ممکن ہے کہ زیر زبر نکلے
وقت گزرتا گیا کبھی چین کو امریکا سے براہ راست تصادم کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
KARACHI:
انیس سو انچاس میں ماؤزے تنگ کا یہ قول بڑا مشہور ہوا تھا کہ امریکا ایک ''کاغذی شیر'' ہے۔
اسی مفروضے کے پیش نظر چین اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا اور وہ نہایت ہوشیاری سے ہر قسم کے تصادم سے بچ کے اپنی ترقی کے راستے پر گامزن تھا۔ یہاں تک کہ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مصنوعات چین میں بننے لگیں جس کے نتیجے میں چائنا نے اتنی ترقی کرلی کہ وہاں کئی کئی منزلہ کئی میل لمبے پل تعمیر ہوگئے اور وہ اپنے اردگرد کے پسماندہ ممالک کو ترقی یافتہ بنانے میں مصروف ہو گیا۔
وقت گزرتا گیا کبھی چین کو امریکا سے براہ راست تصادم کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیساکہ اس کے دوست ملک روس کو سن ساٹھ کی دہائی میں تصادم کرنا پڑ گیا تھا۔ اور یہ ایٹمی جنگ دنیا کو تباہ و برباد کردیتی لیکن روسی وزیر اعظم نکیتا خروشیف نے دنیا کے مفکر اعظم آئن اسٹائن کی درخواست پر جنگ سے خود کو روک لیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دنیا کی نظریں گھڑی کی سوئیوں پر تھیں کہ کس سیکنڈ میں دونوں ممالک اپنے ایٹمی میزائل نکالنے پر تیار ہوتے ہیں۔
یہ واقعہ سوویت یونین اور کیوبا کے درمیان جوہری تنصیبات رکھنے پر شروع ہوا تھا۔ مگر آج ایک طویل مدت کے بعد پھر ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی گھڑیاں اسی طرح گھومیں گی جس طرح سن ساٹھ کی دہائی میں گھوم رہی تھیں۔ کیونکہ چین نے ایران سے جو معاہدہ کیا ہے اس سے امریکا کی عالمی حکمرانی پر ضرب کاری پڑتی ہے۔
لہٰذا گزشتہ دنوں وینزویلا کے چار بحری جہاز امریکا نے سر راہ روک لیے۔ یہ مستقبل کے آنے والے دنوں میں ایک نئے عالمی بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ کیونکہ چین اور ایران کا معاہدہ کچھ ایسا ہی ہے کہ چین جو ترقیاتی کاموں میں اخراجات کرے گا اس کا ازالہ ایران اپنی تیل اور گیس کی سپلائی کے ذریعے کرے گا۔ اس طرح ایران کی کرنسی جو بے جان ہو چلی تھی وہ ازسر نو توانا ہوتی چلی جائے گی اور ایران بہت جلد ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہو جائے گا اور اس سب سے بڑھ کر ایران میں جو معاشی بدامنی کا سیلاب آیا تھا اس کو روح پرور بارش کے ذریعے آب نیساں میں تبدیل کردے گا۔ اس لین دین پر اگر امریکا خاموش رہتا ہے تو پھر اس کی عالمی حکمرانی زمین دوز ہوجائے گی۔
کیونکہ اگر امریکا اس لین دین میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گا تو شاید یہ ممکنات امریکا اور یورپ کے لیے مشکلات پیدا کریں گے کیونکہ امریکا اور مغربی یورپ کے زیادہ تر ممالک کی عام مصنوعات جو روزمرہ میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کی پیداوار چین میں ہو رہی ہے خصوصاً جرمنی اس میں پیش پیش ہے۔ اور عام امریکی مصنوعات بھی چین میں ہی پروان چڑھ رہی ہیں۔
لیکن اگر امریکا چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتا ہے تو یہ خسارہ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ برداشت نہیں کرسکیں گے کیونکہ اول تو وہ تاجر ہیں۔ دوم وہ حکمران، یہ چپقلش امریکا کے لیے بڑی مشکلات پیدا کرے گی اور اگر امریکا نے مغربی ممالک پر دباؤ بھی ڈالا تو وہ پروڈکٹ کی قیمتوں کو نہیں سہار سکیں گے۔
اب ایک طرف عالمی حاکمیت کا مسئلہ ہے تو دوسری جانب معاشی ہزیمت کا مسئلہ ہے جس سے سرمایہ دارانہ نظام پر ضرب کاری لگے گی اور اگر امریکا اس مار کاٹ میں پہل کرتا ہے تو خود امریکی عوام جو ابھی مظاہروں کی زد سے گزرے ہیں وہ نئے قسم کے مظاہروں کو برداشت نہیں کرسکیں گے کیونکہ امریکا اور یورپ کی ٹریڈ یونین اس قدر توانا ہے کہ ان کی حکومتیں عالمی مظاہروں کی تاب نہ لاسکیں گی۔ لیکن اگر امریکا چین اور ایران کے معاہدے پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کرتا اور کسی قسم کی پابندیاں نہیں لگاتا تو یہ امریکا کی ایک بہت بڑی شکست ہوگی پھر تمام معاشی اور فوجی اعتبار سے کم ممالک کو نت نئی آزادی نصیب ہوگی اور اس آزادی کا سہرا چین اور ایران کا معاہدہ ہی ہوگا۔
پھر کس منہ سے امریکی حکمران وینزویلا، نکاراگوا اور کیوبا جیسے ممالک سے اپنی شرائط منوانے میں کامیاب ہوں گے۔ درحقیقت اگر ایسا ہوا تو یہ دنیا کے حکمرانوں کو آزادی کا نیا سانس ملے گا۔ لیکن محسوس یہ ہوتا ہے ایران اور چین کا یہ معاہدہ بظاہر تو دو ملکوں کا معاہدہ ہے لیکن حقیقت میں دنیا کی تاریخ نئے خطوط پر چل پڑے گی۔
پھر چھوٹے اور کمزور ملکوں سے امریکی حکومت کس طرح اپنی شرائط منوانے میں کامیاب ہوسکے گی۔ چین کے موجودہ رہنما شی چی پنگ جو ماؤزے تنگ کے آخری دور میں ان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے جب کہ لیوشاؤچی ان دنوں اتنی قربت نہیں رکھتے تھے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مدبرانہ موقع پر چینی رہنما کس راہ سے گزرتے ہیں۔
کیونکہ ابھی تو کچھ وقت درکار ہوگا۔ ابھی تو چین Vessels کو جن راستوں سے گزرنا ہے ان کی تیاری میں اور ان پر جواباً مصنوعات رکھی جائیں گی۔ اس مرحلے میں ہوگا۔ چین اپنی ہر قسم کی بنیادی تیاری میں مصروف کار ہوگا اور پاکستان کا ہر شخص چین اور ایران کی دوستی پر خوشگوار نظر رکھتے ہیں۔ کیونکہ چین پاکستان کی ترقی میں شانہ بشانہ ساتھ ہے۔ یا یوں سمجھیے کہ اقوام متحدہ خود آزادانہ کام میں مصروف ہو کر اپنی نئی دستاویز تیار کر رہی ہوگی۔
یہ خوش فہمیاں ایک پاکستانی باشندے کی ہوں گی کہ ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی کسی بھی دباؤ سے آزادی کی بنا پر تیار کرسکے۔ یہ خوش فہمیاں کاش کہ حقیقت بن جائیں اور کمزور اور ترقی یافتہ ملکوں کو اپنی رہگزر پر اپنی مرضی سے چلنا نصیب ہوتا۔ لگتا ہے کہ یہ وقت کسی کی جدوجہد سے نہیں آزادی خود اپنی منزلوں کو طے کرتے ہوئے اپنے راستے پر چل پڑی ہے۔ خوش فہمی کے راستے نمایاں نظر آ رہے ہیں کیونکہ استدلال اپنی آنکھوں کو منور کرکے مجھ کور نظر کو نئی قندیلیں روشن کرکے دیدہ ور کر رہا ہے۔
وقت خود اس انتظار میں ہے کہ پہلی کھیپ چین اور ایران کی کب روانہ ہو اور اس کے کیا مضمرات سامنے آتے ہیں۔ اگر اس معاہدے کو محض ایک نارمل معاہدہ کہہ دیا جائے تو یہ کہنا آسان نہ ہوگا۔ کیونکہ پاکستان انرجی کرائسس میں بھی اپنے گھر تک آئی ہوئی گیس لائن کو استعمال نہیں کرسکتا۔ تو پھر ایسا لگتا ہے کہ یہ سب پابندیاں ڈسٹ بن میں چلی جائیں گی۔ بظاہر اس معاہدے کو محض معاہدے کی شکل میں دیکھا گیا ہے۔ اس کے مضمرات پر اخبارات نے بھی غور نہیں کیا کہ ابھی کتنے پل ہیں جن کو صراط سے گزرنا ہے۔
ورنہ چین اور ایران کے معاہدے کے فوری بعد دنیا میں چہ میگوئیاں شروع ہوجانی تھیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ چہ میگوئیاں اب شروع بھی نہیں ہوں گی۔ کیونکہ چین میں جو رہنما اس وقت موجود ہے اس نے ثقافتی انقلاب کے کٹھن دور سے گزر کر پولٹ بیورو میں یہ مقام حاصل کیا ہے۔مانا کہ دوسری جانب ماؤزے تنگ نہ سہی ماؤزے تنگ کا جانشین موجود ہے لہٰذا چین اور ایران کے تعلقات پر جو منفی پہلو تھے وہ سب نمایاں کردیے گئے۔ اب باری ہے مثبت راستوں کی ۔
سردار جعفری سے معذرت کے ساتھ:
اب اٹھیں گے ارض پاک سے' اٹھیں گے ارض چین سے
یہ کمزور ناتواں قومیں آزادی کی دھن پر رقص کرنے کو ہیں
جن کے دونوں ہاتھوں میں خود ساختہ مشعل ہوں گے
لوگ کہتے ہیں 72سال ہوچکے کب خودکفیل ہوگے تو ان کو ہمارا جواب یہ ہے ایشیا میں جگ رتی کی بہار آنے کو ہے۔ دیکھیے جو چراغاں پاکستان سے کچھ دور چاہ بہار کی شاہراہوں پر ہونے کو ہے اس کا نور گوادر تک تو آنے کو ہے۔ خواہ یہ تخیل میں ہو یا تصور میں۔ پاکستان بھی اسی رہگزر میں اپنے حالات کے لحاظ سے سفر کر رہا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایران سے گیس اور تیل کے ٹرمینل بھرے جائیں اور وہ گیس کی پائپ لائن جو پاکستان کے دروازے تک آگئی ہے پاکستان اس سے فیض یاب نہ ہو۔ لہٰذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ دنیا سے کاروبار میں بندش کا لفظ معدوم ہونے کو ہے۔
اب کوئی ملک یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں سے لو اور فلاں سے نہ لو۔ یہ خود بھی غیر کاروباری جملہ ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان میں گیس اور تیل کی بلا روک ٹوک آمد آمد ہے۔ جو خود ارزانی کا پیش خیمہ ہے۔ خرید و فروخت میں غیر کاروباری الفاظ خود اقوام متحدہ ختم کرنے پر مجبور ہوجائے گی کیونکہ قانوناً چھوٹے ملکوں کے لیے الگ قانون ہو اور بڑے ملکوں کے لیے الگ یہ ممکن نہیں ہے۔
اب تک تو وینزویلا اور نکاراگوا جیسے ملک بندش کی لپیٹ میں آتے جاتے ہیں اور اگر چین نے ایران کے ساتھ گیس اور تیل کا معاہدہ نہ کیا ہوتا تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی لیکن جو ممالک زیردست ہیں ان پر تو بندش کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے مگر جو زبردست ہیں وہ اطلاق سے بالاتر ہوتے ہیں لیکن ایران اور چین کے معاہدے سے جو نئی صورتحال دنیا کے سامنے ابھری ہے اس سے بندش میں پھنسے ممالک بھی خود کو آنے والے وقت میں توانا محسوس کرتے ہیں۔ نئی صورتحال میں جو ممالک اب تک خود کو زیر محسوس کر رہے ہیں چین اور ایران کے معاہدے کے بعد خود کو زبر محسوس کرنے لگیں گے۔