ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
مسلسل پانچ سال تک اشفاق احمد کی کوئی بھی کہانی یا افسانہ شائع نہ ہوا، ہر بار ناقابل اشاعت کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا
22 اگست کا دن ادبی تاریخ میں ایک سنگ میل کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن 1925 میں برٹش انڈیا کے صوبہ پنجاب کی ایک تحصیل مکتسر، جو امرتسر کے بعد سکھوں کا ایک متبرک شہر مانا جاتا ہے، وہاں ایک ایسے انسان نے آنکھ کھولی جو صلاحیتوں سے مالا مال تھا۔ اس نے فن، ادب اور پھر تصوف کی جس راہ پر بھی قدم رکھا، منزل نے خود آگے بڑھ کر اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ دنیا انہیں اشفاق احمد کے نام سے جانتی بھی ہے اور مانتی بھی ہے۔ ان کی شخصیت اور صلاحیتوں کا احاطہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس وسیع و عریض کائنات کی حدود کا تعین کرنا۔ اشفاق احمد کا وجود کسی ایک مقام پر مقید نہیں تھا۔ جس شعبہ میں بھی قدم رکھا، اس میں جدت کے ساتھ اصلاحی پہلوؤں کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ ثقافتی ورثہ کو بھی اس کے حقیقی معنوں میں زندگی بخشی۔
لکھنے کی ابتدا کے بارے میں انہوں نے ایک بار انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کے گاؤں میں ایک گوالا بوٹے خان ہوتا تھا۔ وہ دادیوں، نانیوں کے انداز میں کہانیاں سناتا تھا اور وہ اکثر شام میں وہاں چلے جاتے۔ اس کی بھینسوں کو پانی پلادیا، چارہ ڈال دیا اور پھر اس کے بعد وہ اشفاق صاحب کو ایک لمبی سے کہانی سناتا۔ اشفاق احمد کو کہانیوں سے زیادہ اس کا انداز بیاں متاثر کرتا تھا۔ بوٹے خان نے ان کی زندگی کو اس ڈگر پر ڈال دیا جس پر چل کر ہمارے سامنے ایک قد آور ادبی فلاسفر اور ایک لازوال بابا جی اشفاق احمد آجاتے ہیں۔
1940 سے 1945 تک انہوں نے کئی کہانیاں، افسانے مختلف ادبی رسالوں میں بھیجے۔ لیکن مسلسل پانچ سال تک کوئی بھی کہانی یا افسانہ شائع نہ ہوا۔ ہر بار ناقابل اشاعت کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا۔ 1946 میں ان کا پہلا افسانہ جو ''توبہ'' کے نام سے تھا، وہ صلاح الدین مرحوم نے اپنے رسالے ''ادبی دنیا'' میں شائع کیا۔ اس کی پانچ کاپیاں فیروز پور ریلوے اسٹیشن کے اسٹال پر بھی آئیں اور جب اشفاق احمد کی نظر ان پر پڑی تو انہوں نے وہ پانچوں کاپیاں خرید لیں۔ اس کے بعد ان کا ایک اور افسانہ بھی شائع ہوا۔ یوں قیام پاکستان سے قبل ان کے دو افسانے شائع ہوچکے تھے۔
اشفاق احمد نے میٹرک تک تعلیم مقامی سطح پر حاصل کی اور فیروز پور سے بی اے کیا اور پھر پاکستان آگئے، جہاں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے (اردو) کیا۔ اسی دوران ان کی ملازمت شعبہ اردو میں دیال سنگھ کالج لاہور ہوگئی۔ یہاں سے پھر ریڈیو اور اس کے بعد ٹیلی ویژن کی جانب ترقی کا وہ سفر شروع ہوا جس نے انہیں لازوال بنادیا۔ ان کی زندگی کا وہ مرحلہ جس میں بطور طالبعلم اور پھر استاد یورپ میں گزرا، اس نے ان کی سوچ کو اور فکر کو وسعت دی۔ اگر بات ان کی تحریروں کی ہو تو 1955 میں شائع ہونے والے ان کے افسانے گڈریا سے لے کر 1962 کے ریڈیو پروگرام تلقین شاہ نے انہیں اپنے دور کے دوسرے لکھاریوں سے ممتاز کردیا تھا۔
1966 میں بطور ڈائریکٹر مرکزی اردو بورڈ کا چارج سنبھالا۔ انہوں نے جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں بطور مشیر وزات تعلیم میں بھی خدمات سر انجام دیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے تاریخی دور کا آغاز ہی اشفاق احمد کے ڈراموں سے ہوتا ہے، جن میں اچے برج لاہور دے، ٹالی تھلے، توتا کہانی، ایک محبت سو افسانے، زاویہ اور من چلے کا سودا شامل ہیں۔ ان کے علاوہ کتب، جن میں زاویہ (تین حصوں پر مشتمل) ایک محبت سو افسانے، گڈریا، اجلے پھول، من چلے کا سودا، سفر مینا، مہمان بہار، وداع جنگ، کھٹیا وٹیا، قمکار، گرما گرم، دوسروں سے نباہ، بند گلی، مہمان سرائے، طلسم ہوش افزا، اور ڈرامے حسرت تعمیر، ایک محبت سو ڈرامے، حیرت کدہ شامل ہیں۔ ان کے بہت سے افسانوں پر ڈرامے بھی نشر کیے گئے۔
اگر ان کی نجی زندگی پر نظر ڈالیں تو ان کی شریک حیات بانو قدسیہ جو آج بھی ادبی دنیاکا ایک درخشاں باب ہیں، ان کی اپنی تحریروں نے انہیں ایک جداگانہ شناخت دی ہے، کے ذکر کے بغیر اشفاق احمد خان کی مکمل شخصیت کا احاطہ ناممکن ہوگا۔ ان کی زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب وہ ہمیں ایک افسانہ نویس کے ساتھ تصوف کے لبادے میں بھی دکھائی دیے۔ ان کی اکثر تحریروں، خاص طور پر 'من چلے کا سودا' میں تو یہ رنگ بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے تصوف کی جو منظرنگاری پیش کی اس میں قناعت کو بھرپور انداز سے پیش کیا گیا۔ فردوس جمال نے اپنے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ اشفاق احمد صاحب کو ایک اداکار نہیں حافظ چاہیے ہوتا ہے۔ اس کا جواب اشفاق احمد نے یوں دیا تھا کہ وہ جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور جن استاد صاحبان سے ان کا تعلق رہا، وہ روایت پسند اور پرانے ڈرامہ نگار تھے۔ اشفاق احمد صاحب نے تو اسکرپٹ کے الفاظ تک گن رکھے ہوتے تھے اور کیا مجال کہ کوئی اداکار ایک لفظ بھی زیادہ یا کم بولے۔
اشفاق احمد کے حلقہ میں نامور ادیب اور روحانی شخصیات جیسے قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، بابا یحییٰ بھی شامل تھے جن کے اثرات ایک دوسرے پر اس طرح پڑے کہ ان سب کی تحریروں میں بھی ایک دوسرے کے رنگ کبھی زیادہ تو کبھی کم محسوس ہوتے ہیں۔ 7 ستمبر 2004 کو اشفاق احمد اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی کتب اور ان کے افسانوں پر بنے ڈراموں نے انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ جہاں جہاں بھی اردو بولی، سنی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں کا ایک روشن ستارہ بنا دیا، جس کی اپنی روشنی اور پہچان ہے۔ ان کے بعد پاکستانی ڈرامہ اپنے مرکز سے ہٹتا چلا گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
لکھنے کی ابتدا کے بارے میں انہوں نے ایک بار انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کے گاؤں میں ایک گوالا بوٹے خان ہوتا تھا۔ وہ دادیوں، نانیوں کے انداز میں کہانیاں سناتا تھا اور وہ اکثر شام میں وہاں چلے جاتے۔ اس کی بھینسوں کو پانی پلادیا، چارہ ڈال دیا اور پھر اس کے بعد وہ اشفاق صاحب کو ایک لمبی سے کہانی سناتا۔ اشفاق احمد کو کہانیوں سے زیادہ اس کا انداز بیاں متاثر کرتا تھا۔ بوٹے خان نے ان کی زندگی کو اس ڈگر پر ڈال دیا جس پر چل کر ہمارے سامنے ایک قد آور ادبی فلاسفر اور ایک لازوال بابا جی اشفاق احمد آجاتے ہیں۔
1940 سے 1945 تک انہوں نے کئی کہانیاں، افسانے مختلف ادبی رسالوں میں بھیجے۔ لیکن مسلسل پانچ سال تک کوئی بھی کہانی یا افسانہ شائع نہ ہوا۔ ہر بار ناقابل اشاعت کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا۔ 1946 میں ان کا پہلا افسانہ جو ''توبہ'' کے نام سے تھا، وہ صلاح الدین مرحوم نے اپنے رسالے ''ادبی دنیا'' میں شائع کیا۔ اس کی پانچ کاپیاں فیروز پور ریلوے اسٹیشن کے اسٹال پر بھی آئیں اور جب اشفاق احمد کی نظر ان پر پڑی تو انہوں نے وہ پانچوں کاپیاں خرید لیں۔ اس کے بعد ان کا ایک اور افسانہ بھی شائع ہوا۔ یوں قیام پاکستان سے قبل ان کے دو افسانے شائع ہوچکے تھے۔
اشفاق احمد نے میٹرک تک تعلیم مقامی سطح پر حاصل کی اور فیروز پور سے بی اے کیا اور پھر پاکستان آگئے، جہاں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے (اردو) کیا۔ اسی دوران ان کی ملازمت شعبہ اردو میں دیال سنگھ کالج لاہور ہوگئی۔ یہاں سے پھر ریڈیو اور اس کے بعد ٹیلی ویژن کی جانب ترقی کا وہ سفر شروع ہوا جس نے انہیں لازوال بنادیا۔ ان کی زندگی کا وہ مرحلہ جس میں بطور طالبعلم اور پھر استاد یورپ میں گزرا، اس نے ان کی سوچ کو اور فکر کو وسعت دی۔ اگر بات ان کی تحریروں کی ہو تو 1955 میں شائع ہونے والے ان کے افسانے گڈریا سے لے کر 1962 کے ریڈیو پروگرام تلقین شاہ نے انہیں اپنے دور کے دوسرے لکھاریوں سے ممتاز کردیا تھا۔
1966 میں بطور ڈائریکٹر مرکزی اردو بورڈ کا چارج سنبھالا۔ انہوں نے جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں بطور مشیر وزات تعلیم میں بھی خدمات سر انجام دیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے تاریخی دور کا آغاز ہی اشفاق احمد کے ڈراموں سے ہوتا ہے، جن میں اچے برج لاہور دے، ٹالی تھلے، توتا کہانی، ایک محبت سو افسانے، زاویہ اور من چلے کا سودا شامل ہیں۔ ان کے علاوہ کتب، جن میں زاویہ (تین حصوں پر مشتمل) ایک محبت سو افسانے، گڈریا، اجلے پھول، من چلے کا سودا، سفر مینا، مہمان بہار، وداع جنگ، کھٹیا وٹیا، قمکار، گرما گرم، دوسروں سے نباہ، بند گلی، مہمان سرائے، طلسم ہوش افزا، اور ڈرامے حسرت تعمیر، ایک محبت سو ڈرامے، حیرت کدہ شامل ہیں۔ ان کے بہت سے افسانوں پر ڈرامے بھی نشر کیے گئے۔
اگر ان کی نجی زندگی پر نظر ڈالیں تو ان کی شریک حیات بانو قدسیہ جو آج بھی ادبی دنیاکا ایک درخشاں باب ہیں، ان کی اپنی تحریروں نے انہیں ایک جداگانہ شناخت دی ہے، کے ذکر کے بغیر اشفاق احمد خان کی مکمل شخصیت کا احاطہ ناممکن ہوگا۔ ان کی زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب وہ ہمیں ایک افسانہ نویس کے ساتھ تصوف کے لبادے میں بھی دکھائی دیے۔ ان کی اکثر تحریروں، خاص طور پر 'من چلے کا سودا' میں تو یہ رنگ بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے تصوف کی جو منظرنگاری پیش کی اس میں قناعت کو بھرپور انداز سے پیش کیا گیا۔ فردوس جمال نے اپنے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ اشفاق احمد صاحب کو ایک اداکار نہیں حافظ چاہیے ہوتا ہے۔ اس کا جواب اشفاق احمد نے یوں دیا تھا کہ وہ جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور جن استاد صاحبان سے ان کا تعلق رہا، وہ روایت پسند اور پرانے ڈرامہ نگار تھے۔ اشفاق احمد صاحب نے تو اسکرپٹ کے الفاظ تک گن رکھے ہوتے تھے اور کیا مجال کہ کوئی اداکار ایک لفظ بھی زیادہ یا کم بولے۔
اشفاق احمد کے حلقہ میں نامور ادیب اور روحانی شخصیات جیسے قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، بابا یحییٰ بھی شامل تھے جن کے اثرات ایک دوسرے پر اس طرح پڑے کہ ان سب کی تحریروں میں بھی ایک دوسرے کے رنگ کبھی زیادہ تو کبھی کم محسوس ہوتے ہیں۔ 7 ستمبر 2004 کو اشفاق احمد اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی کتب اور ان کے افسانوں پر بنے ڈراموں نے انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ جہاں جہاں بھی اردو بولی، سنی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں کا ایک روشن ستارہ بنا دیا، جس کی اپنی روشنی اور پہچان ہے۔ ان کے بعد پاکستانی ڈرامہ اپنے مرکز سے ہٹتا چلا گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔