ارتکاز توجہ کی اہمیت
انسانی عظمت کا سب سے بڑا مظہر، سوچ بچار اور منظم توجہ کا عمل ہے
گزشتہ کالم کا اختتام ''ارتکاز توجہ'' کے موضوع پر ہوا تھا اور اصولاً وہیں سے سلسلہ کلام جوڑا جانا چاہیے تھا لیکن فی الحال ہم بات شروع گے ایک خط سے جو ہمیں گوجرانوالہ سے شیخ محمد انیس نے روانہ کیا ہے۔ پہلے ان کے خط کا اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
''آپ کے کالم میں تحریر تھا کہ خدا نے انسان کو حیرت انگیز صلاحیتیں بخشی ہیں جو صحت و شفا کی مکمل استعداد رکھتی ہیں۔ ایک صحت مند آدمی اپنی شفا بخش قوت سے دوسرے ناتواں اور کمزور آدمی کو تندرست کرسکتا ہے۔ جناب یہ عین حقیقت ہے۔ میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ میں بھی ایسے علاج کرتا ہوں۔ میرے پاس پاکستان بھر سے اور بیرون ملک سے لوگ فون پر رابطہ کرتے ہیں۔ میں مریض کا نام، مریض کی والدہ کا نام، شہر یا ملک کا نام، مریض کی کیفیت وغیرہ معلوم کرکے اپنی توجہ سے، نظر سے مریض کی جانب متوجہ ہوتا ہوں اور وہ کشش، وہ لہریں، وہ روشنی اور مقناطیسی قوت مریض پر منتقل کرتا ہوں کہ مریض کو خواہ کسی بھی قسم کا مرض ہو، کینسر ہو یا دل کے امراض یا کسی بھی قسم کا لاعلاج مرض ہو اﷲ رب العزت شفا عطا فرما دیتے ہیں۔ جناب یہ صلاحیت مجھے اﷲ کریم کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ آپ نے اپنے کالم میں مرض کی نشاندہی تو کردی مگر اس طرح کے روحانی علاج کرنے والے افراد کون ہیں، اس کی وضاحت نہیں کی۔ میں عرصہ 18 سال سے انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہوں۔ حمید اختر مرحوم نے مورخہ 26/6/11 کو اپنے کالم میں میرا ذکر کیا ہے، اسے ضرور پڑھیے اور یہ پاور مجھے کہاں سے حاصل ہوئی، عامر خاکوانی کا کالم ''سیٹیاں بجائو'' 19-03-12 پڑھیں۔ آپ کا کالم لاکھوں افراد پڑھتے ہیں جو آپ کی تحریر سے متفق بھی ہوں گے مگر ان کے ذہن میں یہ سوال ضرور گردش کرے گا کہ وہ کون لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں روحانی علاج کرتے ہیں۔ دھوکے باز تو بہت ہیں۔ اخبار میں لاتعداد اشتہار ہوتے ہیں، بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں مگر ایسے افراد صاحب نظر نہیں ہوتے۔''
شیخ محمد انیس کا یہ کہنا بجا ہے کہ ہم نے اپنے کالموں میں ایسے افراد کی نشاندہی نہیں کی لیکن شاید ہماری وہ تحریر ان کی نظروں سے نہیں گزری جس میں ہم نے خاص ان لوگوں سے استدعا کی تھی کہ اگر پاکستان میں ایسے لوگ جو خارق العادات مظاہر کے مالک ہیں یا قدرت کی جانب سے ودیعت کردہ کچھ اضافی قوتیں رکھتے ہیں تو وہ خلق خدا کی بہتری کے لیے سامنے آئیں۔ ہمیں یقین ہے آپ کے اپنے علاقے گوجرانوالہ کے لوگ بھی آپ سے یقیناً استفادہ کررہے ہوں گے اور جو لوگ آپ سے مستفید ہوچکے ہیں یہ کالم پڑھنے کے بعد شاید وہ ہمیں اپنے تجربے سے آگاہ کرنا پسند کریں۔ آپ نے جن دو رائٹرز کے کالموں کا حوالہ دیا ہے وہ ہم پڑھ چکے ہیں۔ حمید اختر مرحوم کی تحریر سے ظاہر ہے کہ آپ شاید ان کا روحانی علاج کرنا چاہتے تھے، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ فیضیاب ہوسکے یا نہیں کیونکہ آپ سے متعلق ان کا دوسرا کالم نظر سے نہیں گزرا۔
قارئین کے لیے ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ خارق العادات مظاہر اور سپر نیچرل طاقتیں رکھنے والے افراد یقیناً دنیا میں ہیں لیکن قابل مستحسن صرف وہی ہیں جو اپنی صلاحیتوں سے خلق خدا کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ یاد رکھیں حقیقی علم رکھنے والے کبھی روپے پیسے کی لالچ میں نہیں پڑتے اور فی سبیل اﷲ عوام الناس کی مدد کرتے ہیں، اگر اس طرح کا دعویٰ کرنے والے آپ سے پیسوں یا دیگر قیمتی اشیا کا مطالبہ کریں تو سمجھ جائیں کہ وہ دھوکے باز اور فراڈ ہے، علم والے کبھی کالے مرغے یا کالے بکرے کی فرمائش نہیں کرتے، نہ ہی وہ کسی ناجائز کام کے لیے حامی بھرتے ہیں۔ سٹے، جوے یا لاٹری کا نمبر یہ سب علم والوں کی نظر میں غلط ہیں۔ حقیقی عمل کرنے والے کبھی آپ کو شارٹ کٹ سے امیر بننے کا راستہ نہیں دکھائیں گے۔ ہمارا کام عوام کو ایسے جعلی لوگوں سے بچانا ہے، اس لیے بار بار اپنے کالموں میں تنبیہہ کرتے رہتے ہیں، عمل آپ کی اپنی صوابدید پر ہے۔
اور اب سلسلہ کلام گزشتہ کالم سے جوڑتے ہیں کیونکہ ارتکاز توجہ کا موضوع بہرحال وسعت رکھتا ہے اور کئی کالموں کا متقاضی ہے۔
انسانی عظمت کا سب سے بڑا مظہر، سوچ بچار اور منظم توجہ کا عمل ہے۔ حیوانات کی توجہ بھی ادھر ادھر مبذول ہوتی ہے مگر ان کی توجہ کا دائرہ صرف بقائے حیات تک محدود رہتا ہے، یعنی ان کی توجہ صرف ان چیزوں کی طرف مبذول ہوتی ہے جن کی طرف ان کی جبلت اشارہ کرتی ہے مثلاً غذا، دشمن سے بچائو اور ہم جنس کی طرف میلان۔ وہ ایسے کھلونوں کی حیثیت رکھتے ہیں جن میں پہلے سے چابی بھردی گئی ہو، جب تک اس کھولنے کی کمانی کھلتی رہے گی وہ ناچتا رہے گا، اچھلتا رہے گا مگر اس کی اچھل کود مشینی انداز کی ہوگی۔ حیوانات میں جبلت کی اہمیت کمانی اور کنجی جیسی ہے۔ جانور سوچ بچار کے عمل اور منظم توجہ کی اہلیت سے محروم ہیں۔ باضابطہ تفکر اور باقاعدہ توجہ صرف انسان سے مخصوص ہے اور اسی خصوصیت کی زمین میں اس کی لامحدود عظمتوں کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ تعمیر و تنظیم شخصیت اور کردار سازی کی مشقوں میں سانس کے بعد سب سے زیادہ اہمیت ''ارتکاز توجہ'' کے عمل کو حاصل ہے، یعنی دانستہ اپنے شعور کی رو کو صرف ایک طرف بہانا اور کوشش کرنا کہ صرف ایک نقطہ خیال پر ذہن کی تمام سرگرمیاں سمٹ آئیں۔
ذہن کو صرف ایک موضوع، مضمون اور مرکز پر مبذول کردینا، اس طرح کہ دوسرا خیال نہ آنے پائے اور مرکزی تصور کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پائے، اتنا مشکل اور دقت طلب کام ہے کہ خدا کی پناہ، مگر مشکل اور دقت طلب کے معنی ''ناممکن'' نہیں ہیں۔ بے شک ہم میں یہ اہلیت موجود ہے کہ جس طرح ہم آنکھوں کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ پانچ منٹ تک صرف ایک منظر کو دیکھتی رہیں، اسی طرح ذہن کو بھی یہ تربیت دی جاسکتی ہے کہ وہ ادھر ادھر بھٹکنے کے بجائے صرف ایک مرکز خیال سے چمٹا رہے۔ تعمیر و تنظیم شخصیت اور کردار سازی میں ارتکاز توجہ کی بہت سی مشقوں کی سفارش کی جاتی ہے، البصیر، التجلی، التسخیر، التصویر، عکس بینی، سایہ بینی، ماہ بینی اور آفتاب بینی، یہ سب مشقیں ''ارتکاز توجہ'' کے لیے کی جاتی ہیں۔
ایک نقطے پر ذہن کی تمام فعالیت اور سرگرمی کو مرکوز کردینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عملی شعور کی رو سست پڑ جاتی ہے اور استغراق یعنی ڈوب جانے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، انسان میں E.S.P (ادراک ماورائے حواس) Extra Sensory Receptions (وہ ادراک جو حواس خمسہ کے بجائے کسی بلند تر ذریعے سے حاصل ہو) کی صلاحیتیں جاگنے لگتی ہیں۔
''آپ کے کالم میں تحریر تھا کہ خدا نے انسان کو حیرت انگیز صلاحیتیں بخشی ہیں جو صحت و شفا کی مکمل استعداد رکھتی ہیں۔ ایک صحت مند آدمی اپنی شفا بخش قوت سے دوسرے ناتواں اور کمزور آدمی کو تندرست کرسکتا ہے۔ جناب یہ عین حقیقت ہے۔ میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ میں بھی ایسے علاج کرتا ہوں۔ میرے پاس پاکستان بھر سے اور بیرون ملک سے لوگ فون پر رابطہ کرتے ہیں۔ میں مریض کا نام، مریض کی والدہ کا نام، شہر یا ملک کا نام، مریض کی کیفیت وغیرہ معلوم کرکے اپنی توجہ سے، نظر سے مریض کی جانب متوجہ ہوتا ہوں اور وہ کشش، وہ لہریں، وہ روشنی اور مقناطیسی قوت مریض پر منتقل کرتا ہوں کہ مریض کو خواہ کسی بھی قسم کا مرض ہو، کینسر ہو یا دل کے امراض یا کسی بھی قسم کا لاعلاج مرض ہو اﷲ رب العزت شفا عطا فرما دیتے ہیں۔ جناب یہ صلاحیت مجھے اﷲ کریم کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ آپ نے اپنے کالم میں مرض کی نشاندہی تو کردی مگر اس طرح کے روحانی علاج کرنے والے افراد کون ہیں، اس کی وضاحت نہیں کی۔ میں عرصہ 18 سال سے انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہوں۔ حمید اختر مرحوم نے مورخہ 26/6/11 کو اپنے کالم میں میرا ذکر کیا ہے، اسے ضرور پڑھیے اور یہ پاور مجھے کہاں سے حاصل ہوئی، عامر خاکوانی کا کالم ''سیٹیاں بجائو'' 19-03-12 پڑھیں۔ آپ کا کالم لاکھوں افراد پڑھتے ہیں جو آپ کی تحریر سے متفق بھی ہوں گے مگر ان کے ذہن میں یہ سوال ضرور گردش کرے گا کہ وہ کون لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں روحانی علاج کرتے ہیں۔ دھوکے باز تو بہت ہیں۔ اخبار میں لاتعداد اشتہار ہوتے ہیں، بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں مگر ایسے افراد صاحب نظر نہیں ہوتے۔''
شیخ محمد انیس کا یہ کہنا بجا ہے کہ ہم نے اپنے کالموں میں ایسے افراد کی نشاندہی نہیں کی لیکن شاید ہماری وہ تحریر ان کی نظروں سے نہیں گزری جس میں ہم نے خاص ان لوگوں سے استدعا کی تھی کہ اگر پاکستان میں ایسے لوگ جو خارق العادات مظاہر کے مالک ہیں یا قدرت کی جانب سے ودیعت کردہ کچھ اضافی قوتیں رکھتے ہیں تو وہ خلق خدا کی بہتری کے لیے سامنے آئیں۔ ہمیں یقین ہے آپ کے اپنے علاقے گوجرانوالہ کے لوگ بھی آپ سے یقیناً استفادہ کررہے ہوں گے اور جو لوگ آپ سے مستفید ہوچکے ہیں یہ کالم پڑھنے کے بعد شاید وہ ہمیں اپنے تجربے سے آگاہ کرنا پسند کریں۔ آپ نے جن دو رائٹرز کے کالموں کا حوالہ دیا ہے وہ ہم پڑھ چکے ہیں۔ حمید اختر مرحوم کی تحریر سے ظاہر ہے کہ آپ شاید ان کا روحانی علاج کرنا چاہتے تھے، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ فیضیاب ہوسکے یا نہیں کیونکہ آپ سے متعلق ان کا دوسرا کالم نظر سے نہیں گزرا۔
قارئین کے لیے ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ خارق العادات مظاہر اور سپر نیچرل طاقتیں رکھنے والے افراد یقیناً دنیا میں ہیں لیکن قابل مستحسن صرف وہی ہیں جو اپنی صلاحیتوں سے خلق خدا کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ یاد رکھیں حقیقی علم رکھنے والے کبھی روپے پیسے کی لالچ میں نہیں پڑتے اور فی سبیل اﷲ عوام الناس کی مدد کرتے ہیں، اگر اس طرح کا دعویٰ کرنے والے آپ سے پیسوں یا دیگر قیمتی اشیا کا مطالبہ کریں تو سمجھ جائیں کہ وہ دھوکے باز اور فراڈ ہے، علم والے کبھی کالے مرغے یا کالے بکرے کی فرمائش نہیں کرتے، نہ ہی وہ کسی ناجائز کام کے لیے حامی بھرتے ہیں۔ سٹے، جوے یا لاٹری کا نمبر یہ سب علم والوں کی نظر میں غلط ہیں۔ حقیقی عمل کرنے والے کبھی آپ کو شارٹ کٹ سے امیر بننے کا راستہ نہیں دکھائیں گے۔ ہمارا کام عوام کو ایسے جعلی لوگوں سے بچانا ہے، اس لیے بار بار اپنے کالموں میں تنبیہہ کرتے رہتے ہیں، عمل آپ کی اپنی صوابدید پر ہے۔
اور اب سلسلہ کلام گزشتہ کالم سے جوڑتے ہیں کیونکہ ارتکاز توجہ کا موضوع بہرحال وسعت رکھتا ہے اور کئی کالموں کا متقاضی ہے۔
انسانی عظمت کا سب سے بڑا مظہر، سوچ بچار اور منظم توجہ کا عمل ہے۔ حیوانات کی توجہ بھی ادھر ادھر مبذول ہوتی ہے مگر ان کی توجہ کا دائرہ صرف بقائے حیات تک محدود رہتا ہے، یعنی ان کی توجہ صرف ان چیزوں کی طرف مبذول ہوتی ہے جن کی طرف ان کی جبلت اشارہ کرتی ہے مثلاً غذا، دشمن سے بچائو اور ہم جنس کی طرف میلان۔ وہ ایسے کھلونوں کی حیثیت رکھتے ہیں جن میں پہلے سے چابی بھردی گئی ہو، جب تک اس کھولنے کی کمانی کھلتی رہے گی وہ ناچتا رہے گا، اچھلتا رہے گا مگر اس کی اچھل کود مشینی انداز کی ہوگی۔ حیوانات میں جبلت کی اہمیت کمانی اور کنجی جیسی ہے۔ جانور سوچ بچار کے عمل اور منظم توجہ کی اہلیت سے محروم ہیں۔ باضابطہ تفکر اور باقاعدہ توجہ صرف انسان سے مخصوص ہے اور اسی خصوصیت کی زمین میں اس کی لامحدود عظمتوں کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ تعمیر و تنظیم شخصیت اور کردار سازی کی مشقوں میں سانس کے بعد سب سے زیادہ اہمیت ''ارتکاز توجہ'' کے عمل کو حاصل ہے، یعنی دانستہ اپنے شعور کی رو کو صرف ایک طرف بہانا اور کوشش کرنا کہ صرف ایک نقطہ خیال پر ذہن کی تمام سرگرمیاں سمٹ آئیں۔
ذہن کو صرف ایک موضوع، مضمون اور مرکز پر مبذول کردینا، اس طرح کہ دوسرا خیال نہ آنے پائے اور مرکزی تصور کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پائے، اتنا مشکل اور دقت طلب کام ہے کہ خدا کی پناہ، مگر مشکل اور دقت طلب کے معنی ''ناممکن'' نہیں ہیں۔ بے شک ہم میں یہ اہلیت موجود ہے کہ جس طرح ہم آنکھوں کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ پانچ منٹ تک صرف ایک منظر کو دیکھتی رہیں، اسی طرح ذہن کو بھی یہ تربیت دی جاسکتی ہے کہ وہ ادھر ادھر بھٹکنے کے بجائے صرف ایک مرکز خیال سے چمٹا رہے۔ تعمیر و تنظیم شخصیت اور کردار سازی میں ارتکاز توجہ کی بہت سی مشقوں کی سفارش کی جاتی ہے، البصیر، التجلی، التسخیر، التصویر، عکس بینی، سایہ بینی، ماہ بینی اور آفتاب بینی، یہ سب مشقیں ''ارتکاز توجہ'' کے لیے کی جاتی ہیں۔
ایک نقطے پر ذہن کی تمام فعالیت اور سرگرمی کو مرکوز کردینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عملی شعور کی رو سست پڑ جاتی ہے اور استغراق یعنی ڈوب جانے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، انسان میں E.S.P (ادراک ماورائے حواس) Extra Sensory Receptions (وہ ادراک جو حواس خمسہ کے بجائے کسی بلند تر ذریعے سے حاصل ہو) کی صلاحیتیں جاگنے لگتی ہیں۔