طالبعلم کا قتل مقدمے کی سماعت اور تفتیش منتقل کرنیکی درخواست پر نوٹس جاری
میرے بھائی کو سائٹ پولیس نے شیر شاہ جاتے ہوئے روکا، تھانے لیجا کر تشدد کیا اور ہلاک کردیا، درخواست گزار
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سجاد علیشاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پولیس کی حراست میں جاں بحق ہونیوالے طالبعلم کے مقدمہ قتل کی تفتیش اور سماعت منتقل کرنے کی درخواست پر محکمہ پولیس اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو 16دسمبر کے لیے نوٹس جاری کردیے۔
درخواست گزار شیر افضل نے ہوم سیکریٹری، انسپکٹر جنرل سندھ، ڈی آئی جی ویسٹ زون اور ایس ایچ او سائٹ سیکشن اے کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیارکیا ہے کہ درخواست گزار کا بھائی 9 ستمبر2013کو شپ اونرز کالج نارتھ ناظم آباد سے کلاسیں لینے کے بعد2دوستوں کے ہمراہ شیرشاہ گیاتھا، راستے میں سائٹ پولیس نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اور پوچھ گچھ کے لیے تھانے لے گئے، درخواست گزار کے مطابق پولیس اسٹیشن میں اس کے بھائی پر تشدد کیا گیا اور دوران تفتیش مشتعل ہوکر طفیل نامی اہلکار نے درخواست گزار کے بھائی پر فائرنگ کردی، متعدد گولیاں اس کے سینے میں اتر گئیں اور وہ دم توڑ گیا، درخواست گزار کے مطابق سائٹ پولیس اسٹیشن کے انچارج پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے انھوں نے عدالت کے ذریعے ایف آئی آر درج کرائی لیکن پولیس تفتیش میں دلچسپی نہیں لے رہی اور ملزمان کے خلاف موثر کارروائی نہیں کی جارہی ہے، درخواست گزار نے مزید موقف اختیارکیا کہ پولیس نے مقدمے کا چالان سیشن عدالت میں جمع کرایا ہے۔
جبکہ اس مقدمے کی سماعت انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ہونا چاہیے ، اس لیے مقدمہ سماعت کیلیے خصوصی عدالت منتقل کیا جائے، علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے واٹر بورڈ کے 13افسران کی ترقی سے متعلق درخواستوں پر مدعاعلیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حالت جوں کی توں برقرار رکھنے کی ہدایت کی ہے ،درخواست گزارعبدالرحیم کھٹی سمیت گریڈ 19کے 4سپرنٹنڈنگ انجینئرز نے چیف انجینئر کی گریڈ 20کی اسامی پرترقی کے لیے درخواست دی جبکہ عرفان بیگ سمیت 9اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئرز نے ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے پر ترقی کے لیے درخواست دائر کی ہے ۔
درخواست گزاروں نے موقف اختیارکیاکہ ان کی ترقی کے لیے ادارے نے محکمہ جاتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے ان کی ترقی کی منظوری دیدی تھی لیکن بعد میں وزارت بلدیات نے انکی ترقی کے احکامات معطل کرتے ہوئے موقف اختیارکیاکہ ان کی ترقی کے لیے علیحدہ علیحدہ جائزہ لیا جائیگا، درخواست گزاروں نے موقف اختیارکیاکہ محکمہ جاتی کمیٹی کی جانب سے تمام قواعد وضوابط کے مطابق ترقی کی منظوری کے بعد حکومت سندھ کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ درخواست گزاروں کو اس ترقی سے محروم کرسکے، اس لیے حکومت سندھ کو ہدایت کی جائے کہ وہ انکی ترقی کے خلاف اپنا حکم واپس لے یا عدالت اس حکم کوغیرقانونی اور کالعدم قراردے۔
درخواست گزار شیر افضل نے ہوم سیکریٹری، انسپکٹر جنرل سندھ، ڈی آئی جی ویسٹ زون اور ایس ایچ او سائٹ سیکشن اے کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیارکیا ہے کہ درخواست گزار کا بھائی 9 ستمبر2013کو شپ اونرز کالج نارتھ ناظم آباد سے کلاسیں لینے کے بعد2دوستوں کے ہمراہ شیرشاہ گیاتھا، راستے میں سائٹ پولیس نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اور پوچھ گچھ کے لیے تھانے لے گئے، درخواست گزار کے مطابق پولیس اسٹیشن میں اس کے بھائی پر تشدد کیا گیا اور دوران تفتیش مشتعل ہوکر طفیل نامی اہلکار نے درخواست گزار کے بھائی پر فائرنگ کردی، متعدد گولیاں اس کے سینے میں اتر گئیں اور وہ دم توڑ گیا، درخواست گزار کے مطابق سائٹ پولیس اسٹیشن کے انچارج پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے انھوں نے عدالت کے ذریعے ایف آئی آر درج کرائی لیکن پولیس تفتیش میں دلچسپی نہیں لے رہی اور ملزمان کے خلاف موثر کارروائی نہیں کی جارہی ہے، درخواست گزار نے مزید موقف اختیارکیا کہ پولیس نے مقدمے کا چالان سیشن عدالت میں جمع کرایا ہے۔
جبکہ اس مقدمے کی سماعت انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ہونا چاہیے ، اس لیے مقدمہ سماعت کیلیے خصوصی عدالت منتقل کیا جائے، علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے واٹر بورڈ کے 13افسران کی ترقی سے متعلق درخواستوں پر مدعاعلیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حالت جوں کی توں برقرار رکھنے کی ہدایت کی ہے ،درخواست گزارعبدالرحیم کھٹی سمیت گریڈ 19کے 4سپرنٹنڈنگ انجینئرز نے چیف انجینئر کی گریڈ 20کی اسامی پرترقی کے لیے درخواست دی جبکہ عرفان بیگ سمیت 9اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئرز نے ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے پر ترقی کے لیے درخواست دائر کی ہے ۔
درخواست گزاروں نے موقف اختیارکیاکہ ان کی ترقی کے لیے ادارے نے محکمہ جاتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے ان کی ترقی کی منظوری دیدی تھی لیکن بعد میں وزارت بلدیات نے انکی ترقی کے احکامات معطل کرتے ہوئے موقف اختیارکیاکہ ان کی ترقی کے لیے علیحدہ علیحدہ جائزہ لیا جائیگا، درخواست گزاروں نے موقف اختیارکیاکہ محکمہ جاتی کمیٹی کی جانب سے تمام قواعد وضوابط کے مطابق ترقی کی منظوری کے بعد حکومت سندھ کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ درخواست گزاروں کو اس ترقی سے محروم کرسکے، اس لیے حکومت سندھ کو ہدایت کی جائے کہ وہ انکی ترقی کے خلاف اپنا حکم واپس لے یا عدالت اس حکم کوغیرقانونی اور کالعدم قراردے۔