ملکی حالات اور الجھاؤ
دیکھا جائے تو ہمارے ملک ’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘میں ججز پر دوہری ذمے داریاں ہیں۔
ISLAMABAD:
علم کا دروازہ کہلانے والے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ''کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں چل سکتا''۔ انصاف وہ کام ہے جس کے قیام سے ہندوستان پر حملہ آور ہونے والا مغل بادشاہوں میں سے جلال الدین اکبر بھی یہاں کے لوگوں کا ہیرو قرار پایا۔ اسی عدل و انصاف کے قیام کے لیے دنیا میں عدالتی نظام زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے ۔
سرپنچ، مکھیہ اورقاضی سے ہوتے ہوتے جب دنیا میں جمہوریت کا دور شروع ہوا تو اس جمہوری نظام میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے ایک باقاعدہ عدالتی نظام تشکیل دیا گیا بلکہ اُسے عوامی سول و فوجداری مقدمات کے ساتھ ساتھ ملکی آئین و قانون کی تشریح جیسی اہم ذمے داری بھی سونپی گئی۔ اس عدالتی نظام کا محور جج کو قرار دیا گیا ۔ پاکستان میں جج لفظ کا تعارف پاکستان پینل کوڈ کی شق 19میں دیا گیا ہے ۔
اس کیمطابق جج کا مطلب وہ شخص جسے قانون نے اختیار دیا ہو کہ کسی بھی دیوانی یا فوجداری قانونی کارروائی میں حتمی فیصلہ دے ۔ رومن قانون کا ایک مقولہ ہے کہ ''جج کا کام قانون بنانا نہیں بلکہ قانون کو لاگو کرنا ہے ''۔ جب کہ اسلام اِس بات پر زور دیتا ہے کہ جج کو نہ صرف باخبر گہری سوچ رکھنے والا ہونا چاہیے بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ ایمانداراور عدل و انصاف کرنیوالا بھی ہونا چاہیے ۔
اِسی لیے دنیا کی عدالتوں میں عدل و انصاف کی علامت ہاتھ میں متوازن پلوں کا حامل ترازو تھامے اور آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھے انصاف کی دیوی کی مورت کو قرار دیا گیا ۔ جس کا مقصد تھا انصاف کے ساتھ عدل کے قیام کے لیے غیر جانبداری اہم شرط ہے۔ یہی غیر جانبداری عدل و انصاف کے قیام کے وقت اپنے پرائے کی تمیز ، خوف و لالچ اور کسی بھی دباؤ سے بے نیاز ہوکر عدالت چلانے کا درس دیتی ہے ۔
تاریخ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ جیسے عادل، عظیم و طاقتور حکمران کے اُمور میں بھی حضرت علی ؓ اور حضرت ابی بن کعب ؓ بطور جج غیر جانبدار ہوکر فیصلے کرتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف تاریخ ایسے قاضی اور ججوں کے کالے کارناموں سے بھی بھری پڑی ہے ، جو عدل وانصاف قائم کرنے میں غیرجانبداری کا دامن چھوڑ کر کبھی خوف و لالچ تو کبھی اپنے پرائے کی عصبیت کے بہاؤ میں بہہ کر تو کبھی طاقتور کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر جانبداری کا شکار ہوئے اور عدل تو دور ظاہری انصاف کا بھی گلہ گھونٹنے کا باعث بنے ، لیکن پھر ایسے جج تاریخ میں ایک داغ و دھبے کا نشان بن کر رہ گئے۔
ایسے ہی قاضی اور جج عظیم فلسفی سقراط، عیسیٰ علیہ السلام، حسین بن علی ؓ، حسین بن منصور حلاج، سرمد شہید، شمس تبریز ، مخدوم بلاول، شاہ عنایت شہید ، مولانا عبدالکلام آزاد اور ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا باعث بنے ہیں۔جو عہدوں سے سبکدوشی کے بعد پچھتاوے کے احساس تلے دب کر کبھی اعتراف ِ جرم کرتے نظر آئے تو کبھی ندامتی موت کا نوالہ بن گئے ۔
دیکھا جائے تو ہمارے ملک 'اسلامی جمہوریہ پاکستان 'میں ججز پر دوہری ذمے داریاں ہیں، ایک طرف اسلامی شرعی قوانین تو دوسری طرف جمہوری آئین و قانون ، دونوں کی روشنی میں غیرجانبدار حیثیت سے متوازن فیصلے کرنا ہی اُن کے فرائض ِ منصبی میں شامل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی عدالتی تاریخ پر بھی کئی سوالیہ نشانات لگے نظر آتے ہیں ۔ جس کی وجہ فنی و تیکنیکی وجوہات کے علاوہ طاقتور قوتوں کے دباؤ ، ججز پر خوف و لالچ اور اقربا پروری جیسے رویے غالب آنے کے ساتھ ساتھ اس ملک میں جاری نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں یرغمال ملکی نظام ہے ۔ جس کی شاطرانہ چالیں نہ پارلیمنٹ کی سمجھ میں آتی ہیں ، نہ عدالت اور ریاست کے باقی ستونوں کو مضبوط رہنے دیتی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں ادارے اپنے حدود ِ کار ، اختیار اور آئینی کردار پر گتھم گتھا اور تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ یہاں پارلیمنٹ قانونسازی کے بجائے مذمتی و خراجی ہُل و ہنگامے کا مرکز بن کررہ گیا ہے تو حکومت انتظامی پالیسی کی تیاری و فیصلوں اور احکامات جاری کرنے ، نافذ کرنے اور اُن کی مانیٹرنگ کرنے کے بجائے کہیں اور ہونیوالے فیصلوں کی توثیق کرتی رہتی ہے یا زیادہ سے زیادہ اس صورتحال پر جھلاکر دوسروں کو لتاڑکر اپنی جھنجھلاہٹ دور کرتی ہے ۔ جب کہ ملک کے چوتھے ستون میڈیا کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کس کے آگے جوابدہ ہے اور کونسی ذمے داریاں انھیں نبھانی ہیں ۔اُن میں سے اکثریت کو خبر ، اسٹوری اور صحافتی ذمے داریوں کا ادراک ہی نہیں۔
وہ ''سب سے پہلے خبر دے رہے ہیں'' اور ''بریکنگ نیوز'' کی ریس میں خبر کے مختلف مخفی و حقیقی پہلوؤں اور پیشہ ورانہ مہارتی بنیادوں پر تحقیق کے بجائے سنسنی پھیلانے اور طاقتور حلقوں کی خوشامد جیسی باتوں میں اُلجھ کر عوام کی آواز بننے والی اپنی بنیادی ذمے داری بھول چکے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اتفاقی نہیں ہورہا بلکہ ہمارے ملک میں خفیہ طریقے سے انتشار پھیلانے کی سازش کرنیوالی قوتوں کی جانب سے ہورہا ہے ۔
وہ قوتیں بڑی چالاکی سے ملکی اداروں کو اپنے فرائض ِ منصبی سے ہٹاکر دوسرے اُمور میں اُلجھانے کا کام جاری رکھے ہوئی ہیں ۔ اس کے لیے وہ کبھی کسی ادارے کو سپر و سپریم ہونے کا تاثر دیکر اُسے اپنی حدود ِ کار اور فرائض کے مطابق کام کرنے کے بجائے دیگر اداروں کے اُمور میں ٹانگ اڑانے یا انھیں زیر کرنے جیسی سرگرمیوں میں اُکساتی ہیں ۔ یہی صورتحال اس وقت ملک کے عدالتی نظام کے ساتھ بھی نظر آرہی ہے ۔کہتے ہیں کہ عدل و انصاف کے قیام کے بغیر کوئی ملک و معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا۔
بدقسمتی سے آج ملک میں عدل و انصاف کی حالت ِ زار پر نظر ڈالتے ہیں تو ملکی روایتی عدالتوںسمیت ملک کی دہشتگردی توڑ عدالتوںاور نیب عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں مقدمات ہیں جو التویٰ کا شکار ہیں ۔ اُن مقدمات کی وجہ سے ہزاروں بلکہ لاکھوںمتاثرین انصاف کے لیے کئی سالوں سے عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں ۔ یہاں یہ بھی المیہ دیکھنے میں آیا کہ کئی بے گناہوں کو انصاف اُس وقت ملا ، جب وہ اس دنیا میں ہی نہ رہے۔ کئی لوگ محض الزامات کی بناء پر بلا کسی فیصلے کے سالوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔
عدالت کا بنیادی کام دیوانی و فوجداری مقدمات میں حتمی فیصلہ دینے کے ساتھ ساتھ آئین و قانون کی تشریح کرنا ہے لیکن سازشی قوتوں نے عدالتی نظام کی بنیادوں پر اس طرح وار کیا ہے کہ خود عدلیہ کو بھی یہ احساس نہیں کہ اُن کا اولین فرض بیچ میں ادھورا رہ گیا ہے ۔ مقامی لوگوں کے سیکڑوں مقدمات انھی عدالتوں میں پڑے سڑ رہے ہیں ۔
ملک کے سابقہ صدورو سابقہ و موجودہ وزیر اعظم رہنے والی شخصیات پر دہشت گردی توڑ عدالتوں میں مقدمات چلنا بھی اس ملک کے نظام کا المیہ ہے ۔پھر ایک صوبہ کی انتظامیہ اور اُسی صوبہ کی پولیس کے مابین تکرار کے فیصلے ہوں یا بجلی کے مسائل پرکسی کمپنی کے خلاف ریمارکس ہوں یاکراچی کے نالوں پر صوبائی اتھارٹی کے خلاف جانبدارانہ رویہ ، شوگر ملز کے خلاف کارروائی کی اجازت پر مبنی فیصلے ہوںیا کراچی میں سرکلر ریلوے کی از سر نو تعمیر جیسے انتظامی اُمور، سوشل میڈیاکو بند کرنے اور فیض آباد دھرنوں جیسے واقعات کے مقدمات کا بوجھ ہو یا خود عدلیہ کا حصہ رہنے والے ججز کے خلاف اُلٹے سیدھے ریفرنسز و مقدمات میں اُلجھے رہنا۔
حتیٰ کہ کورونا وائرس سے بچاؤکے لیے انتظامی اُمور کے خلاف بھی از خود نوٹس جیسی کارروائیوں میںعدالت کو اُلجھانا، یہ سب اسی سازش کے تحت ہے ۔ ان سب باتوں پر طائرانہ نظر ڈالنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ملک دشمن انتشاری قوتیں کسی بھی طور وطن ِ عزیز میں امن ، سکون،ترقی اور خوشحالی نہیں چاہتیں۔ جس وجہ سے وہ دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ ملک کے سب سے مضبوط و اہم ترین ستون عدلیہ کو بھی اُلجھاکر ملک میں عدل و انصاف کے قیام کو ناکام بناکر عوام کا تمام اداروں پر سے اعتماد ختم کرنے کے درپے ہیں۔
اور اگر ایک مرتبہ عوام کا اعتماد عدالتی نظام سے اُٹھ جائے تو پھر معاشرہ جنگل کے قانون کی طرح کمزور کا دشمن اور طاقتور کا حمایتی بن جاتا ہے ۔ پھر ایسے معاشرے کی بنیادیں ہلانے میں دشمن کو زیادہ محنت اور وقت نہیں لگتا۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ملک کی تمام حب الوطن قوتیں اس صورتحال پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور عدلیہ سمیت تمام ملکی اداروں کو اپنی اپنی آئینی و قانونی حدود ِ کار میں رہتے ہوئے اپنے بنیادی فرائض ِ منصبی کی سرانجامی پر مستعدی سے کام کرنے کے عزم پر کاربند رہیں۔ یہی اس ملک کے دیرپا استحکام، سالمیت و ترقی اور عوام کی خوشحالی کا واحد حل ہے ۔
برما ، ملائیشیا ، جرمنی اور ہالینڈ اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔ جب کہ اپنے فرائض کو چھوڑ کر دوسرے اداروں کے اُمور میں دخل اندازی دینے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کی روش سے برطانیہ کا سورج دنیا سے غروب ہونے کی مثال ہم سب کے سامنے ہے تو موجودہ دور میں امریکا کی تیزی سے تنزلی بھی اسی روش کا شکار نظر آتی ہے ۔