میرے عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

حضرت عمر فاروقؓ نے اسلامی جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی، اس میں مجلس شوریٰ کا انعقاد خاص اہمیت کا حامل ہے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے اسلامی جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی، اس میں مجلس شوریٰ کا انعقاد خاص اہمیت کا حامل ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
یکم محرم الحرام وہ الم ناک دن ہے جب آفتاب اسلام کو اس وقت گہن لگ گیا کہ دعائے رسولؐ سیّدنا عمر ابن الخطابؓ عین حالت نماز میں زخمی ہونے کے بعد تین دن تک شدت تکلیف میں مبتلا رہ کر شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔

حضرت عمرؓ کا سلسلۂ نسب رسول اﷲ ﷺ سے آٹھویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔ آنحضرتﷺ کے اعلان نبوت کے موقع پر اس زمانے میں قریش کے تمام قبیلوں میں صرف 17 آدمی تھے جو لکھنا جانتے تھے اور ان میں سے ایک عمر بن خطابؓ تھے۔

حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں، سب سے مشہور روایت یہ ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے اسلام کو پھلتے پھولتے دیکھا تو ایک روز آگ بگولا ہوکر آنحضورؐ کے قتل کا (معاذاﷲ) پختہ ارادہ کرلیا اور گھر سے تلوار لے کر نکلے۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد چالیس کے قریب تھی۔ آپ راستے ہی میں تھے کہ حضرت نعیم ابن عبداﷲ سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے دریافت کیا: ''عمر! کہاں جا رہے ہو؟'' حضرت عمرؓ نے کہا: ''محمدؐ کا (نعوذباﷲ) صفایا کرنے جا رہا ہوں۔''

حضرت نعیمؓ نے کہا: ''اے عمر! پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہارے چچیرے بھائی سعید اور تمہاری ہمشیرہ فاطمہ دونوں مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں۔'' حضرت عمرؓ یہ سن کر سب سے پہلے اپنی بہن کے گھر گئے تو اس وقت حضرت خبابؓ ہاتھ میں کلام الٰہی تھامے حضرت سعیدؓ اور حضرت فاطمہؓ کو سورہ طہٰ پڑھا رہے تھے۔ گھر میں داخلے کے وقت آپؓ نے کلام اﷲ کی تلاوت کی آواز سنی تھی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں جان چکا ہوں کہ تم دونوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔

یہ کہہ کر حضرت سعیدؓ پر جھپٹ پڑے۔ حضرت فاطمہؓ اپنے خاوند کو بچانے کے لیے آئیں تو آپؓ نے انہیں بھی مارپیٹ کر لہولہان کر دیا۔ جب معاملہ کافی بگڑ گیا تو حضرت سعیدؓ اور حضرت فاطمہؓ دونوں نے کہا: ''اے عمر! بے شک ہم خاتم النبین حضرت محمدؐ پر ایمان لے آئے ہیں، اب ہم کسی صورت بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے، تمہارے دل میں جو آئے کر گزرو۔'' آپؓ نے جب اپنی بہن اور بہنوئی کا یہ عزم صمیم دیکھا ور ان کے جسموں سے بہتے ہوئے خون پر بھی نظر پڑی تو قدرے نرم پڑگئے اور کہا: لائیے! مجھے بھی دکھائیے کہ محمد مصطفیؐ کیا لائے ہیں۔ حضرت فاطمہؓ نے قرآن پاک کے اجزاء لاکر سامنے رکھ دیے۔

اٹھا کر دیکھا تو سورہ حدید کی آیت کے ہر ایک لفظ سے ان کا دل مرعوب ہوتا گیا۔ اب حضرت عمرؓ ہاتھ میں شمشیر لیے دارارقم کی طرف چل پڑے جہاں خاتم الانبیاء ﷺ تشریف فرما تھے۔ وہاں پہنچ کر دستک دی، ایک صحابیؓ نے دستک کی آواز سنی اور دروازے سے جھانک کر دیکھا تو حضرت عمرؓ ہاتھ میں شمشیر لیے کھڑے تھے۔ ان صحابیؓ نے ہادی برحقؐ سے عرض کیا: ''یارسول اﷲ ﷺ! عمر بن خطاب باہر ہاتھ میں ننگی تلوار لیے کھڑے ہیں۔''

آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ نے فرمایا: ''عمر کو آنے دیجیے، اگر نیک ارادے سے آیا ہے تو بہتر، ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا خاتمہ کردیا جائے گا۔'' رہبر کائناتؐ نے بھی فرمایا: ''عمر کو اندر آنے دیا جائے۔'' اور صحابہ کرامؓ نے آنحضورؐ کے ارشاد پر حضرت عمرؓ کو اندر بلالیا۔ جیسے ہی عمرؓ اندر آئے تو آنحضورؐ نے پوچھا: ''اے عمر! تم کس ارادے سے یہاں آئے ہو۔'' آپؓ نے جواب دیا: ''اشھدان لا الہ الا ﷲ واشھدان محمد رسول اﷲ۔'' اس پر سرور کائناتؐ نے باآواز بلند اﷲ اکبر کا نعرہ لگایا اور ساتھ ہی تمام صحابہ کرامؓ نے مل کر اس زور سے اﷲ اکبر کا نعرہ بلند کیا کہ مکے کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں۔

آپؓ کے قبول اسلام کی ایک اور مستند روایت موجود ہے جو اکثر عاشقین کو نہیں معلوم اور وہ یہ کہ امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند امام احمد میں نقل کیا ہے کہ اس بارے میں سیّدنا عمر فاروقؓ خود فرماتے ہیں کہ میں اسلام سے کوسوں دُور تھا۔ ایک دن میں کعبہ کا طواف کرنے لگا۔ دیکھا کہ ایک شخص تنہا محو عبادت ہے اور اونچی آواز سے کچھ پڑھ رہا ہے۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ محمد رسول اﷲ ﷺ ہیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ موقع اچھا ہے دیکھوں کہ آپؐ تنہائی میں کیا کرتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ دبے پاؤں آگے بڑھا، محتاط تھا کہ وہ مجھے دیکھ نہ لیں۔ اس لیے میں غلاف کعبہ میں چھپ گیا اور سرکتا ہوا ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں مجھ میں اور محمد ﷺ میں غلاف کعبہ کے سوا کچھ اور حائل نہ تھا۔

آپؐ نہایت جذب و کیف کے عالم میں کھڑے قرآن پاک کی آیات پڑھ رہے تھے۔ فلا اقسم بما تبصرون۔ وما لا تبصرون۔ ان الفاظ میں کچھ ایسا بلا کا اثر تھا کہ میں نے کہا: قریش جو کہتے ہیں کہ یہ شخص نہایت بلند پایہ شاعر ہے تو وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ اتنے میں آپؐ نے اگلی آیت پڑھی۔ انہ لقول رسول کریم۔ وما ہو بقول شاعر، قلیلا ما تومنون۔ میں نے کہا: یہ تو اپنے شاعر ہونے سے انکار کرتا ہے تو پھر جیسا کہ قریش کہتے ہیں کہ یہ کاہن ہوگا کہ اتنے میں میرے کانوں میں یہ الفاظ پڑے: ولا بقول کاہن، قلیلا ماتذکرون۔ قرآن پاک کے اسلوب نے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔


میں نے کہا کہ اگر یہ کسی شاعر کا کلام ہے نہ کاہن کا تو پھر یہ ہے کیا؟ اس بات کا جواب مجھے ان الفاظ میں ملا: تنزیل من رب العالمین۔ سرور کائناتؐ یہ پڑھتے جا رہے تھے اور مجھ پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہوتی جاتی رہی تھی حتیٰ کہ میں نے بے اختیار رونا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ آپؐ نے نماز ختم کرلی اور گھر جانے کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ میں بھی دبے پاؤں آپؐ کے پیچھے ہولیا۔ گھر کے نزدیک پہنچے تو میں قریب ہوگیا۔ آپؐ نے آہٹ پا کر دیکھا تو مجھے پہچان لیا اور ڈانٹ کر کہا: ''ابن خطاب! تم ایسے وقت میں یہاں کیسے؟ میں نے جواب دیا: ''یہ گواہی دینے کے لیے آپ اﷲ کے سچّے رسول ہیں۔ اس پر رحمت اللعالمینؐ نے رب کائنات کا شکر ادا کیا۔ اور میرے سینے پہ دست مبارک رکھ کے میرے لیے استقامت کی دعا کی۔

قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آکر فرمان محمدی بجا لاتے ہوئے مدینے ہجرت کرنے والوں میں حضرت عمرؓ نے بھی مدینے کا قصد کیا۔2 ہجری میں غزوۂ بدر بپا ہوئی جو نہایت ہی مشہور جنگ ہے اور قرآن مجید کی سورۃ البقرہ میں خاص طور پر شہدا اور اصحاب بدر کی شان میں آیات موجود ہیں۔ سب سے پہلے جو شخص اس معرکہ حق و باطل میں شہید ہوا وہ سیّدنا فاروق اعظمؓ کا غلام تھا۔ عاصی بن ہشام بن مغیرہ جو قریش کا ایک معزز سردار اور حضرت عمرؓ کا ماموں تھا، حضرت عمرؓ کے ہاتھوں مارا گیا۔ سیدنا عمر بن خطابؓ کو یہ شرف عظیم بھی حاصل ہے کہ ہجرت کے تیسرے برس شعبان کے مہینے میں آپؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہؓ نبی برحقؐ کے عقد میں آئیں۔

8 ہجری میں مکہ فتح ہوا اور سرکاردو عالمؐ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں10 ہزار صحابہ کرامؓ کے جلو میں مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ جس کے بعد در کعبہ پہ قیام فرما کے نہایت فصیح و بلیغ خطبہ دیا اور پھر حضرت عمرؓ کو ساتھ لے کر مقام صفا پر لوگوں سے بیعت لینے کے لیے تشریف فرما ہوئے۔ لوگ جو ق در جوق آتے تھے اور بیعت کرتے جاتے تھے۔

12 ربیع اول 11ہجری دوشنبے کے دن دوپہر کے وقت جب ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے حجرے میں سید عالمؐ نے وصال فرمایا تو آتش عشق میں جلتے اور مرغ بسمل کی طرح تڑپتے سیدنا عمرؓ نے مسجد نبوی میں جاکر تلوار نکال کے اعلان کیا کہ جس شخص نے بھی یہ کہا کہ آنحضرت وفات پاگئے ہیں میں اسے قتل کردوں گا۔ یہ صرف کیفیت عشق تھی جو عمرؓ کو اس امر کو تسلیم کرنے سے مسلسل روک رہی تھی کہ سرکار دوعالمؐ پردہ فرما چکے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے دور خلافت کے بعد جب بستر علالت پر حضرت عمر فاروقؓ کو اکابر صحابہ کرامؓ کے مشورے سے خلیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر فاروقؓ کو منصب خلافت کی ذمے داری سونپ دی گئی۔

حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں بیت المقدس، شام، عراق، جزیرہ، خوزستان، عراق، آرمینیا، آذربائیجان، طبرستان، سیستان، اسکندریہ، فارس، کرمان، خراسان اور مکران فتح ہوکر اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے اور یہ سب کچھ امیرالمومنینؓ کی عسکری حکمت عملی، قائدانہ تدبّر، قابل فخر قوت فیصلہ اور ارفع و اعلیٰ نظام تدبیر و تنظیم کا نتیجہ تھا۔ امیرالمومنینؓ نے فتوحات کے ساتھ حکومت کے نظم و نسق پر بھی خاص توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ کی شہادت تک حکومت کے مختلف شعبے وجود میں آچکے تھے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے اسلامی جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی، اس میں مجلس شوریٰ کا انعقاد خاص اہمیت کا حامل ہے۔ تمام عمال کو حکم تھا کہ ہر سال حج کے زمانے میں حاضر ہوں۔ اس موقع پر تمام اطراف سے لوگ موجود ہوتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کھڑے ہوکر اعلان کرتے تھے کہ جس کسی کو کسی حاکم سے کچھ شکایت ہو پیش کرے۔ چناں چہ جو شکایتیں ہوتیں ان کی تحقیقات کرکے ان کا تدارک کیا جاتا تھا۔ سیّدنا عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں صیغہ عدالت پر بھی خاص توجہ دی اور عدالتوں کے لیے ایسے قاضی مقرر کیے جو ہر لحاظ سے اس عہدے کے اہل تھے۔ آپؓ نے مجرموں کو قید میں رکھنے کے لیے جیل خانے بنوائے ورنہ اس سے پہلے عرب میں جیل خانوں کا نام نشان نہیں تھا۔ جلاوطنی کی سزا بھی حضرت عمر فاروقؓ کی ایجاد ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے بیت المال قائم کیے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فوجی اصلاحات کیں۔

فوج میں انٹیلی جینس کا مربوط نظام بھی آپؓ ہی کی ایک اصلاح ہے۔ سب سے بڑی خوبی جس نے حضرت عمر فاروقؓ کی حکومت کو مقبول عام بنا دیا اور جس کی وجہ سے اہل عرب آپؓ کے سخت احکام بھی گوارا کر لیتے تھے وہ یہ تھی کہ آپؓ کا عدل و انصاف ہمیشہ بے لاگ رہا جس میں دوست اور دشمن کی تمیز نہ تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ ہمیشہ ان انتظامات میں جن کا تعلق ذمیوں سے ہوتا تھا ذمیوں کے مشورے اور ان کے استصواب کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ان تمام بے ہودہ امور کی بیخ کی۔ جو چیزیں فخر و غرور کی علامت تھیں بالکل مٹا دیں۔ آقا اور غلام کی تمیز بالکل اٹھا دی۔ عمر فاروقؓ نے ہجو کو ایک جرم قرار دیا اور اس کی سزا مقرر کی۔

یہ 26ویں ذوالحجہ 23 ہجری بدھ کا دن تھا۔ حضرت عمرؓ سورج طلوع ہونے سے پہلے لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کاشانہ خلافت سے نکل کر مسجد پہنچے۔ آپؓ کا معمول تھا کہ لوگوں کو نماز کے لیے جگاتے تھے۔ آپؓ لوگوں کو جگاتے ہوئے جیسے ہی مجوسی غلام ابولولو کے نزدیک آئے وہ لعین آپؓ پر جھپٹا اور تیزی کے ساتھ آپؓ پر تیز دھار خنجر سے پے در پے وار کیے۔

اس کے بعد ابولولو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا نمازیوں میں ایک بے چینی سی پھیل گئی، بہت سے لوگ اس لعین کو پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن ابولولو نے کسی کا ہاتھ اپنے تک نہ پہنچے دیا اور دائیں بائیں خنجر کے وار کرنے لگا حتیٰ کہ بارہ آدمی زخمی ہوگئے جن میں ایک قول کے مطابق چھے اور دوسرے قول کے مطابق دو جاں بر نہ ہوسکے۔ آخر ایک شخص پیچھے سے آیا اور اپنی چادر اس پر ڈال کر اسے زمین پر گرا دیا۔ ابولولو کو یقین ہوگیا کہ وہ اسی جگہ قتل کر دیا جائے گا چناں چہ جس خنجر سے اس نے حضرت عمر فاروقؓ کو مجروح کیا تھا۔ اسی خنجر سے اپنا کام بھی تمام کر لیا۔ حضرت عمر فاروقؓ زخم لگنے کے بعد کھڑے نہ رہ سکے اور اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو کھڑا کر دیا اور انہوں نے نماز پڑھائی۔

کاری ضربات سے آپؓ جان بر نہ ہوسکے اور شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے۔ آپؓ کی میت کو غسل دینے کے تین کپڑوں میں کفنایا گیا اور پھر مسجد میں لایا گیا جہاں حضرت صہیبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ آپؓ نے 10 برس6 مہینے اور 4 دن خلافت کی ذمے داریاں سرانجام دیں اور آپؓ کے دور میں اسلامی ریاست کا کل رقبہ 251030 میل مربع تھا۔
Load Next Story