دور حاضر کا نوجوان کیوں ہے پریشان

 جہاں مادیت کو کامیابی کی کنجی سمجھا جائے وہاں زندگی سے سکوں کا چھن جانا عجب نہیں

جہاں مادیت کو کامیابی کی کنجی سمجھا جائے وہاں زندگی سے سکوں کا چھن جانا عجب نہیں۔ فوٹو: فائل

زندگی نشیب و فراز کا نام ہے۔ اچھے برے حالات اس سفر میں جگہ جگہ سرائے کی صورت میں موجود رہتے ہیں مگر سرائے پہ رکنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ سفر رک گیا منزل رک گئی۔ منزل کی جانب گامزن رہنے میں ہی بقاء ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ منزل مل ہی جائے۔

مسافر کا کام ہے منزل کی جانب رواں رہنا' چلتے رہنا' اور پھر امید پر ہی تو قائم ہے یہ دنیا ۔ نوجوان کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ان اعلیٰ سوچ اور ارفع کردار کسی بھی ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی سے دو چار کرتے ہیں۔ اقبال نے اسی حوالے سے کیا خوب کہہ رکھا ہے کہ

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

یہاں جس 'خودی' کے تصور کی بات کی گئی ہے افسوس صد افسوس آج کے دور میں نوجوان طبقہ اس تصور خودی سے کوسوں دور ہے۔ دور حاضر کے نوجواں طبقے کو بے پناہ مسائل نے گھیر رکھا ہے۔ آج کا نوجوان جہاں خودی کے تصور سے نا آشناہے ونہی وہ نفسیاتی' سماجی اور معاشی الجھنوں کا شکار ہے۔ نوجوان طبقے کی ایک بہت پریشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں اور خواہشوں میں فرق کرنے سے بے بہرہ رہتے ہیں اور خواہشات کی خاطر ضروریات کو فراموش کر کے بے چینی اور بے سکونی کا شکار رہتے ہیں۔ ہم یہاں چند مثالوں سے یہ بات واضح کرنا چاہیں گے۔

نوکری: ہمارے ہاں نوے فیصد نوجوان صرف نوکری کے حصول کے لئے اچھی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ناقدین کا یہ بھی خیال ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اچھے ملازمین پیدا کرتا ہے۔ بجائے اچھے بزنس مین کے۔ اب لوگوں کو یقینا یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ بھلا نوکری کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟ یقینا اگر دیکھا جائے تو نوکری کرنے میں بظاہر کوئی حرج نہیں مگر اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو نوکری کرنے سے انسان کی تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ آگے بڑھنے کا جذبہ اور ترقی کے مواقع سکڑ جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمتیں ہوں یا پرائیویٹ سب میں یہی حال ہے۔ نوجوان عمر کے جس حصے میں ہوتے ہیںوہاںان کے اندر کچھ کر دکھانے کا جذبہ پنپتا ہے۔

ان کے پاس بے پناہ الرجی ہوتی ہے جس کو اگر مثبت انداز میں بروئے کار نہ لایا جائے تو یا تو وہ ضائع ہو جاتی ہے یا کسی غلط کام میں صرف کر دی جاتی ہے۔ اب بزنس کی بات کریں تو یقینا یہ ایک محنت طلب کام ہے جہاں نفع و نقصان کی بنیاد پر کام چلتا ہے۔ نہ ہی نفع ہونے کی کوئی سند موجود ہے نہ ہی نقصان کی کوئی پیش گوئی۔ جو بھی نوجوان کاروبار میں ہاتھ ڈالتا ہے وہ اپنی ساری توانائیاں صرف کرتا ہے اور تجارت کے پیشے سے تو پیغمبر بھی منسلک رہے۔

اس کی افادیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ؐ نے بھی تجارت کے پیشے کو پسند فرمایا۔ اگر دنیا بھر کے ا میر ترین لوگوں کی لسٹ کھول کر سامنے رکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ سب بھی بزنس مین ہیں چاہے وہ ایمازون کا جیف بیزوز ہو ' مائیکرو ساوفٹ کا بل گیٹس' فیس بک کا مارک زکربرگ' گوگل کالاری پیج یا لوورائیل فرانس سے تعلق رکھنے والے Framcise Bettencourt Magerw اور ان کی فیملی ۔ سب کے سب نے کاروبار کو اپنی ترقی کے لئے مشعل راہ بنایا۔ آج کے نوجوان کی ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک تو وہ ہر چیز کو مادی اعتبار سے دیکھتا ہے جبکہ وہ بیٹھے بیٹھائے دنیا کا امیر ترین شخص بھی بننا چاہتا ہے۔

یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ تو سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ زندگی میں محنت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ آج جن بڑے بڑے بزنس ٹیکوئز کو ہم دیکھتے ہیں کل وہ بھی عام سے انسان تھے مگر اہم بات یہ ہے کہ وہ عام سے انسان بن کر رہنا نہیں چاہتے تھے اور اسی لگن نے انہیں دوسروں سے بڑھ کر محنت کرنے پر مجبور کیا۔ ہمیشہ محنت کرنے والے اور دیانتدار لوگ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ سکون کی زندگی بھی بسرکرتے ہیں۔

نوجوان طبقے کو یہ بات اچھے سے ذہن نشین کر لیتی چاہئے کہ انہیں زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے دورد دھوپ کرنا پڑے گی۔کوئی ایسا ہنر بروئے کار لائیں جو کہ آپ کو منوانے میں مدد دے۔ اپنا کاروبار کھولیں چاہے ایک پھل کے ٹھیلے سے ہی کیوں نہ ابتدا ہو۔ آپ اپنی ذہنی و تخلیقی خدمات کے عوض بھی بہت سا روپیہ کما سکتے ہیں مگر ہمیشہ ایمانداری اور دیانتداری کو اپنا شعار بنائیں۔ خواہ دنیا کی کوئی بھی طاقت آپ کے مقابل کھڑی ہو جائے اپنے ایمان کا سودا ہرگز نہ کریں۔ جو اصول آپ مرتب کر چکے ہیں ان پر ڈٹ جائیں کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

شادی: شادی کو نوجوان ایک بوجھ اور ذمہ داریوں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے گو کہ یہ بات درست ہے کہ شادی ایک ایسا بندھن ہے جس میں انسان اپنی ذمہ داریوں سے فرار کرنے کے قابل نہیں رہتا اور جو ایسا کرتا ہے وہ ناکام ہو جاتا ہے۔ دراصل ہمارے ہاں چیزوں سے متعلق ایسے ابہام پیدا کر دے جاتے ہیں جو انہیں غلط رنگ میں پیش کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شادی ایک معاشرتی ضرورت ہے۔


اب اس بات کے پورے تنا ظر میں جھانکے بنا آج کا نوجوان جوڈیجٹل دور میں اپنے دن اور راتیں بسر کرتا ہے وہ شادی کو معاشرتی ضرورت تسلیم کرنے سے انکاری ہے کیونکہ اس کے نزدیک شادی کر کے ایک انسان کی اور فیملی کی ذمہ داری لینا خود کو اپنے ہاتھوں برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

وہ سماجی طور پر خود کو بہت محفوظ سمجھتا ہے اور رنگ برنگ لوگوں سے بات کر کے سمجھتا ہے کہ اسے کسی دوست' ہم راز یا رشتے کی حاجت نہیں اب سارا ڈپریشن اور فساد یہیں اسی سوچ سے پھیلتا ہے آپ حیران ہوں گے کہ مندرجہ بالا دلائل تو نوجوان کے حق میں درست ثابت ہوتے ہیں' آیئے اس بات کو سمجھنے کے لئے اس پہلی عبارت کا خلاصہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں کہا گیا کہ شادی ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ معاشرہ انسان کے میل جول سے بنتا ہے۔ گویا انسان معاشرے کی اساس ہے۔ اس کا ربط میل جول ہی معاشرے کی بقاء کا ذریعہ ہے۔ ارسطو بہت ہی زیرک اورسمجھدار تھا اس نے بڑے سادہ لفظوں میں بہت پیچیدہ فلسفہ سمجھا دیا جب اس نے کہا کہ''انسان معاشرتی حیوان ہے'' دراصل انسان کو حیوان سے تشبہ دینے کی یہاں مراد اس کی تنزیل نہیں بلکہ اس بات کو سمجھانا مقصود تھا کہ جیسے ایک حیوان کی جبلی ضرورتیں ہوتی ہیں ویسے ہی انسان کی بھی فطری و جبلی ضرورتیں ہیں۔

شادی ایک جسمانی ضرورت بھی ہے جیسے سمجھنا بے انتہا اہم امر ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ انسان کی جسمانی ضرورت ہے تو ایسے معاشرتی کیوں کہا گیا؟ اور اگر اس کا تعلق انسان کی ذات سے ہے تو معاشرے کا اس میں کیا کام! تو یہ سمجھ لیجئے کہ انسان ایک معاشرے کا حصہ ہے جہاں کہ کچھ آداب' اصول و فوائد اور کوئی دستور حیات ہوتا ہے۔ معاشرے میں رہنے والے انسان نے اپنی جبلی ضروریات کی تکمیل خو د ہی سے نہیں بلکہ معاشرے میں بسنے والے جنس مخالف سے پوری کرنی ہے۔

اگر اس پر جنگل کا قانون لاگو کر دیا جائے تو سارا کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے۔ دو لوگوں کی فطری ضرورت کو پورا کرنے کا بھی کوئی مہذب طریقہ تو موجود ہونا ہی چاہئے تھا۔ سو یہ سلسلہ آدم و حوا سے شروع ہوا اور یوں انسان نے یہ طے کیا کہ اسے اپنی فطری ضروریات کو کس طرح معاشرے کی نگاہ میں جائز بنانا ہے اور ان کی تکمیل کو کسی کے لئے باعث ایذاء نہیں بنانا بلکہ یہ عمل باہمی رضا مندی سے سرانجام دینا ہے۔ شادی اس کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔

دنیا کے جتنے بھی مذاہب پر نگاہ ڈالی جائے عورت اور مرد کے باہمی تعلق کو جس جائز اور معاشرتی طور پر قابل قبول شکل میں تسلیم کیا جاتا ہے وہ شادی ہی ہے جو ایک خاندان اور پھر معاشرے کی تشکیل کا ذریعہ بنتا ہے۔ اب نوجوان طبقہ جب اپنی فطری ضروریات کو جائز انداز میں پورا کرنے سے نالاں دکھائی دیتا ہے تو وہاں وہ جسمانی و نفسیاتی بلکہ معاشرتی و معاشی مسائل کی دلدل میں گھر جاتا ہے۔

اس کی مثال یوں ہی ہے کہ خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اگر کوئی انسان ضد باندھ لے کہ وہ کھانا نہیں کھائے گا تو کیا ہو گا اس جسم زیادہ سے زیادہ کتنے دن تک اس کا بوجھ اٹھا سکے گا ۔ نتیجتاً وہ ا ندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر مر جائے گا۔ اور اگر کسی کے پاس خود خوراک نہیں اور ایسی صورت میں وہ چوری کر کے کھاتا ہے تو وہ معاشرتی طور پر ایک چور بن جاتا ہے۔ یوں ہی جو لوگ اپنی جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے غلط راستوں کا انتخاب کرتے ہیں وہ ہر وقت پکڑے جانے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔

وہ اپنے نفس کی تسکین کرنے کے بعد جس ذہنی پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ تخلیق کار سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کی تخلیق کے اوصاف و نقائص کیا ہیں۔ تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس بنانے والے نے انسان کو بنایا وہ جانتا ہے کہ اس کی ضروریات ' خواہشات اور اوصاف کیا ہیں۔مرد اور عورت ایک دوسرے کی ضرورت ہیں' اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک پاکیزہ مقدس اور جائز تعلق کو بروقت استوار کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ معاشرے کی فلاح و بقاء کو کوئی زک نہ پہنچے آج کی نوجوان نسل شادی کو اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے اور اگر ایسا نہیں تو معاشی حالات کو بہانا بنا کر شادی سے دور بھاگنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ روزق دینے کی ذمہ داری اللہ نے دے رکھی ہے وہی رب جو پتھر میں کیڑے کو رزق پہنچتا ہے ایک انسان کو کسے بھول سکتا ہے۔ اور ہر آنے والا اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے تو شادی کو ایک معاشرتی' جسمانی اور نفسیاتی ضرورت سمجھتے ہوئے درست عمر اور وقت میں فیصلہ کرنا ہی بہترین طریقہ ہے جو نہ کہ آپ کو بہت سے مسائل سے بچائے گا بلکہ زندگی کو اصل معنوں میں گزارنے کا سیلقہ بھی سیکھانے کا باعث بنے گا۔

سکون: انسان کو جہاں زندگی میں دیگر چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ونہی سکون کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ ذہنی و قلبی سکون نہ ہو تو انسان کی زندگی دوزخ سے بدتر ہو جاتی ہے پھر چاہیے دولت ہو شہرت یا حسن و جمال کچھ بھی کام نہیں آتا' سکون کا حصول مادیت میں پنہاں نہیں بلکہ اس کا تعلق روحانیت سے ہے۔ نوجوان نسل حس بے سکونی وبے چینی کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ مادیت پرستی ہے اور دین سے دوری' روحانیت کے تصور سے ناآشنائی ہے۔ سکون کے حصول کے بہترین ذریعے کو اس دنیا کی سب سے سچی کتاب ''قرآن مجید فرقان حمید'' نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ ''سکون توصرف اللہ کے ذکر میں ہے'' سورۃ الرعد' اب لوگ اس بات پرحیران ہوں گے کہ اللہ کے ذکر سے کیسے سکون مل سکتا ہے تو یہ جان لیجئے کہ اللہ ہی کہتا ہے کہ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔

تم مجھ مانگو میں تمہیں عطا کروں گا۔ تو بھلا کیسے ممکن ہے اللہ اپنے کہے کو ٹال دے۔ جب ہم یقین سے دعا مانگتے ہیں تو اس وقت اللہ ہمیں کتنی توجہ اور تقرب سے نوازتا ہے ہم شاید اس کا اندازہ بھی نہیں کرپاتے آج کی نوجوان نسل انٹرنیٹ اور شوشل میڈیا کے سچر میں اس قدر کھو گئی ہے کہ وہ اللہ مذہب ا ور روحانیت کو بالکل فراموش کر چکی ہے جس کا نتیجہ کبھی خودکشی کی صورت نظر آتا ہے تو کبھی جرائم میں ملوث خواہ وہ اخلاقی ہوں یا معاشرتی ۔ اس میں بہت بڑا قصور والدین کا بھی ہے۔ بچپن سے ہی اپنے بچوں کی بنیادیں اتنی مضبوط کر دیں کے کہ کوئی آندھی آئے یا طوفان وہ کبھی جڑ سے اکھڑ نہ سکیں دور حاضر کے والدین بچوں کو سکولوں میں داخل کروا کر سمجھتے ہیں کہ انہوںنے اپنی ذمہ د اری پوری کر دی۔

بچوں کو ذہنی طور پر مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی واقفیت دین سے کرائی انہیں صرف مادی چیزوں کے پیچھے ہی نہ لگایا جائے بلکہ انہیں انسانیت کا درس دیا جائے۔ ان کا تعلق اپنے رب سے مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ وہ در در کے بھکاری نہ بنیں بلکہ اپنی ضرورتوں کے لئے اپنے پرودرگار کے سامنے دست سوال دراز کریں اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز جان سکیں۔
Load Next Story