کرہ ارض کو بچائیں درخت لگائیں
پاکستان میں 4سے5 فیصد رقبے پر درخت اور جنگلات پائے جاتے ہیں۔
KARACHI:
حالیہ دنوں میں بھی متعدد ماحولیاتی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر کرہ ارض کے ماحولیاتی تحفظ پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی تو کووِڈ۔19 جیسی متعدد وبائوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ماہرین کی غالب تعداد اس بات پر بھی اتفاق کرتی ہے کہ دنیا بھر میں موجود جنگلات کا تحفظ کرنے کے ساتھ بڑ ے پیمانے پر شجرکاری کی بھی فوری ضرورت ہے۔
نومبر2006 میں اقوام متحدہ کی جانب سے پہلی مرتبہ شجرکاری مہم کوانتہائی پرجوش انداز میں شروع کیا گیا۔2007 کو''پلانٹیری ا یمرجنسی'' کا سال قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ نے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کو موجودہ دور کا سنگین مسئلہ گردانتے ہوئے اس امرکا عہدکیا کہ شجرکاری کی آگہی مہم کے ذریعے علامتی طور پر دنیا بھر میں ایک ارب درخت لگائے جائیں تاکہ لوگوں میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے شعور بیدار ہو۔پچھلے سال کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کرہ ارض کے ماحول سے ختم کرنے کا سب سے بڑا اور سستاطریقہ دنیا بھر میں اربوں درختوں کی شجر کاری ہے۔
اس تحقیق میں اندازہ لگایا گیا کہ دنیابھر میں شجرکاری کی مہموں کے ذریعے انسانی سرگرمیوں کے باعث ہونے والی زہریلی گیسوں کے اخراج کا دو تہائی حصہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ان اعداد وشمار کو سائنس دان حیرت زدہ اور چونکا دینے والا انکشاف قرار دیتے ہیں۔تحقیق سے نتیجہ اخذکیا گیا کہ زمین کا1.7 بلین ہیکڑ رقبہ بغیر درختوں کے جب کہ 1.2 ٹریلین رقبہ ایسا ہے جہاں خودرو طریقے سے پودے اُ گ جاتے ہیں، یہ کل زمین کا 11 فیصد ہے جوامریکا اور چین کے کل حجم کے برابر ہے۔
سوئس یونیورسٹی ETH زیورچ سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے مرکزی مصفف ٹام گروتھرنے اس حوالے سے کہا کہ'' موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے یہ محض ایک حل نہیں ہے لیکن یہ پہلے نمبر پر ہے۔''ان کا مزید کہنا تھا'' میںیہ سمجھ رہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پہلے 10 بہترین حل میں سے یہ ایک حل ہوگا بلکہ یہ حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے جنگلات اور درخت لگاناکسی بھی دوسرے حل سے زیادہ موثر ترین حل ہے۔''
عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کے 25 فیصد رقبے پر درختوں کی موجودگی لازمی ہے لیکن پاکستان میں 4سے5 فیصد رقبے پر درخت اور جنگلات پائے جاتے ہیں۔غیر جانبدار حلقے اس رقبے کو 2سے3 فیصد بتاتے ہیں۔پاکستان زہریلی گیسوں کا اخراج کرنے والے ملکوں کی فہرست میں 135 ویں نمبر پر آتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ملکوں کی فہرست میں اس کا نمبر 5 واں ہے۔پچھلی ایک دہائی سے ملک کے درجہ حرارت میں مسلسل ا ضافہ ہورہا ہے، جب کہ سردی میں کمی کاواضح رجحان ہے۔
عالمی بینک کی جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں صوبہ سندھ کے 3 اضلاع جن میں حیدر آباد، میر پور خاص اور سکھر کے علاوہ پنجاب کے 3 اضلاع جن میں لاہور،ملتان اور فیصل آباد شامل ہیں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ اگر ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر شجر کاری نہ کی گئی تو2050 تک یہ علاقے بنجر ہوجائیں گے۔ماہرین ملک کے ساحلی شہر کراچی کے مسلسل بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ایسی صورتحال میں ملک کے طول وعرض میں بڑے پیمانے پر ہونے والی شجرکاری کی اہمیت وافادیت میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
بات اگر حکومتوں کی جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے نہ صرف شجرکاری کی اہمیت پر زور دیا بلکہ موسمیاتی وماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے متعدد پروگرام بھی شروع کیے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وزیر اعظم عمران خان کی موجودہ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی کے ایجنڈے کو زبان زد عام کیا ہے اور ماہر ماحولیات وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کی سربراہی میں اس ایجنڈے کو مسلسل آگے بڑھایا جارہا ہے جس کا اعتراف عالمی سطح پر کیاجارہا ہے جو کہ خوش آیند امر ہے۔
مون سون شجر کاری کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 2 برسوں میں ہم نے 30 کروڑ درخت لگائے ہیں اور آیندہ جون تک ہم ایک ارب درخت لگانے کا ہدف حاصل کرلیں گے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے 10 ارب درخت لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور اگلے 5 برسوں میں ہم اس ہدف کو حاصل کریں گے۔9 اگست کو ملک بھر میں شجر کاری مہم کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے 5 سالوں میں 10 ارب درخت لگانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے شہروں میں کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑی جائے گی جہاں درخت نہ لگائے گئے ہوں، انھوں نے مزید بتایا کہ ٹائیگر فورس کی وجہ سے ایک دن میں35 لاکھ درخت لگائے گئے ہیں جو ایک ریکارڈہے۔
ملک میں ہونے والی شجرکاری مہم کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے راقم کو بتایا کہ ہم نے جو منصوبہ ترتیب دیا ہے اس کے مطابق 3.2 بلین درخت پہلے تین سالوں میں لگائے جائیں گے جب کہ آنے والے جون تک ایک بلین درختوں کی شجرکاری کا عمل مکمل ہوجائے گا جس میں رواں سال دسمبر تک 20 کروڑاور جون21 تک 30 کروڑ درخت لگادیے جائیں گے۔انھوں نے مزید کہاکہ ہماری حکومت کا پہلا سال منصوبے کی فزیبیلیٹی بنانے اور اس کے لیے فنڈ اکھٹا کرنے میں لگا جب کہ شجرکاری دوسرے سال سے شروع ہوئی۔ ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ ہم نے پورے ملک میں شجرکاری کے لیے جگہوں کا انتخاب کرکررکھا ہے۔
بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت سے دنیا کا ہر شخص متاثر ہو رہا ہے، خاص طور پر گنجان آباد شہروں میں کچی آبادیاں یا وہ علاقے جہاں کم آمدنی والے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ملک کے بڑے شہروں میں بھی شدید گرمی کا دورانیہ مسلسل بڑھ رہاہے۔اس صورتحال میں شہروں میں موجود بڑے درختوں کا تحفظ اور نئی شجرکاری کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔حکومتی اداروں، سماجی تنظیموں اور انفرادی طور پر شجرکاری کرنے والوں کی پہلی ترجیح میں ان علاقوں کوشامل ہونا چاہیے۔
شجرکاری کے حوالے سے موجودہ حکومت کے انقلابی اقدامات اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب ان کے لگائے گئے پودوں کی دیکھ بھال کا مکمل انتظام ہو تاکہ وو درخت بن سکیں ورنہ یہ اعداد وشمار بھی ماضی کی طرح قصہ پارینہ بن جائیں گے کیونکہ پچھلے 73 سالوں میں کی جانے ولی شجرکاری کے اعداد وشمار کے مطابق ملک کے چپے چپے پر آج بھی درخت موجود ہیں۔
حالیہ دنوں میں بھی متعدد ماحولیاتی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر کرہ ارض کے ماحولیاتی تحفظ پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی تو کووِڈ۔19 جیسی متعدد وبائوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ماہرین کی غالب تعداد اس بات پر بھی اتفاق کرتی ہے کہ دنیا بھر میں موجود جنگلات کا تحفظ کرنے کے ساتھ بڑ ے پیمانے پر شجرکاری کی بھی فوری ضرورت ہے۔
نومبر2006 میں اقوام متحدہ کی جانب سے پہلی مرتبہ شجرکاری مہم کوانتہائی پرجوش انداز میں شروع کیا گیا۔2007 کو''پلانٹیری ا یمرجنسی'' کا سال قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ نے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کو موجودہ دور کا سنگین مسئلہ گردانتے ہوئے اس امرکا عہدکیا کہ شجرکاری کی آگہی مہم کے ذریعے علامتی طور پر دنیا بھر میں ایک ارب درخت لگائے جائیں تاکہ لوگوں میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے شعور بیدار ہو۔پچھلے سال کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کرہ ارض کے ماحول سے ختم کرنے کا سب سے بڑا اور سستاطریقہ دنیا بھر میں اربوں درختوں کی شجر کاری ہے۔
اس تحقیق میں اندازہ لگایا گیا کہ دنیابھر میں شجرکاری کی مہموں کے ذریعے انسانی سرگرمیوں کے باعث ہونے والی زہریلی گیسوں کے اخراج کا دو تہائی حصہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ان اعداد وشمار کو سائنس دان حیرت زدہ اور چونکا دینے والا انکشاف قرار دیتے ہیں۔تحقیق سے نتیجہ اخذکیا گیا کہ زمین کا1.7 بلین ہیکڑ رقبہ بغیر درختوں کے جب کہ 1.2 ٹریلین رقبہ ایسا ہے جہاں خودرو طریقے سے پودے اُ گ جاتے ہیں، یہ کل زمین کا 11 فیصد ہے جوامریکا اور چین کے کل حجم کے برابر ہے۔
سوئس یونیورسٹی ETH زیورچ سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے مرکزی مصفف ٹام گروتھرنے اس حوالے سے کہا کہ'' موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے یہ محض ایک حل نہیں ہے لیکن یہ پہلے نمبر پر ہے۔''ان کا مزید کہنا تھا'' میںیہ سمجھ رہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پہلے 10 بہترین حل میں سے یہ ایک حل ہوگا بلکہ یہ حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے جنگلات اور درخت لگاناکسی بھی دوسرے حل سے زیادہ موثر ترین حل ہے۔''
عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کے 25 فیصد رقبے پر درختوں کی موجودگی لازمی ہے لیکن پاکستان میں 4سے5 فیصد رقبے پر درخت اور جنگلات پائے جاتے ہیں۔غیر جانبدار حلقے اس رقبے کو 2سے3 فیصد بتاتے ہیں۔پاکستان زہریلی گیسوں کا اخراج کرنے والے ملکوں کی فہرست میں 135 ویں نمبر پر آتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ملکوں کی فہرست میں اس کا نمبر 5 واں ہے۔پچھلی ایک دہائی سے ملک کے درجہ حرارت میں مسلسل ا ضافہ ہورہا ہے، جب کہ سردی میں کمی کاواضح رجحان ہے۔
عالمی بینک کی جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں صوبہ سندھ کے 3 اضلاع جن میں حیدر آباد، میر پور خاص اور سکھر کے علاوہ پنجاب کے 3 اضلاع جن میں لاہور،ملتان اور فیصل آباد شامل ہیں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ اگر ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر شجر کاری نہ کی گئی تو2050 تک یہ علاقے بنجر ہوجائیں گے۔ماہرین ملک کے ساحلی شہر کراچی کے مسلسل بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ایسی صورتحال میں ملک کے طول وعرض میں بڑے پیمانے پر ہونے والی شجرکاری کی اہمیت وافادیت میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
بات اگر حکومتوں کی جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے نہ صرف شجرکاری کی اہمیت پر زور دیا بلکہ موسمیاتی وماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے متعدد پروگرام بھی شروع کیے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وزیر اعظم عمران خان کی موجودہ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی کے ایجنڈے کو زبان زد عام کیا ہے اور ماہر ماحولیات وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کی سربراہی میں اس ایجنڈے کو مسلسل آگے بڑھایا جارہا ہے جس کا اعتراف عالمی سطح پر کیاجارہا ہے جو کہ خوش آیند امر ہے۔
مون سون شجر کاری کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 2 برسوں میں ہم نے 30 کروڑ درخت لگائے ہیں اور آیندہ جون تک ہم ایک ارب درخت لگانے کا ہدف حاصل کرلیں گے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے 10 ارب درخت لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور اگلے 5 برسوں میں ہم اس ہدف کو حاصل کریں گے۔9 اگست کو ملک بھر میں شجر کاری مہم کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے 5 سالوں میں 10 ارب درخت لگانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے شہروں میں کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑی جائے گی جہاں درخت نہ لگائے گئے ہوں، انھوں نے مزید بتایا کہ ٹائیگر فورس کی وجہ سے ایک دن میں35 لاکھ درخت لگائے گئے ہیں جو ایک ریکارڈہے۔
ملک میں ہونے والی شجرکاری مہم کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے راقم کو بتایا کہ ہم نے جو منصوبہ ترتیب دیا ہے اس کے مطابق 3.2 بلین درخت پہلے تین سالوں میں لگائے جائیں گے جب کہ آنے والے جون تک ایک بلین درختوں کی شجرکاری کا عمل مکمل ہوجائے گا جس میں رواں سال دسمبر تک 20 کروڑاور جون21 تک 30 کروڑ درخت لگادیے جائیں گے۔انھوں نے مزید کہاکہ ہماری حکومت کا پہلا سال منصوبے کی فزیبیلیٹی بنانے اور اس کے لیے فنڈ اکھٹا کرنے میں لگا جب کہ شجرکاری دوسرے سال سے شروع ہوئی۔ ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ ہم نے پورے ملک میں شجرکاری کے لیے جگہوں کا انتخاب کرکررکھا ہے۔
بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت سے دنیا کا ہر شخص متاثر ہو رہا ہے، خاص طور پر گنجان آباد شہروں میں کچی آبادیاں یا وہ علاقے جہاں کم آمدنی والے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ملک کے بڑے شہروں میں بھی شدید گرمی کا دورانیہ مسلسل بڑھ رہاہے۔اس صورتحال میں شہروں میں موجود بڑے درختوں کا تحفظ اور نئی شجرکاری کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔حکومتی اداروں، سماجی تنظیموں اور انفرادی طور پر شجرکاری کرنے والوں کی پہلی ترجیح میں ان علاقوں کوشامل ہونا چاہیے۔
شجرکاری کے حوالے سے موجودہ حکومت کے انقلابی اقدامات اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب ان کے لگائے گئے پودوں کی دیکھ بھال کا مکمل انتظام ہو تاکہ وو درخت بن سکیں ورنہ یہ اعداد وشمار بھی ماضی کی طرح قصہ پارینہ بن جائیں گے کیونکہ پچھلے 73 سالوں میں کی جانے ولی شجرکاری کے اعداد وشمار کے مطابق ملک کے چپے چپے پر آج بھی درخت موجود ہیں۔