اینڈرسن اور عامر کا فرق
اینڈرسن اتنی زیادہ عمر کا ہو کرکیوں ٹیسٹ کھیلتے ہوئے نہیں تھکتے، عامر کیوں باہر بیٹھے ہیں۔
''انکل یہ بتائیں جیمز اینڈرسن کتنے سال کے ہیں''
یہی کوئی 38 برس کے ہوں گے
''اور اپنے محمد عامر کی عمر کتنی ہے''
وہ 28 سال کے ہیں
''تو اینڈرسن اتنی زیادہ عمر کا ہو کرکیوں ٹیسٹ کھیلتے ہوئے نہیں تھکتے، عامر کیوں باہر بیٹھے ہیں''
یہ باتیں سن کر آخرکار میرے دوست نے دخل اندازی کی اور اپنے 12سالہ بیٹے سے کہا ''انکل کو تنگ نہ کرو میچ دیکھنے دو''۔
کورونا کے سبب عائد پابندیاں نرم ہونے پر میرا دوست مجھ سے ملنے آیا تھا، اس کا بیٹا بھی ساتھ آ گیا جہاں ٹی وی پر میچ دیکھتے ہوئے اس نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی اور میں یہ سوچنے لگا کہ آج کل بچوں کو بھی کرکٹ کی کتنی سمجھ ہے، اب جب میں کالم لکھنے بیٹھا تو سوچ رہا ہوں کہ آخر اینڈرسن اور عامر کی سوچ میں اتنا واضح فرق کیوں ہے، صاف وجہ پیسہ نظر آئی، عامر نے ابتدا سے ہی پیسے کو اہمیت دی جس کی وجہ سے جیل تک جانا پڑا، اس پاکستانی عوام کو شاباش جس نے انھیں پھر ہیرو بنایا لیکن صلہ یہ ملا کہ وہ ٹیم کو بیچ منجھدار میں چھوڑ کر صرف محدود اوورز کی کرکٹ تک محدود رہ گئے۔
وہاب ریاض نے بھی ان کی پیروی کی، گوکہ دورئہ انگلینڈ میں انھوں نے ٹیسٹ کھیلنے کا عندیہ دیا لیکن مینجمنٹ نے ہی کھلانے سے گریز کیا، تینوں ٹیسٹ میچز میں پاکستانی پیس اٹیک بے دانت کا شیر نظر آیا، محمد عباس، نسیم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی توقعات پر پورا نہ اتر سکے، نسیم تو ابھی 18 سال کے بھی نہیں ہوئے جبکہ شاہین کی عمر صرف 20 سال ہے، دونوں سیکھنے کے مراحل سے گذر رہے ہیں، انھیں ایک، ایک کر کے میچز میں کھلاتے تو اچھا رہتا۔
ٹیسٹ کرکٹ میں صرف چند گیندیں نہیں اسپیل اچھا کرنا پڑتا ہے اور دونوں اس میں ناکام رہے،ٹیم مینجمنٹ کے پاس 30 کرکٹرز موجود تھے، آپ سہیل خان کو بطور اسٹاک بولر لے کر گئے تھے مگر انھوں نے پریکٹس میچز میں اچھا پرفارم کیا انھیں ایک میچ کھلا دیتے، مگر میچ وننگ کارکردگی کے انتظار میں پوری سیریز نکال دی، 24 سال بعد ٹیسٹ سیریز جیتنے کا ارمان لے کر گئے تھے 10 برس بعد شکست ہو گئی،عباس کی اسپیڈ آہستہ آہستہ مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔
اس سیریز میں بعض اوقات رضوان وکٹوں سے لگ کر ان کی بولنگ پر وکٹ کیپنگ کرتے رہے، پیسر انگلینڈ میں ہمیشہ کامیاب رہتے تھے مگر بدقسمتی سے اس بار ایسا نہ ہو سکا، جہاں انگلش فاسٹ بولرز خاصے کامیاب رہے وہاں ہمارے پیسرز نے مایوس کیا، تین میچز میں عباس، شاہین اور نسیم نے 13 وکٹیں لیں، اس کے برعکس اسپنر یاسر شاہ نے 11 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا،البتہ وہ بھی میچ ونر ثابت نہ ہو سکے، ہمیں ہمیشہ اپنی بولنگ پر ناز رہا لیکن اس بار بولرز نے بھی مایوس کیا، وہ سیریز میں صرف ایک بار انگلینڈ کو آل آؤٹ کر سکے، پہلے ٹیسٹ میں 117پرآدھی انگلش ٹیم آؤٹ کرنے کے باوجود 277 رنز کا دفاع نہ کیا جا سکا، تیسرے میچ میں 583 رنز بنوا دیے۔
ایک 22 سالہ لڑکا زیک کرولی جس نے 44 فرسٹ کلاس میچز میں صرف 2سنچریاں بنائی تھیں وہ ڈبل سنچری بنا گیا،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً27 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے آسٹریلوی کوچ وقار یونس کر کیا رہے ہیں، وہ ہمیشہ سینئرز سے دور نوجوان بولرز کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں اب تو ان کیلیے آئیڈیل صورتحال تھی تو کیوں نتائج نہ دے سکے؟ اس سے ایک بات صاف ظاہر ہے کہ بڑا کھلاڑی بڑا کوچ نہیں ہوتا، اب یہ بیانات آئیں گے کہ نوجوان پیس اٹیک تھا اس لیے ہار گئے تو کس نے کہا تھا کہ آپ شاہین اور نسیم کو ایک ساتھ کھلاتے سہیل یا وہاب کو ہی کھلا دیتے آپ سے کون پوچھتا، پاکستان ٹیم پہلے ٹیسٹ سے ایک ماہ پہلے انگلینڈ پہنچ چکی تھی۔
وہاں بائیو سیکیور ماحول میں صرف پریکٹس اور آرام دو ہی کام تھے،کنڈیشنز سے مکمل ہم آہنگ ہونے کے باوجود اگر اچھے نتائج سامنے نہ آ سکے تویہ لمحہ فکریہ ہے،بیٹسمین بھی زیادہ کامیاب نہ رہے، بابر اعظم سے توقعات تھیں مگر کارکردگی میں تسلسل دکھائی نہ دیا،اظہر کا کیریئر داؤ پر لگا تو آخری ٹیسٹ میں سنچری بنا دی،بلاشبہ وہ اچھی اننگز تھی مگر بطور کپتان انھیں تسلسل سے عمدہ کھیل پیش کرنا چاہیے تھا،شان مسعود پہلی اننگز میں سنچری کے بعد ناکام رہے،عابد علی بھی زیادہ بڑی اننگز نہ کھیل پائے،بدترین ناکامیوں کے شکار اسد شفیق کو اب خداحافظ کہنے کا وقت آ گیا ہے۔
فواد عالم طویل انتظار کے بعد موقع ملنے پر پرفارم نہ کر سکے،البتہ رضوان نے وکٹ کیپنگ کے ساتھ بیٹنگ میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی، ویسے مصباح بطور کوچ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مجھے تو چیف سلیکٹر صاحب نے جو ٹیم دی اسی میں سے پلیئرز کو کھلایا، اب تو کرتا دھرتا ہی وہی ہیں، پی سی بی نے 14 رکنی بھاری بھرکم ٹیم مینجمنٹ بھیجی فائدہ کیا ہوا، کوچنگ اسٹاف تقریباً ایک کروڑ روپے ماہانہ معاوضہ لیتا ہے اس کی کیا پرفارمنس رہی؟مگر افسوس ان سے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے، چیئرمین احسان مانی 2 اور سی ای او وسیم خان ایک ماہ سے انگلینڈ میں چھٹیاں منا رہے ہیں۔
اس سے ان کی ملکی کرکٹ کیلیے غیرسنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اگر آپ کے پاس وقت نہیں تو چھوڑ دیں یہ عہدے، ہمیں اگر ویڈیو لنک پر ہی پی سی بی کو چلانا ہے تو کسی اصل گورے کو ذمہ داری سونپ دیتے ہیں، دورئہ انگلینڈ سے ثابت ہو گیا کہ پاکستان کرکٹ درست انداز میں نہیں چلائی جا رہی، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ٹیم کی کارکردگی مزید زوال پذیر ہو گی، برطانوی اور آسٹریلوی تو سامان باندھ کر اپنے ملک چلے جائیں گے جھیلنا ہم پاکستانیوں کو پڑے گا، دیکھتے ہیں حکومت بہتری کیلیے کچھ کرتی ہے یا نہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
یہی کوئی 38 برس کے ہوں گے
''اور اپنے محمد عامر کی عمر کتنی ہے''
وہ 28 سال کے ہیں
''تو اینڈرسن اتنی زیادہ عمر کا ہو کرکیوں ٹیسٹ کھیلتے ہوئے نہیں تھکتے، عامر کیوں باہر بیٹھے ہیں''
یہ باتیں سن کر آخرکار میرے دوست نے دخل اندازی کی اور اپنے 12سالہ بیٹے سے کہا ''انکل کو تنگ نہ کرو میچ دیکھنے دو''۔
کورونا کے سبب عائد پابندیاں نرم ہونے پر میرا دوست مجھ سے ملنے آیا تھا، اس کا بیٹا بھی ساتھ آ گیا جہاں ٹی وی پر میچ دیکھتے ہوئے اس نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی اور میں یہ سوچنے لگا کہ آج کل بچوں کو بھی کرکٹ کی کتنی سمجھ ہے، اب جب میں کالم لکھنے بیٹھا تو سوچ رہا ہوں کہ آخر اینڈرسن اور عامر کی سوچ میں اتنا واضح فرق کیوں ہے، صاف وجہ پیسہ نظر آئی، عامر نے ابتدا سے ہی پیسے کو اہمیت دی جس کی وجہ سے جیل تک جانا پڑا، اس پاکستانی عوام کو شاباش جس نے انھیں پھر ہیرو بنایا لیکن صلہ یہ ملا کہ وہ ٹیم کو بیچ منجھدار میں چھوڑ کر صرف محدود اوورز کی کرکٹ تک محدود رہ گئے۔
وہاب ریاض نے بھی ان کی پیروی کی، گوکہ دورئہ انگلینڈ میں انھوں نے ٹیسٹ کھیلنے کا عندیہ دیا لیکن مینجمنٹ نے ہی کھلانے سے گریز کیا، تینوں ٹیسٹ میچز میں پاکستانی پیس اٹیک بے دانت کا شیر نظر آیا، محمد عباس، نسیم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی توقعات پر پورا نہ اتر سکے، نسیم تو ابھی 18 سال کے بھی نہیں ہوئے جبکہ شاہین کی عمر صرف 20 سال ہے، دونوں سیکھنے کے مراحل سے گذر رہے ہیں، انھیں ایک، ایک کر کے میچز میں کھلاتے تو اچھا رہتا۔
ٹیسٹ کرکٹ میں صرف چند گیندیں نہیں اسپیل اچھا کرنا پڑتا ہے اور دونوں اس میں ناکام رہے،ٹیم مینجمنٹ کے پاس 30 کرکٹرز موجود تھے، آپ سہیل خان کو بطور اسٹاک بولر لے کر گئے تھے مگر انھوں نے پریکٹس میچز میں اچھا پرفارم کیا انھیں ایک میچ کھلا دیتے، مگر میچ وننگ کارکردگی کے انتظار میں پوری سیریز نکال دی، 24 سال بعد ٹیسٹ سیریز جیتنے کا ارمان لے کر گئے تھے 10 برس بعد شکست ہو گئی،عباس کی اسپیڈ آہستہ آہستہ مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔
اس سیریز میں بعض اوقات رضوان وکٹوں سے لگ کر ان کی بولنگ پر وکٹ کیپنگ کرتے رہے، پیسر انگلینڈ میں ہمیشہ کامیاب رہتے تھے مگر بدقسمتی سے اس بار ایسا نہ ہو سکا، جہاں انگلش فاسٹ بولرز خاصے کامیاب رہے وہاں ہمارے پیسرز نے مایوس کیا، تین میچز میں عباس، شاہین اور نسیم نے 13 وکٹیں لیں، اس کے برعکس اسپنر یاسر شاہ نے 11 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا،البتہ وہ بھی میچ ونر ثابت نہ ہو سکے، ہمیں ہمیشہ اپنی بولنگ پر ناز رہا لیکن اس بار بولرز نے بھی مایوس کیا، وہ سیریز میں صرف ایک بار انگلینڈ کو آل آؤٹ کر سکے، پہلے ٹیسٹ میں 117پرآدھی انگلش ٹیم آؤٹ کرنے کے باوجود 277 رنز کا دفاع نہ کیا جا سکا، تیسرے میچ میں 583 رنز بنوا دیے۔
ایک 22 سالہ لڑکا زیک کرولی جس نے 44 فرسٹ کلاس میچز میں صرف 2سنچریاں بنائی تھیں وہ ڈبل سنچری بنا گیا،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً27 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے آسٹریلوی کوچ وقار یونس کر کیا رہے ہیں، وہ ہمیشہ سینئرز سے دور نوجوان بولرز کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں اب تو ان کیلیے آئیڈیل صورتحال تھی تو کیوں نتائج نہ دے سکے؟ اس سے ایک بات صاف ظاہر ہے کہ بڑا کھلاڑی بڑا کوچ نہیں ہوتا، اب یہ بیانات آئیں گے کہ نوجوان پیس اٹیک تھا اس لیے ہار گئے تو کس نے کہا تھا کہ آپ شاہین اور نسیم کو ایک ساتھ کھلاتے سہیل یا وہاب کو ہی کھلا دیتے آپ سے کون پوچھتا، پاکستان ٹیم پہلے ٹیسٹ سے ایک ماہ پہلے انگلینڈ پہنچ چکی تھی۔
وہاں بائیو سیکیور ماحول میں صرف پریکٹس اور آرام دو ہی کام تھے،کنڈیشنز سے مکمل ہم آہنگ ہونے کے باوجود اگر اچھے نتائج سامنے نہ آ سکے تویہ لمحہ فکریہ ہے،بیٹسمین بھی زیادہ کامیاب نہ رہے، بابر اعظم سے توقعات تھیں مگر کارکردگی میں تسلسل دکھائی نہ دیا،اظہر کا کیریئر داؤ پر لگا تو آخری ٹیسٹ میں سنچری بنا دی،بلاشبہ وہ اچھی اننگز تھی مگر بطور کپتان انھیں تسلسل سے عمدہ کھیل پیش کرنا چاہیے تھا،شان مسعود پہلی اننگز میں سنچری کے بعد ناکام رہے،عابد علی بھی زیادہ بڑی اننگز نہ کھیل پائے،بدترین ناکامیوں کے شکار اسد شفیق کو اب خداحافظ کہنے کا وقت آ گیا ہے۔
فواد عالم طویل انتظار کے بعد موقع ملنے پر پرفارم نہ کر سکے،البتہ رضوان نے وکٹ کیپنگ کے ساتھ بیٹنگ میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی، ویسے مصباح بطور کوچ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مجھے تو چیف سلیکٹر صاحب نے جو ٹیم دی اسی میں سے پلیئرز کو کھلایا، اب تو کرتا دھرتا ہی وہی ہیں، پی سی بی نے 14 رکنی بھاری بھرکم ٹیم مینجمنٹ بھیجی فائدہ کیا ہوا، کوچنگ اسٹاف تقریباً ایک کروڑ روپے ماہانہ معاوضہ لیتا ہے اس کی کیا پرفارمنس رہی؟مگر افسوس ان سے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے، چیئرمین احسان مانی 2 اور سی ای او وسیم خان ایک ماہ سے انگلینڈ میں چھٹیاں منا رہے ہیں۔
اس سے ان کی ملکی کرکٹ کیلیے غیرسنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اگر آپ کے پاس وقت نہیں تو چھوڑ دیں یہ عہدے، ہمیں اگر ویڈیو لنک پر ہی پی سی بی کو چلانا ہے تو کسی اصل گورے کو ذمہ داری سونپ دیتے ہیں، دورئہ انگلینڈ سے ثابت ہو گیا کہ پاکستان کرکٹ درست انداز میں نہیں چلائی جا رہی، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ٹیم کی کارکردگی مزید زوال پذیر ہو گی، برطانوی اور آسٹریلوی تو سامان باندھ کر اپنے ملک چلے جائیں گے جھیلنا ہم پاکستانیوں کو پڑے گا، دیکھتے ہیں حکومت بہتری کیلیے کچھ کرتی ہے یا نہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)