ذاتیات
شفاء اللہ تعالی کی ذات دیتی ہے اور ڈاکٹر صاحبان اپنی طبی مہارت کو استعمال کر کے اس کو ممکن بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سوچتے تھے کہ جب لاہور میں قلم چلاتے چلاتے تھک جائیں تو داتا دربار پر سلام کر کے گاؤں جانے والی بس پر سوا ر ہو جائیں گے لیکن اب جب تھکنے کا وقت آیا ہے تو پتہ چلا کہ لاہور میں رہنے کا وقت تو اب آیا ہے جہاں طبی امداد بروقت دستیاب ہے، اس امداد کے بغیر اب زندگی چین سے نہیں گزر سکتی اور اس امداد سے دوری مہنگی پڑ سکتی ہے۔
اس بات کی شدت کا اندازہ اب ہوتا ہے جب اس بڑھاپے میں اچانک طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے تو فوراً اپنے معالج کی یاد آتی ہے جو لاہور میں رہتے ہوئے کوئی زیادہ دور نہیں ہوتے ۔ صرف گھر سے نکل کر اسپتال تک پہنچنے میں جو وقت لگتا ہے اس کے بعد میں اپنے مہربان معالجین کے حوالے ہو جاتا ہوں جو ہمیشہ مجھے بے فکر ہونے کا کہہ کر میری آدھی بیماری اپنی محبت بھری باتوں سے دور کر دیتے ہیں۔
شفاء اللہ تعالی کی ذات دیتی ہے اور ڈاکٹر صاحبان اپنی طبی مہارت کو استعمال کر کے اس کو ممکن بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں لاہور کی گرد آلود فضاء میں چند مرلے کے گھر میں رہتا ہوں، مجھے اپنا پیدائشی گاؤں شدت سے یاد آتا ہے کہ کیونکر میں لاہور جیسے بے ہنگم شہر میں مقیم ہوں جب کہ گاؤں میں ایک وسیع وعریض قطعہ اراضی میں واقع گھر کی سہولت بھی موجود ہے، صاف اور شفاف ہوا بھی ہے بلند وبالا سر سبز پہاڑ بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر میرے بزرگوں کی قبریں بھی ہیں جہاں پر مجھے بھی ایک دن آسودہ خاک ہونا ہے۔
اس سب کے باوجود میں لاہور میں رہائش پر مجبور ہوں، اس لیے کہ وہاں میرے ڈاکٹر نہیں رہتے اور میں اس گندے شہر، اس کی بے ہنگم ٹریفک اور اس کے ابلتے ہوئے گڑوں میں رہنے پر مجبور ہوں کہ میرے ڈاکٹر یہاں رہتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے لیے میرے جیسے مریض بے شمار ہیں مگر میرے لیے ایسے ڈاکٹر چند ایک ہیں جو میرے جسم کی رگ رگ کو جانتے ہیں اورتمام امراض کے حافظ میری صحت کے محافظ ہیں۔ میری لاتعداد بیماریوں میں سے ایک بیماری جو مجھے اکثر پریشان رکھتی ہے وہ گردہ اور مثانے کا مرض ہے۔ میں اس بیماری کا پرانا مریض ہوں اور میرے معالج بھی اس کو شروع دن سے سمجھتے ہیں کہ اس کا علاج کن ٹوٹکوں سے کرنا ہے۔
گردہ و مثانہ کے سب سے پہلے معالج میرے بھائی بزرگوار ڈاکٹر فتح خان اختر اور ڈاکٹر سجاد حسین تھے یہ دونوں مہربان گزشتہ دنوں مجھے اپنی بیماری کے ساتھ لڑتا چھوڑ کر اپنے خالق سے جاملے ہیں۔ انھوں نے تمام عمر مجھ پر جتنی شفقت اور مہربانی کی اور جس محبت اور محنت سے میرا علاج معالجہ کیا میں ان کا تا زندگی ممنون رہوں ہوگا۔
اب وہ ہم میں نہیں ہیں تو مجھے شدت سے ان کی کمی محسوس ہوتی ہے اور میں ڈاکٹروں سے بھرے اس شہر میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتا ہوں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ہی مجھے اپنے دوست ڈاکٹروں سے ملا دیا جن میں ڈاکٹر سلیم اختر اور فاروق حمید جیسے مہربان شامل ہیں جو اپنے دروازے ہر وقت میرے لیے کھلے رکھتے ہیں اور میں بغیر وقت لیے اور دروازہ کھٹکھٹائے بغیر ان کے پاس پہنچ کر اپنے آپ کو ان کے سپرد کر دیتا ہوں۔ لیکن میں اب اس مرض کا ماہر ہو گیا ہوں اور مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ میری تدبیریں اب کام چھوڑتی جا رہی ہیں اور ڈاکٹر صاحبان کو یاد کرنے والی ہیں۔
گزشتہ دنوں بھی مجھے مثانے کی تکلیف کی ایمرجنسی میں اپنے قریبی اسپتال جانے کا اتفاق ہوا کیونکہ مثانے کی تکلیف ناقابل برداشت ہوتی ہے اور مریض کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر اس سے تکلیف سے نجات حاصل کرے۔ اسپتال میں اپنے گھر کے آنکھوں کے ڈاکٹر حمید اعوان کی وساطت سے میں ڈاکٹر ذکی صاحب کے پاس پہنچ گیا جنھوں نے کمال مہربانی کرتے ہوئے مجھے اس تکلیف سے نجات دلانے کے لیے اپنی مہارت استعمال کی اور چند گھنٹوں بعد ضروری ہدایات کے ساتھ مجھے گھر بھجوا دیا۔ ان حالات میں سوچتا ہوں کہ اگر اس عمر میں لاہور سے چند گھنٹے کی مسافت پر گاؤں میں مقیم ہو جاؤں اور وہاں پر ایمرجنسی پیش آ جائے تو میرا کیا بنے گا۔
ڈاکٹری ایک خالص خدمت خلق کا پیشہ ہے ہمارے ہاں کچھ عرصہ پہلے تک حکیم فیس نہیں لیا کرتے تھے اب بھی ایسے حکیم ہیں جو فیس نہیں لیتے جن میں میرے بھائی بھیرہ والے حکیم عبدالعلی خان بھی شامل ہیں جو اگر مریض کواپنے پاس سے کوئی دوائی دیں تو اس کی معمولی سی قیمت وصول کرتے ہیں جب کہ میرے لیے دوائی کی قیمت دینا بھی منع ہے۔
ایک بار جب میں نے لاہور میں حکیم اجمل خان کے پوتے سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ ہمارے بزرگ تو کسی نواب ، راجے مہاراجے کا علاج کر کے اس سے بھاری عطیہ اور انعام لے لیتے تھے، دا د تو ہمیں دیں جو اپنے خرچ پر مریض دیکھتے ہیں اور ان کا باقاعدہ علاج کرتے ہیں مگر فیس کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
مسلمانوں نے سب سے زیادہ ترقی طبی سائنس میں کی تھی اور اس شعبہ میں اتنے بڑے ماہرین پیدا کیے جن کی تحقیق پر بعد میں یورپ نے اپنی طبی ترقی کی بنیاد رکھی لیکن مغربی تہذیب کے غلط نوعیت کے اثرات نے ہم مسلمان ڈاکٹروں کو بھی متاثر کیا اور انسانی دکھوں کا علاج ایک پیشہ بن گیا۔ ایک کاروبار جس میں انسانی خدمت کا جذبہ ختم ہو گیا لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں مختلف قسم کے ڈاکٹر ابھی بھی ہیں جو مریض کو آسامی نہیں مریض سمجھ کراس کا علاج کرتے ہیں یہی وہ ڈاکٹر ہیں جن کی وجہ سے میں دن بدن بگڑتے ہوئے اس شہر میں مقیم ہوں اور یہ میری ایک خود غرضی ہے۔
اس بات کی شدت کا اندازہ اب ہوتا ہے جب اس بڑھاپے میں اچانک طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے تو فوراً اپنے معالج کی یاد آتی ہے جو لاہور میں رہتے ہوئے کوئی زیادہ دور نہیں ہوتے ۔ صرف گھر سے نکل کر اسپتال تک پہنچنے میں جو وقت لگتا ہے اس کے بعد میں اپنے مہربان معالجین کے حوالے ہو جاتا ہوں جو ہمیشہ مجھے بے فکر ہونے کا کہہ کر میری آدھی بیماری اپنی محبت بھری باتوں سے دور کر دیتے ہیں۔
شفاء اللہ تعالی کی ذات دیتی ہے اور ڈاکٹر صاحبان اپنی طبی مہارت کو استعمال کر کے اس کو ممکن بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں لاہور کی گرد آلود فضاء میں چند مرلے کے گھر میں رہتا ہوں، مجھے اپنا پیدائشی گاؤں شدت سے یاد آتا ہے کہ کیونکر میں لاہور جیسے بے ہنگم شہر میں مقیم ہوں جب کہ گاؤں میں ایک وسیع وعریض قطعہ اراضی میں واقع گھر کی سہولت بھی موجود ہے، صاف اور شفاف ہوا بھی ہے بلند وبالا سر سبز پہاڑ بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر میرے بزرگوں کی قبریں بھی ہیں جہاں پر مجھے بھی ایک دن آسودہ خاک ہونا ہے۔
اس سب کے باوجود میں لاہور میں رہائش پر مجبور ہوں، اس لیے کہ وہاں میرے ڈاکٹر نہیں رہتے اور میں اس گندے شہر، اس کی بے ہنگم ٹریفک اور اس کے ابلتے ہوئے گڑوں میں رہنے پر مجبور ہوں کہ میرے ڈاکٹر یہاں رہتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے لیے میرے جیسے مریض بے شمار ہیں مگر میرے لیے ایسے ڈاکٹر چند ایک ہیں جو میرے جسم کی رگ رگ کو جانتے ہیں اورتمام امراض کے حافظ میری صحت کے محافظ ہیں۔ میری لاتعداد بیماریوں میں سے ایک بیماری جو مجھے اکثر پریشان رکھتی ہے وہ گردہ اور مثانے کا مرض ہے۔ میں اس بیماری کا پرانا مریض ہوں اور میرے معالج بھی اس کو شروع دن سے سمجھتے ہیں کہ اس کا علاج کن ٹوٹکوں سے کرنا ہے۔
گردہ و مثانہ کے سب سے پہلے معالج میرے بھائی بزرگوار ڈاکٹر فتح خان اختر اور ڈاکٹر سجاد حسین تھے یہ دونوں مہربان گزشتہ دنوں مجھے اپنی بیماری کے ساتھ لڑتا چھوڑ کر اپنے خالق سے جاملے ہیں۔ انھوں نے تمام عمر مجھ پر جتنی شفقت اور مہربانی کی اور جس محبت اور محنت سے میرا علاج معالجہ کیا میں ان کا تا زندگی ممنون رہوں ہوگا۔
اب وہ ہم میں نہیں ہیں تو مجھے شدت سے ان کی کمی محسوس ہوتی ہے اور میں ڈاکٹروں سے بھرے اس شہر میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتا ہوں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ہی مجھے اپنے دوست ڈاکٹروں سے ملا دیا جن میں ڈاکٹر سلیم اختر اور فاروق حمید جیسے مہربان شامل ہیں جو اپنے دروازے ہر وقت میرے لیے کھلے رکھتے ہیں اور میں بغیر وقت لیے اور دروازہ کھٹکھٹائے بغیر ان کے پاس پہنچ کر اپنے آپ کو ان کے سپرد کر دیتا ہوں۔ لیکن میں اب اس مرض کا ماہر ہو گیا ہوں اور مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ میری تدبیریں اب کام چھوڑتی جا رہی ہیں اور ڈاکٹر صاحبان کو یاد کرنے والی ہیں۔
گزشتہ دنوں بھی مجھے مثانے کی تکلیف کی ایمرجنسی میں اپنے قریبی اسپتال جانے کا اتفاق ہوا کیونکہ مثانے کی تکلیف ناقابل برداشت ہوتی ہے اور مریض کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر اس سے تکلیف سے نجات حاصل کرے۔ اسپتال میں اپنے گھر کے آنکھوں کے ڈاکٹر حمید اعوان کی وساطت سے میں ڈاکٹر ذکی صاحب کے پاس پہنچ گیا جنھوں نے کمال مہربانی کرتے ہوئے مجھے اس تکلیف سے نجات دلانے کے لیے اپنی مہارت استعمال کی اور چند گھنٹوں بعد ضروری ہدایات کے ساتھ مجھے گھر بھجوا دیا۔ ان حالات میں سوچتا ہوں کہ اگر اس عمر میں لاہور سے چند گھنٹے کی مسافت پر گاؤں میں مقیم ہو جاؤں اور وہاں پر ایمرجنسی پیش آ جائے تو میرا کیا بنے گا۔
ڈاکٹری ایک خالص خدمت خلق کا پیشہ ہے ہمارے ہاں کچھ عرصہ پہلے تک حکیم فیس نہیں لیا کرتے تھے اب بھی ایسے حکیم ہیں جو فیس نہیں لیتے جن میں میرے بھائی بھیرہ والے حکیم عبدالعلی خان بھی شامل ہیں جو اگر مریض کواپنے پاس سے کوئی دوائی دیں تو اس کی معمولی سی قیمت وصول کرتے ہیں جب کہ میرے لیے دوائی کی قیمت دینا بھی منع ہے۔
ایک بار جب میں نے لاہور میں حکیم اجمل خان کے پوتے سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ ہمارے بزرگ تو کسی نواب ، راجے مہاراجے کا علاج کر کے اس سے بھاری عطیہ اور انعام لے لیتے تھے، دا د تو ہمیں دیں جو اپنے خرچ پر مریض دیکھتے ہیں اور ان کا باقاعدہ علاج کرتے ہیں مگر فیس کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
مسلمانوں نے سب سے زیادہ ترقی طبی سائنس میں کی تھی اور اس شعبہ میں اتنے بڑے ماہرین پیدا کیے جن کی تحقیق پر بعد میں یورپ نے اپنی طبی ترقی کی بنیاد رکھی لیکن مغربی تہذیب کے غلط نوعیت کے اثرات نے ہم مسلمان ڈاکٹروں کو بھی متاثر کیا اور انسانی دکھوں کا علاج ایک پیشہ بن گیا۔ ایک کاروبار جس میں انسانی خدمت کا جذبہ ختم ہو گیا لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں مختلف قسم کے ڈاکٹر ابھی بھی ہیں جو مریض کو آسامی نہیں مریض سمجھ کراس کا علاج کرتے ہیں یہی وہ ڈاکٹر ہیں جن کی وجہ سے میں دن بدن بگڑتے ہوئے اس شہر میں مقیم ہوں اور یہ میری ایک خود غرضی ہے۔