مسلم لیگ ن اور حکومت کے درمیان نیا سیاسی معرکہ شروع
ایک جمہوری ملک میں ملک و قوم کی ترقی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب حکومت اور اپوزیشن بھرپور طریقہ سے فعال ہوں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت ''کوما'' کی حالت سے باہر نکل آئی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ملکی سیاست میں ایک نیا معرکہ ہونے کو ہے خواہ اس کا نتیجہ کوئی بڑی تبدیلی نہ لا سکے۔
مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے یہ مضبوط تاثر موجود ہے کہ'' صاحبزادی'' کی تمام تر کاوشوں اور کوششوں کے باوجود مقتدر حلقوں میں ابھی کچھ نرم گوشہ باقی ہے بالخصوص میاں شہباز شریف ابھی گیم سے آوٹ نہیں ہوئے ہیں تاہم ان کا گراف نیچے ضرور آیا ہے۔ ملکی سیاست کے گزشتہ 35 برسوں پر نگاہ ڈالیں تو ن لیگ ہمیشہ مقتدر حلقوں کی ''فیورٹ'' رہی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات کا آغاز اس وقت ہوا جب مریم نواز اپنے والد کی فیصلہ سازی پر مکمل طور پر حاوی ہو گئیں اور تنظیمی امور کے علاوہ ملکی امور پر بھی میاں نواز شریف سے زیادہ مریم نواز کی رائے اہمیت اختیار کر گئی ۔
اسی کے نتیجہ میں خاندانی سیاست بھی تبدیل ہوئی ۔ حمزہ شہباز اور مریم نواز کے اختلافات بارے خبریں شائع ہوتی رہی ہیں اور دونوں اس کی تردید بھی کرتے ہیں لیکن ن لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ ''سب اچھا'' نہیں ہے۔ حمزہ شہباز نے ماضی میں بھی اپنے خاندان کی خاطر جیل کاٹی اور آج بھی وہ پابند سلاسل ہیں۔ میاں شہباز شریف کی حالیہ واپسی کے بعد ان کے اور مریم نواز کے انداز سیاست میں یکسانیت نہیں ہے۔
مریم نواز کا بیانیہ سخت اور میاں شہباز شریف کا قدرے نرم ہے۔ چند روز قبل نیب میں پیشی کے موقع پر مریم نواز کی ریلی میں شامل کارکنوں کے جارحانہ رویے نے یہ واضح کر دیا تھا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز دوبارہ سے''ایکٹو'' ہو رہے ہیں کیونکہ اپنے والد کی رضامندی کے بنا مریم نواز نیب پیشی والا بڑا اقدام نہیں کر سکتیں۔ چند روز قبل منظر عام پر آنے والی میاں نواز شریف کی تصویر (بقول کچھ باخبر لوگوں کے یہ خود لیک کی گئی) نے ایک نیا سیاسی طلاطم برپا کردیا ہے اور پوری حکومت خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہے کہ ہر صورت میاں صاحب کو پاکستان واپس لانا ہے۔
میاں نواز شریف کی واپسی بارے بھی حکومت کا اتنا ہی اختیار ہے جتنا کہ انہیں بیرون ملک بھیجنے کے معاملے میں تھا۔ وزیر اعظم عمران خان مسلسل یہ بیان دے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کو دھوکہ سے باہر بجھوایا گیا لیکن یہ نہیں بتاتے کہ دھوکہ کس نے کس کو دیا۔
وفاقی وزراء میاں نواز شریف کی رپورٹس کو بوگس قرار دیتے ہیں جبکہ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد رپورٹس کو بالکل درست قرار دیتی ہیں۔اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ وزیر اعظم عمران خان کو میاں نواز شریف کی بیماری کی شدت بارے غلط بتایا گیا تو پھر آج تک وزیر صحت، سرکاری ڈاکٹرز اور دیگر حکام کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی جبکہ اس وقت تو وزیر اعظم عمران خان نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ میں نے شوکت خانم ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر فیصل کے ذریعے تصدیق کروا لی ہے کہ میاں نواز شریف واقعی بیمار ہیں ، دلچسپ امر یہ ہے کہ انہی ڈاکٹر فیصل کو اب وزیر اعظم کا مشیر برائے صحت بنا دیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت میاں نواز شریف کے متحرک ہونے سے پریشان دکھائی دیتی ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز سمیت ن لیگ کے ایکٹو ہونے کے پس منظر میں انہیں مقتدر حلقوں کی آشیر باد حاصل نہ ہو،اس کا اندازہ گزشتہ دنوں ایک مشیر کی جانب سے ''محکمہ زراعت'' بارے دیئے گئے بیان اور پھر اس کی نافہم وضاحت سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ اس خدشہ کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض امور پر مقتدر حلقے موجودہ حکومت سے قدرے ناراض ہیں جن میں سے ایک معاملہ وزیر اعلی پنجاب کا ہے جنہیں تبدیل نہ کرنے کے فیصلے پر وزیر اعظم عمران خان کو شدید دباو کا سامنا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ ن لیگ سے کہیں زیادہ بڑا خطرہ اور نقصان یہ ہے کہ عام پاکستانی حکومت سے ناراض ہے۔دو برس میں معیشت بری طرح سے کمزور ہوئی ہے،کورونا کی آڑ میں چھپنا اس لیئے ممکن نہیں کہ کورونا تو تین یا چار ماہ پہلے کی بات ہے۔ حکومت مختلف اعدادوشمار کو استعمال کر کے معیشت میں بہتری کے دعوے کرتی ہے لیکن جب سرمایہ کار، صنعتکار، تاجر سے دریافت کریں تو وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر معیشت واقعی بہتر ہو رہی ہے تو اس کے اثرات آن گراونڈ کیوں نہیں دکھائی دیتے۔ دو روز قبل میاں شہباز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ(ن) کی کور ٹیم نے ایک غیر معمولی پریش کانفرنس کی ہے جس میں انہوں نے حکومت کے دو سالہ دور کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔
یہ تو ممکن ہے کہ اپوزیشن کی تمام تنقید اور نشاندہی درست نہ ہو لیکن یہ کسی طور ممکن نہیں ہے کہ ن لیگی رہنماوں کی تمام پریس کانفرنس کو رد کردیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان کو آئندہ تین برس میں حکومتی کارکردگی کے ذریعے ڈیلیور کرنا ہوگا ، عام پاکستانی اس وقت حکومت کی بہتر کارکردگی کو تسلیم کرے گا جب اسے حقیقی ریلیف میسر آئے گا، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر چاہے کتنے ہی طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہو حکومت کامیاب نہیں ہو گی۔
اس وقت اپوزیشن نہ تو متحد ہے اور شاید نہ ہی کسی ایک نکتے پر متفق ہے کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بعض پارٹیاں حکومت کی''سہولت کار'' ہیں ۔ایک جمہوری ملک میں ملک و قوم کی ترقی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب حکومت اور اپوزیشن بھرپور طریقہ سے فعال ہوں، حکومت اپنی کوئی کمزوری پیدا نہ ہونے دے اور اپوزیشن حکومت پر مثبت اور جائز تنقید کے ذریعے ہمہ وقت اسے ''الرٹ'' رکھے۔ فی الوقت تو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ملکی سیاست کے دنگل میں تازہ دم پہلوان اترنا شروع ہو گئے ہیں اور حکومت کیلئے پریشانیاں بڑھ رہی ہیں، حکومت تو شاید ابھی کہیں نہیں جا رہی لیکن اپوزیشن کا مضبوط ہونا حکومتی ناقص کارکردگی کو مزید نمایاں کر کے اس کی زوال پذیر عوامی مقبولیت کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کیلئے ایک مسئلہ ان کی پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی ہیں جو ختم ہونے کی بجائے نت نئے انداز میں سامنے آجاتے ہیں۔ بہت سے وزراء ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں اور کئی صوبائی وزراء کی بھی وفاقی وزراء سے نہیں بنتی۔ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کو اتنا خطرہ نیب یا مقتدر حلقوں سے نہیں ہے جتنا کہ انہیں خود اپنی صوبائی کابینہ کی کارکردگی اور اپنی مخالفت سے ہے۔
سردار عثمان بزدار نے طویل عرصہ تک چار یا پانچ وزراء کو اپنی''کور ٹیم'' ظاہر کئے رکھا لیکن اب یہ وزراء بھی سرگوشیاں کرنے لگے ہیں۔ اپوزیشن آج نہیں تو کل کو کسی ایک نکتے پر متفق اور متحد ہو جائے گی اور یہی وہ وقت ہوگا جب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو سنجیدہ خطرہ لاحق ہوگا بصورت دیگر اس وقت کی اپوزیشن سیاست محض ''نورا کشتی'' کی مانند ہے تاہم مسلم لیگ(ن) کا معاملہ مختلف ہے ،وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے سنجیدہ موڈ میں دکھائی دیتے ہیں، دو روز قبل کی پریس کانفرنس سے ثابت ہو گیا ہے کہ ن لیگی قیادت نے بھرپور تیاری کے ساتھ حکومت کے خلاف دلائل کے ساتھ تنقید کی ہے۔
پیپلز پارٹی اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہے، سندھ میں تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں مستقبل قریب میں مزید وسیع ہوں گی،کراچی سمیت سندھ کے عوام گزشتہ تین دہائیوں کے دوران پیپلز پارٹی اور لسانی جماعتوں کی حکومتی کارکردگی سے شدید نالاں ہیں اور شاید آئندہ وہ ووٹ کی پرچی پر کسی اور کی مہر لگائیں لیکن یہ طے ہو چکا ہے کہ پاکستان میں اب نہ تو روایتی حکومت چل سکتی ہے اور نہ ہی روایتی اپوزیشن عوام کو متاثر کر سکتی ہے، تبدیلی لانے والے تو ابھی تک تبدیلی نہیں لا سکے لیکن عوام کی سوچ میں تبدیلی ضرور آ چکی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے یہ مضبوط تاثر موجود ہے کہ'' صاحبزادی'' کی تمام تر کاوشوں اور کوششوں کے باوجود مقتدر حلقوں میں ابھی کچھ نرم گوشہ باقی ہے بالخصوص میاں شہباز شریف ابھی گیم سے آوٹ نہیں ہوئے ہیں تاہم ان کا گراف نیچے ضرور آیا ہے۔ ملکی سیاست کے گزشتہ 35 برسوں پر نگاہ ڈالیں تو ن لیگ ہمیشہ مقتدر حلقوں کی ''فیورٹ'' رہی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات کا آغاز اس وقت ہوا جب مریم نواز اپنے والد کی فیصلہ سازی پر مکمل طور پر حاوی ہو گئیں اور تنظیمی امور کے علاوہ ملکی امور پر بھی میاں نواز شریف سے زیادہ مریم نواز کی رائے اہمیت اختیار کر گئی ۔
اسی کے نتیجہ میں خاندانی سیاست بھی تبدیل ہوئی ۔ حمزہ شہباز اور مریم نواز کے اختلافات بارے خبریں شائع ہوتی رہی ہیں اور دونوں اس کی تردید بھی کرتے ہیں لیکن ن لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ ''سب اچھا'' نہیں ہے۔ حمزہ شہباز نے ماضی میں بھی اپنے خاندان کی خاطر جیل کاٹی اور آج بھی وہ پابند سلاسل ہیں۔ میاں شہباز شریف کی حالیہ واپسی کے بعد ان کے اور مریم نواز کے انداز سیاست میں یکسانیت نہیں ہے۔
مریم نواز کا بیانیہ سخت اور میاں شہباز شریف کا قدرے نرم ہے۔ چند روز قبل نیب میں پیشی کے موقع پر مریم نواز کی ریلی میں شامل کارکنوں کے جارحانہ رویے نے یہ واضح کر دیا تھا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز دوبارہ سے''ایکٹو'' ہو رہے ہیں کیونکہ اپنے والد کی رضامندی کے بنا مریم نواز نیب پیشی والا بڑا اقدام نہیں کر سکتیں۔ چند روز قبل منظر عام پر آنے والی میاں نواز شریف کی تصویر (بقول کچھ باخبر لوگوں کے یہ خود لیک کی گئی) نے ایک نیا سیاسی طلاطم برپا کردیا ہے اور پوری حکومت خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہے کہ ہر صورت میاں صاحب کو پاکستان واپس لانا ہے۔
میاں نواز شریف کی واپسی بارے بھی حکومت کا اتنا ہی اختیار ہے جتنا کہ انہیں بیرون ملک بھیجنے کے معاملے میں تھا۔ وزیر اعظم عمران خان مسلسل یہ بیان دے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کو دھوکہ سے باہر بجھوایا گیا لیکن یہ نہیں بتاتے کہ دھوکہ کس نے کس کو دیا۔
وفاقی وزراء میاں نواز شریف کی رپورٹس کو بوگس قرار دیتے ہیں جبکہ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد رپورٹس کو بالکل درست قرار دیتی ہیں۔اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ وزیر اعظم عمران خان کو میاں نواز شریف کی بیماری کی شدت بارے غلط بتایا گیا تو پھر آج تک وزیر صحت، سرکاری ڈاکٹرز اور دیگر حکام کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی جبکہ اس وقت تو وزیر اعظم عمران خان نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ میں نے شوکت خانم ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر فیصل کے ذریعے تصدیق کروا لی ہے کہ میاں نواز شریف واقعی بیمار ہیں ، دلچسپ امر یہ ہے کہ انہی ڈاکٹر فیصل کو اب وزیر اعظم کا مشیر برائے صحت بنا دیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت میاں نواز شریف کے متحرک ہونے سے پریشان دکھائی دیتی ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز سمیت ن لیگ کے ایکٹو ہونے کے پس منظر میں انہیں مقتدر حلقوں کی آشیر باد حاصل نہ ہو،اس کا اندازہ گزشتہ دنوں ایک مشیر کی جانب سے ''محکمہ زراعت'' بارے دیئے گئے بیان اور پھر اس کی نافہم وضاحت سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ اس خدشہ کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض امور پر مقتدر حلقے موجودہ حکومت سے قدرے ناراض ہیں جن میں سے ایک معاملہ وزیر اعلی پنجاب کا ہے جنہیں تبدیل نہ کرنے کے فیصلے پر وزیر اعظم عمران خان کو شدید دباو کا سامنا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ ن لیگ سے کہیں زیادہ بڑا خطرہ اور نقصان یہ ہے کہ عام پاکستانی حکومت سے ناراض ہے۔دو برس میں معیشت بری طرح سے کمزور ہوئی ہے،کورونا کی آڑ میں چھپنا اس لیئے ممکن نہیں کہ کورونا تو تین یا چار ماہ پہلے کی بات ہے۔ حکومت مختلف اعدادوشمار کو استعمال کر کے معیشت میں بہتری کے دعوے کرتی ہے لیکن جب سرمایہ کار، صنعتکار، تاجر سے دریافت کریں تو وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر معیشت واقعی بہتر ہو رہی ہے تو اس کے اثرات آن گراونڈ کیوں نہیں دکھائی دیتے۔ دو روز قبل میاں شہباز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ(ن) کی کور ٹیم نے ایک غیر معمولی پریش کانفرنس کی ہے جس میں انہوں نے حکومت کے دو سالہ دور کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔
یہ تو ممکن ہے کہ اپوزیشن کی تمام تنقید اور نشاندہی درست نہ ہو لیکن یہ کسی طور ممکن نہیں ہے کہ ن لیگی رہنماوں کی تمام پریس کانفرنس کو رد کردیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان کو آئندہ تین برس میں حکومتی کارکردگی کے ذریعے ڈیلیور کرنا ہوگا ، عام پاکستانی اس وقت حکومت کی بہتر کارکردگی کو تسلیم کرے گا جب اسے حقیقی ریلیف میسر آئے گا، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر چاہے کتنے ہی طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہو حکومت کامیاب نہیں ہو گی۔
اس وقت اپوزیشن نہ تو متحد ہے اور شاید نہ ہی کسی ایک نکتے پر متفق ہے کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بعض پارٹیاں حکومت کی''سہولت کار'' ہیں ۔ایک جمہوری ملک میں ملک و قوم کی ترقی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب حکومت اور اپوزیشن بھرپور طریقہ سے فعال ہوں، حکومت اپنی کوئی کمزوری پیدا نہ ہونے دے اور اپوزیشن حکومت پر مثبت اور جائز تنقید کے ذریعے ہمہ وقت اسے ''الرٹ'' رکھے۔ فی الوقت تو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ملکی سیاست کے دنگل میں تازہ دم پہلوان اترنا شروع ہو گئے ہیں اور حکومت کیلئے پریشانیاں بڑھ رہی ہیں، حکومت تو شاید ابھی کہیں نہیں جا رہی لیکن اپوزیشن کا مضبوط ہونا حکومتی ناقص کارکردگی کو مزید نمایاں کر کے اس کی زوال پذیر عوامی مقبولیت کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کیلئے ایک مسئلہ ان کی پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی ہیں جو ختم ہونے کی بجائے نت نئے انداز میں سامنے آجاتے ہیں۔ بہت سے وزراء ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں اور کئی صوبائی وزراء کی بھی وفاقی وزراء سے نہیں بنتی۔ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کو اتنا خطرہ نیب یا مقتدر حلقوں سے نہیں ہے جتنا کہ انہیں خود اپنی صوبائی کابینہ کی کارکردگی اور اپنی مخالفت سے ہے۔
سردار عثمان بزدار نے طویل عرصہ تک چار یا پانچ وزراء کو اپنی''کور ٹیم'' ظاہر کئے رکھا لیکن اب یہ وزراء بھی سرگوشیاں کرنے لگے ہیں۔ اپوزیشن آج نہیں تو کل کو کسی ایک نکتے پر متفق اور متحد ہو جائے گی اور یہی وہ وقت ہوگا جب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو سنجیدہ خطرہ لاحق ہوگا بصورت دیگر اس وقت کی اپوزیشن سیاست محض ''نورا کشتی'' کی مانند ہے تاہم مسلم لیگ(ن) کا معاملہ مختلف ہے ،وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے سنجیدہ موڈ میں دکھائی دیتے ہیں، دو روز قبل کی پریس کانفرنس سے ثابت ہو گیا ہے کہ ن لیگی قیادت نے بھرپور تیاری کے ساتھ حکومت کے خلاف دلائل کے ساتھ تنقید کی ہے۔
پیپلز پارٹی اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہے، سندھ میں تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں مستقبل قریب میں مزید وسیع ہوں گی،کراچی سمیت سندھ کے عوام گزشتہ تین دہائیوں کے دوران پیپلز پارٹی اور لسانی جماعتوں کی حکومتی کارکردگی سے شدید نالاں ہیں اور شاید آئندہ وہ ووٹ کی پرچی پر کسی اور کی مہر لگائیں لیکن یہ طے ہو چکا ہے کہ پاکستان میں اب نہ تو روایتی حکومت چل سکتی ہے اور نہ ہی روایتی اپوزیشن عوام کو متاثر کر سکتی ہے، تبدیلی لانے والے تو ابھی تک تبدیلی نہیں لا سکے لیکن عوام کی سوچ میں تبدیلی ضرور آ چکی ہے۔