عمران خان کا ساتھ دیکر کراچی کیلیے کچھ حاصل نہیں کرسکے میئر کراچی

بطور میئر زندگی کا مشکل ترین وقت گزارا، ملک سے باہر نہیں جاؤں گا، وسیم اختر

اپنے لیے چیف جسٹس کے ریمارکس سنے تو پیروں تلے زمین نکل گئی، وسیم اختر (فوٹو: فائل)

'میں گھر میں زیر حراست تھا، تب ایک خط لکھ کر کھڑکی سے باہر پھینکا، باہر موجود ایک لڑکے نے اسے 'سپریم کورٹ' کورئیر کیا، جس پر جسٹس ناصر اسلم زاہد نے 'ایم کیو ایم' کے راہ نما اور آج کے رکن قومی اسمبلی اسامہ قادری کی والدہ فیروزہ بیگم کی پیپلزپارٹی میں جبری شمولیت کا نوٹس لیا اور مقدمہ شروع ہوا'

15 اگست 2020ءکی ایک گرم دوپہر میں ہونے والی یہ گفتگو ڈیفنس کراچی کی پرشکوہ 'رہائش' کے مکین شہر قائد کے میئر وسیم اختر سے ہے ہم سوالات کا پلندہ لیے بیٹھے ہیں اور ایک وسیع 'مہمان خانے' میں ہمارا مکالمہ جاری ہے تلخ وترش سوالات کے باوجود جارحانہ مزاج کا تاثر رکھنے والے وسیم اختر ایک بار بھی برہم نہ ہوئے دوران ملاقات کبھی وہ ہمارے لیے چائے لینے اٹھتے، تو کبھی کوئی ضروری کاغذات اٹھا لاتے اور کبھی کوئی اور کام لیکن ان وقفوں کے ساتھ ہمارا ٹوٹ ٹوٹ جانے والا سلسلہ دوبارہ سے جڑ جاتا۔

چلیے پہلے ان کی مندرجہ بالا ادھوری گفتگو کو ہی سمیٹتے ہیں۔ وسیم اختر دراصل 1994-95ءکے زمانے میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کر رہے ہیں، جس کا ماجرا اُن کی اسیری کے ذیل میں نکل آیا تھا۔ وسیم اختر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے انہی کے خط پر یہ نوٹس لیا تھا اور یہ پاکستان کی تاریخ میں انسانی حقوق کا پہلا 'سوموٹو' ہے، جو سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس ناصر اسلم زاہد نے لیا۔

وسیم اختر کہتے ہیں کہ اُن دنوں میری والدہ کی طبیعت بہت خراب تھی اور میں 'ہاﺅس اریسٹ' تھا۔ عبداللہ شاہ وزیر اعلیٰ سندھ تھے، تب گن پوائنٹ پر 'ایم کیو ایم' کی رکن سندھ اسمبلی فیروزہ بیگم کو پیپلز پارٹی میں شامل کراکے انہیں صوبائی وزیر بنایا گیا گورنر سندھ بیرسٹر کمال اظفر نے حلف لیا۔ میں نے یہ ساری کہانی ایک کاغذ پر لکھ کر بھیج دی، جس پر انہوں نے نوٹس لیا اور مجھے سپریم کورٹ بلایا یہ بڑی کہانی ہے۔'

وقت کم تھا، اس لیے ہم نے بھی اتنی معلومات پر ہی اکتفا کیا اور اگلے سوالات کی طرف بڑھ گئے۔ ہم نے وسیم اختر سے حیرت کا اظہار کیا کہ ہم نے کمال اظفر کا انٹرویو لیا، وہ تو آپ لوگوں کے لیے بہت نرم گوشہ رکھتے ہیں، جس پر وہ بولے 'انہیں یہ سب پتا تھا، سبھی ایک جیسے ہیں یہ پولیس کے چوہدری اسلم اور 'ایس ایس پی' دین محمد بلوچ کے کارنامے تھے، انہیں عدالت بھی سزا نہیں دے سکی، میں چیختا رہا۔'

میئر کراچی وسیم اختر کہتے ہیں کہ تین سالہ کٹھن اسیری کے باوجود بطور بطور میئر گزارے جانے والے چار سال زندگی کے مشکل ترین دن تھے!

ہم گفتگو کچھ ماضی کی طرف لے گئے وہ بتاتے ہیں کہ 1986ءمیں سعودی عرب میں 12 برس گزار کر وطن لوٹے، وہاں 'امریکن ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف' میں سینئر کنسلٹنٹ تھے۔ تب یہاں 'ایم کیو ایم' حقوق کی باتیں کر رہی تھیِ، جسے خود بھی جھیل چکا تھا، اس لیے اس کی حمایت شروع کردی، 'پی ای سی ایچ ایس' بلاک نمبر دو (طارق روڈ) میں رہتے تھے۔ 1987ءکے زمانے میں 'ایم کیو ایم' یونٹ 65، سوسائٹی سیکٹر کا حصہ بنے اور پھر جلسے جلوسوں میں شامل ہونے لگے، ٹیلی کمیونیکیشن انجینئر تھے، اس لیے برقی آلات درآمد کر کے 'اسمبل' بھی کرنے لگے۔

خاندانی پس منظر کے حوالے سے وسیم اختر نے بتایا کہ دادا، والد اور چچا وغیرہ نے ہندوستان کے ضلع روہتک سے کراچی ہجرت کی، والد اختر محمد خان ہندوستان میں پولیس افسر تھے، یہاں بھی 'ہیڈ آفس' میں ذمہ داریاں ادا کیں، چچا انور محمد خان بھی پولیس میں تھے، جن کے بیٹے افضال انور رکن اسمبلی بھی رہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ انہیں 'ایم کیو ایم' میں لانے والے رضا ہارون تھے، دوسرا انکشاف یہ کیا کہ رضا ہارون اب 'پی ایس پی' کا حصہ نہیں، بلکہ انہیں اپنے اس سیاسی فیصلے پر پچھتاوا ہے! رضا ہارون وغیرہ کے 'ایم کیو ایم' سے دور ہونے کو وہ 'کارکنوں سے 'لیڈر' کی زیادتیاں قرار دیتے ہیں!

ہم نے گفتگو میں پہلی بار لفظ 'لیڈر' کا برتاﺅ دیکھا، تو وسیم اختر سے پوچھا 'الطاف حسین کی؟' وہ کہتے ہیں کہ "ظاہر ہے جس طرح کے فیصلے الطاف حسین لیتے تھے، 80 فی صد فیصلوں کے تو ہم مخالف ہوتے تھے۔" ہم نے ایسے فیصلوں کے بارے میں جاننا چاہا، تو وہ بولے کہ جیسے 'سینٹ کا چیئرمین 'ایم کیو ایم' کا بن سکتا تھا، لیکن رحمن ملک نے جا کر فیصلہ بدلوا دیا، یہ غلط فیصلہ تھا۔'

وسیم اختر کے بقول 1993ءتک ان کی 'ایم کیو ایم' وابستگی صرف کارکن کے طور پر تھی، پھر وہ اپنے علاقے سے صوبائی اسمبلی کے رکن بنے، جس کے کچھ ماہ بعد پیپلز پارٹی نے اُن پر 64 مقدمے بنا دیے، اور وہ جیل چلے گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'یہ تمام مقدمات عدالتوں سے ختم ہوئے، ہمارے گھروں میں تو تھانے کچہری کبھی نہیں رہا، کسی نہ سوچا بھی نہ تھا کہ وہ مجھ سے ملنے عدالت اور جیل جائیں گے۔ میرے والد معمر تھے، ان کا انتقال سولہ سال قبل 97 سال کی عمر میں ہوا، وہی اس دوران گھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سامنا کرتے تھے جیل گیا، تو میرا سارا کاروبار تباہ ہوگیا۔ 1994ءسے 1997ءتک تین مختلف جیلوں میں رہا۔ لانڈھی، کراچی سینٹرل جیل اور اڈیالہ جیل وفاداری تبدیل کرانے کے لیے 'تھرڈ ڈگری' ٹارچر ہوتا تھا۔ 'اڈیالہ' اسی لےی لے کر گئے، کہتے کہ پیپلز پارٹی میں آجاﺅ، پیسے لے لو، وزارت دے دیں گے۔ بچوں کو یہاں بلا لو، وہاں 'ایم کیو ایم' والے مار دیں گے، ہم تمہیں اسلام آباد میں رکھیں گے جب اسمبلی کا اجلاس ہوگا تو لے جائیں گے۔'

ہم نے 'ایم کیو ایم' سے وفاداری بدلنے پر مارنے کا ذکر سوال بنا کر وسیم اختر کی طرف بھیجا تو انہوں نے وضاحت کی کہ 'یہ تو وہ لوگ مجھے ڈرا رہے تھے۔'

'تشدد کون کرتا تھا؟' ہمارے استفسار پر وہ بولے کہ 'میری آنکھوں پر پٹی ہوتی تھی، اس لیے پتا نہیں چلتا تھا اسی مار پیٹ سے میرا بائیاں ہاتھ اور بائیاں پیر بالکل مفلوج ہوگیا تھا، پھرمجھے 'پمز' اسپتال اسلام آباد میں پھینک گئے، جہاں میں نے بتایا کہ میں رکن سندھ اسمبلی ہوں، میرا علاج ہوا، چھے ماہ کالر لگا، فزیو تھراپی اور ورزش وغیرہ سے ٹھیک ہوا، پھر کراچی آگیا، بے نظیر کی حکومت گئی یہ خدا کا شکرتھا!'

وہ پیپلز پارٹی کو ملک کی سب سے زیادہ 'وکٹمائزیشن' والی جماعت قرار دیتے ہیں۔

سیاسی سفر کا احاطہ کرتی ہوئی گفتگو اب 1997ءمیں داخل ہو چکی تھی، وہ بتاتے ہیں کہ دوبارہ اسی حلقے سے 'رکن سندھ اسمبلی' منتخب ہوا، ان کے مطابق: 'غالباً حلقہ نمبر 119 تھا مجھے 'ہاﺅسنگ اینڈ ٹاﺅن پلاننگ' کا وزیر بنا دیا، وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی تھے پھر پرویز مشرف کے دور میں علی محمد مہر کے دور میں 'لوکل گورنمنٹ' کا مشیر بن گیا۔'

وہ گفتگو میں بہت تیزی سے پھلانگ رہے تھے، جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کے بطور 'مشیرِ داخلہ' موجودگی میں 12مئی 2007ءکا الم ناک سیاسی تصادم پیش آیا۔ ہم نے انہیں اس سے سرسری نہیں گزرنے دیا اور اس حوالے سے گفتگو اسی انٹریو کے ایک علاحدہ چوکھٹے میں جمع کر دی۔

1998ءسے 2002ءکی مصروفیات پوچھیں، تو وہ بولے کہ سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنے اجڑ جانے والے کاروبار کو جمانے کی کوشش کی پھر پانچ برس قومی اسمبلی کا رکن رہا۔

کیا آپ کو الطاف حسین نے 'خلائی مخلوق' کے لیے ناپسندیدہ ہونے کی وجہ سے 'میئر' کراچی نام زد کیا؟' ہماری بات چیت کا موضوع 'زمانہ حال' کی طرف چلاآیا۔ وہ بولے 'یہ تو وہ جانیں، یہ پارٹی کا فیصلہ تھا مجھے کوئی خواہش نہیں تھی۔'

'آپ کے پاس معذرت کرنے کا اختیار نہیں ہوتا تھا؟' ہم نے ذرا پراسرار انداز میں کریدا۔ وہ اثبات میں جواب دیتے ہوئے بولے کہ 'ہوتا ہے، لیکن میں نے کہا ٹھیک ہے۔ فیصلہ تو جمع تفریق کرکے 'رابطہ کمیٹی' کرتی ہے، لیکن اسے 'لیڈر' ہی سنایا کرتے تھے۔

'میں نے جیل سے انتخاب لڑا اور 'میئر' بنا، میں شاید دنیا کا واحد ایسا میئر ہوں گا، جو جیل سے بنا اور حلف اٹھا کر دوبارہ جیل گیا' وسیم اختر اپنی حالیہ اسیری کو موضوع کرنے لگے، تو ہم نے اپنے رقعے سے اسی حوالے سے ایک سوال نکالا اور پوچھا کہ 22 اگست 2016ءکے واقعے کے وقت آپ جیل میں تھے، آپ کو کیا خبر ملی اور آپ نے کیا سوچا تھا؟'

وہ اپنی اس وقت کی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دھچکا لگا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں 'لیڈر'! مہاجر قوم پاکستان کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم جیل میں 'کنفویژن' کا شکار تھے، ہمیں اصل صورت حال بھی نہیں پتا تھی، جب حقائق سامنے آئے، تو پھر یہ قبول کیا کہ ہم ان کے ساتھ نہیں چل سکتے۔'

'آپ لوگوں نے 1992ءسے "مائنس ون کی سازش" کے خلاف "ناں ناں" کرتے کرتے آخر خود ہی 'مائنس ون' کرلیا؟' ہمارے سوالیہ انداز پر وہ بولے کہ ان کی 'فالوونگ' بہت اچھی تھی' ہم نے وہیں ٹوکا کہ "تھی؟ یعنی ہے نہیں؟"

وہ بولے کہ 'نہیں، اب میں نہیں سمجھتا انہوں نے لندن سے بیٹھ کر انتخابی بائیکاٹ کیا، لیکن لوگوں نے یہاں ووٹ ڈالے۔ ابھی 14 اگست کو 'یوم سیاہ' کا بولا وہ بھی کسی نے نہیں مانا۔'

'ایم کیو ایم' میں یہ تو ناممکنات میں سے تھا ناں کہ یہ کہ کہہ دیں ہم الطاف حسین کے ساتھ نہیں؟' ہم نے اُن کی ماضی کی سخت گیری کا تذکرہ کیا، تو وہ بولے کہ 'ایم کیو ایم' کی الطاف حسین سے علاحدگی پر ہماری پاکستان سے محبت سامنے آرہی ہے کہ ہم نے ملک کے خلاف بات کرنے پر اپنا لیڈر تک چھوڑا، ایسے کوئی دوسرا کر کے دکھا دے!'

وہ کہتے ہیں کہ مئی 2013ءمیں مرکز 'نائن زیرو' پر کارکنوں کی جانب سے مختلف راہ نماﺅں سے مارپیٹ کے بعد 'ایم کیو ایم' کے اندر ہی اُن کے خلاف باتیں ہونے لگی تھیں۔

'کہا جاتا ہے کہ اس وقت اُن کے کارکنوں کے قتل، مسلسل پکڑ دھکڑ، دفاتر پر چھاپے اور پھر ان کے بیانات شایع اور نشر ہونے پر پابندیوں وغیرہ نے 'بانی متحدہ' کو اتنا مشتعل کر دیا کہ جس کے نتیجے میں انہوں نے 22 اگست 2016ءکو تمام حدیں پار کرلیں، لیکن ان کی جماعت نے یہ سب نظراندز کر دیا؟' ہم نے شہر کے منظر نامے کا ایک بیانیہ ان کے سامنے دُہرا دیا۔

وہ بولے کہ 'ہم انہیں سمجھایا کرتے تھے کہ آپ اپنی صحت کے لیے کچھ عرصے کے لیے الگ ہوجائیں اور کوئی کمیٹی بنا دیں اور پھر پانچ، چھے ماہ بعد صحت ٹھیک کر کے آئیں وہ یہ سب مانتے تھے کہ اچھا، کرتاہوں، لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تھے'۔

ہم نے 'لندن' میں 'بانی متحدہ' کے ساتھ موجود لوگوں کا ذکر کیا تو وہ بولے 'وہاں ان کے اردگرد چند ہی لوگ مخلص ہوں گے۔ اکثر کی تو نوکریاں لگی ہوئی تھیں وہاں ان کے غلط فیصلوں پر انہوں نے کبھی سمجھایا انہیں؟ وہ تو ہاں میں ہاں ملا کر انہیں اور بھڑکاتے تھے۔'

ہم نے 'لندن' سے امریکا چلے جانے والے سابق کنوینر متحدہ ندیم نصرت اور واسع جلیل کا ذکر کیا اور اس کے بعد اراکین رابطہ کمیٹی محمد انور اور طارق میر وغیرہ کے لندن سے دبئی جا بیٹھنے کے بعد باقی ماندہ 'لندن والوں' کے حوالے سے ان کی رائے لینا چاہی تو وہ بولے کہ 'اب میں نہیں سمجھتا کہ انہیں سنجیدہ لینا چاہیے، اب تو بس 'جائیداد' کا معاملہ رہ گیا، جیسے لوگ چاہتے ہیں کہ عمران فاروق کی فیملی کو گھر مل جانا چاہیے۔'

'کون منع کر رہا ہے؟' ہمارے بے سختہ اس سوال پر وہ بولے کہ 'وہ الطاف حسین ہی منع کر رہے ہیں!' ہم نے پوچھا کیوں؟ تو وہ بولے کہ یہ تو اُن سے پوچھنا چاہیے!

'ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ اتنی حکومتوں میں رہنے کے باوجود بھی 'بانی متحدہ' نے کچھ نہیں بنایا، یہاں تک کہ اپنا گھرانہ بھی نہ بن سکا اور پھر آخر میں ان کی جماعت نے بھی انہیں چھوڑ دیا؟' ہم نے شہر قائد کے کچھ حلقوں میں زیرگردش ایک اور فقرہ سوال بنایا تو وہ بولے کہ 'انہیں چھوڑنے کا تو سارا معاملہ آپ کے سامنے ہے اس سے زیادہ بڑی وجوہات اور کچھ ہو نہیں سکتیں! اب ان کے پاس کتنی دولت ہے ہمیں نہیں پتا! ان کا لندن میں اپنا گھر ہے اور سیکریٹریٹ ہے۔'

'سیکریٹریٹ تو پارٹی کا ہے؟' ہم نے تصدیق چاہی، تو وہ بولے 'ہے تو انہی کے نام! اب ہمارے لیے یہ معاملہ 'تاریخ' کا حصہ ہوگیا، اب تو اس طرف دھیان بھی نہیں دیتے۔ کبھی اخبار میں 'جائیداد' کا ذکر اجاتا ہے، تو بس یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے بیوی بچوں کو گھر مل جائے۔' وہ کچھ ٹھیرے پھر بولے:
'ہم پارٹی میں آئے تھے، حقوق کے لیے'

'تھے؟ یعنی کہ؟' ہم نے ان کے 'تھے' میں خبری پراسرایت پائی، تو درمیان میں ہی بول اٹھے، وہ بولے کہ 'اُنہیں' اتنی مقبولیت ملی تھی، کہ ان کی ایک کال پر دو گھنٹے کے اندر 'لال قلعہ' گراﺅنڈ بھر جاتا تھا لوگوں نے بہت ساتھ دیا ہے 1993ءمیں جب قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، تو لائنزایریا سے بھی چند سو ووٹ پڑے ایسے لیڈر کو پھر سوچنا چاہیے میرا خیال ہے کہ انہیں پرویز مشرف کے دور میں واپس آجانا چاہیے تھا'

'اس زمانے میں جب وہ ٹیلی فونک خطاب میں آنے کا کہتے تھے تو آپ ہی لوگ بیٹھے ہوئے 'نہیں، نہیں' کر رہے ہوتے تھے؟' ہم نے ذہن میں آنے والا خیال فوراً اُن کے روبرو کر دیا، جس پر وہ بولے کہ 'ہاں، ہمیں یہ ڈر بھی ہوتا تھا کہ اگر یہاں کوئی بم، وَم پھٹ گیا اور انہیں کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا، لیکن میں سمجھتا ہوں جس کے اتنے چاہنے والے ہوں، تو پھر وہ ان سب چیزوں سے بے پروا ہو کر کوئی فیصلہ لیتا ہے۔'

وسیم اختر 70 فی صد ذمہ داری الطاف حسین پر عائد کرتے ہیں، جب کہ باقی 30 فی صد کادوش یہاں موجود لوگوں کو دیتے ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ وفاق میں آصف زرداری آئیں، نواز شریف آئیں یا عمران خان آئیں، کراچی کو کوئی فرق نہیں پڑا؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ ہم نے پوچھا اب تک وزیراعظم عمران خان کا ساتھ دے کر اب تک کراچی کے لیے کیا لے سکے؟ تو وہ بولے کہ کچھ بھی نہیں!' وسیم اختر کے اس جواب کے بعد وفاقی حکومت کے ایم کیو ایم سے وعدوں کے حوالے سے ہمارے مزید کسی سوال کی ضرورت باقی نہ تھی!

ہم نے کراچی میں 'سول ایوی ایشن اتھارٹی' (سی اے اے) کی مختلف 'تجاوزات' کا ذکر کیا اور پوچھا کہ آپ نے کراچی کی چھوٹی دکانیں تو توڑ ڈالیں، کیا 'سی اے اے' کی تجاوزات کو ہٹایا؟ وہ بولے کہ 'نہیں، ابھی اس کی باری آرہی ہے میرے پاس 'ایکوپمنٹس' نہیں ہیں اتنے جتنا کراسکتا تھا کرایا۔ میرے ووٹر ناراض ہوئے، 'بلدیہ عظمی' کا ریوینیو بھی آدھا رہ گیا۔

ہم نے کہا 'تجاوزات' صاف کرنے کا کام 'بڑے' سے شروع کرتے تاکہ پتا چلتا کہ یہ کارروائی سب کے لیے برابر ہے؟ وہ بولے کہ بڑے بھی کیے باغ ابن قاسم اور 'نہر خیام' پر عمارتیں مسمار کیں، یہ سب سپریم کورٹ کے حکم پر ہوا۔

اگلا میئر بھی 'اپنا' دیکھنے والے وسیم اختر سے جب ہم نے پوچھا کہ آپ میئر کے امیدوار کیوں نہیں؟ اس کے لیے فیصل سبزواری کا نام سنا جا رہا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ 'پارٹی جو فیصلہ کرے گی، وہی میئر ہوگا!'

آپ کو لگتا ہے کہ اس ساری صورت حال میں اور الطاف حسین کے بغیر جیت پائیں گے؟' گفتگو میں پھر 'بانی متحدہ' کا ذکر در آیا۔ جس پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمارا ووٹ بینک ہمارے پاس ہے۔ ہم ضمنی بلدیاتی انتخابات بھی جیتے ہیں۔ ہم نے عام انتخابات میں شکست کا ذکر چھیڑا تو ہنستے ہوئے ٹال گئےکہ عام انتخابات کا آپ کو ابھی تک نہیں پتا تو بہت معصومانہ سوال کیا ہے آپ نے؟ ہمارے ووٹر پر کوئی فرق نہیں پڑا، بلکہ وہ اور بہتر ہوگیا ہے۔'

'الطاف حسین کے لیے کیا کہنا چاہیں گے؟' ہم نے گویا وسیم اختر کے ہلکی سی چٹکی لی۔ وہ بولے 'کچھ نہیں۔'

وہ آپ کے قائد تھے، آج بھی انہی کے نام زَد کردہ میئر ہیں آپ؟ ہم نے گویا انہیں یاد دلانے کی کوشش کی، جس پر وہ بولے کہ 'پارٹی بنانے والے وہی تھے، انہوں نے ہی شناخت دلوائی، لیکن اُس مسئلے کے بعد اب میں اس تفصیل میں جانا بھی نہیں چاہتا۔ میں نے بھی بہت صعوبتیں برداشت کیں۔ وہ الگ بات ہے کہ پارٹی نے عزت بھی دلوائی ہے، رکن صوبائی و قومی اسمبلی، وزیر اور میئر بنایا۔

'عزت پارٹی نے دلوائی یا یا الطاف حسین نے؟' ہم نے لفظی گدگدی کی۔

'اُن کو کہہ لیں، بالکل!' انہوں نے منطقی انداز میں جواب دیا۔

'اگر مئیر نہیں ہوئے تو آگے کے ارادے کیا ہیں؟' یہ ہمارے سوال نامے کا خاصا اہم موڑ تھا، وہ بولے کہ 'ظاہر ہے، پارٹی کے ساتھ تو منسلک ہوں۔'

'ملک میں رہیں گے؟' اس سوال کا جواب اثبات میں دیا تو ہم نے کہا 'آف دی ریکارڈ' کہنا چاہیں، تو کہہ لیں، لیکن وہ اپنے جواب پر قائم رہے۔ ہم نے کہا آپ کے ملک سے باہر جانے کے بہت چرچے ہے، تو وہ بولے کہنے کو تو پتا نہیں لوگ کیا کیا کہتے ہیں۔

'سیاسی طور پر فعال اور ملک میں رہیں گے؟' ہماری گفتگو میں مستقبل عنوان ہو چکا تھا۔

"بالکل، میرا ملک ہے میں یہیں رہوں گا۔ میں پاکستانی ہوں، میرا پورا خاندان اور میرے والدین کی قبریں ہیں۔ میں یہیں ہوں اور ایم کیو ایم کے ساتھ ہی ہوں۔" انہوں نے دوٹوک انداز میں گویا فیصلہ سنا دیا۔


'پہلے آپ اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں پر بات کرتے تھے، اب آپس میں اتنے گروہ بن گئے 'مائنس ون' اور 'مائنس ٹو' ہوگیا، اور اب سب چیزیں چھوڑ کر ایک دوسرے پر ہی الزام لگا رہے ہیں؟' ہم نے چند برسوں کی صورت حال سمیٹ کر سوال بنایا، وہ بولے کہ دیکھیں اختلافات ہوتے ہیں، پہلے 'لیڈر شپ' تھی، وہ کنٹرول کرتی تھی، اب ہمیں خود کرنا پڑ رہا ہے، ہمارے پاس اتنا تجربہ نہیں ہے، غلطیاں ہوں گی، ہم لیڈر نہیں ہیں، لیکن ہمیں جس طرح ٹوٹ پھوٹ کی شکار پارٹی ملی، اب اللہ کا شکر ہے منظم ہے۔

22 اگست 2016ءکے بعد آپ کے کتنے فی صد لوگ ساتھ ہیں؟' اس سوال پر وہ بولے کہ سب ساتھ ہیں، غیر فعال ہونے والے کسی مصلحت کی وجہ سے پیچھے ہیں، وہ خلاف نہیں ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار بغیر بتائے ہمارے آئین میں تبدیلیاں لائیں گے، تو کون ساتھ دے گا؟ ہم نے انہیں ایسا کرنے سے روکا، مگر وہ نہیں مانے۔ وہ ٹی وی پر بیٹھ کر ہم پر کرپشن کے الزام لگاتے ہیں کہ حساب دو، میں ان کو حساب کیوں دوں، 'کے ایم سی' آڈٹ ڈیپارٹمنٹ لے گا حساب۔ اینٹی کرپشن اور 'نیب' ہے آپ نے مجھے کہیں پیسے دیے ہوں، تو حساب دیں۔ اُن کے نائب مئیر ارشد وہرہ کے 'پی ایس پی' میں جانے کا ذکر ہوا تو بولے کہ وہ جس طرح براہ راست آئے ان کی تربیت ہی اس طرح نہیں ہوئی تھی۔،

10 اگست 2020ءکو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس کا ذکر ہوا، جس میں انہوں نے کہا تھا "میئر کراچی جان چھوڑو،کب تک مسلط رہو گے" وہ بولے کہ جب یہ سنا تو ششد رہا گیا، میرے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ یہ معزز چیف جسٹس صاحب شہر قائد کے حوالے سے کس قدر ایکشن لیتے رہے ہیں اورآج یہ ایسے کہہ رہے ہیں۔'

ہم نے کہا اس وقت آپ کہہ سکتے تھے کہ اختیارات کے حوالے سے میری چار برسوں سے زیر التوا درخواست بھی دیکھ لیجیے کہ اب تک کیوں نہیں لگائی جا رہی؟ وہ بولے کہ میں معزز چیف جسٹس کی بات سن کر اپنے آپ میں نہیں رہا، مجھے ووٹ تو کراچی کے شہریوں نے دیے ہیں۔

ہم نے کہا اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ 'ایم کیو ایم' نے 30 سال میں کیا دیا؟ تو وسیم اختر بولے کہ مانیں نہ مانیں 'مہاجر' شناخت تو مل گئی ہے۔ ہم نے کہا یہ کہا جاتا ہے کہ مہاجروں کو قلم کی جگہ ہتھیار دے دیا، تو بولے کہ وہ خامیاں تو ہیں۔

٭٭٭
چوکھٹے
٭عمران فاروق قتل کیس میں 'الجھن' ہے!

ایم کیو ایم کے مقتول کنوینر ڈاکٹر عمران فاروق کا ذکر ہوا تو ہم نے وسیم اختر سے پوچھ لیا کہ آپ کے خیال میں ان کے قتل میں کون ملوث ہے آخر؟ تو وہ بولے کہ 'ساری تفتیش دیکھیں، تو بہت الجھن ہے، بہت عجیب سا 'معما' کہہ لیں کہ یہاں سے لوگ وہاں گئے۔ کیسے چلے گئے؟ آسان نہیں ہے جانا وہاں گئے، پھر وہاں پورا منصوبہ بنایا وہاں سب جگہ کیمرے لگے ہوئے ہیں، جہاں یہ واقعہ ہوا وہاں کوئی کیمرے کی فوٹیج نہیں۔ میں اپنی ذاتی رائے بتا رہا ہوں کہ یہ سب کچھ میرے سمجھ میں بھی آیا نہیں، وہاں بھی تفتیش ہو رہی ہے، اور یہاں تو جو تفتیش ہوئی وہ تو آپ کو پتا ہے کہ دو منٹ میں بکری کو ہاتھی قبولوا لو حقائق کیا ہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس میں ملزمان کو عمر قید بھی ہوگئی ہے، لیکن عمران فاروق کے ساتھ بہت غلط ہوا، وہ ہمارے بانیوں میں سے تھے، ان کے بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، بہت دکھ ہوتا ہے۔ ان کی شریک حیات شمائلہ بھی لائنزایریا سے ہماری کارکن تھیں۔'

 

٭12مئی2007ئ: "مجھ سے زیادہ مضبوط لوگ فیصلے لے رہے تھے"

12مئی 2007ءکے خوں ریز تصادم کے وقت وسیم اختر مشیر داخلہ سندھ تھے، ہم نے یہ ماجرا بھی کریدا۔ وہ کہتے ہیں کہ 12 مئی تو کچھ لوگوں کا ایڈونچرازم ہے۔ بہت غلط فیصلہ لیا گیا تھا!'

'ایم کیو ایم کی طرف سے؟' ہم نے پوچھا، وہ بولے 'نہیں، 'ایم کیو ایم' تو کراچی کی ایک جماعت ہے، اس وقت ہمارے جو 'لیڈر' تھے، انہوں نے ریلی کا فیصلہ کیا، ہم نے مخالفت کی، لیکن ان کی ضد تھی کہ فیملی کے ساتھ ریلی نکالیں۔ ہمیں خدشہ تھا۔

'راستے بند کرنے کا فیصلہ کس کا تھا؟' ہمارا یہ سوال براہ راست تھا۔ وہ بولے 'یہ اس وقت کی حکومت کا فیصلہ تھا، یہ میرا فیصلہ کبھی نہیں رہا۔ گورنر ہاﺅس تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں ان لوگوں نے مجھے بتایا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جب ائیرپورٹ سے نو گھنٹے کی ریلی نکال کر ہائی کورٹ تک جائیں گے، تو راستے میں کوئی 'حادثہ' ہو سکتا ہے، مجھے لگتا تھا کہ اگر یہ ایک فی صد بھی صداقت ہے، تو احتیاط کر لینی چاہیے، ہم نے انہیں دو راستے دیے، یہ کہ ہیلی کاپٹر یا بلٹ پروف گاڑی میں کسی دوسرے راستے سے لے جائیں، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ہم تو ظاہر ہے اینٹیلی جنس کی رپورٹ پر چلتے تھے، مجھ سے زیادہ مضبوط لوگ وہاں فیصلے لے رہے تھے۔'

'اینٹیلی جینس' کون؟ ہم نے معلومات چاہی، وہ بولے 'آئی بی، آئی ایس آئی، ایم ائی اور پولیس کی اینٹیلی جنس۔ سب کی رپورٹ تھی کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے۔

'آپ کی ریلی تو تبت سینٹر پر تھے، تو 'ایم کیو ایم' کے لڑکے ہائی کورٹ کی طرف کیوں آئے؟' یہ سوال بھی ضروری تھا۔ وہ بولے کہ 'بھئی جب سارے جگہ ہنگامے شروع ہوگئے، تو سبھی شامل ہوگئے، اس میں 'ایم کیو ایم' بھی تھی، اور باقی سب جماعتیں اے این پی، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی وغیرہ بھی۔ 14 لڑکے تو 'ایم کیو ایم' کے بھی شہید ہوئے تھے۔ آپ ساری فوٹیجز دیکھ لیں، اس معاملے کو ایک پر ڈال دینا حل نہیں ہے۔'

'اس کا مقدمہ اب بھی چل رہا ہے؟' اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہائی کورٹ سے 'ڈسپوز آف' ہو چکا ہے۔ وہ اصل کیس تھا۔ آپ کی معلومات کے لیے بتادوں کہ آج یہ ساری 'ایف آئی آر' وہ ہیں، جو اس حادثے میں عام لوگوں نے اپنی املاک جلنے پر 'نامعلوم افراد' کے خلاف کٹوائی تھیں، لیکن ذرایع اِبلاغ پر غلط تاثر دیا جا رہا ہے۔'
'کیا اس میں قتل کی کوئی ایف آئی آر نہیں ہے؟'

وہ بولے 'نہیں، قتل کی کوئی نہیں ہے، نامعلوم افراد کے خلاف ہنگامہ آرائی کی تھیں، جس میں راﺅ انوار کی مہربانی سے ہمارا نام ڈالا گیا۔ مجھ پر چالیس کی چالیس ایف آئی آر میئر 'نام زد' ہونے کے بعد ڈالی گئیں راﺅ انوار مجھے جیل سے نکال کر تھانے لے گیا اور وہاں بیٹھ کر ایک دن میں ایف آئی آر کاٹیں جس میں 12 مئی کی سات اور باقی مختلف۔ جیسا کہ الطاف حیسن کی تقریر پر میں تالیاں بجا رہا تھا، کیا یہ کوئی دہشت گردی ہوگئی؟ اسی طرح وزیراعلیٰ ہاﺅس کے سامنے پانی کے احتجاج کرتے ہوئے پانی کا مٹکا توڑا، اس پر 'ایف آئی ار'۔ عدلیہ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ مجھ پر مئیر بننے سے پہلے ایک بھی ایف آئی آر نہیں تھی۔

٭ متنازع بیان: "میری زبان پھسل گئی تھی"

ماضی قریب میں مسلم لیگ (ن) کے راہ نما چوہدری نثار کے ایک سخت بیان کے ردعمل میں وسیم اختر کے پنجاب کے حوالے سے متنازع بیان 'پنجاب کے گھر گھر میں مجرے ہوتے ہیں۔' کا ذکر ہونا بھی لازم تھا۔ وہ بولے کہ یہ اُس وقت کی بات یہ تھی کہ اس وقت ہم الطاف حسین کے ساتھ تھے، کوئی بھی جب آپ کے لیڈر کے خلاف بات کرے، تو ہم کارکن تھے، کوئی بھی لیڈر کھڑا ہو کے ان کی اہلیہ کے متعلق بات کرے، تو پھر ہمارے بھی جذبات تھے، جس میں یہ جواب دیا۔ اسے آپ زبان کا پھسلنا کہہ لیں، یا یہ کہ الفاظ کا چناﺅ غلط ہو گیا۔ میرا اشارہ وہاں کچھ جگہوں پر پھیلی ایک برائی اور کچھ اراکین اسمبلی کی طرف تھا۔ ہم نے کہا کہ اس پریس کانفرنس میں کہا جاتا ہے کہ آپ کو کوئی کال موصول ہوئی تھی، جس کے بعد آپ نے آگے آکر یہ سب باتیں کیں، وہ کس کا فون آیا تھا؟ وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔

ہم نے ذکر کیا آپ کے اس بیان کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں پھیلتی ہوئی 'متحدہ قومی موومنٹ' دوبارہ محدود ہوگئی؟' وسیم اختر اس خیال سے بھی متفق نہیں، کہتے ہیں کہ ٹی وی میزبان حامد میر کا ایک پروگرام ہوا، جامعہ پنجاب کے اندر اسٹیج شوز اور ڈراموں پر پابندی کے حوالے سے، تو انہوں نے کہا کہ 'بند کرانا ہے، تو جو مختلف علاقوں میں مجرے ہو رہے ہیں وہ بند کرائیں' میں نے انہیں کال کی تو حامد میر بولے کہ مجھے یقین تھا کہ تم ضرور کال کرو گے۔ میں نے کہا میں صحیح کہہ رہا تھا ناں؟ میں بھی یہی کہہ رہا تھا، میری مراد عام گھروں سے نہیں تھی۔

٭جب وسیم اختر نے مصطفیٰ کمال کو صفائی کی ذمہ داری دی

'کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا' وسیم اختر سے انٹرویو کے دوران یہ بات ہمیں بہت یاد آئی، جب انہوں نے اُس قائد کے لیے 'لیڈر' کہہ کر ذکر کیا، تو بار بار وہی وسیم اختر یاد آجاتے جو الطاف حسین کی حمایت میں حد سے زیادہ جذباتی ہو جاتے اپنے قائد سے لاتعلقی کے بعد ہمیں 'ایم کیو ایم' پاکستان کی رکن قومی اسمبلی کشور زہرا، امین الحق اور علی رضا عابدی کے بھی انٹرویو کا موقع ملا، لیکن وہاں اپنے سابق قائد کے لیے ایسی بے باکی بالکل نہیں دیکھی تو جناب، وسیم اختر سے ذکر ہوا تھا اگست 2019ءمیں سابق ناظم شہر مصطفیٰ کمال کو 'پراجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج' کا نگراں بنانے کے ڈرامائی اعلامیے کا، جسے وسیم اختر نے فوراً ہی واپس لے لیا تھا، ہم نے پوچھا کیا آپ غلط شاٹ کھیل گئے تھے؟ وہ بولے میری مخلصانہ کوشش تھی، اگلا میچور نہیں تھا۔ ہم نے کہا 'انہیں تو آپ پہلے ہی جانتے تھے؟' ہمارے اس سوال پر وہ اعتراف کرتے ہیں کہ 'وہ مجھ سے غلطی ہوئی، میں نے سوچا شاید کچھ کر جائے۔'

'کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ آپ کو خطرہ تھا کہ 'پی ایس پی' نے کام کر دیا تو کیا ہوگا؟' ہم نے عام تاثر سامنے رکھا، تو وہ بولے کہ مجھے کوئی سیاسی خطرہ نہیں تھا، میں تو مسئلے کا حل چاہ رہا تھا۔

'تو پھر کرنے دیتے؟' ہم نے سوالیہ ٹکڑا لگایا، تو وہ بولے کہ وہ تو رات کو ہی مائیک لے کر بٹھ گئے میں ہوتا تو، میں متعلقہ محکمے کے ساتھ بیٹھتا، نہ کہ اس طرح مجمع اکٹھا کرتا۔'

ہم نے مئیر سے پوچھا کہ بطور ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کے کاموں سے 'ایم کیو ایم' کا ایک 'چہرہ' بنا اب وہ الگ ہوگئے، تو آپ انہی سارے کاموں کی مخالفت کرنے لگے، حالاں کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب تو ہماری مدد کے ساتھ ہوا؟' وہ بولے کہ 'میں تو یہی کہتا ہوں ٹیم ورک تھا۔'

آپ نے ان کی مخالفت میں ایک مرتبہ یہ بھی کہہ دیا کہ ان سے بہتر تو نعمت اللہ خان تھے؟

اس سوال پر وہ بولے کہ کہیں کہہ دیا ہوگا، لیکن مجھ سمیت 'ایم کیو ایم' کے وزرا اور گورنر تھے۔ صدر پرویز کا ہاتھ تھا، 'لیڈر ایم کیو ایم' کا سر پر ہاتھ تھا، اُن کی پَپّیاں تھیں کوئی چوں نہیں کر سکتا تھا، 2007ءکی بارشوں میں کراچی ڈوبا تھا، 'باتھ آئی لینڈ' پورا ڈوب گیا تھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کسی چینل پر پٹی بھی چلوا دیتے، اتنا خوف تھا اس وقت 'ایم کیوایم' کا۔ یہ خوف انہوں نے ہی دلوایا ہوا تھا، جو غلط تھا۔ ہمیں تو ہدایات تھیں کہ 'واہ واہ کرنا ہے، حالاں کہ وہ پیسہ پُلوں اور فلائی اوورز کے بہ جائے نکاسی آب کی درستی پر لگنا چاہیے تھا، میں آج بھی یہی کہتا ہوں۔'

پرویز مشرف کی جانب سے کراچی کی شہری حکومت کو ملنے والے مشہور زمانہ 29 ارب روپے کے پیکیج کا ذکر ہوا تو ہم نے پوچھا کہ وہ تو نعمت اللہ خان کو ملا تھا، وہ بولے کہ ملے تو اِنہی کے دور میں تھے!

ہم نے پوچھا کتنا خرچ ہوا ہوگا؟ وہ ذرا ٹھیر کر بولے "میرے خیال میں آدھا تو لگا دیا ہوگا"

ہم نے دو بار پھر پوچھا کہ باقی آدھا؟ تو انہوں نے ہنستے ہوئے دُہرایا 'کہہ تو رہا ہوں کہ آدھا تو لگایا ہوگا۔ ہم نے کہا باقی لے گئے؟ تو بولے کہ پتا نہیں کیا کیا لے گئے! آج جو کراچی بھگت رہا ہے، وہ انہی کا کیا دھرا ہے۔ انہیں زمین کے نیچے انفرا اسٹریکچر پر کام کرنا چاہیے تھا۔

'تب تو آپ ان کے ساتھ تھے، کچھ کہا نہیں؟' ہم نے انہیں یاد دلایا۔ وہ بولے کہ 'ہم تو کہتے تھے، مگر یہ تو 'عقلِ کُل' تھے۔ یہ سنتے نہیں تھے، جو یہ کہتے، وہی پالیسی بنتی، کیوں کہ 'بڑے صاحب' ان کے ساتھ تھے، انہیں تنقید، مشورہ اچھا نہیں لگتا تھا، اس لیے پھر ہم کوئی مشورہ نہیں دیتے تھے۔'

ہم نے وسیم اختر سے نعمت اللہ خان کے دورِ نظامت (2001ءتا 2004ئ) میں شروع ہونے والے فراہمی آب کے 'کے فور' منصوبے کے التوا کا ذکر کیا، وہ اس کا ذمہ دار بھی مصطفیٰ کمال کو کہتے ہیں۔

'آپ تو ساتھ تھے ان کے؟' ہم نے گویا دوبارہ یاد دلایا تو وسیم اختر بولے کہ 'پورے 'نائن زیرو' پر کوئی شخص مصطفیٰ کمال کے خلاف 'چُوں' نہیں کرسکتا تھا۔'

ہم نے مبینہ طور پر مصطفیٰ کمال کی جانب سے الطاف حسین کی طلاق کے حوالے سے 'چائنا کٹنگ' کا پیسہ لندن بھیجے جانے کا ذکر کیا تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
'تو کیا وہاں سُن گن تھی یہاں کی 'چائنا کٹنگ' کی؟' ہم نے میئر کراچی کو ٹٹولنے کی کوشش کی، وہ بولے کہ 'چائنا کٹنگ' تو دراصل 'قیادت' کو دھوکا دیا گیا تھا، اس میں سارے یہیں کے لوگ ہی ملوث ہوئے!'

'یعنی پھر 'کرپشن' کا روپیا نہیں گیا لندن؟' ہم نے فوراً اگلا سوال بڑھایا۔ وہ بولے 'نہیں کرپشن کا نہیں کہہ سکتا، لیکن جو لوگ 'فنڈ' دیتے تھے، وہ گیا ہوگا۔'

٭غصے والے وسیم اختر کا تاثر کیوں ہے؟

میئر کراچی وسیم اختر پانچ بہنیں اور چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں، جس میں دو بھائی اور دو بہنیں ملک سے باہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چھوٹا تھا تو والد کے تبادلوں کے سبب میں کوئٹہ، زیارت اور لورالائی وغیرہ میں بھی رہا، بہت اسکول تبدیل ہوئے، کراچی میں ہیپی ہوم اور کیٹ پبلک اسکول اور نیشنل کالج میں زیر تعلیم رہا، باہر گیا تو وہاں کمپنی نے یورپ وغیرہ میں بہت کورسز وغیرہ بھی کرائے، بہت اچھا تجربہ رہا۔ ریڈیو ٹی وی کے بعد فارماسیوٹیکل وغیرہ کے کام سے بھی جڑا رہا، پھر بنائی گئی فیکٹری بیچنا پڑی پھر ریئل اسٹیٹ کا کام شروع کیا۔ اب کاروبار ایسا نہیں ہے۔ آج بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ کچھ پارٹنر ہیں۔ گھر میں سے کوئی بھی سیاست میں نہیں، جو ہم برداشت کرگئے وہ ہمارے بچے نہیں کرسکتے۔ اللہ کرے کہ اب بہتر ہوجائے۔ ہم نے پوچھا کہ کوئی ایسی خامی کہ سوچتے ہوں یہ نہیں ہونی چاہیے؟ تو ہنستے ہوئے ٹال گئے بولے کہ خامیاں تو ہر انسان میں ہوتی ہیں۔ ہم نے کہا یہ غصے والا تاثر کیوں ہے، تو بولے شاید یہ میرے راجپوت خون کا اثر ہے کہ غلط چیز اور کسی زیادتی پر غصہ آتا ہے۔ یہی چیز تھی، تبھی میں 'ایم کیو ایم' میں آیا کہ لوگوں کو حقوق ملیں۔

٭ 10 فی صد شہر بھی میرے اختیار میں نہیں!

کراچی کے مسائل اور ان کی کارکردگی وسیم اختر سے ہماری گفتگو کا ایک اہم حصہ تھی، ہم نے کہا کیا اب بھی 29 فی صد شہر 'بلدیہ عظمیٰ' کی دسترس میں ہے۔ وہ بولے نہیں 10 فی صد کہہ لیں، شاہ راہ فیصل کراچی کی اتنی بڑی سڑک ہے، مگر میری عمل داری سے بالکل باہر ہے!

پھر وہ 2013 ءکا 'سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ' دکھاتے ہوئے ہمیں بتانے لگے کہ یہ حکومت سندھ کا بنایا ہوا ہے، اور اس میں سارے محکمے ہم سے لے لیے گئے ہیں جہاں سے میں ٹیکس جمع کرسکتا ہوں، اس لیے میرے پاس تو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں حکومت سندھ مختص کردہ رقم بھی پوری نہیں دیتی، یہاں تک کہ لکھا گیا ہے کہ کراچی سے جمع کردہ ٹیکس کا ایک تناسب 'بلدیہ عظمیٰ' کو دیں گے، وہ کہاں ہے؟ 'ہم نے کہا جب یہ 'ایکٹ' منظور ہو رہا تھا، تب 'متحدہ' بھی تو پیپلز پارٹی کے ساتھ تھی؟ اس کے جواب میں انہوں نے وقت کی مصلحت کو عنوان کیا۔

ہمارے پلندے میں ایک سوال 'چار سال میں کیا دیا؟' بھی تھا، اس کا احاطہ ہماری گفتگو میں کچھ یوں ہوا، وہ بولے کہ عباسی شہید اسپتال سمیت 14 اسپتال میرے پاس ہیں، وہاں بچوں اور 'کورونا' کا شعبہ بہترین کرا دیا، ملک ریاض کے تعاون سے 'ایمرجینسی' ٹھیک کرائی، ایک ریسرچ سینٹر بھی کھول رہا ہوں، اسپنسرآئی اسپتال میں 10 سال بعد آّنکھوں کے 'قرنیے' تبدیلی کا کام شروع کرا دیا ہے۔ 'انسٹی ٹیوٹ آف کڈی ڈیزز' ناظم آباد میں فری ڈایالیسز ہو رہے ہیں، دیگر مختلف اسپتالوں کی میننٹنس کراتے ہیں۔ سرجانی ٹاﺅن اور ہائی وے کی طرف کچھ نئے قبرستان بنائے ہیں۔'

'قبرستان آپ کے اختیار میں ہیں، تو شہر کے بیچوں بیچ بھرے ہوئے قبرستان میں تدفین پر تدفین ہو رہی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے؟' ہم نے درمیان میں لقمہ دیا۔ وہ بولے کہ یہ قبرستان مافیا کے پاس ہیں، میرے پاس تو 'رِٹ' نہیں، لکھ لکھ کر تھک گیا، مجسٹریٹ پاور ہی نہیں دیے جاتے۔

ہم نے 'قبرستان مافیا' کے پس پشت عناصر کو ٹٹولا، مگر میئر کراچی نے انہیں بھی 'ٹینکر مافیا' جیسی ایک مافیا قرار دیا کہ کوئی تو ہوگا ان کے پیچھے بھی۔

شہر کی سڑکوں کے حوالے سے بولے کہ 102 سڑکوں کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ ان کے ذمے ہے، جو جیسی تیسی کرپاتا ہوں۔ ہم نے پوچھا کہ 'ضلعے' اور 'بلدیہ' کی سڑکوں کی تقسیم کیسے ہوتی ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ کراچی کی 102 سڑکیں متعین ہیں، چاہے وہ کہیں سے بھی گزر رہی ہو، جیسے شاہ راہ قائدین، شاہ راہ پاکستان اور

ایم اے جناح روڈ وغیرہ
باغات اور پارک وغیرہ کا محکمہ بھی 'میئر کراچی' کے سپرد ہے، وہ کہتے ہیں کہ باغ ابن قاسم پورا نیا بنا دیا جھیل پارک ٹھیک کیا' شہر کے تفریحی مقام 'کڈنی ہل' سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ جا کے دیکھیں دل خوش ہو جائے گا!

فائر بریگئیڈ کو بہتر کرنے کے دعوے دار وسیم اختر کہتے ہیں کہ میرے پاس آلات ٹھیک کرانے کے پیسے نہیں، رضا کاروں کے لیے ہیلمٹ نہیں خرید سکتا! نواز شریف کے دور میں منظور ہونے والے 50 فائر ٹینڈر آجائیں گے، اسی وقت کے ملنے والے کچھ پیسوں سے 'اسنارکل' وغیرہ ٹھیک کرائیں، شہر کے کُل 24 فائر بریگئیڈ اسٹیشن ان کے پاس ہیں۔ 'کنٹونمنٹس' کے فائر برئیگیڈ اسٹیشن الگ ہیں۔

سرکاری اسکولوں کا انتظام 'بلدیہ کراچی' کے بہ جائے چھے ضلعوں کے پاس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا پورا ریونیو نہیں ملتا چھے ضلعوں کی تقسیم نے کراچی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، اسلام آباد، پنڈی، لاہور، پشاور سب ایک ضلع ہیں، لیکن کراچی سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے چھے ضلعے بنا دیے کراچی کو اسپیشل ٹریٹمنٹ چاہیے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے خلاف بار بار آپریشن کیے جاتے رہے۔
Load Next Story