حکومت مخالف تحریک فضل الرحمان کامیاب ہو پائیں گے

انہوں نے ان دونوں پارٹیوں سے مایوس ہوکرچھوٹی پارٹیوں کوساتھ ملاکرحکومت کیخلاف اتحادبنانے اورتحریک چلانے کافیصلہ کیاہے۔

انہوں نے ان دونوں پارٹیوں سے مایوس ہوکرچھوٹی پارٹیوں کوساتھ ملاکرحکومت کیخلاف اتحادبنانے اورتحریک چلانے کافیصلہ کیاہے۔ فوٹو : فائل

MUZAFFARABAD:
چونکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں کسی بھی طور مولانا فضل الرحمٰن کی لائن پر نہیں آرہی ہیں اسی لیے انہوں نے ان دونوں پارٹیوں سے مایوس ہوکر چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر حکومت کے خلاف اتحاد بنانے اور تحریک چلانے کافیصلہ کیاہے تاہم صورت حال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی اس حکومت مخالف تحریک کا حصہ نہیں بنتیں تو اس اتحاد اور تحریک کا نہ تو انجام کوئی اچھا نظر آتا ہے اور نہ ہی حکومت کی صحت پر اس سے کوئی اثر پڑے گا۔

ماضی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے خلاف تحاریک چلیں یا پھر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف ،ان میں بڑی سیاسی جماعتیں شامل رہیں یہی وجہ ہے کہ وہ تحاریک کامیابی سے ہمکنار ہوتی رہیں ،اے آرڈی ،جی ڈی اے اور اے پی ڈی ایم جیسی تحاریک کی کامیابی کا سہرا بڑی سیاسی جماعتوں کے سر ہے جبکہ ان پلیٹ فارمز پر اپوزیشن کی تمام جماعتیں یکجا تھیں لیکن یہاں اب صورت حال الگ ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا قبلہ ایک نہیں،ہر جماعت اپنے طور پر معاملات کو چلابھی رہی ہے اور اپنے ،اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں بھی ہے اس لیے مولانا فضل الرحمٰن کی تحریک حکومت مخالف تحریک تو ضرور ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ۔

مولانا فضل الرحمٰن نے جب گزشتہ سال اکتوبر، نومبر میں آزادی مارچ کے نام سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک شروع کی تواس وقت بھی یہی کہا جا رہاتھا کہ اگر مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی اس تحریک کاحصہ بنیں تب ہی یہ کامیابی سے ہم کنار ہونگی لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی صرف سٹیج پر چہرے دکھانے تک محدود رہیں جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کہیں سے اشاروں کا انتظار کرتے رہے جن کا رخ چوہدری برادران نے درمیان میں آکر موڑ دیا اور اب تک مولانا فضل الرحمٰن ان لوگوں کو کوسنے دے رہے ہیں جنہوں نے اس سال مارچ تک پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کا اشارہ دیاتھا۔

اس صورت حال میں اگر وہ دوبارہ چھوٹی پارٹیوں کو لے کر حکومت مخالف تحریک شروع کرتے بھی ہیں تو اس کا انجام بھی بڑے واضح انداز میں نظر آرہا ہے کیونکہ جب کبھی بھی ملک میں سیاسی جماعتوں کا کوئی ایسااتحاد بنا اور منظر عام پر آیا جو تانگہ پارٹیوں پر مشتمل تھا تو وہ حکومتوں کے لیے بے ضرر ثابت ہوا اور یہی حال مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں شروع ہونے والے اس حکومت مخالف اتحاد کا بھی نظر آرہا ہے۔

دیکھنے والے اس تمام تر صورت حال کو بڑے واضح انداز میں دیکھ رہے ہیں یہی وجہ ہے ماضی میں متحدہ مجلس عمل میں مولانافضل الرحمٰن کے پہلو میں بیٹھنے والی جماعت اسلامی بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں، جماعت اسلامی کی قیادت ایک جانب تو مولانا فضل الرحمٰن اور ایم ایم اے کے اثرات سے باہر نکلنے کے لیے کوشاں ہے جبکہ دوسری جانب وہ یہ بھی کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی الگ پہچان بنائیں۔


جماعت اسلامی الگ پہچان بنانے کے لیے گزشتہ عام انتخابات میں بھی سرگرم تھی اور پارٹی کے اندر یہ رائے بڑے ہی واضح انداز میں موجود تھی کہ جماعت اسلامی کو ایم ایم اے سمیت کسی بھی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور اپنے بازوؤں کا زور آزمانا چاہیے لیکن جماعت اسلامی پر ایک مرتبہ پھر مولانا فضل الرحمٰن کا جادو چل گیا اور وہ ترازو کے نشان کی بجائے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے میدان میں اترے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے ایک سال بعد جب خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات کا انعقاد ہوا توجماعت اسلامی ترازو کے ساتھ میدان میں تھی۔

اس صورت میں کہ جب نہ تو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی، مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی خان، محمودخان اچکزئی اور آفتاب احمدخان شیر پاؤکے ساتھ ہوں اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں کلی طور پر ایک صفحے پر، ان کی جدوجہد اور اس کے نتائج کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ان حالات میں یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ اگلے سال مارچ تک کا وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے نہایت ہی اہم ہے کیونکہ اگلے برس مارچ میں سینٹ کے انتخابات منعقد ہونگے اور ان انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو جتنی نشستیں حاصل ہوں گی ان کی بنیاد پر اسے سینٹ میں بھی اکثریت حاصل ہو جائے گی جس کے بعد اس کے لیے قانون سازی کا معاملہ بھی سہل ہو جائے گا اور وہ ضروری اور لازمی قانون سازی کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی طرف نہیں دیکھے گی۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو واپس لانے کی کوششیں تیز کرنے کے ساتھ اپوزیشن کو دباؤ میں لانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں اپنے ہی پسینے میں ڈوبی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں جو مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کی بجائے ،اپنی ،اپنی چھڑی کے سہارے آگے بڑھ رہی ہیں جس کا فائدہ کسی اور کو نہیں بلکہ حکومت ہی کو ہوگا۔

خیبرپختونخوا میں محمودخان نے صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے قیام کا مرحلہ تو بخیر وخوبی طے کرلیاہے لیکن ابھی پارلیمانی سیکرٹریوں کی تقرری ہونا باقی ہے ،پارلیمانی سیکرٹریوں کے لیے نام فائنل کیے جاچکے ہیں لیکن شنید ہے کہ اب ان میں کچھ ردو بدل کی جارہی ہے کیونکہ کچھ ارکان کے رابطے کام کر گئے ہیں جنھیں پارلیمانی سیکرٹریوں کے طور پر حکومت کا حصہ بنایا جارہاہے اورکہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ اگلے برس اگست میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد تک ڈیڈک چیئرمینوں کا تقرر بھی کیا جاسکتا ہے تاکہ کچھ مزید ارکان کو چند ماہ تک سہولیات کی فراہمی ممکن ہوسکے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ صوبائی حکومت نے خود جو قانون، اسمبلی سے منظور کرایاہے۔

اس کے مطابق بلدیاتی انتخابات اگلے سال ماہ اگست تک ہر صورت کرائے جانے ہیں اس لیے چند ماہ کے لیے ڈیڈک چیئرمینوں کی تقرری کوئی معنی نہیں رکھتی تاہم اگر ڈیڈک چیئرمینوں کی تقرری کردی گئی تو اس کا مطلب ہوگا کہ بلدیاتی انتخابات اگلے سال اگست میں بھی نہیں ہورہے اوران کے انعقاد میں مزید تاخیر ہوگی ۔
Load Next Story