اے این پی کا بلوچستان حکومت کی حمایت کا اعلان اپوزیشن مایوس
بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی جام کمال کی مخلوط حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
ISLAMABAD:
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی مخلوط حکومت کے حوالے سے جو قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں اور اتحادی جماعت اے این پی کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ شاید وہ مخلوط حکومت سے الگ ہو جائے؟۔
اے این پی کی مرکزی قیادت نے پشاور میں صوبائی پارلیمانی جماعت کے ساتھ مشاورت کے بعد جام کمال کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کر کے ان قیاس آرائیوں کا نہ صرف خاتمہ کر دیا بلکہ اُن کی حکومت کو مزید مضبوط بنادیا ہے جس کے باعث بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن کی صفوں میں ایک مرتبہ پھر مایوسی پھیل گئی ہے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق اپوزیشن کی جماعتوں میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا رہی تھی کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی دوسری بڑی اتحادی جماعت اے این پی موجودہ سیاسی تناظر میں بلوچستان عوامی پارٹی سے اتحاد کو ختم کر سکتی ہے اور اُس کا رجحان اب اپوزیشن جماعتوں کی جانب ہوگا جس کیلئے اُس پر مرکزی قیادت کا بھی دباؤ ہے۔
اس کے علاوہ سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی زیر بحث تھی کہ اے این پی بلوچستان کے پارلیمانی گروپ میں بھی شدید اختلافات ہیں جو کہ پاک افغان چمن بارڈر کی بندش کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک التواء کے موقع پر اے این پی کے وزراء کی ایوان سے غیر حاضری اور اُس کے بعد پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی کی میڈیا سے گفتگو کے دوران پارٹی کے وزراء سمیت حکومتی ارکان کے رویئے پر شدید ردعمل کے باعث کھل کر سامنے آگیا۔
سیاسی حلقوں کے مطابق اے این پی کی مرکزی قیادت نے اس صورتحال کا فوری نوٹس لینے کے بعد معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کیلئے نہ صرف دور اندیشی سے کام لیا بلکہ پارلیمانی گروپ کو آپس میں بٹھا کر افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کیا، اس حوالے سے جو غلط فہمیاں آپس میں پیدا ہوئی تھیں اُنہیں دور کرکے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا ۔ جبکہ اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بھی کافی متحرک نظر آئے اور اُنہوں نے اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے اور اُن کی شکایات و تحفظات کو دور کرنے کیلئے بھی عملی اقدامات اُٹھائے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی جام کمال کی مخلوط حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور اُنہوں نے صوبائی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر ایک مرتبہ پھر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی ہے جس پر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے اپوزیشن جماعتیں جام حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر اُس کی کارکردگی کے حوالے سے ایوان میں بحث و مباحثہ کرنا چاہتی ہیں جبکہ حکومتی سطح پر ان دو سالوں کو بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کئے جانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں ۔
اپوزیشن جماعتوں کا یہ کہنا ہے کہ سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں موجودہ جام حکومت ناکام ترین حکومت رہی ہے اور اُس کے جو ویک پوائنٹس ان دو سالوں کے دوران رہے ہیں اُن کی ایوان میں نشاندہی کرکے عوام کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ اس اجلاس میں حکومت اپنے دفاع کیلئے بھرپور تیاریاں کر رہی ہے اور وہ اپوزیشن جماعتوں کی تنقید پر جواب دینے اور اپنی کارکردگی سے عوام کو آگاہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق24 اگست سے شروع ہونے والا بلوچستان اسمبلی کا یہ اجلاس اس لئے بھی ہنگامہ خیز ثابت ہو سکتا ہے کہ اس اجلاس میں اپوزیشن جماعتیں جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی میر زابد ریکی پر قاتلانہ حملے، صوبے میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال اور جعلی ڈومیسائل کے اجراء جیسے معاملات کو بھی زیر بحث لانا چاہتی ہے، اپوزیشن جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دن بدن بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو رہی ہے اور موجودہ مخلوط حکومت خواب خرگوش میں مبتلا ہے اور اپنی دو سالہ کارکردگی جو کہ صفر بٹا صفر، برابر صفر ہے پر بانسری بجا رہی ہے ۔
دوسری جانب جام کمال کی مخلوط حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اُس نے اپنے دو سالہ دور اقتدار میں صوبے میں گڈ گورننس کی بہتری کے ساتھ ساتھ وسائل کا بہترین استعمال کر کے ایک مثال قائم کی ہے، عوامی فنڈز کے استعمال میں شفافیت، جوابدہی اور شراکت داری موجودہ حکومت کا ایک بڑا کارنامہ ہے، اسی طرح سماجی تحفظ اور غربت کے خاتمے کیلئے حکومت جامع حکمت عملی بنا رہی ہے اور صوبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں، جام حکومت کی کاوشوں سے سی پیک کے بڑے ترقیاتی کاموں و منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی تعمیر جاری ہے، بوستان اور حب اسپیشل اکنامک زون کی تعمیر کی باقاعدہ منظوری دے دی گئی ہے، حکومت کی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی بہترین حکمت عملی کے باعث ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار صوبے میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں، صحت اور تعلیم کے شعبے موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں ۔ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں بلوچستان کی موجودہ حکومت سب سے آگے رہی ہے، حکومت بلوچستان کا تفتان بارڈر پر ایران سے آئے ہوئے زائرین کو قرنطینہ کرکے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کلیدی کردار رہا ہے ۔
اسی طرح بلوچستان میں پہلے کینسر ہسپتال کی تعمیرکا آغاز بھی موجودہ حکومت نے کرکے التواء میں پڑے، اس اہم نوعیت کے منصوبے کو اولیت دے کر عوام دوستی کا ثبوت دیا ہے، اس کے علاوہ صوبے میں قیام امن کیلئے حکومتی سطح پر اقدامات کئے جا رہے ہیں اور ماضی کے مقابلے میں بلوچستان میں ''امن'' اس بات کا واضح ثبوت ہے ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی مخلوط حکومت کے حوالے سے جو قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں اور اتحادی جماعت اے این پی کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ شاید وہ مخلوط حکومت سے الگ ہو جائے؟۔
اے این پی کی مرکزی قیادت نے پشاور میں صوبائی پارلیمانی جماعت کے ساتھ مشاورت کے بعد جام کمال کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کر کے ان قیاس آرائیوں کا نہ صرف خاتمہ کر دیا بلکہ اُن کی حکومت کو مزید مضبوط بنادیا ہے جس کے باعث بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن کی صفوں میں ایک مرتبہ پھر مایوسی پھیل گئی ہے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق اپوزیشن کی جماعتوں میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا رہی تھی کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی دوسری بڑی اتحادی جماعت اے این پی موجودہ سیاسی تناظر میں بلوچستان عوامی پارٹی سے اتحاد کو ختم کر سکتی ہے اور اُس کا رجحان اب اپوزیشن جماعتوں کی جانب ہوگا جس کیلئے اُس پر مرکزی قیادت کا بھی دباؤ ہے۔
اس کے علاوہ سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی زیر بحث تھی کہ اے این پی بلوچستان کے پارلیمانی گروپ میں بھی شدید اختلافات ہیں جو کہ پاک افغان چمن بارڈر کی بندش کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک التواء کے موقع پر اے این پی کے وزراء کی ایوان سے غیر حاضری اور اُس کے بعد پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی کی میڈیا سے گفتگو کے دوران پارٹی کے وزراء سمیت حکومتی ارکان کے رویئے پر شدید ردعمل کے باعث کھل کر سامنے آگیا۔
سیاسی حلقوں کے مطابق اے این پی کی مرکزی قیادت نے اس صورتحال کا فوری نوٹس لینے کے بعد معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کیلئے نہ صرف دور اندیشی سے کام لیا بلکہ پارلیمانی گروپ کو آپس میں بٹھا کر افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کیا، اس حوالے سے جو غلط فہمیاں آپس میں پیدا ہوئی تھیں اُنہیں دور کرکے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا ۔ جبکہ اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بھی کافی متحرک نظر آئے اور اُنہوں نے اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے اور اُن کی شکایات و تحفظات کو دور کرنے کیلئے بھی عملی اقدامات اُٹھائے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی جام کمال کی مخلوط حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور اُنہوں نے صوبائی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر ایک مرتبہ پھر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی ہے جس پر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے اپوزیشن جماعتیں جام حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر اُس کی کارکردگی کے حوالے سے ایوان میں بحث و مباحثہ کرنا چاہتی ہیں جبکہ حکومتی سطح پر ان دو سالوں کو بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کئے جانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں ۔
اپوزیشن جماعتوں کا یہ کہنا ہے کہ سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں موجودہ جام حکومت ناکام ترین حکومت رہی ہے اور اُس کے جو ویک پوائنٹس ان دو سالوں کے دوران رہے ہیں اُن کی ایوان میں نشاندہی کرکے عوام کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ اس اجلاس میں حکومت اپنے دفاع کیلئے بھرپور تیاریاں کر رہی ہے اور وہ اپوزیشن جماعتوں کی تنقید پر جواب دینے اور اپنی کارکردگی سے عوام کو آگاہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق24 اگست سے شروع ہونے والا بلوچستان اسمبلی کا یہ اجلاس اس لئے بھی ہنگامہ خیز ثابت ہو سکتا ہے کہ اس اجلاس میں اپوزیشن جماعتیں جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی میر زابد ریکی پر قاتلانہ حملے، صوبے میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال اور جعلی ڈومیسائل کے اجراء جیسے معاملات کو بھی زیر بحث لانا چاہتی ہے، اپوزیشن جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دن بدن بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو رہی ہے اور موجودہ مخلوط حکومت خواب خرگوش میں مبتلا ہے اور اپنی دو سالہ کارکردگی جو کہ صفر بٹا صفر، برابر صفر ہے پر بانسری بجا رہی ہے ۔
دوسری جانب جام کمال کی مخلوط حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اُس نے اپنے دو سالہ دور اقتدار میں صوبے میں گڈ گورننس کی بہتری کے ساتھ ساتھ وسائل کا بہترین استعمال کر کے ایک مثال قائم کی ہے، عوامی فنڈز کے استعمال میں شفافیت، جوابدہی اور شراکت داری موجودہ حکومت کا ایک بڑا کارنامہ ہے، اسی طرح سماجی تحفظ اور غربت کے خاتمے کیلئے حکومت جامع حکمت عملی بنا رہی ہے اور صوبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں، جام حکومت کی کاوشوں سے سی پیک کے بڑے ترقیاتی کاموں و منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی تعمیر جاری ہے، بوستان اور حب اسپیشل اکنامک زون کی تعمیر کی باقاعدہ منظوری دے دی گئی ہے، حکومت کی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی بہترین حکمت عملی کے باعث ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار صوبے میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں، صحت اور تعلیم کے شعبے موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں ۔ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں بلوچستان کی موجودہ حکومت سب سے آگے رہی ہے، حکومت بلوچستان کا تفتان بارڈر پر ایران سے آئے ہوئے زائرین کو قرنطینہ کرکے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کلیدی کردار رہا ہے ۔
اسی طرح بلوچستان میں پہلے کینسر ہسپتال کی تعمیرکا آغاز بھی موجودہ حکومت نے کرکے التواء میں پڑے، اس اہم نوعیت کے منصوبے کو اولیت دے کر عوام دوستی کا ثبوت دیا ہے، اس کے علاوہ صوبے میں قیام امن کیلئے حکومتی سطح پر اقدامات کئے جا رہے ہیں اور ماضی کے مقابلے میں بلوچستان میں ''امن'' اس بات کا واضح ثبوت ہے ۔