یقین محکم کی ضرورت
ہندو اور مسلمان رہنا کوئی تشویش کی بات نہیں لیکن تشویش کی بات ایک دوسرے سے محبت کے بجائے نفرت کرنا ہے۔
کشمیرکے حوالے سے بھارت کی پالیسیوں نے جنوبی ایشیا کو ایسے بحران میں مبتلا کر دیا ہے کہ ''گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل'' والی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ کشمیر صرف ایک قطعہ زمین نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کا وطن بھی ہے جو 72 سال سے ایک انتہائی کٹھن اور پرخطر زندگی گزار رہے ہیں اور ہزاروں انسان اب تک شہید ہوچکے ہیں۔
مسئلہ بھارت کی طاقت اور ضد کا ہے کشمیر جل رہا ہے اور یہ المیہ صرف اس لیے پیش آ رہا ہے کہ بھارتی حکمران طبقہ کشمیر پر قبضے سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت ایک ایسے ملک پر قبضہ کیے ہوئے ہے، جہاں کے عوام پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ کیا ایسے ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے جس کے عوام بھارت کو پسند نہیں کرتے اور پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
یہ صورتحال دو وجوہات سے پیدا ہوتی ہے ایک مذہبی تفاوت دوسرے بھارت کی ہٹ دھرمی۔ اگر بھارت اپنی اس ضد سے باز آجائے اورکشمیری عوام کی رائے کا احترام کرے تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔ کشمیر کا اصل مسئلہ مذہبی تقسیم ہے کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جسے بھارت اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے اور یہی وہ صورتحال ہے جو تصادم کا باعث بن رہی ہے۔ جس کا سوائے بھارت کی ہٹ دھرمی کے خاتمے کے کوئی اور علاج نہیں۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اس بڑے ملک کی فوجی طاقت بھی بڑی ہے اس بڑی طاقت ہی نے بھارت کو یہ حوصلہ دیا ہے کہ وہ کشمیر پر بزور طاقت قبضہ جمائے رکھے۔
یہ تو ہوئیں اوپری سطح کی باتیں۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو نہ وہ ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان وہ صرف انسان کا بچہ ہوتا ہے یہ ماں باپ عزیز رشتے دار ہوتے ہیں اسے ہندو یا مسلمان بنا دیتے ہیں اس طرح ایک انسان کا بچہ ہندو کا بچہ یا مسلمان کا بچہ بن جاتا ہے اور اپنے ساتھ وہ مذہبی نفرت لاتا ہے جو انسان کو حیوان بنا دیتی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے تو محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی سبیل پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ کام اہل قلم، اہل دانش کا ہے کہ وہ انسان کو انسان بنانے میں کردار ادا کریں، لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اہل علم اہل دانش انسان کو حیوان بنانے میں حصے دار بن رہے ہیں۔
دنیا کی آبادی 7 ارب ہے اور یہ اربوں انسان بے شمار حصوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں یہ وہ اصل مسئلہ ہے جو دنیا میں نفرت کی آبیاری کر رہا ہے۔ اس مسئلے کو طاقت کے ذریعے اور زبردستی حل نہیں کیا جاسکتا، اس مسئلے کے حل کے لیے ادیب، شاعر، فنکار اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن یہ کام بس تفریحاً کیا جا رہا ہے جب کہ اس کام کو ایک مہم کے طور پرکیا جانا چاہیے۔ دنیا میں بے شمار ادیب ہیں، شاعر ہیں، فنکار ہیں، دانشور ہیں اگر یہ حضرات مل جل کر انسان کو انسان بنانے کا اہم کام انجام دیں ،کہانیوں کے ذریعے شاعری کے ذریعے، فنکاری کے ذریعے تو دنیا بدل سکتی ہے۔
اگر یہ اہم اور بنیادی کام نہیں کیا جاسکا تو انسان حیوان بنا رہے گا اورکشمیری مرتے رہیں گے اور ہندو اور مسلمان کی تفریق بڑھتی رہے گی۔ آج دنیا جنگوں اور نفرتوں کا گہوارا بنی ہوئی ہے دنیا میں کروڑوں نہیں اربوں انسان رہتے ہیں۔ ان میں یہودی ہیں، پارسی ہیں، بدھ اور مختلف مذاہب کے لوگ ہیں لیکن انسان نہیں جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔ دنیا میں انسانوں کے درمیان محبت، بھائی چارہ ہی وہ ذریعہ ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے نفرت کو محبت میں بدل دیتا ہے دنیا میں مذہب کے نام پر بہت خون بہہ چکا ہے۔ اب اس کھیل کو بند ہونا چاہیے۔
مذاہب کی تفریق ہزاروں سال پرانی ہے اور اس کی بنیاد نفرتوں پر رکھی گئی ہے یہ تقسیم آسانی سے ختم نہیںہوسکتی لیکن نفرتوں کی جگہ محبت اور مذہبی رواداری ضرور لے سکتی ہے جو لوگ مذہبی رواداری پر یقین رکھتے ہیں، ان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا فرض ادا کریں انفرادی سطح پر یہ کام کے ساتھ اسے اجتماعی سطح پر بھی کرنے کی کوشش کریں تاکہ دنیا جو نفرتوں کی آماج گاہ بن کر رہ گئی ہے محبت کا گہوارا بن جائے اور انسان ایک دوسرے سے نفرت کے بجائے محبت سے پیش آنا شروع کردے اس حوالے سے ایسی انجمنیں بنائی جائیں جو یہ کام خلوص سے انجام دے سکیں۔
انسانوں کو انسان کے بجائے ہندو اور مسلمان بنا دیا گیا۔ ہندو اور مسلمان رہنا کوئی تشویش کی بات نہیں لیکن تشویش کی بات ایک دوسرے سے محبت کے بجائے نفرت کرنا ہے۔ نفرت جو انسان کوگھن کی طرح کھا جاتی ہے نفرت جو انسان کو انسان کا خون بہانے پر مجبورکرتی ہے۔ اس دنیا کو حسین اور پرامن بنانے کے لیے انسان کو انسان بننا پڑے گا۔ صدیوں ہزاروں سالوں پر پھیلی ہوئی یہ نفرتیں آسانی سے ختم نہیں ہوں گی بہت محنت بہت خلوص بہت محبت کے ساتھ یہ کام کرنا پڑے گا۔ یہ کام آسان نہیں بہت مشکل ہے اس کی راہ میں بہت کٹھنائیاں بھی آئیں گی لیکن دنیا کے اس سب سے زیادہ اہم کام کے لیے یقین محکم کی ضرورت ہے۔
ایک زمانے میں کشمیر کے حوالے سے ریڈیو پر ایک گیت نشر ہوتا تھا جس کی لے میں درد ہی درد ہوتا تھا اور سننے والا مسحور ہوکر رہ جاتا تھا، جانے یہ گیت یا مرثیہ اب بھی نشر ہوتا ہے یا نہیں، لیکن اس کی مسحور کن لے آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ کشمیری عوام سخت مصائب کا شکار ہیں ان کے ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اول تو بلاتخصیص کشمیری، کشمیری بن جائیں اور اپنی ساری کاوشیں کشمیر کے مسئلے کے حل میں لگا دیں، حکمرانوں کو مجبور کر دیں کہ وہ اس دیرینہ اور خون آلود مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکمرانوں پر دباؤ بڑھائیں اور حکمرانوں خاص طور پر بھارتی حکمرانوں کو یہ مسئلہ حل کرنے پر مجبور کردیں۔