سائنسی جرنلز کا کرپشن
آج کے سائنسدانوں کا کام سائنسی تحقیق کے بجائے صرف یہ رہ گیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح خود کو مارکیٹ کا بندہ بنالیں
کارل سیگان (9 نومبر 1934۔ 20 دسمبر 1996) کو اپنی آخری کتاب ''دی ڈیمن ہنٹڈ ورلڈ'' میں بڑا سخت موقف اختیارکرنا پڑا کہ سائنس کو سچائی ہی اختیار کرنی ہوگی مبادا ہم جدید تاریکی کے نئے عہد میں داخل ہوجائیں۔
تازہ ترین اعداد و شمار ابھی سامنے نہیں۔ 2007 کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر سائنسی ترقی اور تحقیق پر 12 کھرب امریکی ڈالرکے مساوی رقم خرچ کی گئی۔ آج عالمی سطح پر جی ڈی پی کا 2.04 فی صد سائنس پر خرچ ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ اخراجات جنوبی کوریا کرتا ہے یعنی اپنے جی ڈی پی کا 3.7 فی صد۔ دوسرا نمبر جاپان اور تیسرا امریکا کا ہے۔ تحقیق اور سائنس کے نام پر یقیناً یہ بہت زیادہ اخراجات ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سرمایہ داریت اور کرپشن ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں بدعنوانی کی بیخ کنی ہوسکے۔ ''ڈاٹ کنکٹر میگزین'' نے اپنا والیوم 14 سائنسی بدعنوانی کے حوالے سے شائع کیا تھا۔ اس رسالے نے معروف مصنفہ ''لارا۔ نائٹ جیڈزک'' کا مضمون اپنے متذکرہ بالا والیوم 14 میں شائع کیا ہے۔ آپ 13 سے زائد کتب کی مصنفہ ہیں جو سائنسی موضوعات سے متعلق ہیں۔ آپ کے شوہر ایک طبیعات دان ہیں اور آپ دونوں کی اکثر آرا کو سائنسی دنیا میں عجیب سمجھا گیا۔ آپ لکھتی ہیں کہ ''سائنس یا سائنس دانوں کی بدعنوانیاں آج کے دور کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ انسانی نسل کے لیے اسی درجے خطرناک بھی ہے۔ اس کی خطرناکی کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ اس کے نتائج و عواقب نسل انسانی کی معدومی پر بھی منتج ہوسکتے ہیں۔''
سائنس کی تحقیق میں سائنسی جریدوں (جرنلز) کی بہت اہمیت ہے۔ ہر تحقیق کنندہ اور سائنس دان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کے زیادہ سے زیادہ مضامین سائنسی جرنلز میں شائع ہو سکیں۔ نیز ان مضامین کا ''امپیکٹ فیکٹر'' یا '' آئی ایف'' بھی اچھا ہونا چاہیے۔ اگلے وقتوں میں سائنسی تحقیق کاروں کے لیے اور سائنس دانوں کے لیے یہ امر اس درجے اہم نہیں ہوا کرتا تھا کہ آپ کس کس سائنسی جرنل میں شائع ہوئے ہیں اور ہوتے ہیں۔ آج کے ''کنزیومرازم'' اور ''کمرشل ازم'' نے بڑی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ ''فنڈنگ باڈیز'' ان ہی تحقیق کاروں کو ''گرانٹ'' فراہم کرتے ہیں جو باقاعدگی سے بڑے سائنسی جرنلز میں شائع ہوتے ہوں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یونی ورسٹی آف کیمبرج کے پروفیسر ایمریطس پیٹر لارنس نے کہا کہ یہ منشی گیری والا ذہن ہے جو سائنسی عمل کو کرپشن زدہ کیے دے رہا ہے۔ پروفیسر لارنس خود ایک سائنسی جرنل کے مدیر ہیں اور آپ ایک اعلیٰ سطح کے تحقیق کنندہ بھی ہیں۔
آپ نے اس عمل کی وضاحت ایک دلچسپ مثال سے کی آپ نے کہا کہ اس طرح کی جانچ کا پیمانہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی اسپتال کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ وہاں کتنی مستعدی سے فون کا جواب دیا جاتا ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ ''گرانٹس کا ملنا کبھی ماضی میں بھی بے نقص نہیں تھا۔ لیکن اس وقت وہ لوگ کیا کرتے تھے جو ریسرچ جرنل پڑھ کر یہ دیکھتے تھے کہ اس میں حقیقی تحقیق کا کرنٹ ہے یا نہیں، ضابطے کی کتنی پابندیاں روا رکھی گئی ہیں نیز دلیل کی صحت و معیار کیا ہے۔ اب یہ طریق کم و بیش متروک ہی ہوگیا ہے ۔ اب تو صرف دیکھا جاتا ہے کہ اس تحقیق کو کتنی مرتبہ حوالوں کے طور پر پیش کیا گیا۔ کتنے دیگر تحقیق کاروں نے اپنے اپنے تحقیقی مقالوں میں اس کا حوالہ درج کیا۔ اس سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ یہ تحقیق کتنی وقیع ہے لیکن یہ طریقہ کار گرانٹ دینے والوں کے علاوہ سائنس دانوں کے درمیان بار نہ پاسکا۔ حوالہ جاتی معیار (سائی ٹیشن) سے جانچ سے یہ تو اندازہ کیا جاسکتا ہے فلاں تحقیقی مضمون فیشن میں داخل ہے یا فلاں تحقیقی میدان کو تحقیق کے لیے زیادہ سرمایہ مل رہا ہے لیکن اس طریق کا اصل سائنسی تحقیق سے کوئی تعلق نہیں۔
آج کے دور کے سائنسدانوں کا کام سائنسی تحقیق کے بجائے صرف یہ رہ گیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح خود کو مارکیٹ کا بندہ بنالیں۔ کچھ اس طرح سے خود کو مارکیٹ کے مطابق ڈھال لیں کہ انھیں زیادہ سے زیادہ گرانٹس مل سکیں۔ وہ خود کو ایک ایسی ٹکسال بنالیں جو مہیا ذرائع سے زیادہ سے زیادہ رقم کشید کرسکے۔ آج کے بڑے تحقیق کار اسے سائنس کی تباہی پر محمول کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیسے کمانا ایک الگ دھندا ہے اور سائنس کے میدان میں حقیقی تحقیق ایک بالکل ہی مختلف چیز ہے۔ دور حاضر نے سائنس دانوں اور سائنسی تحقیق کو بھی آلودہ کردیا ہے۔ آج کے سائنس دانوں کی اولین ترجیح خود کو مارکیٹ کرنا قرار پاتا ہے نہ کہ سائنسی تحقیق۔ اس مقصد کے لیے سائنسی تحقیقی جرنل خوب ہی آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور آلہ کار پھانس رہے ہیں۔ ''سائی ٹیشن'' اور ''آئی ایف'' کے گورکھ دھندے میں الجھا کر سائنس کو تو منہ کے بل گرا دیا گیا ہے وہ خود بھی خوب خوب پیسے کما رہے ہیں تو نام نہاد سائنس دانوں کو بھی خوب ہی پیسے دلوا رہے ہیں۔ یوں سائنسی کرپشن کے نئے در وا ہوئے چلے جارہے ہیں۔
کچھ ہی دن قبل نوبل انعام یافتہ ماہر حیاتیات ''رینڈی شیک مین'' نے سائنسی جریدوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ آپ کا کہنا ہے کہ بڑے جرنلز میں اشاعت کے لیے تحقیق کار واقعی اور اہم کام انجام دینے کے بجائے وقت کا ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ڈاکٹر شیک مین کے مطابق بڑے جرنلز میں شائع ہونے والے ''چائنیز اکیڈمی آف سائنسز'' سے مصنفین کو 30 ہزار ڈالر کے مساوی مشاہرہ ملا کرتا ہے۔ کچھ تحقیق کاروں کی نصف آمدنی اسی قسم کی ''رشوتوں'' پر مشتمل ہوتی ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ سائنسی تحقیق کے بڑے بڑے جرنلز (جریدوں) نے سائنسی تحقیقی عمل کو شدید زک پہنچائی ہے۔ اس استبداد کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ اسی برس عضویات یا طب میں ''نوبل'' انعام پانے والے ڈاکٹر شیک مین کے اس بیان سے نہ صرف یہ کہ سائنسی حلقوں میں بلکہ عام افراد کے لیے بھی جو سائنس سے دلچسپی رکھتے ہیں ایک دھچکے سے کم نہیں۔ آپ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ میں اب سے قبل بڑے سائنسی جرنلز میں چھپا ہوں، ایسے جریدوں میں بھی جن کی بنا پر ''نوبل انعام '' میرے لیے سہل بنا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ میں اور میرے ادارے سے وابستہ افراد ان بڑے ناموں کے لیے کوئی کام نہیں کریں گے۔ آپ کی تنقید کا ہدف سب سے زیادہ معروف سائنسی جریدہ '' نیچر'' بنا۔
یہ دور جدید کے انسان کا المیہ ہے کہ وہ تمام انسانوں کو عمر بھر ایسے خوابوں میں الجھائے رکھتا ہے جو کبھی بھی ممکن العمل نہیں ہوتے۔ شاہ رخ، سلمان اور عامر خان بننے کے لیے، شاہد آفریدی اور انضمام بننے کے لیے ہر برس لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ یہی کچھ سائنس کی دنیا میں بھی ہو رہا ہے۔