مہذب امریکا کا مکروہ''ڈریکو لائی'' چہرہ ہماری آنکھوں کے سامنے بالکل بے نقاب ہوگیا تھا اور اس کی اصلیت کھل کر ہمارے سامنے آگئی تھی جس کی دوسری شکل بعد میں اس کی ہمارے وطن پاکستان کے ساتھ دوستی میں نظر آچکی ہے کہ بقول حفیظ جالندھری :
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
5 اگست یوم استحصال ہے۔ یہ نہ صرف برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا بلکہ تاریخ عالم کا وہ منحوس ترین دن اور یوم سیاہ ہے جب گزشتہ برس بھارت کے پر دھان منتری نریندر مودی اور امیت شاہ کی زیر قیادت ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت بھارت کے آئین کے ساتھ کھلواڑ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی اہمیت کا خاتمہ کرکے مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کا تنا سب اکثریت سے اقلیت میں تبدیل کر نے کی راہ ہموار کردی تھی تاکہ اگر کبھی مقبوضہ وادی کا فیصلہ اقوام متحدہ کی منظور کی ہوئی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے کرایا جائے تو بھی جیت بھارت ہی کی ہو۔ بقول شاعر : وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا۔
مود ی ( عملاً موذی ) سرکار جدّی پشتی مسلم کشمیریوں کے بسے بسائے گھر بار اجاڑ اجاڑکر ان کی خالی کی ہوئی جگہوں پر اندرون بھارت سے ہندوؤں کو لالاکر آبا د کر رہی ہے۔ بربادی اور آبادی کا یہ کھیل بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں تیزی کے ساتھ جاری ہے اور بے حس عالمی برادری محض خاموش ہے۔ گویا :
ٹک ٹک دیدم
دم نہ کشیدم
اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ ایسی تنظیم کا کیا فائدہ جو ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند نہ کرسکے ؟ ہمارا دعویٰ ہے کہ اگر دنیائے اسلام کے چند اہم ممالک کا جذبہٗ ملّی جو ش میں آجائے اور وہ بھارتی حکمرانوں کو یہ الٹی میٹم دے دیں کہ '' بس بہت ہوچکا اب ہوش میں آجاؤ ورنہ تمہارا تجارتی بائیکاٹ کر کے حقہ پانی بند کر دیا جائے گا '' تو ہندوتوّا کا سارا نشہ ہرن ہوجائے گا۔ سچ پوچھئے تو او آئی سی اگر ٹھان لے تو نہ صرف کشمیری بلکہ مسلمانوں کی نسل کشی سے بھی بھارت کو روکا جا سکتا ہے بلکہ بھارت کے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کا تدارک بھی کیا جاسکتا ہے۔
ہمارا خیال تو یہ بھی ہے کہ اگر او آئی سی، اسلامی عالمی برادری کے ایک عسکری اور نظر یاتی اعتبار سے انتہائی اہم اور طاقتور رکن کے طور پر پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کر لے تو پھر نہ صرف مقبوضہ کشمیر اور فلسطین جیسے برسوں سے الجھے ہوئے مسائل کے حل کی کنجی ہاتھ آجائے گی بلکہ او آئی سی دنیا میں ایک نا قابل شکست اور فعال قوت بن کر ابھرے گی اور پھر اپنی قوت کا لوہا منوا لے گی۔
بھارتی سرکار نے گذشتہ 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی سال گرہ منائی بلکہ اسی روز ایودھیّا (اتر پردیش ) میں 6 دسمبر 1992ء کو شہید کرائی گئی تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے سنگ بنیاد رکھنے کا جشن منایا۔ خیال رہے کہ اگر مسلم امّہ نے بھارتی حکومت کی ان حرکات پر مصلحت کا مظاہرہ جاری رکھا تو یہ بھارت کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوگا جس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اہل دانش کا مشورہ بھی یہی ہے کہ '' گر بہ کشتن روز اوّل ''
افسوس کہ عدم اتفاق اور اتحاد باہمی کا شدید فقدان اور آپس کی چپقلش ہی مسلمانوں کی رسوائی اور زبوں حالی کا بنیادی سبب بنی ہوئی ہے۔ ہماری اصل شناخت جو اسلام ہے گم ہوچکی ہے۔ بقول علامہ اقبال :
یو ں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟
یہ کڑی آزمائش کا وقت ہے۔ وہی آزمائش کی گھڑی جس کے بارے میں اس شعر کا حوالہ ضروری ہے:
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے
وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کا 74 واں جشن بڑے جوش و خروش اور دھوم دھام سے منانے کے بعد ہمیں اطمینان سے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جانا نہیں چاہیے بلکہ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے نبرد آز ما ہونے کی مشترکہ اور متحدہ فعال حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اسے بحسن و خوبی عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز کی بقا و سلامتی کا تقاضہ ہے کہ یہ آپس کی تو تو میں میں ، روزروز کی جوتم پیزار ترک کی جائے ۔
حصول اقتدار کی سیاست کا نتیجہ قوم سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں دیکھ چکی ہے اور خاکم بہ دہن مزید کسی اور سانحہ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ خدا ایسے نا خداؤں سے بچائے رکھے جن کے ہاتھوں کشتی کے ڈوب جانے کا اندیشہ لا حق ہو۔ لہٰذا سیاست برائے مخالفت اور سیاست محض برائے حصول اقتدار والوں کو قوم کا دور ہی سے سلام '' بخشو بی بلی ّ چوہا لنڈورا ہی بھلا ''
ملک و قوم کو اس وقت سب سے زیادہ باہمی اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے کیونکہ دشمن ہمارا وجود مٹا دینے کے در پے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ایک متحد قوت بن کر صدق دل اور تندہی سے کام کرنا ہے۔ بقول بابائے قوم '' کام ، کام اور صرف کام''۔
حکمرانوں سے بھی ہماری یہی مؤد بانہ گزارش ہے کہ وہ غیر ضروری اور بھڑ کانے والی باتوں پر توجہ دے کر اپنا اور قوم کا قیمتی وقت ضایع کرنے کے بجائے اپنی توجہ خدمت قوم و وطن پر مرکوز رکھیں جس نے انھیں مسند اقتدار پر لا کر بھٹایاہے۔ ارباب حکومت سے ہماری ایک گزارش یہ بھی ہے کہ وہ محض اپنے سرکاری اداروں کی جانب سے عوام کے حالات زندگی اور مسائل کے بارے میںـ'' سب اچھا ّہے'' کی عبارت سے فراہم کی گئی معلومات پر بھروسا کرکے بیٹھنے کے بجائے خود بھی یہ معلوم کیا کریں کہ عوام بے چارے کس حال میں ہیں۔ یعنی
سن تو سہی جہاں میںہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
اطلاعاً عرض ہے کہ اس کار دشوار کے لیے آپ کو زیادہ بھاگ دوڑ کی ضرورت نہیں بلکہ صرف بلا ناغہ روز نامہ '' ایکسپریس '' پڑھنے کی زحمت گوارا کرنا ہی کافی ہوگی۔