کراچی پر بھی توجہ فرمائیے
پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ وہ کراچی صوبے کے شوشے سے نکل کر عوامی مسائل کی جانب توجہ دے۔
کراچی کی سندھ سے علیحدگی یا سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی بات پر پیپلز پارٹی سخت برہم ہو جاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سندھ دھرتی ہماری ماں ہے جو ہماری ماں کے ٹکڑے کرنے کی بات کرے گا ہم سب اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔
وہ گورنر راج کو سندھ پر وفاق کے قبضے سے تعبیر کرتی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب سندھ کے ٹکڑے نہیں ہو سکتے تو پھر کراچی کو کیوں سات ٹکڑوں میں بانٹا گیا ہے تو اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس تقسیم کے ذریعے کراچی جیسے تین کروڑ کی آبادی والے شہر کے گمبھیر انتظامی معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے پتا چلا کہ انتظامی بنیاد پر علاقوں کی تقسیم کا عمل وجود میں لایا جاسکتا ہے۔
جہاں تک کراچی کی سندھ سے علیحدگی کی بات ہے یا گورنر راج کے نفاذ کا معاملہ ہے یہ شوشوں کی حد تک تو ضرور موجود ہیں لیکن ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایم کیو ایم ایک زمانے سے کراچی صوبے کی بات کرتی آرہی ہے مگر وہ نہ ماضی میں اس میں سنجیدہ تھی اور نہ آج سنجیدہ نظر آتی ہے۔ وفاق کی جانب سے گاہے بگاہے سندھ میں گورنر راج اور نئے صوبے کی بات ضرور کی جاتی ہے مگر وہ بھی محض شوشے کی حد تک ہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی سندھ میں بہتر کارکردگی ہوتی تو کسی کو اس کے سامنے اس کے ناپسندیدہ ایشوز کو اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے درست ہی کہا ہے کہ وہ سیاسی پارٹیاں جو کراچی صوبے یا گورنر راج کی بات کر رہی ہیں وہ ان نام نہاد ایشوز کے ذریعے اپنی سیاست چمکا رہی ہیں ساتھ ہی پیپلز پارٹی ان ایشوز پر شدید ردعمل ظاہر کرکے اپنا ووٹ بینک مضبوط کر رہی ہے۔
ان کے مطابق مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ان تمام سیاسی پارٹیوں کے پاس کوئی عوامی بھلائی کا ایجنڈا نہیں ہے گوکہ وہ تمام ہی اس شہر کے اسٹیک ہولڈرز ہیں مگر یہاں کے عوامی مسائل کو حل کرنے میں قطعی ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔
کراچی سے کشمور تک سندھ کے تمام ہی شہروں کی حالت زار قابل غور ہے۔ کراچی جیسے ملک کے معاشی انجن کے عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے صرف عوام ہی ناراض نہیں ہیں اس مسئلے نے سپریم کورٹ کو بھی ناراض کردیا ہے۔
گزشتہ دنوں میئر کراچی اور وزیر اعلیٰ سندھ کی سپریم کورٹ میں جو سبکی ہوئی ہے اس سے انھیں ضرور کچھ سبق لینا چاہیے اور خود کو عوامی مسائل کے حل کے لیے وقف کردینا چاہیے بہانے بازی کا اب وقت نہیں رہا ہے اب میئر کراچی کی میئر شپ کی مدت ختم ہو رہی ہے انھیں اور ان کی پارٹی کو کیا کراچی کے عوام اب دوبارہ یہ موقع فراہم کرسکتے ہیں۔
ایسا نظر نہیں آتا اس لیے کہ ان کی میئر شپ کے پورے دور میں کراچی کے عوام اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں سخت پریشان رہے ہیں مگر وہ اپنے اختیارات میں کمی کا رونا رو کر اپنے فرائض سے راہ فرار اختیار کرتے رہے ہیں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے وہ بھی مسائل کے حل کے سلسلے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اصل مسئلہ کراچی کے بلدیاتی نظام میں پیپلزپارٹی کی مداخلت کا ہے۔ اس نے میئر کراچی کو تمام بلدیاتی ادارے اس کے حوالے کرنے کے بجائے کچھ اہم اور کچھ لوگوں کے مطابق بھاری آمدن والے شعبے اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔
اس طرح میئر کراچی کو یہ جواز عطا کردیا ہے کہ وہ اپنے اختیارات میں کمی کا رونا یا واویلا کرکے اپنی پھوہڑ کارکردگی پر پردہ ڈال سکے۔ بلدیاتی نظام کی اس تیتر بٹیر تقسیم سے عوام کے بنیادی مسائل کے حل میں مسلسل رخنہ پڑ رہا ہے۔ اس وقت کراچی کے اصل مسائل فراہمی و نکاسی آب اور کچرے کی صفائی ہیں لیکن اور بھی مسائل ہیں حالیہ بارش نے شہر میں جو تباہی مچائی اور سڑکیں تالاب کا منظر پیش کر رہی تھیں اس مسئلے کا بھی مستقل حل نکالنا ضروری ہے۔
کراچی کے نالوں کی صفائی کرنے میں تاخیر کی وجہ سے بارش نے زیادہ تباہی مچائی،اگر وفاقی حکومت کی ہدایت پر این ڈی ایم اے نے نالوں کی صفائی نہ کی ہوتی تو یہ سندھ حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔ میئر کراچی نے پہلے ہی اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا تھا۔ پی ٹی آئی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کافی ارکان کراچی میں موجود ہیں وہ سندھ حکومت پر آئے دن چڑھائی کرتے رہتے ہیں مگر وفاقی حکومت سے یہ نہیں پوچھتے کہ کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے اس نے دو سال قبل جو 162 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟
سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کے شہری مسائل کے حل کے سلسلے میں سندھ حکومت اور میئر کراچی کی سرزنش کا وفاقی حکومت نے سخت نوٹس لیا ہے۔ اس نے کراچی کے مسائل کا آئینی و قانونی بنیاد پر حل نکالنے کے لیے یہ ٹاسک وزارت قانون کے سپرد کردیا ہے اور خبروں کے مطابق وزارت قانون نے کام کا آغاز بھی کردیا ہے مگر بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہے جو سراسر غیر آئینی اور غیر جمہوری روایت کو جنم دینے کے مترادف ہوگا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اٹارنی جنرل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کراچی ایک یتیم شہر بنا ہوا ہے ان کے مطابق کراچی اگر تباہ ہوا تو پھر پاکستان کو بھی تباہی سے بچانا مشکل ہوگا، اس لیے کہ کراچی پر ہی ملک کی معیشت کا دار و مدار ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کراچی کو پاکستان کے تمام شہروں پر فوقیت حاصل ہے مگر جان بوجھ کر کراچی کے مسائل سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ واضح ہو کہ مایوسیوں کا شکار ہو کر ہی یہ شہر ماضی میں شورشوں کا شکار رہ چکا ہے۔
جشن آزادی کے موقع پر ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ کراچی کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک کراچی کی انتظامیہ کراچی کے عوام کے ہاتھ میں نہیں آتی اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں کیے جاتے بقول ان کے 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات ضرور منتقل کیے گئے ہیں مگر وہ وزیر اعلیٰ کی ذات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں اس اہم مسئلے کا ضرور حل نکالا جانا چاہیے۔
پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ وہ کراچی صوبے کے شوشے سے نکل کر عوامی مسائل کی جانب توجہ دے ورنہ آیندہ انتخابات میں اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ایم کیو ایم بھی اپنے میئر کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اپنی اہمیت بھی کھو سکتی ہے۔
وہ گورنر راج کو سندھ پر وفاق کے قبضے سے تعبیر کرتی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب سندھ کے ٹکڑے نہیں ہو سکتے تو پھر کراچی کو کیوں سات ٹکڑوں میں بانٹا گیا ہے تو اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس تقسیم کے ذریعے کراچی جیسے تین کروڑ کی آبادی والے شہر کے گمبھیر انتظامی معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے پتا چلا کہ انتظامی بنیاد پر علاقوں کی تقسیم کا عمل وجود میں لایا جاسکتا ہے۔
جہاں تک کراچی کی سندھ سے علیحدگی کی بات ہے یا گورنر راج کے نفاذ کا معاملہ ہے یہ شوشوں کی حد تک تو ضرور موجود ہیں لیکن ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایم کیو ایم ایک زمانے سے کراچی صوبے کی بات کرتی آرہی ہے مگر وہ نہ ماضی میں اس میں سنجیدہ تھی اور نہ آج سنجیدہ نظر آتی ہے۔ وفاق کی جانب سے گاہے بگاہے سندھ میں گورنر راج اور نئے صوبے کی بات ضرور کی جاتی ہے مگر وہ بھی محض شوشے کی حد تک ہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی سندھ میں بہتر کارکردگی ہوتی تو کسی کو اس کے سامنے اس کے ناپسندیدہ ایشوز کو اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے درست ہی کہا ہے کہ وہ سیاسی پارٹیاں جو کراچی صوبے یا گورنر راج کی بات کر رہی ہیں وہ ان نام نہاد ایشوز کے ذریعے اپنی سیاست چمکا رہی ہیں ساتھ ہی پیپلز پارٹی ان ایشوز پر شدید ردعمل ظاہر کرکے اپنا ووٹ بینک مضبوط کر رہی ہے۔
ان کے مطابق مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ان تمام سیاسی پارٹیوں کے پاس کوئی عوامی بھلائی کا ایجنڈا نہیں ہے گوکہ وہ تمام ہی اس شہر کے اسٹیک ہولڈرز ہیں مگر یہاں کے عوامی مسائل کو حل کرنے میں قطعی ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔
کراچی سے کشمور تک سندھ کے تمام ہی شہروں کی حالت زار قابل غور ہے۔ کراچی جیسے ملک کے معاشی انجن کے عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے صرف عوام ہی ناراض نہیں ہیں اس مسئلے نے سپریم کورٹ کو بھی ناراض کردیا ہے۔
گزشتہ دنوں میئر کراچی اور وزیر اعلیٰ سندھ کی سپریم کورٹ میں جو سبکی ہوئی ہے اس سے انھیں ضرور کچھ سبق لینا چاہیے اور خود کو عوامی مسائل کے حل کے لیے وقف کردینا چاہیے بہانے بازی کا اب وقت نہیں رہا ہے اب میئر کراچی کی میئر شپ کی مدت ختم ہو رہی ہے انھیں اور ان کی پارٹی کو کیا کراچی کے عوام اب دوبارہ یہ موقع فراہم کرسکتے ہیں۔
ایسا نظر نہیں آتا اس لیے کہ ان کی میئر شپ کے پورے دور میں کراچی کے عوام اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں سخت پریشان رہے ہیں مگر وہ اپنے اختیارات میں کمی کا رونا رو کر اپنے فرائض سے راہ فرار اختیار کرتے رہے ہیں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے وہ بھی مسائل کے حل کے سلسلے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اصل مسئلہ کراچی کے بلدیاتی نظام میں پیپلزپارٹی کی مداخلت کا ہے۔ اس نے میئر کراچی کو تمام بلدیاتی ادارے اس کے حوالے کرنے کے بجائے کچھ اہم اور کچھ لوگوں کے مطابق بھاری آمدن والے شعبے اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔
اس طرح میئر کراچی کو یہ جواز عطا کردیا ہے کہ وہ اپنے اختیارات میں کمی کا رونا یا واویلا کرکے اپنی پھوہڑ کارکردگی پر پردہ ڈال سکے۔ بلدیاتی نظام کی اس تیتر بٹیر تقسیم سے عوام کے بنیادی مسائل کے حل میں مسلسل رخنہ پڑ رہا ہے۔ اس وقت کراچی کے اصل مسائل فراہمی و نکاسی آب اور کچرے کی صفائی ہیں لیکن اور بھی مسائل ہیں حالیہ بارش نے شہر میں جو تباہی مچائی اور سڑکیں تالاب کا منظر پیش کر رہی تھیں اس مسئلے کا بھی مستقل حل نکالنا ضروری ہے۔
کراچی کے نالوں کی صفائی کرنے میں تاخیر کی وجہ سے بارش نے زیادہ تباہی مچائی،اگر وفاقی حکومت کی ہدایت پر این ڈی ایم اے نے نالوں کی صفائی نہ کی ہوتی تو یہ سندھ حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔ میئر کراچی نے پہلے ہی اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا تھا۔ پی ٹی آئی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کافی ارکان کراچی میں موجود ہیں وہ سندھ حکومت پر آئے دن چڑھائی کرتے رہتے ہیں مگر وفاقی حکومت سے یہ نہیں پوچھتے کہ کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے اس نے دو سال قبل جو 162 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟
سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کے شہری مسائل کے حل کے سلسلے میں سندھ حکومت اور میئر کراچی کی سرزنش کا وفاقی حکومت نے سخت نوٹس لیا ہے۔ اس نے کراچی کے مسائل کا آئینی و قانونی بنیاد پر حل نکالنے کے لیے یہ ٹاسک وزارت قانون کے سپرد کردیا ہے اور خبروں کے مطابق وزارت قانون نے کام کا آغاز بھی کردیا ہے مگر بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہے جو سراسر غیر آئینی اور غیر جمہوری روایت کو جنم دینے کے مترادف ہوگا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اٹارنی جنرل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کراچی ایک یتیم شہر بنا ہوا ہے ان کے مطابق کراچی اگر تباہ ہوا تو پھر پاکستان کو بھی تباہی سے بچانا مشکل ہوگا، اس لیے کہ کراچی پر ہی ملک کی معیشت کا دار و مدار ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کراچی کو پاکستان کے تمام شہروں پر فوقیت حاصل ہے مگر جان بوجھ کر کراچی کے مسائل سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ واضح ہو کہ مایوسیوں کا شکار ہو کر ہی یہ شہر ماضی میں شورشوں کا شکار رہ چکا ہے۔
جشن آزادی کے موقع پر ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ کراچی کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک کراچی کی انتظامیہ کراچی کے عوام کے ہاتھ میں نہیں آتی اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں کیے جاتے بقول ان کے 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات ضرور منتقل کیے گئے ہیں مگر وہ وزیر اعلیٰ کی ذات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں اس اہم مسئلے کا ضرور حل نکالا جانا چاہیے۔
پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ وہ کراچی صوبے کے شوشے سے نکل کر عوامی مسائل کی جانب توجہ دے ورنہ آیندہ انتخابات میں اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ایم کیو ایم بھی اپنے میئر کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اپنی اہمیت بھی کھو سکتی ہے۔