کاشانہ اسکینڈل تحریکِ انصاف کے حکمرانوں سے انصاف کا منتظر

کاشانہ ہوم اور اس جیسے مجبوروں و کمزوروں کے نام نہاد حفاظتی مراکز طاقتوروں کی عیاشیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں

کاشانہ ہوم اور اس جیسے نام نہاد حفاظتی مراکز طاقتوروں کی عیاشیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

یتیم اور بےسہارا بچیوں کے ادارے کاشانہ ویلفیئر ہوم میں جنسی ہراسانی و عصمت دری سے متعلق ''کاشانہ اسکینڈل'' انصاف کے حصول کے عنوان سے مسلسل خبروں کا حصہ ہے۔ یتیم، بے سہارا بچیوں پر ہونے والے مظالم کو منظرِ عام پر لانے والی اس کی بہادر سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف ہیں۔

غیرت کے نام پر سگی بہن بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دینے والے معاشرے میں غیرت کے نام پر انصاف کا حصول کس قدر مشکل ہے؟ اس کا اندازہ کاشانہ اسکینڈل سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔

کاشانہ ویلفیئر ہوم 1970 کی دہائی میں یتیم و بےسہارا بچیوں کے تحفظ کےلیے وجود میں آنے والا معروف تربیتی ادارہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن اور ہوس کے عفریت نے یہاں بھی اپنے پنجے گاڑ دیئے۔ سالہا سال سے متعلقہ حکام کی سرپرستی میں ہوس کے شیطانی پنجے یتیم بےسہارا بچیوں کی عصمتیں تار تار کرتے رہے۔ ظلم کے اس سلسلے میں وقفہ اس وقت آیا جب یہاں کی انچارج/ سپرنٹنڈنٹ ایک غیرت مند بہادر خاتون افشاں لطیف تعینات ہوئیں۔

کاشانہ کے مشکوک ماحول سے انہیں جلد ہی حالات کی نزاکت کا احساس ہوگیا۔ فوری علم میں آنے والا واقعہ رات کے آخری پہر میں غیر مردوں کا بچیوں کے کمروں میں چوری چھپےداخل ہونا تھا۔ یہ بات کاشانہ کے قوانین کے بالکل خلاف تھی۔ افشاں نے فوری طور پر وہاں کی اعلیٰ انتظامیہ کو اس سے آگاہ کیا۔ اس آگہی کا کوئی فائدہ تو درکنار، مزید شرمناک حالات سامنے آتے گئے۔

ان حالات کی ایک ہلکی سی جھلک انہیں افسران کی جانب سے ملنے والے احکامات ہیں، جن کے مطابق یہاں کی نوعمر/ نوجوان بچیوں کی شادیاں کروانا تھا۔ اس مقصد کےلیے نوعمر لڑکیوں اور کاشانہ کے ہی کمروں کو بیڈروم کی صورت میں سجانا ان کی ذمے داری میں شامل تھا۔

یہ تمام انتظامات محکمہ سوشل ویلفیئر کے وزیر اجمل چیمہ کی سرپرستی میں تھے۔ بچیوں اور عروسی خواب گاہوں کی تیاری کے دوران بچیوں کی آنکھوں میں آنسو اور خوف کے سایوں نے انہیں فوراً ہوشیار کردیا اور انہوں نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے میں دیر نہ کی۔ سب سے پہلے کاشانہ کی ہی اعلیٰ انتظامیہ سے رابطہ کیا اور یتیم بےسہارا بچیوں کےلیے مدد کی اپیل کی۔

ان کا آواز بلند کرنا ہی تھا کہ ان کے خلاف ناروا مزاحمتی سلوک کا آغاز ہو گیا۔ دوسرے ہی دن سوشل ویلفیئر کے وزیر نے انہیں ہراساں کیا اور اور دور دراز تبادلے کی دھمکی دی۔ کاشانہ اسکینڈل کے واقعات پر شفاف انکوائری کی درخواست کے جواب میں انکوائری کی ذمے داری ملوث افراد ہی کو سونپ دی گئی۔ ان عیاش سرکاری وزرا نے بجائے فریاد رسی کے، الٹا حکومتی اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ کاشانہ میں جارحانہ طور پر داخل ہو کر بچیوں کو دھمکانے اور ہراساں کرنے کے ساتھ ان سے شرمناک سلوک بھی کیا۔

افشاں لطیف کی پریس ریلیز کے مطابق انکوائری کےلیے مامور وزیرِاعلیٰ معائنہ ٹیم کا وزیر اجمل چیمہ اور اس کے ساتھی عیاش سرکاری افسران کاشانہ اسکینڈل کے ذمے دار ہیں۔ ملک میں اعلیٰ ترین عدالتوں کی موجودگی میں کرپٹ وزیرِاعلیٰ معائنہ ٹیم کی تعیناتی کاشانہ جیسے اداروں کے خلاف سازش ہے۔ ان ہی ظالم عیاشوں کی سرپرستی میں یتیم بےسہارا بچیوں کی نام نہاد شادی درحقیقت جنسی دردندگی کا ہولناک کھیل تھا جس میں معصوم نوعمر بچیوں کو سجا سنوار کر عیاش سرکاری افسروں کے حوالے کیا جاتا، نشہ آور ادویہ دی جاتیں، حیا سوز فلمیں دکھا کر انہیں اپنی وحشت و درندگی کی تسکین کی غرض سے تیار کیا جاتا۔

انصاف کے تمام فورمز سے مایوس ہونے کے بعد افشاں لطیف نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ 29 نومبر 2019 کو کاشانہ اسکینڈل عوام کے سامنے آیا۔

اس کے بعد ہی ان تمام واقعات کی چشم دید گواہ اقرا کائنات کو 16 دسمبر 2019 کو اغوا کرلیا گیا۔ اغوا سے قبل اس کا تمام ریکارڈ بھی غائب کردیا گیا۔ اسے دو ماہ تک پولیس اور چائلڈ پروٹیکشن کسٹڈی میں رکھنے کے بعد پانچ فروری کو قتل کرکے ایدھی سرد خانے پہنچا دیا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے بھوکا پیاسا رکھ کر قتل کیا گیا۔ وزیرِ قانون راجہ بشارت کے بقول وہ اس قتل میں ملوث نہیں، تو پولیس ان کے حکم پر قتل کی ایف آئی آر درج کرنے سے گریزاں کیوں ہے؟


واضح ثبوت کے باوجود ایف آئی آر کا درج نہ ہونا پشت پر طاقتور بااثر ظالموں کی موجودگی کا پتا دیتا ہے۔

کاشانہ اسکینڈل کی چشم دید گواہ کائنات کو قتل کرنے کے بعد بھی وزیر اجمل چیمہ کی دردندگی کے ثبوت باقی بچیوں کی گواہیاں ہیں جو ویڈیوز کی صورت میں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ان سے بچنے کی غرض سے نہ صرف بچیوں کو ادارے سے ہی غائب کر دیا گیا بلکہ گارڈ کے علاوہ تمام عملہ بھی فوری طور پر تبدیل کردیا گیا۔

اس ضمن میں اجمل چیمہ کا یہ بھی الزام ہے کہ افشاں لطیف سے فنڈز کے غلط استعمال پر انکوائری کا نتیجہ ان کے خلاف ردِعمل ہے یہ سب۔ جب کہ حکومت اور سوشل ویلفیئر کے محکمے پر اتنے سنگین الزامات کے باوجود بھی متعلقہ حکام نے میڈیا کے کاشانہ کے اندر گواہ بچیوں سے ملاقات پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ کاشانہ اسکینڈل میں انصاف کے حصول کےلیے دی گئی تمام درخواستوں کے ساتھ مستند ثبوت بھی میڈیا پر موجود ہیں۔

مظلوم بچیوں کے انصاف کے حصول کی خاطر افشاں لطیف نے 12 جولائی 2019 کو پہلی بار پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار، وزیرِ اعظم عمران خان، ڈی جی رینجرز کو مدد کےلیے درخواستیں بھیجیں۔ یہاں کوئی شنوائی نہ ہوئی تو وزیرِ اعظم کے سٹیزن پورٹل سمیت انصاف کی امید کے ہر فورم پر گئیں۔ اس دوران یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی ساری فعالیت غریب اور کمزوروں پر الزام کی صورت میں ہی ہے۔ امیروں اور طاقتوروں سے مقابلہ، اور ان کو عدالت کے کٹہرے میں لانا، ان کی منصوبہ بندیوں میں شامل نہیں۔ اس کی وجہ ان تنظیموں کو ظالموں کی جانب سے ملنے والے فنڈز اور مراعات ہیں۔

سوشل میڈیا کے مطابق پاکستان کے یتیم خانوں، دارالامان اداروں اور جیلوں سے نوعمر لڑکیوں اور خواتین کی امیر عیاشوں حکومتی وزرا اور بیرونِ ممالک فراہمی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ معصوم بچیاں عزت و ناموس کی حفاظت کی خاطر کاشانہ جیسے اداروں کے حوالے کی جاتی ہیں، جہاں محافظ ہی ان کی عصمتوں کے لٹیرے بن جائیں تو انصاف بھی تماش بین رہ جاتا ہے۔

ایک سال سے زائد جاری کاشانہ اسکینڈل میں انصاف کے حصول کےلیے باہمت افشاں لطیف مسلسل کوشاں ہیں۔ ان کے خلاف لگاتار انتقامی کارروائیاں بھی انہیں مظلوم بچیوں کےلیے انصاف کی جدوجہد سے نہ روک سکیں۔ حکومتی ضمیر کو جگانے کی کوششیں آئے دن کے مظاہروں کی صورت میں میڈیائی افق کا حصہ ہیں۔ وزیرِاعلیٰ، وزیرِاعظم اور تمام متعلقہ حکام کاشانہ اسکینڈل کی صورتِ حال سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ غائب ہونے والی بےسہارا کمزور بچیوں پر جو بیت رہی ہوگی، اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔

تبدیلی کے نام پر وجود میں آنے والی حکومت میں دو سال گزر جانے کے باوجود قانون کی عمل داری خواب ہی ہے۔ کاشانہ ہوم اور اس جیسے مجبوروں و کمزوروں کے نام نہاد حفاظتی مراکز طاقتوروں کی عیاشیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ ''ریاستِ مدینہ'' کے خواب گر کب خوابِ غفلت سے جاگیں گے؟

ہماری باپردہ حیادار خاتونِ اول بشریٰ بی بی نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا تھا کہ وہ یتیم و بےسہارا بچوں اور بچیوں کے حوالے سے اقدامات کا جذبہ رکھتی ہیں۔

بشریٰ بی بی! آپ کی بیٹیاں بھی آپ کی طرح حیا اور پاک دامنی کی منتظر ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story