غوث بخش بزنجوکا خواب

پاکستان کی یہ بدنصیبی ہے کہ عظیم انسانوں سے اسے جتنا کچھ حاصل کرنا چاہیے تھا وہ اس سے محروم رہا۔


Zahida Hina August 19, 2020
[email protected]

غوث بخش بزنجو 11 اگست کو رخصت ہوئے۔ ان کی رخصت کا دن آتا ہے تو وجود پر اداسی چھا جاتی ہے۔ یہ وہ دن ہے جب صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے نہایت عظیم سیاسی رہنما اور مدبر ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوئے تھے۔ میر غوث بخش بزنجو جیسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ جہاں پیدا ہوتا ہے ، اس کا فخر بن جاتا ہے۔

اسی لیے بزنجو صاحب کو بابائے بلوچستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی یہ بدنصیبی ہے کہ عظیم انسانوں سے اسے جتنا کچھ حاصل کرنا چاہیے تھا وہ اس سے محروم رہا۔ غوث بخش بزنجو کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے پاس دینے کو بہت کچھ تھا لیکن ہم اپنا دامن ان کی دانش کے موتیوں سے نہیں بھرسکے اور تہی دامن رہے۔

بزنجو صاحب 1917ء میں بلوچستان کے ضلع خضدار میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی۔ 1935 میں کوئٹہ ہولناک زلزلے کا شکار ہوا جس میں 30 سے 60 ہزار لوگ جا ں بحق ہوئے تھے۔ کشمیر کے 2005 کے زلزلے سے پہلے اس قدر ہلاکت خیز زلزلہ جنوبی ایشیا میں کبھی نہیں آیا تھا۔ کوئٹہ کی بربادی کے باعث وہ کراچی آگئے جہاں انھوں نے مشہور سندھ مدرستہ الاسلام میں داخلہ لے لیا۔

وہ فٹ بال کے اچھے کھلاڑی تھے۔ ضیاء الدین انھیں علی گڑھ یونیورسٹی لے گئے جہاں انھوں نے اپنی تعلیم حاصل کی۔ علی گڑھ یونیورسٹی ہندوستان میں مسلم سیاست کا مرکز تھی۔ وہاں ان کا رابطہ کمیونسٹ تحریک سے وابستہ لوگوں سے ہوا اور وہ ترقی پسند افکار سے بہت متاثر ہوئے۔ 1938 میں وہ علی گڑھ سے واپس آگئے اور کراچی میں قائم بلوچ دانشوروں کی جماعت بلوچ لیگ میں شمولیت اختیار کرلی، یہاں سے ان کی عملی سیاست کا آغاز ہوا۔

قیام پاکستان سے آٹھ سال پہلے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے سالانہ اجلاس میں انھوں نے بلوچ لیگ کی نمایندگی کی تھی۔ بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کے بعد خان آف قلات نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ انھوں نے غوث بخش بزنجو اور میرگل خان نصیر کو بھی مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ ان دونوں نے یہ سوچ کران کی دعوت قبول کرلی کہ اس طرح انھیں پاکستان کی سطح پر اپنی سیاست کو آگے بڑھانے کا موقع مل جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ میر صاحب ایک اعلیٰ پائے کے سیاسی دانشور تھے، ان کے تجزیے کم ہی غلط ہوا کرتے تھے۔ تاہم، مسلم لیگ میں شمولیت کے حوالے سے ان کا فیصلہ درست ثابت نہیں ہوا۔

یہ ان کی سیاسی غلطیوں میں پہلی اور غالباً آخری غلطی تھی۔ تمام ریاستوں اور صوبوں کو مدغم کرکے جب ون یونٹ تشکیل دیا گیا تو بزنجو صاحب کو شدید مایوسی ہوئی۔ انھوں نے مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی اور پرنس عبدالکریم اور سید گل خان نصیر کے ساتھ مل کر استھمان گل نامی پارٹی بنائی۔ 1956 میں ون یونٹ کے خلاف تحریک چلانے کے لیے سندھ، پنجاب، اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے کی کئی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے مل کر پاکستان نیشنل پارٹی کی بنیاد ڈالی۔

پاکستان کی یہ وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس میں ترقی پسند، قوم پرست، کمیونسٹ، سوشلسٹ اور روشن خیال فکر کے لوگ ایک ساتھ مل کر جدوجہد کر رہے تھے، لیکن پھر سیاسی حالات نے کروٹ بدلی اور مولانا بھاشانی عوامی لیگ سے الگ ہوکر پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوگئے، اس طرح نیشنل عوامی پارٹی وجود میں آگئی۔ اس انضمام کے بعد نیشنل عوامی پارٹی اس وقت کے پاکستان کی واحد پارٹی تھی جس میں ملک کے تقریباً تمام ترقی پسند، سیکولر، قوم پرست اور جمہوریت پسند سیاسی رہنما اور کارکن شامل تھے۔

پاکستان میں جمہوریت کی بحالی، ون یونٹ اور پیرٹی کے خاتمے، قومیتوں کے حقوق اور بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر آزادانہ انتخابات کے ذریعے دستور ساز اسمبلی کے قیام کے لیے نیشنل عوامی پارٹی نے بے مثال جدوجہد کی۔ ایوب خان کے زوال کے بعد 1970 کے عام انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے سرحد اور بلوچستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے آئین کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک آئینی کمیٹی بنائی گئی جس نے پارلیمنٹ میں 1973 کے آئین کا مسودہ پیش کیا۔ بزنجو صاحب نے اس آئینی کمیٹی میں نیشنل عوامی پارٹی کے نمایندے کے طورپر سرگرم حصہ لیا۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ 1973کے آئین کے بنیادی خالقوں میں شامل تھے۔

مولانا بھاشانی اور خان عبدالولی خان کے درمیان اختلافات کے باعث یہ جماعت 1967 میں دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ غوث بخش بزنجو، خان عبدالولی کے ساتھ تھے۔ 1970 کے عام انتخابات میں ولی خان نیپ صوبہ سرحد کی صوبائی اسمبلی میں دوسری اور بلوچستان میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر کامیاب ہوئی۔ ان دونوں صوبوں میں نیپ اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومتیں قائم ہوئیں اورمیر غوث بخش بزنجو کو بلوچستان کا گورنر نامزد کردیا گیا۔

پاکستان کی سیاست کا بڑا المیہ یہ ہوا کہ نیپ جیسی بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جمہوریت پسند جماعت صرف 8 سال تک ہی باقی رہ سکی۔ نیپ پر سب سے پہلے جنرل یحییٰ خان نے 1971 میں پابندی عائد کی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1975 میں اس پرپابندی لگوادی۔ میر صاحب نے پوری کوشش کی کہ پاکستان کی ان دو سب سے بڑی ترقی پسند جماعتوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا نہ ہو لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ بھٹو صاحب کی جانب سے جب نیپ اور جمعیت العلمائے اسلام کی صوبائی حکومتوں کو برطرف کیا گیا تو بزنجو صاحب نے گورنر کے عہدے سے استعفے دے دیا۔ انھیں گرفتار کر کے حیدرآباد سازش کیس میں ملوث کردیا گیا ۔

بھٹو صاحب نے سیاسی میدان میں اپنی سب سے بڑی حریف سیاسی جماعت کو راہ سے ہٹاکر بظاہر اپنے لیے آسانی پیدا کرنی چاہی تھی لیکن اس کے نتائج ان کی حکومت کے لیے بہت افسوسناک نکلے۔ جنرل ضیاء الحق نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا اور حکومت سنبھالتے ہی حیدرآباد سازش کیس ختم کرکے تمام لوگوں کو آزاد کردیا۔ قید سے رہائی کے بعد بزنجو صاحب نے ملکی سیاست میں دوبارہ فعال ہونے کا فیصلہ کیا۔ جب کہ اجمل خٹک، خیربخش مری نے قومی سیاسی دھارے سے الگ ہوجانے کو ترجیح دی۔ میر صاحب پارلیمانی اور جمہوری سیاست میں حصہ لینے کے لیے نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی میں شامل ہوگئے۔

یہ جماعت نیپ کی پابندی کے بعدولی خان، غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر اور عطا اللہ خان مینگل نے مل کر بنائی تھی۔ افغان انقلاب کے بعد این ڈی پی میں اختلافات پیدا ہوئے اور میر صاحب نے پاکستان نیشنل پارٹی قائم کرلی۔ گل خان نصیر ان کے ساتھ تھے جب کہ عطا اللہ مینگل نے پاکستان چھوڑ کر لندن جانے کا فیصلہ کیا۔

میر غوث بخش بزنجو نے زندگی کی آخری سانس تک ملک میں جمہوریت کے قیام اور وفاقی اکائیوں کی زیادہ سے زیادہ خود مختاری، قومیتوں، مزدوروں، کسانوں، عورتوں اور طلبا حقوق کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ میر صاحب نے ایم آر ڈی تحریک میں بھی حصہ لیا اور بے نظیر بھٹو کی حمایت کی۔ انھوں نے ہمیشہ انتہا پسندی کی مخالفت کی، وہ پرامن سیاسی جدوجہد، مکالمے اور سیاسی رواداری پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا نہ ہو کیونکہ یہ ٹکراؤ غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط کرتا ہے۔

ان کے اس نقطہ نظر کی وجہ سے کئی انقلابی دوست انھیں طنزیہ طور پر ''بابائے مذاکرات'' کہا کرتے تھے جس کا انھوں نے کبھی برا نہیں مانا۔ تاریخ نے بزنجو صاحب کے سیاسی تجزیے اور سیاست کو درست ثابت کیا۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ اگر بھٹو صاحب نے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہوتا ، نیپ کی مخلوط حکومتیں ختم نہ کی ہوتیں، سازش کیس بناکر اس جماعت پر بغاوت اور غداری کا مقدمہ نہ چلایا ہوتا توکیا فوج ان کا تختہ آسانی سے الٹ سکتی تھی؟

نیپ پر پابندی کے بعد دائیںبازوں کی کٹر مذہبی جماعتیں طاقتور ہوئیں جب کہ ترقی پسند اور بائیں بازو کی قوتیں کمزور ہوکر منتشر ہوگئیں جس کا فائدہ اٹھاکر جنرل ضیا الحق نے بھٹو صاحب کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر جمہوریت کو دفن کردیا۔ اب نہ وہ پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی ہے، نہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ہے اور نہ پہلے والی پاکستان نیشنل پارٹی ہے۔ کسی نے میر صاحب کی بات نہ مانی، باہم دست و گریباں رہے اور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی متحد نہیں ہوئے جس کا خمیازہ آج پاکستان اور اس کے عوام بھگت رہے ہیں۔

میر غوث بخش بزنجونے قیدوبند کی طویل صعوبتیں برداشت کیں اور آخری وقت تک یہی کہتے رہے کہ عوام کے مظلوم و محکوم طبقات اور قومیتوں کو اس وقت تک حقوق نہیں ملیں گے جب تک ملک میں ایک حقیقی وفاقی جمہوری نظام قائم اور مستحکم نہیں ہوگا۔ اس مقصد کو پانے کے لیے تمام روشن خیال، ترقی اور جمہوریت پسند سیاسی گروہوں کو متحد ہونا پڑے گا۔ میر صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کے اس خواب کو پورا کیا جائے جو ہنوز شرمندہ تعبیر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں