کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے خیبرپختونخوا حکومت کی کامیاب حکمت عملی
حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مریضوں کی تعداد صرف ایک ہزار چھپن رہ گئی
گزشتہ سال چین کے شہر ووہان سے ایک وبا آندھی اور طوفان کی طرح اٹھی اوراس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جب سال2019 ء کے آخری دو مہینوں یعنی نومبر اور دسمبر میں یہ وباء چینی شہر ووہان سے اٹھی تو اس وقت یہ خیال کیاگیاکہ اس وباء کا تعلق صرف چین کے ایک شہر سے ہے اور شاید یہ صرف وہیں تک محدود رہے گی لیکن پھر یہ وباء پھیلنا شروع ہوئی اور چین کے بعد دنیا کے مختلف ممالک اور براعظموں کو اس نے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا تو دنیا کی آنکھیں کھلیں کہ یہ سپینش فلو طرز کی وباء ہے جو انتہائی مہلک ہے۔
زمانہ نے دیکھا کہ یہی کچھ ہوا ،یہ وباء یورپ پہنچی ،امریکہ گئی ،ایشیاء کو اپنی لپیٹ میں لیا اور دنیا کے کونے ،کونے میں پھیلتی چلی گئی جس کے نتیجے میں 2 کروڑ27 لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ 8 لاکھ لقمہ اجل بن گئے۔
پاکستان میں یہ وباء رواں سال کے اوائل میں وارد ہوئی اور اس کی بنیادی وجہ دنیا کے ان ممالک سے پاکستانیوں کی آمد تھی جہاں یہ وباء پھیلی ہوئی تھی ،بھلے وہ چین تھا یا ایران یا دنیا کے دیگر ممالک ،جہاں ،جہاں بھی یہ وباء موجود تھی وہاں رہائش پذیر لوگ جب اپنے وطن واپس آئے تو ساتھ ہی یہ وباء بھی لے کر آئے جس کے نتیجے میں2 لاکھ 92 ہزارافراد متاثر ہوئے جبکہ اموات کی تعداد6231 رہی۔ ملکی سطح پر اس وباء کا انتہائی قابلیت کے ساتھ مقابلہ کیا گیا ۔ وفاقی حکومت کے اقدامات کو بین الااقوامی سطح پر سراہا گیا لیکن اگر ہم ملکی سطح پر دیکھا جائے تو سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ خیبر پختونخوا حکومت نے کیا۔
خیبرپختونخواکی صورت حال یہ ہے کہ صوبہ میں کورونا وباء کے متاثرین کی کل تعداد35602 رہی ہے جبکہ صوبہ بھر میں 1246 افراد جان بحق ہوئے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس وباء سے متاثر ہ 35 ہزار میں سے33300 افراد صحت یاب ہوچکے ہیں اور ایکٹو کیسز کی تعداد صرف1056 رہ گئی ہے۔ جو لوگ اس وباء سے متاثر ہیں ان کی تعداد میں بتدریج کمی آرہی ہے ،جس رفتار سے کورونا سے متاثرہ افراد سامنے آرہے تھے ان میں بھی کمی آگئی ہے اور امید ہے کہ جلد اس وباء سے متاثرہ افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انھیں اُمید ہے کہ ''کورونا وائرس کی وباء سے دو برس سے بھی کم مدت میں ختم ہوجائے گی ''،وہ اس بنیاد پر یہ بات کر رہے ہیں کہ اب دنیا میں کورونا کے نئے مریضوں کی آمد کی رفتار انتہائی کم ہوگئی ہے جبکہ دوسری جانب 1918ء میں پھیلنے والے ہسپانوی فلو پانچ سال تک دنیا پر چھایا رہا تھا کیونکہ اس وقت کے اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے ،سوسال پہلے کے مقابلے میں آج طبی آلات اور حالات الگ ہیں اور سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اس کی بدولت اس مرض پر قابو پانے میں مدد ملی ہے لیکن آج بھی انتظامی سطح پر کئے جانے والے اقدامات اور ان کا نفاذ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
خیبرپختونخوا میں محمود خان حکومت نے رواں سال جنوری ہی سے اس وباء کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال اور حساسیت کا اندازہ کرلیاتھا اور ماہ فروری سے اقدامات شروع کر دیئے جس کے نتیجے میں احتیاطی تدابیر اپنانے کے علاوہ ہسپتالوں میں ایمرجنسی کا نفاذ کرنے کے ساتھ کیپرا رولز کو بھی معطل کردیاگیا تاکہ محکمہ صحت یا پی ڈی ایم اے کو کورونا وباء سے نمٹنے کے لیے جن اشیاء اور آلات کی ضرورت ہو ان کی فوری طور پر خریداری ممکن ہوسکے اور اس صورت حال کے تناظر میں پی ڈی ایم پی نے ہر ضلع اور شہر کے حالات کے مطابق اشیاء اور طبی آلات کی خریداری کرتے ہوئے ہسپتالوں تک ان کی رسائی کو ممکن بنایا اور اس تمام تر صورت حال کی نگرانی کوئی اور نہیں بلکہ خود وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کرتے رہے اور جب وزیراعلیٰ خود براہ راست تمام معاملات کی نگرانی کررہے ہوں تو اس صورت میں ان کی کابینہ اور سرکاری مشینری بھی پورے طریقے سے الرٹ رہتی ہے اور یہی کچھ خیبرپختونخوا میں بھی دیکھنے کو ملا جہاں پوری کی پوری مشینری دن رات کام کرتی رہے جس کے نتیجے میں مشکلات اور مسائل میں کمی آتی گئی۔
خیبرپختونخوا حکومت نے اس سال ہی مارچ کے مہینے میں اس وقت انتہائی مشکل اور سخت فیصلے کیے جب صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں میں امتحانات شروع ہوچکے تھے ،سکولوں کی سطح پر طلباء وطالبات اگلی کلاسوں میں پروموٹ ہونے کے سالانہ امتحانات میں شریک تھے اور پشاور سمیت مختلف بورڈز کے زیر اہتمام میٹرک کے سالانہ امتحانات شروع ہوچکے تھے ،اس مرحلے پر گومگو کی کیفیت تھی لیکن حکومت نے کسی بھی قسم کی کشمکش کا شکار ہوئے بغیر اس وقت فیصلہ کیا اور فیصلہ یہ تھا کہ عوام کی زندگیاں سب سے زیادہ اہم بھی ہیں اور انھیں ہر صورت بچانا بھی ہے۔
اس لیے صوبہ بھر میں لاک ڈاون کر دیا گیا،تمام تعلیمی اداروں کو بند جبکہ بورڈز کے امتحانات کو ملتوی کر دیا گیا جس کے نتیجے میں بازاروں اور مارکیٹوں میں رش ختم ہوکر رہ گیا ،دفاتر کی بندش سے سرکاری اداروں میں لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ،اور یہ صوبائی حکومت کے یہی اقدامات تھے کہ جن کی بدولت کورونا کی وباء پھیلی تو ضرور لیکن کیس اس رفتار سے سامنے نہیں آئے جس رفتار سے اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اور صورت حال کو کنٹرول کرلیاگیا۔
مشکلات بہت زیادہ تھیں اور کورونا کی وباء پورے ملک میں تباہی پھیلا رہی تھی اس لیے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان نے محکمہ صحت اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد اہم فیصلے کیے جن کا اعلان بھی انہوں نے خود ہی کیا تاکہ عوام کو ان کی اہمیت کا احساس ہوسکے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں جو اہم فیصلے کیے گئے۔
ان فیصلوں کی روشنی میںخیبرپختونخوا حکومت نے کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ صورت حال کے تناظر میں حفاظتی اقدامات کو مزید سخت کرتے ہوئے جزوی طور پر لاک ڈاون کردیا جس کے تحت شادی ہالوں کے بعد نجی سطح پر بھی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے انعقاد پر پابندی عائد کردی گئی۔ وزراء ،مشیروں اور معاونین خصوصی کے دفاتر بند اور سرکاری اداروں میں عوام کے داخلے پر پابندی جبکہ حجاموں کی دکانوں اور بیوٹی پارلرز کو بھی بند کردیاگیا ،تمام بازارصبح 10 سے شام 7 بجے تک کھولنے کے احکامات جاری کیے گئے تاہم ادویات و سبزی کی دکانوں اور کریانہ سٹورز اس سے استثنیٰ دیاگیا،سرکاری دفاتر کے اوقات کار بھی تبدیل کرتے ہوئے صبح دس سے سہ پہر چار بجے تک کر دیا گیا ہے۔
تین گھنٹوں پر مشتمل طویل اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ ہاوس پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بشمول صوبہ کے بالائی حصوں کے تمام سیاحتی مقامات ،دریاوں کے کناروں پر پکنک سپاٹس اور کھیلوں کے میدان بھی بند رہیں گے جبکہ طلبہ بھی سیر سپاٹوں پر جانے کی بجائے گھروں تک محدود رہیں۔انہوں نے کہا کہ تمام سرکاری دفاتر صبح 10 بجے کھلیںاورسہ پہر چار بجے بند ہوں گے جبکہ جمعہ کے دن دفاتر میں بارہ بجے چھٹی ہوگی،تمام سرکاری اجلاسوں میں پانچ سے زائد افراد کی شرکت پر پابندی ہوگی اور ضرورت کی بنیاد پر ویڈیو کانفرنس یا سپیکر فون کے ذریعے دیگر کی شرکت یقینی بنائی جائے گی۔
وزیراعلیٰ محمودخان نے اعلان کیا کہ تمام وزراء ،مشیروں اور معاونین خصوصی کے دفاتر بند رہیں گے ،تمام ریسٹورنٹس اورکھانے پینے کی دکانیں بھی 5 اپریل تک بند رہیں گی تاہم وہاں سے لوگوں کو ہوم ڈیلیوری کی سہولت فراہم کی جاسکے گی ،حجاموں کی دکانیں اور بیوٹی پارلر بھی پندرہ دنوں کے لیے بند رہیں گے ،تمام بنک اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ اپنی اے ٹی ایم مشینوں کے پاس حساس محلول (sanitizers )کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔اس موقع پر وزیراعلیٰ محمودخان نے کہا کہ :اس پریس کانفرنس مقصد یہ ہے کہ کوروناوبا ء بن چکاہے۔
حکومت عوام کے ساتھ کھڑی ہے عوام بھی ساتھ دے،ہم اس وبا ء کو روکنا چاہتے ہیں اوراس کے خلاف لڑِیں گے،ہم سب مل کراس کامقابلہ کریں گے،ہم نے ہمیشہ۔مشکلات کامقابلہ کیااورکریں گے،ہم نے سخت فیصلے لینے ہیں جوعوامی مفادمیں ہے،میں خود ہرمعاملے کی نگرانی کر رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ عوام شادیاں سادگی سے کریں ،شادی ہال مجبوراً بندکیے۔انہوں نے کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے امتحان ہے اور ہم سرخرو ہوکراس سے نکلیں گے قوم اللہ سے اپنے اعمال کی معافی مانگیں،ہم اس کی شدت کے مطابق فیصلے لیں گے،میںپورے صوبہ کے دورے کروں گا،متاثرہ افراد سے بھی میں نے بات کی ہے،افواہوں پرکان نہ دھریں،کرفیو نہیں لگا رہے لیکن سخت اقدامات کرینگے، شاہ کس لیوی سنٹر کو قرنطینہ قراردیا گیا ہے تاکہ افغانستان سے جو لوگ آئیں وہ وہاں ٹھہر سکیں ،اڈوں پربھی رش نہ ہو ورنہ بندکر دیں گے۔
وزیراعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ فیصلے بتدریج لیں گے تاکہ خوف پیدا نہ ہو،ہم نے تین فروری کواس حوالے سے ایمرجنسی نافذکی تھی تاہم تفتان سے آنے والے انیس میں سے پندرہ کے رزلٹس مثبت آئے ہیں،ہم صورت حال کے مطابق سہولیات اورضروریات پوری کررہے ہیں،پوری دنیاایک ہی کشتی میں سوارہے،ہمیں کسی سے مقابلے کی فکرنہیں،ہم نے وہ اقدامات کیے جو ضروری ہیں۔انہوں نے کہا کہ نجی کلینکس کا معاملہ آگے زیربحث لائیں گے تاکہ طریقہ کار وضع کرسکیں،ہم نے مکمل طور پرکاروبار بند نہیں کیے بلکہ اوقات مقررکیے ہیں،پیکج بھی بنا رہے ہیں تاکہ سخت حالات میں سنبھال سکیں۔
پیسے کا انتظام ہم نے کیا ہے اور8ارب منظورکیے ہیں،پچاس کروڑ صحت جبکہ ساٹھ کروڑ ریلیف کے محکموں کو دیئے گئے ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ عوام میں ابھی اس حوالے سے اس قدر احساس نہیں اس لیے آگہی مہم چلائیں گے اوراس سلسلے میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان نے اپنی پریس کانفرنس کے موقع پر عوام کو کورونا وائرس کی حساسیت کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے اردو زبان میں پریس کانفرنس کے انعقاد کے بعد پشتو زبان میں بھی اپنا پیغام ریکارڈ کرایا تاکہ لوگ بہتر انداز میں اس حساس معاملے کے حوالے سے سمجھ سکیں۔
خیبرپختونخوا حکومت نے مکمل لاک ڈاون کیا لیکن جب عید قریب آئی تو اس موقع پر عوام کو قدرے ریلیف دینے اور ان کو درپیش مالی مشکلات کے پیش نظر لاک ڈاون میں نرمی کی گئی لیکن اس نرمی کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوا اور کیسز کی رفتار بھی بڑھ گئی جسے مد نظررکھتے ہوئے حکومت نے بازاروں اور دکانوں کو کھولنے اور ان کی بندش کے حوالے سے اہم فیصلے کیے۔
اوقات کار مقرر کیے گئے ،سرکاری دفاتر میں بھی ملازمین پر پابندیاں عائد کی گئیں اور خواتین و بزرگ سرکاری ملازمین کو چھٹی دے دی گئی تاہم لوگوں کو درپیش مشکلات کا خاتمہ نہ ہونے پر حکومت نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور اس سلسلے میں کاروائیاں جاری رکھتے ہوئے سمارٹ لاک ڈاون کی راہ اختیار کی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو مشکلات کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے اور ساتھ ہی جن علاقوں سے کورونا سے متاثرہ مریض آرہے ہیں وہاں آمد و رفت کو بھی کنٹرول کیا جاسکااور یہ پالیسی اچھی خاصی کامیاب رہی کیونکہ اس طریقے سے کئی علاقوں کو کنٹرول کرلیا گیا۔
صوبائی حکومت کے بروقت اقدامات اور مناسب فیصلوں کی بدولت کورونا کی وباء کی بہتر انداز میں روک تھام کی گئی اورمرض کو پھیلنے سے روکاگیا ،صوبائی حکومت نے فنڈز فراہمی کی پرواہ کی نہ ہی دیگر مسائل کی بلکہ ان کا پورا فوکس اس پر رہا کہ وباء پھلنے نہ پائے اور جو لوگ اس وباء کی وجہ سے متاثر ہیں انھیں اس دوران ریلیف دیاجا سکے اوریہ پالیسی اب بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے کیونکہ سمارٹ لاک ڈاون کے بعد مائیکرو لاک ڈاون کا سلسلہ جاری ہے اور وہ گلی ،محلے یا علاقے جہاں یہ مسلہ اب بھی موجود ہے یا جہاں سے مریض سامنے آرہے ہیں صرف ان علاقوں کی بندش کی راہ اپنائی گئی ہے تاکہ عوام کو تکلیف بھی نہ ہو اور ایسے افراد کہ جو اس وباء کی وجہ سے متاثر ہیں ان کے دیگر افراد کے ساتھ میل جول کو بھی کم سے کم پیمانے پر رکھاجائے جس کے یقینی طور پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے ایک جانب تو کورونا وباء سے متاثرہ افراد کے صحت یاب ہونے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب نئے کیسز بھی انتہائی کم تعداد میں سامنے آرہے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بات ضرور مدنظررکھنی چاہیے کہ یہ کے پی کے حکومت کی عمدہ پالیسی اور بروقت فیصلے ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں کورونا وباء سے متاثرہ افراد کی تعداد35 ہزار تک محدود رہی جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب اور سندھ میں یہ تعداد دگنی اور تگنی ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت ہمہ وقت مرکزی حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں اور فورمز کے ساتھ رابطوں میں رہی جس کا اچھا نتیجہ سب کے سامنے ہے ،اور یہ پالیسی ختم نہیں ہوئی بلکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان اور ان کی پوری ٹیم تمام تر صورت حال کی مانیٹرنگ بھی کر رہی ہے اور فیصلے بھی لیے جا رہے ہیں جبکہ وزیرصحت تیمور سلیم جھگڑا خود تمام تر معاملات سے جڑے ہوئے ہیں تاکہ کوئی بھی ایسا اقدام نہ ہونے پائے کہ جس کی وجہ سے عوام کے لیے مشکلات پیداہوں یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا اس وباء سے چھٹکارا پانے کی راہ پر تیزی کے ساتھ چل رہا ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوںمیں خیبرپختونخوا کورونا فری ہوجائے گا۔
اس حوالے سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکے معاون خصوصی کامران خان بنگش کا کردار بھی مثالی رہا ہے ان کی کارکردگی اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انھیں بلدیات جیسے بڑے محکمے کا قلمدان حوالے کردیاگیا اور پھر محکمہ اطلاعات کا قلمدان بھی ان کے پاس آگیا ،انہوں نے محکمہ اطلاعات کا قلمدان سنبھالا تو کورونا کے وار جاری تھے۔
عوام کو مشکلات بھی درپیش تھیں اور مسائل بھی اپنی جگہ موجود تھے لیکن انہوں نے ایک جانب تو حکومت کی ترجمانی کا حق ادا کیا اور دوسری جانب عوا م تک بروقت معلومات کی فراہمی کے ساتھ ان کی خبر رکھتے ہوئے حکومت کو بھی اس سے آگاہ کیا جس کی بدولت محکمہ اطلاعات حقیقی معنوں میں حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوا اور اس کی بدولت ہی عوام کا حکومت پر اعتماد بھی بڑھا اور ساتھ ہی عوام بہتر طریقے سے حکومتی فیصلوں اور اقدامات سے آگاہ بھی ہونا شروع ہوئے۔
زمانہ نے دیکھا کہ یہی کچھ ہوا ،یہ وباء یورپ پہنچی ،امریکہ گئی ،ایشیاء کو اپنی لپیٹ میں لیا اور دنیا کے کونے ،کونے میں پھیلتی چلی گئی جس کے نتیجے میں 2 کروڑ27 لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ 8 لاکھ لقمہ اجل بن گئے۔
پاکستان میں یہ وباء رواں سال کے اوائل میں وارد ہوئی اور اس کی بنیادی وجہ دنیا کے ان ممالک سے پاکستانیوں کی آمد تھی جہاں یہ وباء پھیلی ہوئی تھی ،بھلے وہ چین تھا یا ایران یا دنیا کے دیگر ممالک ،جہاں ،جہاں بھی یہ وباء موجود تھی وہاں رہائش پذیر لوگ جب اپنے وطن واپس آئے تو ساتھ ہی یہ وباء بھی لے کر آئے جس کے نتیجے میں2 لاکھ 92 ہزارافراد متاثر ہوئے جبکہ اموات کی تعداد6231 رہی۔ ملکی سطح پر اس وباء کا انتہائی قابلیت کے ساتھ مقابلہ کیا گیا ۔ وفاقی حکومت کے اقدامات کو بین الااقوامی سطح پر سراہا گیا لیکن اگر ہم ملکی سطح پر دیکھا جائے تو سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ خیبر پختونخوا حکومت نے کیا۔
خیبرپختونخواکی صورت حال یہ ہے کہ صوبہ میں کورونا وباء کے متاثرین کی کل تعداد35602 رہی ہے جبکہ صوبہ بھر میں 1246 افراد جان بحق ہوئے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس وباء سے متاثر ہ 35 ہزار میں سے33300 افراد صحت یاب ہوچکے ہیں اور ایکٹو کیسز کی تعداد صرف1056 رہ گئی ہے۔ جو لوگ اس وباء سے متاثر ہیں ان کی تعداد میں بتدریج کمی آرہی ہے ،جس رفتار سے کورونا سے متاثرہ افراد سامنے آرہے تھے ان میں بھی کمی آگئی ہے اور امید ہے کہ جلد اس وباء سے متاثرہ افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انھیں اُمید ہے کہ ''کورونا وائرس کی وباء سے دو برس سے بھی کم مدت میں ختم ہوجائے گی ''،وہ اس بنیاد پر یہ بات کر رہے ہیں کہ اب دنیا میں کورونا کے نئے مریضوں کی آمد کی رفتار انتہائی کم ہوگئی ہے جبکہ دوسری جانب 1918ء میں پھیلنے والے ہسپانوی فلو پانچ سال تک دنیا پر چھایا رہا تھا کیونکہ اس وقت کے اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے ،سوسال پہلے کے مقابلے میں آج طبی آلات اور حالات الگ ہیں اور سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اس کی بدولت اس مرض پر قابو پانے میں مدد ملی ہے لیکن آج بھی انتظامی سطح پر کئے جانے والے اقدامات اور ان کا نفاذ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
خیبرپختونخوا میں محمود خان حکومت نے رواں سال جنوری ہی سے اس وباء کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال اور حساسیت کا اندازہ کرلیاتھا اور ماہ فروری سے اقدامات شروع کر دیئے جس کے نتیجے میں احتیاطی تدابیر اپنانے کے علاوہ ہسپتالوں میں ایمرجنسی کا نفاذ کرنے کے ساتھ کیپرا رولز کو بھی معطل کردیاگیا تاکہ محکمہ صحت یا پی ڈی ایم اے کو کورونا وباء سے نمٹنے کے لیے جن اشیاء اور آلات کی ضرورت ہو ان کی فوری طور پر خریداری ممکن ہوسکے اور اس صورت حال کے تناظر میں پی ڈی ایم پی نے ہر ضلع اور شہر کے حالات کے مطابق اشیاء اور طبی آلات کی خریداری کرتے ہوئے ہسپتالوں تک ان کی رسائی کو ممکن بنایا اور اس تمام تر صورت حال کی نگرانی کوئی اور نہیں بلکہ خود وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کرتے رہے اور جب وزیراعلیٰ خود براہ راست تمام معاملات کی نگرانی کررہے ہوں تو اس صورت میں ان کی کابینہ اور سرکاری مشینری بھی پورے طریقے سے الرٹ رہتی ہے اور یہی کچھ خیبرپختونخوا میں بھی دیکھنے کو ملا جہاں پوری کی پوری مشینری دن رات کام کرتی رہے جس کے نتیجے میں مشکلات اور مسائل میں کمی آتی گئی۔
خیبرپختونخوا حکومت نے اس سال ہی مارچ کے مہینے میں اس وقت انتہائی مشکل اور سخت فیصلے کیے جب صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں میں امتحانات شروع ہوچکے تھے ،سکولوں کی سطح پر طلباء وطالبات اگلی کلاسوں میں پروموٹ ہونے کے سالانہ امتحانات میں شریک تھے اور پشاور سمیت مختلف بورڈز کے زیر اہتمام میٹرک کے سالانہ امتحانات شروع ہوچکے تھے ،اس مرحلے پر گومگو کی کیفیت تھی لیکن حکومت نے کسی بھی قسم کی کشمکش کا شکار ہوئے بغیر اس وقت فیصلہ کیا اور فیصلہ یہ تھا کہ عوام کی زندگیاں سب سے زیادہ اہم بھی ہیں اور انھیں ہر صورت بچانا بھی ہے۔
اس لیے صوبہ بھر میں لاک ڈاون کر دیا گیا،تمام تعلیمی اداروں کو بند جبکہ بورڈز کے امتحانات کو ملتوی کر دیا گیا جس کے نتیجے میں بازاروں اور مارکیٹوں میں رش ختم ہوکر رہ گیا ،دفاتر کی بندش سے سرکاری اداروں میں لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ،اور یہ صوبائی حکومت کے یہی اقدامات تھے کہ جن کی بدولت کورونا کی وباء پھیلی تو ضرور لیکن کیس اس رفتار سے سامنے نہیں آئے جس رفتار سے اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اور صورت حال کو کنٹرول کرلیاگیا۔
مشکلات بہت زیادہ تھیں اور کورونا کی وباء پورے ملک میں تباہی پھیلا رہی تھی اس لیے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان نے محکمہ صحت اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد اہم فیصلے کیے جن کا اعلان بھی انہوں نے خود ہی کیا تاکہ عوام کو ان کی اہمیت کا احساس ہوسکے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں جو اہم فیصلے کیے گئے۔
ان فیصلوں کی روشنی میںخیبرپختونخوا حکومت نے کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ صورت حال کے تناظر میں حفاظتی اقدامات کو مزید سخت کرتے ہوئے جزوی طور پر لاک ڈاون کردیا جس کے تحت شادی ہالوں کے بعد نجی سطح پر بھی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے انعقاد پر پابندی عائد کردی گئی۔ وزراء ،مشیروں اور معاونین خصوصی کے دفاتر بند اور سرکاری اداروں میں عوام کے داخلے پر پابندی جبکہ حجاموں کی دکانوں اور بیوٹی پارلرز کو بھی بند کردیاگیا ،تمام بازارصبح 10 سے شام 7 بجے تک کھولنے کے احکامات جاری کیے گئے تاہم ادویات و سبزی کی دکانوں اور کریانہ سٹورز اس سے استثنیٰ دیاگیا،سرکاری دفاتر کے اوقات کار بھی تبدیل کرتے ہوئے صبح دس سے سہ پہر چار بجے تک کر دیا گیا ہے۔
تین گھنٹوں پر مشتمل طویل اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ ہاوس پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بشمول صوبہ کے بالائی حصوں کے تمام سیاحتی مقامات ،دریاوں کے کناروں پر پکنک سپاٹس اور کھیلوں کے میدان بھی بند رہیں گے جبکہ طلبہ بھی سیر سپاٹوں پر جانے کی بجائے گھروں تک محدود رہیں۔انہوں نے کہا کہ تمام سرکاری دفاتر صبح 10 بجے کھلیںاورسہ پہر چار بجے بند ہوں گے جبکہ جمعہ کے دن دفاتر میں بارہ بجے چھٹی ہوگی،تمام سرکاری اجلاسوں میں پانچ سے زائد افراد کی شرکت پر پابندی ہوگی اور ضرورت کی بنیاد پر ویڈیو کانفرنس یا سپیکر فون کے ذریعے دیگر کی شرکت یقینی بنائی جائے گی۔
وزیراعلیٰ محمودخان نے اعلان کیا کہ تمام وزراء ،مشیروں اور معاونین خصوصی کے دفاتر بند رہیں گے ،تمام ریسٹورنٹس اورکھانے پینے کی دکانیں بھی 5 اپریل تک بند رہیں گی تاہم وہاں سے لوگوں کو ہوم ڈیلیوری کی سہولت فراہم کی جاسکے گی ،حجاموں کی دکانیں اور بیوٹی پارلر بھی پندرہ دنوں کے لیے بند رہیں گے ،تمام بنک اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ اپنی اے ٹی ایم مشینوں کے پاس حساس محلول (sanitizers )کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔اس موقع پر وزیراعلیٰ محمودخان نے کہا کہ :اس پریس کانفرنس مقصد یہ ہے کہ کوروناوبا ء بن چکاہے۔
حکومت عوام کے ساتھ کھڑی ہے عوام بھی ساتھ دے،ہم اس وبا ء کو روکنا چاہتے ہیں اوراس کے خلاف لڑِیں گے،ہم سب مل کراس کامقابلہ کریں گے،ہم نے ہمیشہ۔مشکلات کامقابلہ کیااورکریں گے،ہم نے سخت فیصلے لینے ہیں جوعوامی مفادمیں ہے،میں خود ہرمعاملے کی نگرانی کر رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ عوام شادیاں سادگی سے کریں ،شادی ہال مجبوراً بندکیے۔انہوں نے کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے امتحان ہے اور ہم سرخرو ہوکراس سے نکلیں گے قوم اللہ سے اپنے اعمال کی معافی مانگیں،ہم اس کی شدت کے مطابق فیصلے لیں گے،میںپورے صوبہ کے دورے کروں گا،متاثرہ افراد سے بھی میں نے بات کی ہے،افواہوں پرکان نہ دھریں،کرفیو نہیں لگا رہے لیکن سخت اقدامات کرینگے، شاہ کس لیوی سنٹر کو قرنطینہ قراردیا گیا ہے تاکہ افغانستان سے جو لوگ آئیں وہ وہاں ٹھہر سکیں ،اڈوں پربھی رش نہ ہو ورنہ بندکر دیں گے۔
وزیراعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ فیصلے بتدریج لیں گے تاکہ خوف پیدا نہ ہو،ہم نے تین فروری کواس حوالے سے ایمرجنسی نافذکی تھی تاہم تفتان سے آنے والے انیس میں سے پندرہ کے رزلٹس مثبت آئے ہیں،ہم صورت حال کے مطابق سہولیات اورضروریات پوری کررہے ہیں،پوری دنیاایک ہی کشتی میں سوارہے،ہمیں کسی سے مقابلے کی فکرنہیں،ہم نے وہ اقدامات کیے جو ضروری ہیں۔انہوں نے کہا کہ نجی کلینکس کا معاملہ آگے زیربحث لائیں گے تاکہ طریقہ کار وضع کرسکیں،ہم نے مکمل طور پرکاروبار بند نہیں کیے بلکہ اوقات مقررکیے ہیں،پیکج بھی بنا رہے ہیں تاکہ سخت حالات میں سنبھال سکیں۔
پیسے کا انتظام ہم نے کیا ہے اور8ارب منظورکیے ہیں،پچاس کروڑ صحت جبکہ ساٹھ کروڑ ریلیف کے محکموں کو دیئے گئے ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ عوام میں ابھی اس حوالے سے اس قدر احساس نہیں اس لیے آگہی مہم چلائیں گے اوراس سلسلے میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان نے اپنی پریس کانفرنس کے موقع پر عوام کو کورونا وائرس کی حساسیت کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے اردو زبان میں پریس کانفرنس کے انعقاد کے بعد پشتو زبان میں بھی اپنا پیغام ریکارڈ کرایا تاکہ لوگ بہتر انداز میں اس حساس معاملے کے حوالے سے سمجھ سکیں۔
خیبرپختونخوا حکومت نے مکمل لاک ڈاون کیا لیکن جب عید قریب آئی تو اس موقع پر عوام کو قدرے ریلیف دینے اور ان کو درپیش مالی مشکلات کے پیش نظر لاک ڈاون میں نرمی کی گئی لیکن اس نرمی کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوا اور کیسز کی رفتار بھی بڑھ گئی جسے مد نظررکھتے ہوئے حکومت نے بازاروں اور دکانوں کو کھولنے اور ان کی بندش کے حوالے سے اہم فیصلے کیے۔
اوقات کار مقرر کیے گئے ،سرکاری دفاتر میں بھی ملازمین پر پابندیاں عائد کی گئیں اور خواتین و بزرگ سرکاری ملازمین کو چھٹی دے دی گئی تاہم لوگوں کو درپیش مشکلات کا خاتمہ نہ ہونے پر حکومت نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور اس سلسلے میں کاروائیاں جاری رکھتے ہوئے سمارٹ لاک ڈاون کی راہ اختیار کی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو مشکلات کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے اور ساتھ ہی جن علاقوں سے کورونا سے متاثرہ مریض آرہے ہیں وہاں آمد و رفت کو بھی کنٹرول کیا جاسکااور یہ پالیسی اچھی خاصی کامیاب رہی کیونکہ اس طریقے سے کئی علاقوں کو کنٹرول کرلیا گیا۔
صوبائی حکومت کے بروقت اقدامات اور مناسب فیصلوں کی بدولت کورونا کی وباء کی بہتر انداز میں روک تھام کی گئی اورمرض کو پھیلنے سے روکاگیا ،صوبائی حکومت نے فنڈز فراہمی کی پرواہ کی نہ ہی دیگر مسائل کی بلکہ ان کا پورا فوکس اس پر رہا کہ وباء پھلنے نہ پائے اور جو لوگ اس وباء کی وجہ سے متاثر ہیں انھیں اس دوران ریلیف دیاجا سکے اوریہ پالیسی اب بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے کیونکہ سمارٹ لاک ڈاون کے بعد مائیکرو لاک ڈاون کا سلسلہ جاری ہے اور وہ گلی ،محلے یا علاقے جہاں یہ مسلہ اب بھی موجود ہے یا جہاں سے مریض سامنے آرہے ہیں صرف ان علاقوں کی بندش کی راہ اپنائی گئی ہے تاکہ عوام کو تکلیف بھی نہ ہو اور ایسے افراد کہ جو اس وباء کی وجہ سے متاثر ہیں ان کے دیگر افراد کے ساتھ میل جول کو بھی کم سے کم پیمانے پر رکھاجائے جس کے یقینی طور پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے ایک جانب تو کورونا وباء سے متاثرہ افراد کے صحت یاب ہونے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب نئے کیسز بھی انتہائی کم تعداد میں سامنے آرہے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بات ضرور مدنظررکھنی چاہیے کہ یہ کے پی کے حکومت کی عمدہ پالیسی اور بروقت فیصلے ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں کورونا وباء سے متاثرہ افراد کی تعداد35 ہزار تک محدود رہی جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب اور سندھ میں یہ تعداد دگنی اور تگنی ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت ہمہ وقت مرکزی حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں اور فورمز کے ساتھ رابطوں میں رہی جس کا اچھا نتیجہ سب کے سامنے ہے ،اور یہ پالیسی ختم نہیں ہوئی بلکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان اور ان کی پوری ٹیم تمام تر صورت حال کی مانیٹرنگ بھی کر رہی ہے اور فیصلے بھی لیے جا رہے ہیں جبکہ وزیرصحت تیمور سلیم جھگڑا خود تمام تر معاملات سے جڑے ہوئے ہیں تاکہ کوئی بھی ایسا اقدام نہ ہونے پائے کہ جس کی وجہ سے عوام کے لیے مشکلات پیداہوں یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا اس وباء سے چھٹکارا پانے کی راہ پر تیزی کے ساتھ چل رہا ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوںمیں خیبرپختونخوا کورونا فری ہوجائے گا۔
اس حوالے سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکے معاون خصوصی کامران خان بنگش کا کردار بھی مثالی رہا ہے ان کی کارکردگی اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انھیں بلدیات جیسے بڑے محکمے کا قلمدان حوالے کردیاگیا اور پھر محکمہ اطلاعات کا قلمدان بھی ان کے پاس آگیا ،انہوں نے محکمہ اطلاعات کا قلمدان سنبھالا تو کورونا کے وار جاری تھے۔
عوام کو مشکلات بھی درپیش تھیں اور مسائل بھی اپنی جگہ موجود تھے لیکن انہوں نے ایک جانب تو حکومت کی ترجمانی کا حق ادا کیا اور دوسری جانب عوا م تک بروقت معلومات کی فراہمی کے ساتھ ان کی خبر رکھتے ہوئے حکومت کو بھی اس سے آگاہ کیا جس کی بدولت محکمہ اطلاعات حقیقی معنوں میں حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوا اور اس کی بدولت ہی عوام کا حکومت پر اعتماد بھی بڑھا اور ساتھ ہی عوام بہتر طریقے سے حکومتی فیصلوں اور اقدامات سے آگاہ بھی ہونا شروع ہوئے۔