اتباع ِرسولﷺ

’’یقیناً آپؐ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔‘‘

ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی مکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’بہترین کلام اﷲ کی کتاب اور بہترین سیرت محمدؐ کی سیرت ہے۔‘‘ فوٹو : ایکسپریس

قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:''اے نبیؐ! آپؐ فرما دیجیے کہ اگر تم اﷲ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اﷲ تم سے محبت کرے گا۔

تمہاری خطائوں کو ڈھانپ لے گا اور اﷲ بہت معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔''
(سورۂ آل عمران آیت31)

انسانی زندگی میں دو طرح کے تعلقات ہوتے ہیں: پہلا تعلق ایک انسان کا دوسرے انسان سے ہوتا ہے اور دوسرا تعلق ایک انسان کا اﷲ تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ نبی رحمتؐ کو بیک وقت دونوں میں کمال حاصل تھا۔ آپؐ کی حیات طیبہ کے ان دونوں پہلوئوں کا عمل طویل ہے۔ ایک طالب علم اور ذاتی غور و فکر کرکے ذمہ دارانہ اور مستقل رائے قائم کرنے کے خواہش مند کے ذہن میں یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ اب جب کہ رسول کریمﷺ کو دنیا سے پردہ کیے 14 صدیوں سے بھی زیادہ کا وقت بیت چکا ہے اور علوم و فنون نے بہت ترقی کرلی ہے تب بھی ہم رسول پاکؐ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیوں کریں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سابقہ زمانے اور آج کے دور میں بہت فرق آگیا ہے۔ جب آپؐ مبعوث ہوئے تو دنیا جہالت و گمراہی کے انتہائی حدود پر پہنچ چکی تھی اور آپؐ نے اسے انسانیت کے سیدھے راستے پر کھڑا کردیا۔ آج بھی جب اگر ہم مختلف وجوہ کی بناء پر ایام جاہلیت سے قریب تر ہو رہے ہیں تو صرف اس شمع ہدایتﷺ سے اکتساب ہی ہماری نجات کا باعث ہے۔

قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:''اور اے محمد! یقیناً آپؐ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔''
آپؐ کا انداز تکلم اور گفتگو دل موہ لینے والی تھی جس سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا تھا۔ آپؐ کا ہر قدم ہر فعل قانونی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن نے خود سنت نبوی کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔ قرآن فرماتا ہے:''حضورؐ تمہارے لیے بہترین نمونہ عمل ہیں۔''

آپؐ کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی شخصیت بڑی ہمہ جہت تھی۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی مکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:''بہترین کلام اﷲ کی کتاب اور بہترین سیرت محمدؐ کی سیرت ہے۔''

اس کی پیروی کی جانی چاہیے۔ سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو دس سال کے قلیل عرصے میں اس جزیرہ نما عرب میں جہاں متحارب خانہ بدوش قبائل کے درمیان خانہ جنگیاں ہوتی رہتی تھیں، آپ ؐ نے ایک بڑی مستحکم اور بڑی مملکت قائم کردی۔ بہ حیثیت سپہ سالار آپؐ کی زیر قیادت جنگوں میں فریقین کے چند سو آدمی مارے گئے اور تقریباً بارہ لاکھ مربع میل کا رقبہ مطیع اور ماتحت ہو گیا۔ عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی حکومت قائم ہوئی جس نے پورے جزیرہ نما کو یکجا کردیا۔

آپؐ ہی کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں عرب جیسی گمنام اور جاہل قوم نے بین الممالک تعلقات میں پہلا قدم رکھا۔
حدیث میں ہے کہ آپؐ نے قبیلہ عبدالعیش کے قائد کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:''تمہارے اندر دو ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو اﷲ کو پسند ہیں اور وہ ہیں بردباری یعنی غیر جذباتیت اور وقار و سنجیدگی۔ دس سال میں ہی عراق، ایران، فلسطین، شام، مصر، طرابلس، تیونس، ترکستان اور آرمینیا زیر ہوگئے تھے۔ یہ سب ممالک آج بھی اسلامی علاقے ہیں۔ ان میں اکثر میں عربی زبان ہی بولی جاتی ہے۔

اﷲ کے رسول ﷺ نے جو نظام حکمرانی قائم فرمایا، اس پر عمل کرکے اسلامی مملکت دنیا کی ایک عظیم الشان اور کارآمد مملکت بن گئی۔ تقسیم و گردش دولت کا اصول آپؐ کے ہر مالی حکم میں نظر آتا ہے۔


قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:''اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیجیے حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کیجیے ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔'' (النحل 125)
سماجی اور اخلاقی حیثیت سے آپؐ نہ صرف اچھے معلم اخلاق تھے، بلکہ مذکورہ تعلیم کی تبلیغ سب سے پہلے اپنے گھر سے کرتے تھے۔ اس پر پہلے خود عمل کرتے، اس کے بعد دوسروں کو حکم دیتے اور دوسروں کو جتنا حکم دیتے، اس سے زیادہ خود عمل کرکے اوروں کے سامنے زندہ نمونہ پیش فرماتے تھے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق بت پرستی، شراب، جوئے سٹے کی ممانعت مسلمانوں کی ایک ایسی خصوصیت ہے جس کو مسلمانوں کے علاوہ باقی دنیا بھی ماننے پر مجبور ہوگئی ہے۔ سنہ دس ہجری میں جب آپؐ حج کے لیے تشریف لے گئے تو آپؐ کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ مسلمان تھے جو ملک کے ہر حصے سے آئے تھے۔ دین ہر ایک فرد کا خالصتاً ذاتی معاملہ ہے اور ایک بنیادی مذہب اس کا خلاصہ اور نچوڑ پیش کرتا ہے۔ انسان اپنی پیدائش سے لے کر لحد تک اپنے آپ کو اس کا ذمے دار مانتا ہے۔ چناں چہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اﷲ پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور ہر وقت نیک اعمال کرتا رہے اور اﷲ سے ڈرتا رہے۔

ارشاد ربانی ہے:''ہر شخص پر اس کی استطاعت کے مطابق ہی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔'' (البقرہ)
اگر کوئی شخص اﷲ کو ایک مان لے اور خیر و شر میں اس کے سوا کسی اور کی قدرت نہ سمجھے اور حشر و حساب کو مان لے تو پھر اس دنیا میں گناہ کا سرزد ہونا محال ہے، ورنہ مشکل تو ضرور ہوگا۔ رحمۃ للعالمین ﷺ نے ملکوں، قوموں اور قبائل میں بٹی ہوئی انسانیت پر بہت کرم کیا۔

رنگ و نسل، وطن و قوم امیر و غریب، سرمایہ دار و مزدور، زمیں دار و کسان اور دیگر انسانی عصبیتوں اور گروہوں میں بٹی انسانیت کو اخوت کا پیغام دیا جس کے نتیجے میں دنیا متحد ہوگئی اور یہ زمین امن و چین، محبت و الفت اور ہمدردی کا گہوارا بن گئی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:''جو لوگ ایسے رسول، نبی امی کی اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔

جن کی صفت یہ ہے کہ وہ ان کو نیک باتوں کو حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ تھے، ان کو دور کرتے ہیں۔ سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں۔'' (سورۃ الاعراف 157)

زندگی کی حقیقی کامیابی انہی لوگوں کو حاصل ہوسکتی ہے جو اپنی فکری و عملی زندگی گزارنے کے لیے اور اپنی حقیقی منزل تک پہنچنے کے لیے ایک ہی راہ مستقیم پر چلتے ہیں جو آپؐ کی راہ فکر و عمل تھی۔

قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:''بلاشبہہ تمہارے لیے رسول عربیﷺ کی سیرت میں فکر و عمل کے لیے ایک حسین نمونہ ہے، اس کے لیے جو اﷲ تعالیٰ کے ملنے اور آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔''
(سورۃ الاحزاب 21)
آپؐ نے عظیم، بے مثال، عہد آفرین اور تاریخ ساز کارنامے سرانجام دیے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا:

''معرفت و عرفان میرا راس المال ہے۔ عقل میرے دین کی اصل ہے۔ محبت میری اساس ہے۔ شوق میرا راستہ ہے۔ ذکر الٰہی میرا مونس ہے۔ اعتماد میرا خزانہ ہے۔ عشق الٰہی میرا رفیق ہے۔ علم میرا ہتھیار ہے۔ صبر میرا لباس ہے۔ رضا میرا مال غنیمت ہے۔ تواضع و انکساری میرا فخر ہے۔ زہد میرا پیشہ ہے۔ یقین میری طاقت و توانائی ہے۔

صدق میرا حامی و شفیع ہے۔ طلب الٰہی میری کفایت کرنے والی ہے۔ جہاد میرا خلق ہے۔ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔'' نبوت ایسی ہی شخصیت پر ختم ہو سکتی ہے جس کی زندگی کسی پہلو میں تشنہ نظر نہ آئے، جو کسان و مزدور کے لیے بھی نمونہ ہو اور حاکم اور حکیم کے لیے بھی، جو نصب العین کو عملی جامہ پہنا کر اقوام کے لیے بلند ترین نمونہ پیش کرے۔ اخلاق کے اچھے نمونوں سے متاثر ہوکر ہی انسان اچھے سانچوں میں ڈھلتے ہیں۔ سب سے زیادہ بہترین اخلاق کے نمونے آپؐ کی زندگی میں ہی مل سکتے ہیں۔ ایسے ہی انسان کو انسان کامل کہہ سکتے ہیں جس کا کمال زندگی کے ہر شعبۂ زندگی میں نظر افروز ہو۔
Load Next Story