میں تیرے شہر سے پھر گزرا تھا…

ہم محکموں کی خرابی کا شور تو مچاتے ہیں لیکن محکموں میں اگرکوئی اچھا کام کررہا ہو تو اس کا اعتراف اورتعریف ضرور کریں

Shireenhaider65@hotmail.com

NEW DELHI:
ٹھٹھرتی ہوئی نومبر کی تیس تاریخ کی صبح... پانچ بج کر پچاس منٹ پر گاڑی میں بیٹھی، مجھے تیس منٹ کا راستہ طے کر کے ساڑھے چھ بجے تک ریلوے اسٹیشن پہنچنا تھا، باس کا حکم تھا کہ اس سے پہلے پہنچ جائیں تو بہتر ہے کہ بچوں کا خیال رکھ سکیں۔ گاڑی اسٹارٹ کی، پٹرول کی سوئی زیرو پر تھی، جانے کل کس دماغی کیفیت میں تھی کہ اس طرف نظر ہی نہ گئی تھی ورنہ اسکول سے واپسی کے سفر میں پٹرول ڈلوا لیتی۔ شاید لاشعور میں ویک اینڈ تھا اور ذہن سے یہ ڈیوٹی نکل گئی تھی۔ دل سے دعا نکل رہی تھی کہ اتنے منہ اندھیرے پٹرول مل جائے سہی، پٹرول ڈلوایا اور اس اضافی پانچ منٹ میں جو چند بچے اسٹیشن پر پہنچ چکے ہوں گے وہ کہیں دائیں بائیں نہ ہو جائیں۔

پانچ منٹ تاخیر سے پہنچی تو اسٹیشن کی عمارت میں اگر کچھ نظر آ رہا تھا تو ہمارے اسکول کے طلباء اور طالبات تھے اور ان کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ ریل کے اس سفر کے خیال نے ہی ان کا جوش و خروش کئی گنا بڑھا دیا تھا۔ ایک ماہ قبل جب پاکستان ریلوے کی طرف سے ہمیں اس تفریحی دورے پر جانے کا بروشر ملا تو ہم اس وقت تک سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ہمارے بچے اس ٹرپ پر جانے کے تمنائی بھی ہوں گے۔ پاکستان ریلوے کی حالت زار کے پیش نظر ہم خود بھی کچھ تذبذب کا شکار تھے ... مگر بالآخر ''رسک'' لینے کا فیصلہ کیا گیا اور ہم نے ریلوے کی طرف سے بھیجے گئے بروشر پر دی یے گئے نمبر پر رابطہ کیا۔''ـPRACS'' کیا ہے شاہد صاحب؟'' فو ن اٹھانے والے کے تعارف پر میں نے اس سے سوال کیا۔

''Pakistan Railway Advisory and Consultancy Services'' شاہد صاحب نے وضاحت کی اور بتایا کہ یہ ریلوے کا ذیلی ادارہ ہے، اس کی بنیاد 1976 میں رکھی گئی تھی اور تب سے اب تک یہ مختلف شعبوں میں ریلوے کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے۔ ہزارہ ایکسپریس جو کہ حویلیاں سے کراچی تک چلتی ہے وہ بھی اسی کے تحت ہے۔ شاہد صاحب اور ان کی ٹیم جو کہ ابھی تک کمرشل مینجمنٹ پر کام کر رہے تھے، اپنے مینیجنگ ڈائریکٹر ظہورالحق خٹک صاحب کے ساتھ مل کر ملک میں سیاحت کے فروغ اور ریلوے میں اس کے کردار کے لیے مختلف سیاحتی پروگرام بنائے اور اس پر لوگوں سے feedback لینے کے لیے سب سے پہلے مختلف تعلیمی اداروں کو اپنے بروشر بھیجے۔

ان بروشر کے ذریعے بتایا کہ مختلف سیاحتی مقامات کے لیے خصوصی ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں، ان میں قلعہ روہتاس، منگلاڈیم، قلعہ اٹک اور کھیوڑہ کی نمک کی کانیں پہلے مرحلے میں شامل ہیں۔ ہم نے ان میں سے کھیوڑہ کی نمک کی کانوں کا ارادہ کیا اور اپنے اسکول کے بچوں کے والدین کو اس سلسلے میں خطوط لکھے... پہلے مرحلے میں ہم نے اس منزل پر خصوصی طور پر روانہ ہونے والی ٹرین کی تین میں سے ایک بوگی بک کروائی جس میں تقریباً ستر سیٹوں کی گنجائش تھی۔ ہمارا خیال یہی تھا کہ جتنے طالب علم جانے کو تیار ہوں گے، باقی سیٹوں پر ہم اپنے اساتذہ کو ساتھ لے جائیں گے یا فالتو سیٹوں کو surrender کر دیں گے۔دو دن کے بعد میں نے شاہد صاحب کو کال کی اور پوچھا کہ کیا ان کے پاس کچھ مزید سیٹوں کی گنجائش تھی کیونکہ پاکستان ریلوے پر اعتماد نہ ہونے کے باوصف بچوں کے والدین کا رد عمل حیران کن تھا۔ ہمارے پاس اسی بچوں کے consent letters آ چکے تھے اور یہ تعداد ہماری ایک بوگی سے تجاوز کر چکی تھی۔ دو دن اور گزرتے ہیں اور مجھے پھر شاہد صاحب کو کال کرنا پڑتی ہے کہ کیا ہم دو بوگیاں بک کروا سکتے ہیں؟

دو بوگیوں کی بکنگ کی نوازش تو شاہد صاحب نے کر دی مگر اسی دوران محرم کے بعد کے ناخوشگوار واقعات اور فرقہ وارانہ فسادات نے شہر کے حالات اس حد تک خراب کر دیے کہ نوبت کرفیو تک آن پہنچی، ہمارے اسکول سمیت تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے۔ بعد ازاں اس ٹرپ کی تاریخ جو کہ پہلے تئیس نومبر کی تھی، اسے تیس نومبر تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔رقم کی قبل از وقت ادائیگی کے لیے ہمیں شاہد صاحب کے دفتر جانا پڑا... ریلوے اسٹیشن کے سامنے واقع اس عمارت میں گیٹ پر ہی ـPRACS کا نام لکھا دکھائی دیا، عمارت کا ظاہری حلیہ بھی کئی سرکاری عمارتوں سے قدرے بہتر لگا اور ہمیں جو خدشہ تھا کہ جانے کس قسم کا ادارہ اور عملہ ہو گا وہ تاثر قدرے زائل ہو گیا۔ باقی کسر شاہد صاحب کی میزبانی اور ان کے انتہائی پر تعاون انداز نے پوری کر دی، ہم ایک سو پچاس نشستوں کی ادائیگی کر کے لوٹے اور ہمیں پھر بھی لگا کہ حالات ایسے ہیں کہ کئی بچے پروگرام منسوخ کر دیں گے... ممکن ہے کہ ٹرین کی صبح سوا سات بجے روانگی کا سن کر بہت سے بچے اسٹیشن پر ہی نہ پہنچ سکیں... مگر اس وقت اسٹیشن پر کھڑے ہوئے سارے گمان ہوا ہو چکے تھے۔

پلیٹ فارم نمبر دو سے پورے وقت پر ٹرین روانہ ہوئی اور تیسری بوگی میں ہمارے علاوہ چند لوگ میڈیا سے تھے اور کچھ اور شوقین خاندان تھے۔ ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت طے کر کے ہم کھیوڑہ کی نمک کی کانوں تک پہنچے، اسٹیشن سے پیدل مارچ کیا اور کانوں کا دورہ کیا۔ صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا، سفر کا کرایہ، واپسی پر چائے کے ساتھ لوازمات، کانوں میں گائیڈ کے ساتھ دورے کی سہولت... یہ سب کچھ ہمارے اس پیکیج میں شامل تھا جو کہ عموما تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس سفر کا اہم پہلو یہ تھا کہ شاہد صاحب خود، ان کے ماتحت کام کرنے والے نوجوان ارسلان اور فوزیہ بھی ہمارے ساتھ شریک سفر تھے اور انھوں نے سفر کے ہر ہر لمحے میں ہمیں سہولت اور پورا آرام پہنچایا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ایک خاندان کے لوگ مل کر سفر کر رہے ہوں۔واپسی کے سفر میں کھاریاں سے تھوڑا آگے آئے تو ٹرین وقت سے زیادہ دیر تک رکی رہی، پھرایک ٹرین غالباً تیز گام کے کراس کے بعد، شاہد سے تاخیر کی وجہ دریافت کی تو علم ہوا کہ اس ٹرین سے ظہورالحق خٹک صاحب لاہور سے بالخصوص تشریف لائے ہیں اور اب وہ اسی ٹرین پر ہمارے شریک سفر ہیں۔ ان سے ہماری ملاقات ہمارے سفر کے اختتام تک راولپنڈی اسٹیشن پر پہنچ کر ہوئی۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا لازم ہے کہ ٹرین کے ڈبوں کو اندر سے اپنے ملک کے مختلف مقامات کی خوبصورت تصاویر سے ایک گیلری کی طرح سجایا گیا ہے اور اس کی دیواروں پر ہمارے مشہور و معروف شعراء کا خوبصورت کلام لکھوایا گیا ہے۔

چاند میرے گھر کی دیوار پر

اس کے آگے جامن کے پتے

اس کے پیچھے اذانوں کی صدائیں

اور وہ کوئٹے جانے والی گاڑی

اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی...

منیر نیازی

اس بات کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ ہمارے بچے اس سفر سے کس قدر محظوظ ہوئے۔ اٹھارہ گھنٹے کے سفر کی تھکان کی پرچھائیں تک ان کے چہروں پر نہ تھی، ہر تھوڑی دیر کے بعد ڈھول پارٹی جو کہ اس تفریحی سیاحت کا خصوصی حصہ تھے، سب بوگیوںمیں باری باری جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اور بچوں میں thrill جگا کر دوسرے ڈبے میں چلے جاتے۔

اس تفریحی دورے کے بعد میں نے اپنے طالب علموں کی فیس بک پر جا بجا اس ٹرپ کی تعریفیں ان کی تصاویر کے ساتھ دیکھی ہیں... وہ نہ صرف کھیوڑہ کی نمک کی کانوں کے معلوماتی دورے کا ذکر کرتے ہیں بلکہ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ لوگ ریلوے کو برا کیوں کہتے ہیں... مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ محکماتی کرپشن اور کمزوریاں اپنی جگہ مگر اس بگاڑ زدہ معاشرے میں بھی ابھی تک اچھے کام کرنے والے موجود ہیں، جو نہ صرف اپنے کاموں سے محکموں کا نام روشن کرتے ہیں بلکہ ان کی کاوش ہے کہ ان کے ذریعے ہمارے مستقبل کے معماروں کو ملک کے دور دراز علاقوںمیں چھپی ہوئی خوبصورتیوں سے بھی روشناس کروایا جائے۔ ہم محکموں کی خرابی کا شور تو بڑھ چڑھ کر مچاتے ہیں مگر ہمارا فرض ہے کہ ان ہی محکموں میں اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہو تو اس کا اعتراف اور تعریف ضرور کریں...

ہم PRACS کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور دعا ہے کہ ان کی کاوشیں رنگ لائیں... ان کا نیا منصوبہ اب لاہور سے ایسی ٹرین چلانے کا ہے جن کی منازل کھیوڑہ، چھانگا مانگا اور واہگہ بارڈر ہیں... ہم ان نئی منازل کے مسافر بننے کے منتظر ہیں اور دعا گو کہ اس ملک میں ہر اچھا کام کرنے والے کا پرچار ضرور ہو۔کالم کا اختتام، اسی ٹرین کی ایک دیوار پر لکھی ناصر کاظمی کی نظم پر کرتی ہوں۔

میں تیرے شہر سے پھر گذرا تھا


پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا

کتنی تیز اداس ہوا تھی

دل کا چراغ بجھا جاتا تھا

تیرے شہر کا اسٹیشن بھی

میرے دل کی طرح سونا تھا

میری پیاسی تنہائی پر

آنکھوں کا دریا ہنستا تھا

ریل چلی تو ایک مسافر

مرے سامنے آ بیٹھا تھا

سچ مچ تیرے جیسی آنکھیں

ویسا ہی ہنستا چہرہ تھا

چاندی کا وہی پھول گلے میں

ماتھے پر وہی چاند کھلا تھا

جانے کون تھی اس کی منزل

جانے کیوں تنہا تنہا تھا

کیسے کہوں روداد سفر کی

آگے موڑ جدائی کا تھا
Load Next Story