رواں سیزن ایک لاکھ 25 ہزارٹن سے زائد آم ایکسپورٹ
کورونا کی عالمی وبا کے پیش نظرملک سے 80 ہزارٹن آم برآمد کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا
پاکستان نے رواں سیزن کورونا کی عالمی وبا سے پیدا ہونے والے گھمبیرمسائل کے باوجود ایک لاکھ 25 ہزارٹن سے زائد آم ایکسپورٹ کیا۔
رواں سال کورونا کی عالمی وبا کے پیش نظر ملک سے 80 ہزارٹن آم برآمد کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا تاہم آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایسوسی ایشن کی جارحانہ حکمت عملی اوروفاقی حکومت کے بروقت اقدامات کی بدولت ایکسپورٹ ہدف سے 45 ہزارٹن زائد ہے اور آئندہ ایک سے ڈیرھ ماہ کے دودران مزید 25 ہزار ٹن آم برآمد ہونے کی توقع ہے۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق آم کی برآمد کے لیے رواں سیزن تاریخ کا سب سے مشکل سیزن تھا لیکن پی ایف وی اے نے کرونا کی وباءکے باعث پیدا ہونے والے چیلنجز کو امکانات میں بدلنے کے لیے خصوصی حکمت عملی اختیار کی جس میں فضائی راستے بند ہونے اورفریٹ میں بے تحاشہ اضافہ کے پیش نظر زمینی راستوں اورسمندر کے ذریعے آم کی ایکسپورٹ پر توجہ دی گئی ۔وحید احمد کے مطابق آم کا سیزن شروع ہونے سے قبل ہی دنیا میں کرونا کی وباءپھیل گئی، دنیا بھر میں لاک داﺅن ہوگیا سپر اسٹور اورمارکیٹس بند ہوگئیں، ہوٹلنگ، سیاحت بند ہونے سے کھانے پینے کی اشیاءکی مانگ بھی کم ہوگئی دوسری جانب فضائی کمپنیوں کی جانب سے پروازیں بند کرنے سے لاجسٹک کے مسائل پیدا ہوگئے۔
پاکستان سے آم کی ایکسپورٹ شروع ہوئی تو بے حد مسائل کا سامنا تھا ۔ ایک جانب سے لاجسٹک کے مسائل تھے اور دوسری جانب دنیا بھر میں گھروں میں لاک ڈاﺅن گزارنے والے افراد کو اپنی غذائی طلب پوری کرنے اور قوت مدافعت بڑھانے والی خوراک کی ضرورت تھی جن میں آم جیسا فرحت بخش اور غذائیت سے بھرپور آم سرفہرست ہے۔
صدر پاکستان عارف علوی نے ایوان صدر میں ایک خصوصی اجلاس میں پاکستانی آم کی دنیا بھر میں تشہیر اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سربراہان مملکت کو پاکستانی آم کا تحفہ ارسال کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس فیصلے کے تحت ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اس سال پاکستان کے سفارتخانوں نے دنیا کے 24شہروں میں پاکستانی آم کی تشہیر کے لیے سرگرمیاں بھی منعقد کیں جبکہ 30 سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت کو پاکستانی آم کا سرکاری تحفہ ارسال کیا اس اقدام نے دنیا میں پاکستانی آم کی موثر تشہیر میں اہم کردار ادا کیا۔ جن ملکوں کو آم کا سرکاری تحفہ بھیجا گیا ان میں پاکستانی آم نے کرونا کی وباءکے دوران اپنی غذائیت اور وٹامن کے ذریعے رواں دنیا کے 40 ملکوں کے صارفین کی قوت مدافعت کو مضبوط بناکر کرونا کی وباءکا مقابلہ کرنے میں فرنٹ لائن ورکر کا کردار ادا کیا۔ رواں سیزن سب سے زیادہ آم افغانستان کو ایکسپورٹ کیا گیا ، متحدہ عرب امارات، ایران اور عمان بھی بڑی منڈیوں میں شامل رہے۔ مجموعی طور پر 46ہزار 276 ٹن آم افغانستان کو ایکسپورٹ کیا گیا، متحدہ عرب امارات کو33 ہزارٹن ایکسپورٹ کیا گیا، ایران کو 17ہزار956 ٹن آم ایکسپورٹ کیا گیا، عمان کو 11 ہزار459ٹن آم ایکسپورٹ کیا گیا ۔
پی ایف وی اے نے ایران اور افغانستان کی سرحدوں کی بندش کا معاملہ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے زرعی ترقی میں اٹھایا جس پروفاقی وزارت تجارت، وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیوریٹی اور وزارت خارجہ نے 72گھنٹوں میں ان مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے جبکہ غیرملکی ایئرلائنز کی جانب سے زیادہ فریٹ کی وصولی کے معاملے پر قومی ایئرلائن کو متحرک کیا گیا، وفاقی وزارت امور ہوابازی کی ہدایت پر قومی ایئرلائن کے سی ای او نے پی ایف وی اے کے وفد کے ساتھ ملاقات کی اور ایکسپورٹ کو درپیش مشکلات میں کمی کے لیے قومی ایئرلائن نے اپنے ٹیریف 30سے 50فیصد تک کم کردیے اس طرح فضائی راستے سے بھی آم کی برآمد کو درپیش مسائل میں کمی لائی گئی، قومی ایئرلائن کی پروازوں پر یورپ میں پابندی کے بعد استنبول میں پاکستانی قونصل جنرل نے ترکش ایئرلائن کے چیئرمین سے ملاقات کی اور پاکستانی پھل سبزیوں بالخصوص آم کی یورپی منڈیوں تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے تعاون کی درخواست کی جس پر پاکستان میں ترکش ایئرلائن کے اعلیٰ حکام نے پی ایف وی اے سے فالو اپ ملاقات کی اور پاکستا ن سے یورپ کے لیے فریٹ میں پچپن سینٹس فی کلو گرام کی کمی کی جس پر دیگر غیرملکی فضائی کمپنیوں نے بھی اپنے کرایے کم کردیے ۔
وحید احمد کے مطابق رواں سیزن وفاقی حکومت اور تمام متعلقہ سرکاری محکموں نے جس طرح مل کر ایکسپورٹ کو درپیش مسائل کا فوری حل فراہم کیا اسی طرح ایکسپورٹ کو درپیش مسائل بروقت حل کیے جاتے رہے تو پاکستان سے آئندہ تین سال میں آم کی ایکسپورٹ 2لاکھ ٹن تک بڑھائی جاسکتی ہے اور آم کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی ایکسپورٹ کا حجم 350 ملین ڈالر تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا پی ایف وی اے نے ہارٹی کلچر انڈسٹری اور پراڈکٹ اورپاکستان کی جغرافیاتی صلاحیت کی بنیاد پر ہارٹی کلچر کی ترقی کا روڈ میپ ویژن 2030 وفاقی حکومت کو پیش کردیا ہے جس پرعمل کرکے تین سال میں آم کی موجودہ برآمدات 2لاکھ ٹن تک بڑھائی جاسکتی ہیں اس طرح پاکستان دنیا میں آم برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن جائے گا۔
آم کی پیداوارکولاحق خدشات کا ذکرکرتے ہوئے وحید احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کی زراعت اورہارٹی کلچرکے لیے موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی قلت سب سے بڑے چیلنجز ہیں جن کے اثرات ہر گزرتے سال کی طرح شدید ہوتے رہیں گے اس سال بھی پاکستان میں آم کی پیداوار موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہوئی پاکستان میں آم کے پرانے باغات بیماریوں اور موسمی اثرات کا مقابلہ نہیں کرسکتے اسی طرح فرسودہ طریقے سے باغات لگانے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار بھی محدود ہے ۔ رواں سیزن پاکستان میں آم کی پیداوار 35فیصد تک کم رہی 18لاکھ ٹن کے مقابلے میں پیداوار13لاکھ ٹن تک محدود رہی موسمی چونسا کی پیداوار سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔
وحید احمد کے مطابق رواں سیزن آم کی ایکسپورٹ کودرپیش مسائل کے حل اور جارحانہ حکمت عملی کے ذریعے جس طرح کرونا کی وباءکے چیلنجز کو امکانات میں تبدیل کیا گیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، حکومت اور نجی شعبے کے درمیان اس مثالی اشتراک عمل کو اختیار کرکے پاکستان کی ایکسپورٹ میں غیر معمولی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
وفاقی حکومت متعلقہ وزارتیں اور محکمہ اگر نجی شعبے کے درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل نہ کرتے تو رواں سیزن 80 ہزارٹن ایکسپورٹ کا ہدف بھی دشوار تھا۔ وحید احمد نے آم کی ایکسپورٹ کو تاریخ کے مشکل ترین حالات میں بھی بڑھانے کے لیے معاونت فراہم کرنے والے وفاقی حکومت کے نمائندوں ، وفاقی وزراءمتعلقہ وزارتوں کے سیکریٹریز، محکمہ جات اور اتھارٹیز کے سربراہان اور عملہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ قومی مفاد میں اس طرح کی مثالی ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھی جائیگی۔
رواں سال کورونا کی عالمی وبا کے پیش نظر ملک سے 80 ہزارٹن آم برآمد کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا تاہم آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایسوسی ایشن کی جارحانہ حکمت عملی اوروفاقی حکومت کے بروقت اقدامات کی بدولت ایکسپورٹ ہدف سے 45 ہزارٹن زائد ہے اور آئندہ ایک سے ڈیرھ ماہ کے دودران مزید 25 ہزار ٹن آم برآمد ہونے کی توقع ہے۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق آم کی برآمد کے لیے رواں سیزن تاریخ کا سب سے مشکل سیزن تھا لیکن پی ایف وی اے نے کرونا کی وباءکے باعث پیدا ہونے والے چیلنجز کو امکانات میں بدلنے کے لیے خصوصی حکمت عملی اختیار کی جس میں فضائی راستے بند ہونے اورفریٹ میں بے تحاشہ اضافہ کے پیش نظر زمینی راستوں اورسمندر کے ذریعے آم کی ایکسپورٹ پر توجہ دی گئی ۔وحید احمد کے مطابق آم کا سیزن شروع ہونے سے قبل ہی دنیا میں کرونا کی وباءپھیل گئی، دنیا بھر میں لاک داﺅن ہوگیا سپر اسٹور اورمارکیٹس بند ہوگئیں، ہوٹلنگ، سیاحت بند ہونے سے کھانے پینے کی اشیاءکی مانگ بھی کم ہوگئی دوسری جانب فضائی کمپنیوں کی جانب سے پروازیں بند کرنے سے لاجسٹک کے مسائل پیدا ہوگئے۔
پاکستان سے آم کی ایکسپورٹ شروع ہوئی تو بے حد مسائل کا سامنا تھا ۔ ایک جانب سے لاجسٹک کے مسائل تھے اور دوسری جانب دنیا بھر میں گھروں میں لاک ڈاﺅن گزارنے والے افراد کو اپنی غذائی طلب پوری کرنے اور قوت مدافعت بڑھانے والی خوراک کی ضرورت تھی جن میں آم جیسا فرحت بخش اور غذائیت سے بھرپور آم سرفہرست ہے۔
صدر پاکستان عارف علوی نے ایوان صدر میں ایک خصوصی اجلاس میں پاکستانی آم کی دنیا بھر میں تشہیر اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سربراہان مملکت کو پاکستانی آم کا تحفہ ارسال کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس فیصلے کے تحت ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اس سال پاکستان کے سفارتخانوں نے دنیا کے 24شہروں میں پاکستانی آم کی تشہیر کے لیے سرگرمیاں بھی منعقد کیں جبکہ 30 سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت کو پاکستانی آم کا سرکاری تحفہ ارسال کیا اس اقدام نے دنیا میں پاکستانی آم کی موثر تشہیر میں اہم کردار ادا کیا۔ جن ملکوں کو آم کا سرکاری تحفہ بھیجا گیا ان میں پاکستانی آم نے کرونا کی وباءکے دوران اپنی غذائیت اور وٹامن کے ذریعے رواں دنیا کے 40 ملکوں کے صارفین کی قوت مدافعت کو مضبوط بناکر کرونا کی وباءکا مقابلہ کرنے میں فرنٹ لائن ورکر کا کردار ادا کیا۔ رواں سیزن سب سے زیادہ آم افغانستان کو ایکسپورٹ کیا گیا ، متحدہ عرب امارات، ایران اور عمان بھی بڑی منڈیوں میں شامل رہے۔ مجموعی طور پر 46ہزار 276 ٹن آم افغانستان کو ایکسپورٹ کیا گیا، متحدہ عرب امارات کو33 ہزارٹن ایکسپورٹ کیا گیا، ایران کو 17ہزار956 ٹن آم ایکسپورٹ کیا گیا، عمان کو 11 ہزار459ٹن آم ایکسپورٹ کیا گیا ۔
پی ایف وی اے نے ایران اور افغانستان کی سرحدوں کی بندش کا معاملہ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے زرعی ترقی میں اٹھایا جس پروفاقی وزارت تجارت، وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیوریٹی اور وزارت خارجہ نے 72گھنٹوں میں ان مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے جبکہ غیرملکی ایئرلائنز کی جانب سے زیادہ فریٹ کی وصولی کے معاملے پر قومی ایئرلائن کو متحرک کیا گیا، وفاقی وزارت امور ہوابازی کی ہدایت پر قومی ایئرلائن کے سی ای او نے پی ایف وی اے کے وفد کے ساتھ ملاقات کی اور ایکسپورٹ کو درپیش مشکلات میں کمی کے لیے قومی ایئرلائن نے اپنے ٹیریف 30سے 50فیصد تک کم کردیے اس طرح فضائی راستے سے بھی آم کی برآمد کو درپیش مسائل میں کمی لائی گئی، قومی ایئرلائن کی پروازوں پر یورپ میں پابندی کے بعد استنبول میں پاکستانی قونصل جنرل نے ترکش ایئرلائن کے چیئرمین سے ملاقات کی اور پاکستانی پھل سبزیوں بالخصوص آم کی یورپی منڈیوں تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے تعاون کی درخواست کی جس پر پاکستان میں ترکش ایئرلائن کے اعلیٰ حکام نے پی ایف وی اے سے فالو اپ ملاقات کی اور پاکستا ن سے یورپ کے لیے فریٹ میں پچپن سینٹس فی کلو گرام کی کمی کی جس پر دیگر غیرملکی فضائی کمپنیوں نے بھی اپنے کرایے کم کردیے ۔
وحید احمد کے مطابق رواں سیزن وفاقی حکومت اور تمام متعلقہ سرکاری محکموں نے جس طرح مل کر ایکسپورٹ کو درپیش مسائل کا فوری حل فراہم کیا اسی طرح ایکسپورٹ کو درپیش مسائل بروقت حل کیے جاتے رہے تو پاکستان سے آئندہ تین سال میں آم کی ایکسپورٹ 2لاکھ ٹن تک بڑھائی جاسکتی ہے اور آم کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی ایکسپورٹ کا حجم 350 ملین ڈالر تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا پی ایف وی اے نے ہارٹی کلچر انڈسٹری اور پراڈکٹ اورپاکستان کی جغرافیاتی صلاحیت کی بنیاد پر ہارٹی کلچر کی ترقی کا روڈ میپ ویژن 2030 وفاقی حکومت کو پیش کردیا ہے جس پرعمل کرکے تین سال میں آم کی موجودہ برآمدات 2لاکھ ٹن تک بڑھائی جاسکتی ہیں اس طرح پاکستان دنیا میں آم برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن جائے گا۔
آم کی پیداوارکولاحق خدشات کا ذکرکرتے ہوئے وحید احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کی زراعت اورہارٹی کلچرکے لیے موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی قلت سب سے بڑے چیلنجز ہیں جن کے اثرات ہر گزرتے سال کی طرح شدید ہوتے رہیں گے اس سال بھی پاکستان میں آم کی پیداوار موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہوئی پاکستان میں آم کے پرانے باغات بیماریوں اور موسمی اثرات کا مقابلہ نہیں کرسکتے اسی طرح فرسودہ طریقے سے باغات لگانے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار بھی محدود ہے ۔ رواں سیزن پاکستان میں آم کی پیداوار 35فیصد تک کم رہی 18لاکھ ٹن کے مقابلے میں پیداوار13لاکھ ٹن تک محدود رہی موسمی چونسا کی پیداوار سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔
وحید احمد کے مطابق رواں سیزن آم کی ایکسپورٹ کودرپیش مسائل کے حل اور جارحانہ حکمت عملی کے ذریعے جس طرح کرونا کی وباءکے چیلنجز کو امکانات میں تبدیل کیا گیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، حکومت اور نجی شعبے کے درمیان اس مثالی اشتراک عمل کو اختیار کرکے پاکستان کی ایکسپورٹ میں غیر معمولی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
وفاقی حکومت متعلقہ وزارتیں اور محکمہ اگر نجی شعبے کے درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل نہ کرتے تو رواں سیزن 80 ہزارٹن ایکسپورٹ کا ہدف بھی دشوار تھا۔ وحید احمد نے آم کی ایکسپورٹ کو تاریخ کے مشکل ترین حالات میں بھی بڑھانے کے لیے معاونت فراہم کرنے والے وفاقی حکومت کے نمائندوں ، وفاقی وزراءمتعلقہ وزارتوں کے سیکریٹریز، محکمہ جات اور اتھارٹیز کے سربراہان اور عملہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ قومی مفاد میں اس طرح کی مثالی ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھی جائیگی۔