ترقی کا عملی ایجنڈا کہاں ہے

حکومت ابھی بھی معاشی پالیسیوں کی درست سمت کا تعین نہیں کرپائی ہے، بیانات پرکافی زور ہے


Editorial December 14, 2013
امید ہے کہ اقتصادی اور سماجی مسائل سے نمٹنے کے فوری و دیر پا حل تلاش کیے جائیں گے. فوٹو:فائل

امریکا کے 31 ویں صدر ہربرٹ ہوور کا مشہور مقولہ ہے۔ ''ایک زمانہ تھا میرے سیاسی مخالفین نے مجھے ایک اعزاز بخشا کہ یہ میری ہی علمی اور اقتصادی طاقت کا نتیجہ تھا کہ عظیم کساد بازاری (گریٹ ڈپریشن) نے جنم لیا۔'' یہ 1930ء کا دور تھا جب کہ آج اکیسویں صدی ہے اور پاکستان اپنے اقتصادی سفر کے تقریباً 7 6 برس مکمل کر چکا ہے تاہم ملکی معیشت کی ٹھوس بنیاد، خود انحصاری، مالیاتی شفافیت، غیر ملکی قرضوں کے بار گراں سے نجات، پاکستانی کرنسی کی قدر میں استحکام، کرپشن فری معاشرہ اور فلاحی مملکت کے کسی خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے قوم دیکھنے سے تا حال قاصر ہے۔

مگر قومی امنگوں کی تکمیل کا میدان ابھی بھی کھلا ہے اور موجودہ حکومت کی مثبت پیش قدمی کے آئندہ کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں ان کی طرف توجہ دینا اشد ضروری ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ملک کی اقتصادی صورتحال گزشتہ سال کی نسبت بہتر ہوئی ہے۔ گزشتہ سال جولائی سے ستمبر تک شرح نمو 2.9 فیصد تھی جو رواں سال کے اس عرصے میں5.1 فیصد ہے۔ آئندہ 4 سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو 7 فیصد تک بڑھانا چاہتے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کے ایک گروپ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ 1991ء میں میری حکومت کے پہلے دور میں معاشی صورتحال بہت بہتر تھی، ہماری معاشی حالت ہمسایہ ممالک کے برابر جب کہ بعض پہلوؤں میں ہم ان سے آگے تھے لیکن اہم منصوبوں پر فیصلہ سازی میں کمی کی وجہ سے ہم اس صورتحال تک جا پہنچے جس کا آج ہمیں سامنا ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت پر پڑنے والی روشنی ہے جس میں ملکی اقتصادیات میں اہم منصوبوں کی عدم تکمیل سے ملکی معیشت کے نشیب و فراز کی عکاسی ہوتی ہے۔ حکومت ابھی بھی معاشی پالیسیوں کی درست سمت کا تعین نہیں کر پائی ہے، بیانات پر کافی زور ہے، لیکن حقیقی اقتصادی اور سماجی کام حالت جمود میں ہیں، ان میں توانائی کا مسئلہ سب سے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ جی ایس پی پلس کا درجہ ملنا امداد سے تجارت کی طرف معیشت کی سمت تبدیل کرنے کی حکومتی کوششوں کی ایک مثال ہے جس سے ٹیکسٹائل کے علاوہ چمڑے کی صنعت جیسے دوسرے شعبوں کو بھی اس سے فائدہ ہو گا۔

تاہم اس بریک تھرو کے دیگر پہلوؤں اور مختلف خدشات کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا، مثلاً بعض معاشی ماہرین اور انڈسٹری مالکان نے ملک میں جاری توانائی کے بحران اور امن و امان کے مسائل کو جی ایس پی پلس کے ممکنہ معاشی فوائد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے دیا ہے جو حقیقت بھی ہے جب کہ جی ایس پی پلس کے ثمرات سمیٹنے کے لیے پاکستان کو سماجی تحفظ اور انسانی حقوق کے27 بین الاقوامی کنونشنز پر بھی سختی سے عمل درآمد کرنا ہو گا جن میں لیبر رائٹس، ماحولیات اور گڈ گورننس کے کنونشنز شامل ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے بنیادی اصولوں کے تحت صنعتوں اور کارخانوں میں یونین سازی، اجتماعی مفاد کے لیے سوداکاری کو یقینی بنانا ہو گا جب کہ جبری یا رضاکارانہ مشقت، چائلڈ لیبر، کام کی جگہ پر جنس رنگ و نسل عقیدے کی بنیاد پر امتیازی طرز عمل کو ختم کرنا ہو گا مذکورہ 27 کنونشنز کی خلاف ورزی کی صورت میں یورپی یونین پاکستان کو دی جانے والی اس سہولت پر نظرثانی کی مجاز ہے۔ سماجی تحفظ انسانی حقوق اور لیبر رائٹس پر عمل درآمد کے لیے انڈسٹری اور حکومت کو مشترکہ فریم ورک تیار کرنا ہو گا۔

ایک معاشی تجزیہ نگار کے مطابق یورپی یونین کی جی ایس پی پلس سہولت کی راہ میں توانائی کا سنگین بحران سدِ راہ ہے ان کا کہنا ہے کہ توانائی کی دستیابی کے ساتھ انرجی ٹیرف بھی اہم مسئلہ ہے، یورپی یونین کو برآمدات بڑھانے اور سہولت سے بھرپور استفادہ کرنے کے لیے امن و امان لازمی ہے تا کہ بیرونی خریدار پاکستان آ سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ایکسپورٹرز نے قومی حکمت عملی اختیار نہ کی تو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ٹیرف کی رعایت کا فائدہ یورپی درآمد کنندگان کو پہنچے گا پاکستانی ایکسپورٹرز کے مارجن میں اب کافی گنجائش ہے اور حریف تجارتی ملکوں سے بھی مسابقت آسان ہے تاہم انفرادی فائدہ اٹھانے کے لیے مصنوعات کی ایکسپورٹ پرائس کم کرنے سے پاکستان کو نقصان ہو گا اور برآمدات میں اضافے کے اندازے غلط ہو جائیں گے، اس میں شک نہیں کہ بجلی کے مسئلے میں کچھ ریلیف دیکھنے میں آیا ہے لیکن کئی مسائل حل طلب ہیں، جن میں لوڈ شیڈنگ کا مستقل عذاب بھی شامل ہے، اقتصادی نمو اچھی رہی ہے مگر انرجی کی قلت سے ملک کی زرعی اور صنعتی ترقی رکی ہوئی ہے، زرعی معیشت میں گروتھ حکومت کی ابتدائی سہ ماہی میں کم رہی جب کہ زراعت ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔

ادھر کراچی کا معاشی ہب دہشت گردی اور بدامنی کے باعث تجارتی، صنعتی اور سماجی ترقی کے اہداف سے کہیں نیچے لڑھک گیا ہے، نیٹو سپلائی بند ہونے سے خارجی اور داخلی دباؤ اور سماجی و سیاسی تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے، میاں شہباز شریف نے بھارتی میڈیا کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان بھارت سے مناسب نرخوں پر بجلی کی فراہمی کی ہر پیشکش کا خیر مقدم کریگا، سوال یہ ہے کہ پاک ایران گیس معاہدہ ہو، کوئلے اور دیگر وسائل سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ہوں ان پر اب ٹھوس عملی پیش رفت ہونی چاہیے، وہ قابل عمل ہیں تو بسم اﷲ ورنہ رکاوٹیں ہٹائیے، زرعی شعبہ چاہے سندھ کا ہو یا پنجاب و بلوچستان کا، حکومت کو اسے صنعتی ترقی کے برابر درجہ دینا چاہیے، ہاری یا کستان کی زندگی میں شہری محنت کشوں کے ساتھ ساتھ مثبت تبدیلی آنی چاہیے۔

زمینی حقائق کی روشنی میں معیشت کی بحالی کا پروگرام بنایا جائے، اقتصادی اور سماجی منصوبوں پر تمام وزرا، مشیر اور دیگر حکام کو میڈیا پر ہمہ وقت نظر آنے کی کوششوں سے زیادہ عملی کاموں میں مصروف رہنا چاہیے، حکومتی پالیسیوں اور اقدامات میں تضادات سے بھرپور بیانات اور بڑھکیں مارنے سے زیادہ ان پروجیکٹس کی تکمیل پر توجہ دی جانی چاہیے جو توانائی سے مربوط اور سماجی ترقی اور معاشرتی فلاح و بہبود سے متعلق ہوں۔ یوں اقتصادی شعبہ میں ہڑبونگ، تردید، وضاحتوں کی وجہ سے انتشار کا جو تاثر ابھر رہا ہے، ہر شخص اپنی ڈفلی اپنا راگ سنا رہا ہے، اس سے نجات ملے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا افضل نے کہا ہے کہ گھریلو صارفین کو گیس بحال رکھنے کے باعث دوسرے سیکٹرز کی گیس بند کرنے کا فیصلہ مجبوری میں کیا گیا ہے ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا، وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ آئندہ سال تک صنعتوں کے لیے گیس کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا جائے گا جب کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے چیئرمین سینیٹر زاہد خان نے منڈا ڈیم کی تعمیر میں7 سال کی تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تاخیر کی وجہ سے3 ارب روپے کے قومی نقصان کے باوجود ڈیم کی تعمیر میں سستی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے بیشمار مسائل قابل توجہ ہیں۔

امید کی جانی چاہیے کہ اقتصادی اور سماجی مسائل سے نمٹنے کے فوری و دیر پا حل تلاش کیے جائیں گے۔ انرجی سیکٹر، اقتصادی نمو میں اضافہ، عوام کو ملنے والی ریلیف، برآمدات و تجارتی و کاروباری سرگرمیوں میں توسیع کو یقینی بنانے کے لیے منی پاکستان سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ارباب اختیار اپنا واضح معاشی و سماجی ایجنڈا تیار کرتے ہوئے اس کی تکمیل کے لیے عملی کوششیں تیز کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں