یہ زمیں تو حسین ہے بے حد
ہمارا ملک قرآن پاک کی سورہ رحمن کا ہو بہو نقشہ ہے
ہمارا ملک قرآن پاک کی سورہ رحمن کا ہو بہو نقشہ ہے۔ سورہ رحمن مدینہ میں نازل ہوئی اس کی اٹھہتر آیتیں ہیں اور تین رکوع۔ میں اللہ کی ان نعمتوں کا ذکر کروں گا جو اس نے اپنے بندوں کے لیے بنائیں سورج اور چاند اور جھاڑ، درخت، آسمان کو اونچا کیا اور زمین کو خلق کے لیے بچھایا، زمین میں میوے ہیں،کھجوریں جن کے میوے پر غلاف اناج ہے اور اس کے ساتھ بھس ہے۔ اور پھول خوشبودار، آدمی کو بنایا کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا۔ چلائے دو دریا مل کر چلنے والے، ان دونوں میں ایک پردہ، جو ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرے اور ان دونوں دریاؤں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں اور جہاز اونچے کھڑے ہوئے جیسے دریا میں پہاڑ، باغ، بہت سی شاخوں والے، بہتے چشمے، میووں کے جھکے ہوئے باغ، گہرے سبز باغ اور ان میں میوے کھجوریں اور انار ہیں۔
اللہ نے اپنی جن نعمتوں کا سورہ رحمن میں ذکر کیا ہے۔ ان میں کون سی نعمت ہے جو ہمیں حاصل نہیں ہے۔ چمکتا دمکتا سورج، اجالے بکھیرتا، اندھیروں کو دھکیلتا، ہماری فصلوں کو طاقت بخشتا، گندم، مکئی، گنا، کھجور (جس کا ذکر سورہ رحمن میں ہے) آم، ان تمام فصلوں کو سورج پکاتا ہے اور ہم اعلیٰ گندم، چاول، کھجور اور آم بیرون ملک دنیا بھر میں بھجواتے اور کثیر زر مبادلہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے۔ زمین میں فصلیں بوتے ہاتھ خالی ہی رہتے ہیں اور سارا مال منافع جاگیردار، وڈیرا، خان، سردار ہڑپ کر جاتا ہے۔ اللہ نے اسی سورہ رحمن میں کہا ہے کہ ''زمین پر عدل قائم کرو، ترازو سیدھی رکھو، انصاف سے تولو اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرو۔''
ابھی تین روز پہلے حیدر آباد جانا ہوا، سپر ہائی وے پر گاؤں گوٹھوں کے غریب ہاری، مزدور اور ان کی عورتیں، بچیاں وہی کالے، ہرے، نیلے، پیلے رنگ کے بوسیدہ کپڑے پہنے نظر آئے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی یہی مناظر ہیں۔ اللہ نے سورہ رحمن میں اپنی نعمتوں کے بیان کے ساتھ انصاف کے لیے ترازو سیدھا رکھنے کا بھی حکم دیا ہے، جو نہیں رکھا جاتا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے یوں ہی تو نہیں کہا ہے:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
سورہ رحمن میں چاند کا ذکر بھی ہے۔ چاند غریب کے کچے گھر اور امیر کے محل ماڑیوں سے یکساں نظر آتا، سورج اور چاند اللہ نے اپنے اختیار میں رکھے ہیں۔ پھر اللہ فرماتا ہے کہ جھاڑ، درخت، پھول خوشبودار، بہت سی شاخوں والے باغ، پھلوں سے لدے پھندے جھکے جھکے درخت اور پودے اور بہتے چشمے۔ اللہ نے چلائے دو دریا، مل کر چلنے والے اور دونوں میں ایک پردہ اور دریاؤں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں اللہ نے ہی پہاڑ بنائے۔
اللہ کی یہ تمام نعمتیں ہمیں حاصل ہیں۔ ملک کا شمالی حصہ ہرے بھرے پہاڑوں کی سرزمین ہے، ان ہی پہاڑوں کی گھاٹیوں، ڈھلوانوں پر دنیا کے لذیذ ترین پھلوں کے باغات ہیں جن کی شاخیں جھکی ہوئی ہیں، ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے ہیں، برف سے ڈھکے پہاڑوں کے سلسلے ہیں، دنیا کے بلند ترین پہاڑ ہمارے پاس ہیں، یہی پہاڑ ہمارے دریاؤں کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ جنت نظیر جھیل سیف الملوک جہاں پریوں کا مسکن ہے۔ سوات، کاغان، چترال اور اردگرد پھیلی دنیا کی خوبصورت وادیاں مگر یہاں بھی ''چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے زندگی'' اور وہ '' چھین لیتے جب چاہتے ہیں خوشی'' ان جنت نظیر وادیوں میں پھول سے بچے بچیاں زندگی کی خوشیوں سے محروم حسرت و یاس کی تصویر بنے زندگی گزارتے ہیں۔ ان وادیوں کے اسکول جلا دیے گئے، بموں سے اڑا دیے گئے چھلنی ہیں کلیوں کے سینے، خون میں لت پت پتے، بارود کی بو،گولیوں کی سنسناہٹ اور امریکی ڈرون حملے۔ اب یہاں حسین وادیوں میں پربتوں کی شہزادیاں، بھیڑ بکریاں چراتی نظر نہیں آتیں۔ جانور ڈرے ہوئے سہمے ہوئے دبک کر بیٹھے رہتے ہیں اور شہزادیاں بھی اداس، چپ چاپ، سروں پر منڈلاتے ڈرون دیکھتی رہتی ہیں۔ گلاب چہرے ویران ہیں۔ اللہ کہتا ہے ''تم میری کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے'' اے اللہ! ہم نے تیری نعمتوں کو جھٹلایا نہیں، ٹھکرایا ہے۔ ترازو سیدھا نہیں رکھا، جھوک مارنا ہمارا وطیرہ بن چکا، غریب تو محض جینے کا حق مانگتا ہے، مگر جینے کا حق سامراج اور اس کے حواریوں نے چھین لیا ہے اور لوگ مرنے کا حق استعمال کر رہے ہیں۔
بلوچستان! قدرتی معدنیات سے مالا مال خطہ زمین، گیس اور تیل کے ذخائر، سونے کے پہاڑ اور قیمتی پتھر مگر ان قیمتی ذخائر کے مالک عوام، عورتیں، مرد، جوان بچے بچیاں ساڑھے سات سو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے کراچی آئے ہوئے ہیں۔ پہاڑوں جیسے مضبوط عزم استقلال کے مالک یہ لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں دردرکی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کوئی بیٹا ہے، کوئی بھائی ہے، کوئی باپ ہے، کوئی شوہر ہے، مگر ان کا کوئی پتا نشان نہیں مل رہا، نہ ہی کوئی بتانے کو تیار ہے۔ حکومتیں بدل گئیں، مگر ''اصل حکمران'' اپنی جگہ موجود ہیں۔ وہ کہیں نہیں گئے۔ اس سے پہلے ہم حسین آنکھوں اور مدھر گیتوں کے سندر دیس کو کھو چکے ہیں۔ اب ہم اللہ کی نعمتوں سے مالا مال بلوچستان میں بھی وہی کھیل کھیل رہے ہیں جس کی وجہ سے آدھے سے زیادہ وطن نے گنوا دیا تھا حبیب جالب چیختا چلاتا چلا گیا۔
ان ہی چلن پر ہم سے جدا بنگال ہوا
پوچھ نہ اس دکھ پر جو دل کا حال ہوا
قاتل ہیں اسباب کہ پاکستان چلا
کراچی پریس کلب کے باہر بلوچستان سے پیدل چل کر آنے والے لاپتا افراد کے اہل خانہ جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں کچھ روز احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ، اب ان کا قافلہ اسلام آباد کی طرف چل پڑا ہے جہاں وہ اقوام متحدہ کے دفتر اور سرکاری اداروں کے باہر احتجاج کریں گے۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری مسلسل اہل معاملہ کو بلاتے رہے، لیکن کوئی پیش نہیں ہوا۔ بلوچ مرد، عورتیں، جوان، بچے، بچیاں سچ بول رہے ہیں۔ سچ! جوکڑوا ہوتا ہے۔ بلوچ کے بہتے آنسو پونچھ لو ، ورنہ پھر سے حشر برپا ہوگا۔ میں کیا کہوں، کیا لکھوں؟ حاصل بزنجو نے سب کچھ بتا دیا ہے۔ اور پورے پاکستان نے سن لیا ہے، اب ڈھکا چھپا کچھ نہیں رہا، جو کچھ سامنے ہے وہ بہت بھیانک ہے، انجام کیا ہوگا! سب سمجھتے ہیں مگر سب چپ ہیں۔
زخموں سے چور چور ہیں اشجار کے بدن
ہے پھر ہوا کے ہاتھ میں خنجر کھلا ہوا
اللہ کی کتاب میں سورہ رحمن اور اس کی تصویر ہمارا پاکستان جہاں ڈرون ہیں، دہشت گرد ہیں، اسلحے کے انبار ہیں، بھتے کی پرچیاں ہیں، قاتل دندناتے پھر رہے ہیں، عبادت گاہیں محفوظ نہیں، بازار محفوظ نہیں، درس گاہیں محفوظ نہیں اور مجرموں کو پکڑنے والا کوئی نہیں۔ آپریشن جاری ہے، ایک صوبائی وزیر کہتے ہیں ''آپریشن چھ سال بھی جاری رہ سکتا ہے'' یہ کیسا بیان ہے؟
چلو یوں ہی سہی وحشتیں تو اب اپنا مقدر ہوچکی ہیں، پریس کلب کراچی کے باہر بیٹھے بلوچ میرے ذہن و دل سے محو نہیں ہو رہے،ظلم کے جو پہاڑ ان پر توڑے گئے ہیں اس کے بعد اب کسی دہشت سے، وحشت سے کیا گھبرانا! فاٹا میں جن جمہوریت و ریاست دشمنوں نے ہمارے جوانوں کے سر کاٹے ان سے مکالمہ کی بے قراری ہے اور بولان کے کوہساروں سے ایسی بے رخی!جالب کے تین شعر آپ کی نذر،
یہ زمیں تو حسیں ہے بے حد
حکمرانوں کی نیتیں ہیں بد
حکمراں جب تلک ہیں یہ بے درد
اس زمیں کا رہے گا چہرہ زرد
یہ زمیں جب تلک نہ لیں گے ہم
اس سے اگتے رہیں گے یوں ہی غم
اللہ نے اپنی جن نعمتوں کا سورہ رحمن میں ذکر کیا ہے۔ ان میں کون سی نعمت ہے جو ہمیں حاصل نہیں ہے۔ چمکتا دمکتا سورج، اجالے بکھیرتا، اندھیروں کو دھکیلتا، ہماری فصلوں کو طاقت بخشتا، گندم، مکئی، گنا، کھجور (جس کا ذکر سورہ رحمن میں ہے) آم، ان تمام فصلوں کو سورج پکاتا ہے اور ہم اعلیٰ گندم، چاول، کھجور اور آم بیرون ملک دنیا بھر میں بھجواتے اور کثیر زر مبادلہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے۔ زمین میں فصلیں بوتے ہاتھ خالی ہی رہتے ہیں اور سارا مال منافع جاگیردار، وڈیرا، خان، سردار ہڑپ کر جاتا ہے۔ اللہ نے اسی سورہ رحمن میں کہا ہے کہ ''زمین پر عدل قائم کرو، ترازو سیدھی رکھو، انصاف سے تولو اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرو۔''
ابھی تین روز پہلے حیدر آباد جانا ہوا، سپر ہائی وے پر گاؤں گوٹھوں کے غریب ہاری، مزدور اور ان کی عورتیں، بچیاں وہی کالے، ہرے، نیلے، پیلے رنگ کے بوسیدہ کپڑے پہنے نظر آئے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی یہی مناظر ہیں۔ اللہ نے سورہ رحمن میں اپنی نعمتوں کے بیان کے ساتھ انصاف کے لیے ترازو سیدھا رکھنے کا بھی حکم دیا ہے، جو نہیں رکھا جاتا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے یوں ہی تو نہیں کہا ہے:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
سورہ رحمن میں چاند کا ذکر بھی ہے۔ چاند غریب کے کچے گھر اور امیر کے محل ماڑیوں سے یکساں نظر آتا، سورج اور چاند اللہ نے اپنے اختیار میں رکھے ہیں۔ پھر اللہ فرماتا ہے کہ جھاڑ، درخت، پھول خوشبودار، بہت سی شاخوں والے باغ، پھلوں سے لدے پھندے جھکے جھکے درخت اور پودے اور بہتے چشمے۔ اللہ نے چلائے دو دریا، مل کر چلنے والے اور دونوں میں ایک پردہ اور دریاؤں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں اللہ نے ہی پہاڑ بنائے۔
اللہ کی یہ تمام نعمتیں ہمیں حاصل ہیں۔ ملک کا شمالی حصہ ہرے بھرے پہاڑوں کی سرزمین ہے، ان ہی پہاڑوں کی گھاٹیوں، ڈھلوانوں پر دنیا کے لذیذ ترین پھلوں کے باغات ہیں جن کی شاخیں جھکی ہوئی ہیں، ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے ہیں، برف سے ڈھکے پہاڑوں کے سلسلے ہیں، دنیا کے بلند ترین پہاڑ ہمارے پاس ہیں، یہی پہاڑ ہمارے دریاؤں کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ جنت نظیر جھیل سیف الملوک جہاں پریوں کا مسکن ہے۔ سوات، کاغان، چترال اور اردگرد پھیلی دنیا کی خوبصورت وادیاں مگر یہاں بھی ''چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے زندگی'' اور وہ '' چھین لیتے جب چاہتے ہیں خوشی'' ان جنت نظیر وادیوں میں پھول سے بچے بچیاں زندگی کی خوشیوں سے محروم حسرت و یاس کی تصویر بنے زندگی گزارتے ہیں۔ ان وادیوں کے اسکول جلا دیے گئے، بموں سے اڑا دیے گئے چھلنی ہیں کلیوں کے سینے، خون میں لت پت پتے، بارود کی بو،گولیوں کی سنسناہٹ اور امریکی ڈرون حملے۔ اب یہاں حسین وادیوں میں پربتوں کی شہزادیاں، بھیڑ بکریاں چراتی نظر نہیں آتیں۔ جانور ڈرے ہوئے سہمے ہوئے دبک کر بیٹھے رہتے ہیں اور شہزادیاں بھی اداس، چپ چاپ، سروں پر منڈلاتے ڈرون دیکھتی رہتی ہیں۔ گلاب چہرے ویران ہیں۔ اللہ کہتا ہے ''تم میری کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے'' اے اللہ! ہم نے تیری نعمتوں کو جھٹلایا نہیں، ٹھکرایا ہے۔ ترازو سیدھا نہیں رکھا، جھوک مارنا ہمارا وطیرہ بن چکا، غریب تو محض جینے کا حق مانگتا ہے، مگر جینے کا حق سامراج اور اس کے حواریوں نے چھین لیا ہے اور لوگ مرنے کا حق استعمال کر رہے ہیں۔
بلوچستان! قدرتی معدنیات سے مالا مال خطہ زمین، گیس اور تیل کے ذخائر، سونے کے پہاڑ اور قیمتی پتھر مگر ان قیمتی ذخائر کے مالک عوام، عورتیں، مرد، جوان بچے بچیاں ساڑھے سات سو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے کراچی آئے ہوئے ہیں۔ پہاڑوں جیسے مضبوط عزم استقلال کے مالک یہ لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں دردرکی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کوئی بیٹا ہے، کوئی بھائی ہے، کوئی باپ ہے، کوئی شوہر ہے، مگر ان کا کوئی پتا نشان نہیں مل رہا، نہ ہی کوئی بتانے کو تیار ہے۔ حکومتیں بدل گئیں، مگر ''اصل حکمران'' اپنی جگہ موجود ہیں۔ وہ کہیں نہیں گئے۔ اس سے پہلے ہم حسین آنکھوں اور مدھر گیتوں کے سندر دیس کو کھو چکے ہیں۔ اب ہم اللہ کی نعمتوں سے مالا مال بلوچستان میں بھی وہی کھیل کھیل رہے ہیں جس کی وجہ سے آدھے سے زیادہ وطن نے گنوا دیا تھا حبیب جالب چیختا چلاتا چلا گیا۔
ان ہی چلن پر ہم سے جدا بنگال ہوا
پوچھ نہ اس دکھ پر جو دل کا حال ہوا
قاتل ہیں اسباب کہ پاکستان چلا
کراچی پریس کلب کے باہر بلوچستان سے پیدل چل کر آنے والے لاپتا افراد کے اہل خانہ جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں کچھ روز احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ، اب ان کا قافلہ اسلام آباد کی طرف چل پڑا ہے جہاں وہ اقوام متحدہ کے دفتر اور سرکاری اداروں کے باہر احتجاج کریں گے۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری مسلسل اہل معاملہ کو بلاتے رہے، لیکن کوئی پیش نہیں ہوا۔ بلوچ مرد، عورتیں، جوان، بچے، بچیاں سچ بول رہے ہیں۔ سچ! جوکڑوا ہوتا ہے۔ بلوچ کے بہتے آنسو پونچھ لو ، ورنہ پھر سے حشر برپا ہوگا۔ میں کیا کہوں، کیا لکھوں؟ حاصل بزنجو نے سب کچھ بتا دیا ہے۔ اور پورے پاکستان نے سن لیا ہے، اب ڈھکا چھپا کچھ نہیں رہا، جو کچھ سامنے ہے وہ بہت بھیانک ہے، انجام کیا ہوگا! سب سمجھتے ہیں مگر سب چپ ہیں۔
زخموں سے چور چور ہیں اشجار کے بدن
ہے پھر ہوا کے ہاتھ میں خنجر کھلا ہوا
اللہ کی کتاب میں سورہ رحمن اور اس کی تصویر ہمارا پاکستان جہاں ڈرون ہیں، دہشت گرد ہیں، اسلحے کے انبار ہیں، بھتے کی پرچیاں ہیں، قاتل دندناتے پھر رہے ہیں، عبادت گاہیں محفوظ نہیں، بازار محفوظ نہیں، درس گاہیں محفوظ نہیں اور مجرموں کو پکڑنے والا کوئی نہیں۔ آپریشن جاری ہے، ایک صوبائی وزیر کہتے ہیں ''آپریشن چھ سال بھی جاری رہ سکتا ہے'' یہ کیسا بیان ہے؟
چلو یوں ہی سہی وحشتیں تو اب اپنا مقدر ہوچکی ہیں، پریس کلب کراچی کے باہر بیٹھے بلوچ میرے ذہن و دل سے محو نہیں ہو رہے،ظلم کے جو پہاڑ ان پر توڑے گئے ہیں اس کے بعد اب کسی دہشت سے، وحشت سے کیا گھبرانا! فاٹا میں جن جمہوریت و ریاست دشمنوں نے ہمارے جوانوں کے سر کاٹے ان سے مکالمہ کی بے قراری ہے اور بولان کے کوہساروں سے ایسی بے رخی!جالب کے تین شعر آپ کی نذر،
یہ زمیں تو حسیں ہے بے حد
حکمرانوں کی نیتیں ہیں بد
حکمراں جب تلک ہیں یہ بے درد
اس زمیں کا رہے گا چہرہ زرد
یہ زمیں جب تلک نہ لیں گے ہم
اس سے اگتے رہیں گے یوں ہی غم