محکمہ ہائے انسداد وامداد
ہم وہ پرانا قصہ تو آپ کو نہیں سنائیں گے جس میں ایک ’’دانا‘‘نے دریا کی لہروں کوبھی آمدنی کی لہروں میں بدل دیاتھا۔
ایک صاحب نے ہمیں جو خط بھیجا ہے اور اس خط میں ایک سرکاری محکمے یا ادارے یا ''وارے نیارے''کا ذکرکیاہے، وہ شاید ان کو عجیب لگاہو لیکن ہمیں اس میں کچھ بھی عجیب یا حیران کن نہیں لگا ہے۔ بلکہ اس شخص کی ''خبریت'' حیران کن لگی ہے۔
بیچارے کوآج سترسال بعد بھی یہ پتہ نہیں چلا ہے کہ اس ملک کو ''کن''لوگوں نے کس لیے آزاد کیاتھا، اگر انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی یہاں کے ''وارے نیارے'' آزاد نہ ہوں، ان کے سربراہ بادشاہ اور کارکن شاہی نہ بن جائے تو آزادی کا فائدہ کیا۔جس محکمے یا ادارے یا ''وارے نیارے''کا اس نے ذکر کیاہے اور اس کے انگریزی مخفف حروف لکھے ہیں، اس سے ہمیں اتنا اندازہ توہوگیا کہ یہ کوئی انسداد منشیات جمع امداد منشیات جیسا محکمہ یا ادارہ یا وارہ نیارہ ہے۔
اس نے اپنے خیال میں جو سب سے بڑی حیران کن بات لکھی ہے کہ اس محکمے یا وارے نیارے کے حوالدار بھی لگژری میں کلاس ون سے بڑھ کرہوتے ہیں، تنخواہ کے حساب سے خرولانشین بھی کرولہ نشین ہوتے ہیں اور افسر تو جیسے عرب ممالک کے شہزادے اور ولی عہد ہوتے ہیں، اب اس میں نئی بات کیاہے، یہ تو زمانے کا جانا پہچانا معمول ہے کہ جب ''کھیت''میں ہل چلتا ہے تو اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی مٹی اوپر چلی جاتی ہے۔گوڈی ہوتی ہے توزمین کی اپنی سگی اولاد گھاس پھوس سمجھ کر اکھاڑ دی جاتی ہے توکسان کی بوئی ہوئی''فصل''کوکھاد وغیرہ دے کر ''پالا پوسا'' جاتاہے۔
دراصل ہمارے یہ سادہ دل بندے جو ذہنی طور پراب بھی ستر اسی سال پہلے کے زمانے میں رہتے ہیں اور اب بھی اس فردوس گم گشتہ کے انتظار میں ہیں جس کا ''وعدہ''تھا۔ان کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔ تھا لیکن پھر علماء نے یہ ناکافی سمجھ کر ''ریاست مدینہ'' کیا۔ یوں یہ نام مملکت خداداد پاکستان عرف نظریہ پاکستان عرف سایہ خدائے ذوالجلال اور عرف ریاست مدینہ بن چکاہے۔ پلوں کے نیچے بہت سارا پانی اور اوپر سے بہت ساری گاڑیاں گزر چکی ہیں چنانچہ ہر ہر چیز کے کئی کئی نام چلتے ہیں مثلاً جو محکمے یا ادارے''انسداد''کے نام رکھتے تھے، وہ اب ''امداد''کے بھی ہوگئے۔ویسے بھی اصولی طور پر یہ بہت ہی عجیب بات لگے گی کہ ایک ہی چیز کے لیے دو دو محکمے یا ادارے یا وارے نیارے بنائے جائیں۔ انسداد کے لیے الگ اور امداد کے لیے الگ۔اس لیے ''ٹوان ون''کا طریقہ اپنایا گیاہے جو محکمہ یا ادارہ یا وارہ نیارہ ''انسداد'' کرتاہے وہی امداد بھی کرتاہے مثلاً انسداد جرائم، امداد جرائم کا فرض بھی ادا کرتاہے۔
امداد تعلیم امداد صحت۔ امداد امن کے ادارے اور وارے نیارے انسداد تعلیم صحت اور انسداد امن کا اضافی چارج بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور بہت اچھی طرح سنبھالے ہوئے ہیں۔ آپ آج سارے اسپتال، کلینکس دکانیں وغیرہ بندکردیں اور ڈاکٹروں کو دریابرد کردیں۔کل سے ملک بھر میں کوئی بھی بیمار دیکھنے کونہیں ملے گا۔محکمہ تعلیم اور گلی گلی میں موجود''تعلیم فروش گاہیں''بندکردیں اور تمام ''ماہرین تعلیم''کوملک بدر کردیں۔
کل سے آپ دیکھیں گے کہ لیٹریسی دو سوفیصد ہوگی اور کوئی ناخواندہ نام کو نہیں رہا، صرف پڑھے لکھوں کے علاوہ اس طرح ہم جرائم اور منشیات کے بارے میں بھی تجویز دے سکتے ہیں، لیکن دیں گے نہیں۔کیونکہ جن کو دین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟۔ابھی نہ تو ہمارے کاندھوں اپنا سر اتنا بھاری ہوا ہے اور نہ ہی دنیا سے جی بھر چکاہے، ویسے بھی تجاویز کا ٹھیکہ توہم ہی نے نہیں لے رکھا ہے، آپ بھی تو اچھے خاصے سمجھ دار ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہم آپ کوکیا سمجھا رہے ہیں اور جو سمجھا رہے ہیں، وہ آپ پہلے سے سمجھتے ہیں کیونکہ اتنی سمجھ تو آپ بھی رکھتے ہیں کہ کونسی بات سمجھنے کی ہے اور کونسی سمجھانے کی۔
فائدہ کیا؟ سوچ توآخر، تو بھی دانا ہے اسد
دوستی،دشمنی ناداں کی ہے، دل کا زیاں ہوجائے گا
اب جس شخص نے ہمیں انسداد منشیات یا امداد منشیات کے بارے میں لکھاہے، وہ یا توبہت زیادہ ''دانا''ہے کہ بندوق ہمارے کاندھے پر چلانا چاہتا ہے اور ہماری گردن کو چھری کے سامنے کررہاہے اور یا بہت ہی ہائی فائی درجے کا نادان ہے کہ دریا میں بہاؤ کے بجائے چڑھاؤ کی جانب خود بھی تیرنا چاہتاہے اور ہمیں بھی ''تیرانا'' چاہتا ہے۔کہ یہ کوئی ایک محکمہ یا ادارہ یاوارہ نیارہ تونہیں ہے، ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ تقریباً سارے محکموں یا اداروں یا واروں نیاروں کے لوگ اپنی تنخواہیں صرف''زکواۃ''میں دیتے ہیں کہ اصل آمدنی کی زکواۃ اتنی ہی بنتی ہوگی۔جس سے حج وعمرہ ادا کیاجاتاہے۔
ہم وہ پرانا قصہ تو آپ کو نہیں سنائیں گے جس میں ایک ''دانا''نے دریا کی لہروں کوبھی آمدنی کی لہروں میں بدل دیاتھا۔لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ روم میں صرف وہی رہ سکتاہے جسے رومن آتی ہے اور جن کونہیں آتی انھیں کچھ نہیں آتا اور نہ ہی اس کے ہاتھ کچھ آتا ہے، نہ جیب نہ گھر اور نہ پیٹ میں۔
اپنی مرضی کے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواوں کا جدھر کوہے ادھر کے ہم ہیں
پہلے ''ہرچیز''تھی اپنی مگر اب لگتاہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
بیچارے کوآج سترسال بعد بھی یہ پتہ نہیں چلا ہے کہ اس ملک کو ''کن''لوگوں نے کس لیے آزاد کیاتھا، اگر انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی یہاں کے ''وارے نیارے'' آزاد نہ ہوں، ان کے سربراہ بادشاہ اور کارکن شاہی نہ بن جائے تو آزادی کا فائدہ کیا۔جس محکمے یا ادارے یا ''وارے نیارے''کا اس نے ذکر کیاہے اور اس کے انگریزی مخفف حروف لکھے ہیں، اس سے ہمیں اتنا اندازہ توہوگیا کہ یہ کوئی انسداد منشیات جمع امداد منشیات جیسا محکمہ یا ادارہ یا وارہ نیارہ ہے۔
اس نے اپنے خیال میں جو سب سے بڑی حیران کن بات لکھی ہے کہ اس محکمے یا وارے نیارے کے حوالدار بھی لگژری میں کلاس ون سے بڑھ کرہوتے ہیں، تنخواہ کے حساب سے خرولانشین بھی کرولہ نشین ہوتے ہیں اور افسر تو جیسے عرب ممالک کے شہزادے اور ولی عہد ہوتے ہیں، اب اس میں نئی بات کیاہے، یہ تو زمانے کا جانا پہچانا معمول ہے کہ جب ''کھیت''میں ہل چلتا ہے تو اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی مٹی اوپر چلی جاتی ہے۔گوڈی ہوتی ہے توزمین کی اپنی سگی اولاد گھاس پھوس سمجھ کر اکھاڑ دی جاتی ہے توکسان کی بوئی ہوئی''فصل''کوکھاد وغیرہ دے کر ''پالا پوسا'' جاتاہے۔
دراصل ہمارے یہ سادہ دل بندے جو ذہنی طور پراب بھی ستر اسی سال پہلے کے زمانے میں رہتے ہیں اور اب بھی اس فردوس گم گشتہ کے انتظار میں ہیں جس کا ''وعدہ''تھا۔ان کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔ تھا لیکن پھر علماء نے یہ ناکافی سمجھ کر ''ریاست مدینہ'' کیا۔ یوں یہ نام مملکت خداداد پاکستان عرف نظریہ پاکستان عرف سایہ خدائے ذوالجلال اور عرف ریاست مدینہ بن چکاہے۔ پلوں کے نیچے بہت سارا پانی اور اوپر سے بہت ساری گاڑیاں گزر چکی ہیں چنانچہ ہر ہر چیز کے کئی کئی نام چلتے ہیں مثلاً جو محکمے یا ادارے''انسداد''کے نام رکھتے تھے، وہ اب ''امداد''کے بھی ہوگئے۔ویسے بھی اصولی طور پر یہ بہت ہی عجیب بات لگے گی کہ ایک ہی چیز کے لیے دو دو محکمے یا ادارے یا وارے نیارے بنائے جائیں۔ انسداد کے لیے الگ اور امداد کے لیے الگ۔اس لیے ''ٹوان ون''کا طریقہ اپنایا گیاہے جو محکمہ یا ادارہ یا وارہ نیارہ ''انسداد'' کرتاہے وہی امداد بھی کرتاہے مثلاً انسداد جرائم، امداد جرائم کا فرض بھی ادا کرتاہے۔
امداد تعلیم امداد صحت۔ امداد امن کے ادارے اور وارے نیارے انسداد تعلیم صحت اور انسداد امن کا اضافی چارج بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور بہت اچھی طرح سنبھالے ہوئے ہیں۔ آپ آج سارے اسپتال، کلینکس دکانیں وغیرہ بندکردیں اور ڈاکٹروں کو دریابرد کردیں۔کل سے ملک بھر میں کوئی بھی بیمار دیکھنے کونہیں ملے گا۔محکمہ تعلیم اور گلی گلی میں موجود''تعلیم فروش گاہیں''بندکردیں اور تمام ''ماہرین تعلیم''کوملک بدر کردیں۔
کل سے آپ دیکھیں گے کہ لیٹریسی دو سوفیصد ہوگی اور کوئی ناخواندہ نام کو نہیں رہا، صرف پڑھے لکھوں کے علاوہ اس طرح ہم جرائم اور منشیات کے بارے میں بھی تجویز دے سکتے ہیں، لیکن دیں گے نہیں۔کیونکہ جن کو دین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟۔ابھی نہ تو ہمارے کاندھوں اپنا سر اتنا بھاری ہوا ہے اور نہ ہی دنیا سے جی بھر چکاہے، ویسے بھی تجاویز کا ٹھیکہ توہم ہی نے نہیں لے رکھا ہے، آپ بھی تو اچھے خاصے سمجھ دار ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہم آپ کوکیا سمجھا رہے ہیں اور جو سمجھا رہے ہیں، وہ آپ پہلے سے سمجھتے ہیں کیونکہ اتنی سمجھ تو آپ بھی رکھتے ہیں کہ کونسی بات سمجھنے کی ہے اور کونسی سمجھانے کی۔
فائدہ کیا؟ سوچ توآخر، تو بھی دانا ہے اسد
دوستی،دشمنی ناداں کی ہے، دل کا زیاں ہوجائے گا
اب جس شخص نے ہمیں انسداد منشیات یا امداد منشیات کے بارے میں لکھاہے، وہ یا توبہت زیادہ ''دانا''ہے کہ بندوق ہمارے کاندھے پر چلانا چاہتا ہے اور ہماری گردن کو چھری کے سامنے کررہاہے اور یا بہت ہی ہائی فائی درجے کا نادان ہے کہ دریا میں بہاؤ کے بجائے چڑھاؤ کی جانب خود بھی تیرنا چاہتاہے اور ہمیں بھی ''تیرانا'' چاہتا ہے۔کہ یہ کوئی ایک محکمہ یا ادارہ یاوارہ نیارہ تونہیں ہے، ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ تقریباً سارے محکموں یا اداروں یا واروں نیاروں کے لوگ اپنی تنخواہیں صرف''زکواۃ''میں دیتے ہیں کہ اصل آمدنی کی زکواۃ اتنی ہی بنتی ہوگی۔جس سے حج وعمرہ ادا کیاجاتاہے۔
ہم وہ پرانا قصہ تو آپ کو نہیں سنائیں گے جس میں ایک ''دانا''نے دریا کی لہروں کوبھی آمدنی کی لہروں میں بدل دیاتھا۔لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ روم میں صرف وہی رہ سکتاہے جسے رومن آتی ہے اور جن کونہیں آتی انھیں کچھ نہیں آتا اور نہ ہی اس کے ہاتھ کچھ آتا ہے، نہ جیب نہ گھر اور نہ پیٹ میں۔
اپنی مرضی کے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواوں کا جدھر کوہے ادھر کے ہم ہیں
پہلے ''ہرچیز''تھی اپنی مگر اب لگتاہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں