تفہیم المسائل
اگر نماز قضا ہوگئی تو گناہ گار ہوگا۔
NEW YORK:
روزے میں بچے کو دودھ پلانا
سوال: کیا ماں روزے میں بچے کو دودھ پلا سکتی ہے، اس سے روزہ ٹوٹ تو نہیں جائے گا؟
(ایک دینی بہن، کراچی)
جواب: اگر ماں بہت کمزور ہے اور روزہ رکھنے سے اس کی صحت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے یا بچے کے لیے اس کا دودھ کم ہونے کی صورت میں بچے کی صحت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو اسے عذر کی بنا پر رمضان کا روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے جس کی بعد میں قضا لازم ہے۔ تاہم اگر ماں روزہ بھی رکھتی ہے اور بچے کو دودھ بھی پلاتی ہے تو اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
احادیث و آثار میں فقہی اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ روزے دار کے معدے میں کسی چیز کے داخل ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا اور ماں کا دودھ اس کے وجود سے خارج ہوتا ہے۔
روزے میں غسل فرض ہونا
سوال:روزے کی حالت میں دن کے کسی حصے میں یا سحری کے وقت اگر غسل فرض ہوجائے تو کیا روزہ باقی رہے گا؟ (منور احمد، ملیر، کراچی)
جواب: قرآن مجید میں (رمضان میں) طلوع فجر تک کھانے پینے اور عمل ازدواج کی اجازت ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:''پس اب (چاہو تو) اپنی بیویوں سے تعلق قائم کرو اور طلب کرو جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھا ہو اور کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ (ممتاز ہوکر) ظاہر ہوجائے تمہارے لیے صبح کا سفید دھاگا (رات کے) سیاہ دھاگے سے (یعنی صبح صادق شروع ہوجائے)۔'' (البقرہ: 187)
جب طلوع فجر تک ازدواجی فعل میں مشغول رہنا جائز ہوا تو حالت جنابت میں روزے کی نیت کرنا بھی جائز ہوگیا۔ حالت جنابت میں صبح صادق ہوئی ہو یا روزے کی حالت میں دن کے کسی حصے میں غسل فرض ہوگیا ہو تو روزے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم بیدار ہونے کے بعد غسل کرکے پاک ہونا چاہیے اور غسل واجب میں اتنی تاخیر مکروہ تحریمی ہے جس سے کوئی فرض نماز قضا ہوجائے۔
اگر نماز قضا ہوگئی تو گناہ گار ہوگا۔ اگر سحری کے وقت بیدار ہوا اور اس پر غسل جنابت واجب ہے اور روزہ بند ہونے یعنی صبح صادق طلوع ہونے میں وقت اتنا تنگ ہے کہ اگر غسل کرتا ہے تو سحری کا وقت نہیں رہتا تو ہاتھ منہ دھوکر سحری کرکے روزہ رکھ لے اور اس کے بعد غسل واجب کرلے۔
زکوٰۃ سے افطار
سوال: ایک صاحب ثروت رمضان میں اچھی خاصی رقم مدرسہ کے طلبہ اور غریبوں کے افطار پر خرچ کرتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ کی رقم سے افطار کرواسکتے ہیں؟ (قاری حافظ محمد اسرائیل، اورنگی ٹاؤن)
جواب: زکوٰۃ یا فطرے کی رقم ایسے مصارف پر جہاں ''تملیک'' (مالک بنانا) نہ پایا جائے، صرف نہیں کی جاسکتی۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک (یعنی مالک بنانا ) شرط ہے۔
آج کل چوراہوں پر بالخصوص رمضان کے مہینے میں بعض لوگ زکوٰۃ، فطرہ، فدیہ وغیرہ کی رقوم سے لنگرِ عام کھلاتے ہیں، جس میں اس بات کی کوئی تمیز نہیں ہوتی کہ یہ لوگ مستحق زکوٰۃ ہیں یا نہیں؟ اسی طرح غیر مسلم بھی آکر شامل ہوسکتے ہیں جبکہ وہ مصرف زکوٰۃ نہیں بن سکتے۔ اگر بالفرض سبھی لنگر کھانے والے مستحق ہوں تو بھی اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، کیوں کہ ادائیگیٔ زکوٰۃ کے لیے محض اباحت (یعنی کسی چیز کو کسی مستحق کے استعمال کے لیے مباح کر دینا) کافی نہیں، بلکہ اس کو مالک بنانا ضروری ہے۔
لہٰذا ہماری رائے میں ادائیگیٔ زکوٰۃ وصدقات واجبہ کا یہ طریقہ درست نہیں ہے اور اس طرح زکوٰۃ دینے والے بری الذمہ نہیں ہوں گے۔ البتہ اگر نفلی خیرات کے طور پر کوئی یہ لنگر چلا رہا ہے تو جائز ہے۔ ویسے ہمارے نزدیک یہ طریقہ احترام انسانیت کے منافی ہے۔ غیر مسلموں کو نفلی خیرات دی جاسکتی ہے۔
اعتکاف کے لیے مسجد کی شرط
سوال:کیا رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف مسجد میں ہونا ضروری ہے یا مسجد سے ملحقہ کسی ہال یا علیحدہ کسی جگہ کیا جاسکتا ہے؟
آج کل لوگ کسی وسیع ہال یا گراؤنڈ میں ہزاروں افراد کو اجتماعی اعتکاف کراتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟
(یامین، لاہور)
جواب: اعتکاف یقیناً خلوت کی عبادت ہے، یہ نہ تو رہبانیت یا جوگیوں کی طرح تنہائی اور مردم بیزاری کا نام ہے اور نہ ہی کسی تہوار کی صورت جمع ہوجانے کا عمل، اسی لیے اعتکاف کا مقام اور جگہ دور دراز وادیوں اور پہاڑوں کے غاروں میں تجویز نہیں کیے گئے اور نہ ہی میلے ٹھیلوں کے مقامات کو پسند کیاگیا ہے، بلکہ محلے کی وہ مسجد یا جامع مسجد تجویز کی گئی ہے جس میں پانچوں وقت کی نماز جماعت کے ساتھ ہوتی ہو۔
اعتکاف کی حقیقت اور روح یہ ہے کہ انسان اپنے معمولات زندگی کو چھوڑ کر، کاروبار حیات سے الگ تھلگ اور یکسو ہو کر اﷲ سے لو لگائے، اسی کے ذکر وفکر میں مشغول رہے اور اسی کا ہوکر رہے۔
ذبیحہ کی گردن کا الگ ہوجانا
سوال:ہمارے علاقے کے تمام دیہات میں مشہور ہے کہ اگر ذبح کرتے ہوئے ذبیحہ کی گردن الگ ہوجائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے، خاص کر مرغی کے بارے میں سب کی یہی رائے ہے۔ راہ نمائی فرمائیے۔
(محمد فضل الرحمن، دواریاں، آزاد کشمیر)
جواب: ذبح کرتے ہوئے جانور کی گردن الگ ہوجانا مکروہ (تنزیہی) ہے، اس سے جانور حرام نہیں ہوتا اور اس کا گوشت کھایا جاسکتا ہے۔
علامہ برہان الدین ابو بکر فرغانی مرغینانی لکھتے ہیں کہ صاحبِ قدوری نے فرمایا کہ جس نے چھری کو حرام مغز تک پہنچایا یا سر کاٹ دیا تو یہ اس کے لیے مکروہ ہے اور اس کا ذبیحہ کھایا جائے گا۔ نبیؐ نے بکری ذبح کرتے وقت (چھری) کو نخاع تک پہنچنے سے منع فرمایا ہے۔ جانور کی گردن کاٹنے میں کسی فائدے کے بغیر اسے زیادہ تکلیف دینا ہے جو شرعاً منع ہے۔
صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی لکھتے ہیں کہ اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا سر کٹ کر جدا ہوجائے، مکروہ ہے مگر وہ ذبیحہ کھایا جائے گا، یعنی اس فعل میں کراہت ہے، ذبیحہ میں نہیں۔ عام لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ذبح کرنے میں اگر سر جدا ہوجائے تو اس سر کا کھانا مکروہ ہے، یہ کتبِ فقہ میں نظر سے نہیں گزرا بلکہ فقہا کا یہ کہنا کہ ذبیحہ کھایا جائے گا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سر بھی کھایا جائے گا۔
علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں کہ ذبح کیے جانے والے حلال جانور کو بے فائدہ کوئی بھی تکلیف دینا مکروہ ہے جیسے جانور کے ٹھنڈا ہونے اور ساکن ہونے یعنی جان نکلنے سے پہلے سر کاٹ دینا اور کھال اتارنا۔
جان نکلنے تک گردن کے بدن کے ساتھ جڑے رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ دماغ کا بدن کے ساتھ تعلق قائم رہتا ہے اور ذبح کے وقت بہنے والا خون جو حرام ہے، پوری طرح بدن سے نکل آتا ہے۔
دوران جماعت ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا
سوال:ہماری مسجد میں چوتھی صف کے درمیان میں دو ستون ہیں۔ کیا ان کے درمیان صف بنائی جاسکتی ہے؟
(قاری رب نواز، امام و خطیب جامع مسجد فاروقیہ، نئی کراچی)
جواب: پنج وقتہ نمازوں کی جماعت میں کہ جب مسجد بڑی بھی ہے، نمازیوں کی تعداد اتنی زیادہ بھی نہیں کہ تنگی ہو تو ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ ہاں، عیدین و جمعۃ المبارک کے اجتماعات میں لوگوں کی کثیر تعداد کے سبب ستونوں کے درمیان بھی صفیں بنائی جاسکتی ہیں۔
روزے میں بچے کو دودھ پلانا
سوال: کیا ماں روزے میں بچے کو دودھ پلا سکتی ہے، اس سے روزہ ٹوٹ تو نہیں جائے گا؟
(ایک دینی بہن، کراچی)
جواب: اگر ماں بہت کمزور ہے اور روزہ رکھنے سے اس کی صحت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے یا بچے کے لیے اس کا دودھ کم ہونے کی صورت میں بچے کی صحت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو اسے عذر کی بنا پر رمضان کا روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے جس کی بعد میں قضا لازم ہے۔ تاہم اگر ماں روزہ بھی رکھتی ہے اور بچے کو دودھ بھی پلاتی ہے تو اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
احادیث و آثار میں فقہی اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ روزے دار کے معدے میں کسی چیز کے داخل ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا اور ماں کا دودھ اس کے وجود سے خارج ہوتا ہے۔
روزے میں غسل فرض ہونا
سوال:روزے کی حالت میں دن کے کسی حصے میں یا سحری کے وقت اگر غسل فرض ہوجائے تو کیا روزہ باقی رہے گا؟ (منور احمد، ملیر، کراچی)
جواب: قرآن مجید میں (رمضان میں) طلوع فجر تک کھانے پینے اور عمل ازدواج کی اجازت ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:''پس اب (چاہو تو) اپنی بیویوں سے تعلق قائم کرو اور طلب کرو جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھا ہو اور کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ (ممتاز ہوکر) ظاہر ہوجائے تمہارے لیے صبح کا سفید دھاگا (رات کے) سیاہ دھاگے سے (یعنی صبح صادق شروع ہوجائے)۔'' (البقرہ: 187)
جب طلوع فجر تک ازدواجی فعل میں مشغول رہنا جائز ہوا تو حالت جنابت میں روزے کی نیت کرنا بھی جائز ہوگیا۔ حالت جنابت میں صبح صادق ہوئی ہو یا روزے کی حالت میں دن کے کسی حصے میں غسل فرض ہوگیا ہو تو روزے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم بیدار ہونے کے بعد غسل کرکے پاک ہونا چاہیے اور غسل واجب میں اتنی تاخیر مکروہ تحریمی ہے جس سے کوئی فرض نماز قضا ہوجائے۔
اگر نماز قضا ہوگئی تو گناہ گار ہوگا۔ اگر سحری کے وقت بیدار ہوا اور اس پر غسل جنابت واجب ہے اور روزہ بند ہونے یعنی صبح صادق طلوع ہونے میں وقت اتنا تنگ ہے کہ اگر غسل کرتا ہے تو سحری کا وقت نہیں رہتا تو ہاتھ منہ دھوکر سحری کرکے روزہ رکھ لے اور اس کے بعد غسل واجب کرلے۔
زکوٰۃ سے افطار
سوال: ایک صاحب ثروت رمضان میں اچھی خاصی رقم مدرسہ کے طلبہ اور غریبوں کے افطار پر خرچ کرتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ کی رقم سے افطار کرواسکتے ہیں؟ (قاری حافظ محمد اسرائیل، اورنگی ٹاؤن)
جواب: زکوٰۃ یا فطرے کی رقم ایسے مصارف پر جہاں ''تملیک'' (مالک بنانا) نہ پایا جائے، صرف نہیں کی جاسکتی۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک (یعنی مالک بنانا ) شرط ہے۔
آج کل چوراہوں پر بالخصوص رمضان کے مہینے میں بعض لوگ زکوٰۃ، فطرہ، فدیہ وغیرہ کی رقوم سے لنگرِ عام کھلاتے ہیں، جس میں اس بات کی کوئی تمیز نہیں ہوتی کہ یہ لوگ مستحق زکوٰۃ ہیں یا نہیں؟ اسی طرح غیر مسلم بھی آکر شامل ہوسکتے ہیں جبکہ وہ مصرف زکوٰۃ نہیں بن سکتے۔ اگر بالفرض سبھی لنگر کھانے والے مستحق ہوں تو بھی اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، کیوں کہ ادائیگیٔ زکوٰۃ کے لیے محض اباحت (یعنی کسی چیز کو کسی مستحق کے استعمال کے لیے مباح کر دینا) کافی نہیں، بلکہ اس کو مالک بنانا ضروری ہے۔
لہٰذا ہماری رائے میں ادائیگیٔ زکوٰۃ وصدقات واجبہ کا یہ طریقہ درست نہیں ہے اور اس طرح زکوٰۃ دینے والے بری الذمہ نہیں ہوں گے۔ البتہ اگر نفلی خیرات کے طور پر کوئی یہ لنگر چلا رہا ہے تو جائز ہے۔ ویسے ہمارے نزدیک یہ طریقہ احترام انسانیت کے منافی ہے۔ غیر مسلموں کو نفلی خیرات دی جاسکتی ہے۔
اعتکاف کے لیے مسجد کی شرط
سوال:کیا رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف مسجد میں ہونا ضروری ہے یا مسجد سے ملحقہ کسی ہال یا علیحدہ کسی جگہ کیا جاسکتا ہے؟
آج کل لوگ کسی وسیع ہال یا گراؤنڈ میں ہزاروں افراد کو اجتماعی اعتکاف کراتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟
(یامین، لاہور)
جواب: اعتکاف یقیناً خلوت کی عبادت ہے، یہ نہ تو رہبانیت یا جوگیوں کی طرح تنہائی اور مردم بیزاری کا نام ہے اور نہ ہی کسی تہوار کی صورت جمع ہوجانے کا عمل، اسی لیے اعتکاف کا مقام اور جگہ دور دراز وادیوں اور پہاڑوں کے غاروں میں تجویز نہیں کیے گئے اور نہ ہی میلے ٹھیلوں کے مقامات کو پسند کیاگیا ہے، بلکہ محلے کی وہ مسجد یا جامع مسجد تجویز کی گئی ہے جس میں پانچوں وقت کی نماز جماعت کے ساتھ ہوتی ہو۔
اعتکاف کی حقیقت اور روح یہ ہے کہ انسان اپنے معمولات زندگی کو چھوڑ کر، کاروبار حیات سے الگ تھلگ اور یکسو ہو کر اﷲ سے لو لگائے، اسی کے ذکر وفکر میں مشغول رہے اور اسی کا ہوکر رہے۔
ذبیحہ کی گردن کا الگ ہوجانا
سوال:ہمارے علاقے کے تمام دیہات میں مشہور ہے کہ اگر ذبح کرتے ہوئے ذبیحہ کی گردن الگ ہوجائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے، خاص کر مرغی کے بارے میں سب کی یہی رائے ہے۔ راہ نمائی فرمائیے۔
(محمد فضل الرحمن، دواریاں، آزاد کشمیر)
جواب: ذبح کرتے ہوئے جانور کی گردن الگ ہوجانا مکروہ (تنزیہی) ہے، اس سے جانور حرام نہیں ہوتا اور اس کا گوشت کھایا جاسکتا ہے۔
علامہ برہان الدین ابو بکر فرغانی مرغینانی لکھتے ہیں کہ صاحبِ قدوری نے فرمایا کہ جس نے چھری کو حرام مغز تک پہنچایا یا سر کاٹ دیا تو یہ اس کے لیے مکروہ ہے اور اس کا ذبیحہ کھایا جائے گا۔ نبیؐ نے بکری ذبح کرتے وقت (چھری) کو نخاع تک پہنچنے سے منع فرمایا ہے۔ جانور کی گردن کاٹنے میں کسی فائدے کے بغیر اسے زیادہ تکلیف دینا ہے جو شرعاً منع ہے۔
صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی لکھتے ہیں کہ اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا سر کٹ کر جدا ہوجائے، مکروہ ہے مگر وہ ذبیحہ کھایا جائے گا، یعنی اس فعل میں کراہت ہے، ذبیحہ میں نہیں۔ عام لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ذبح کرنے میں اگر سر جدا ہوجائے تو اس سر کا کھانا مکروہ ہے، یہ کتبِ فقہ میں نظر سے نہیں گزرا بلکہ فقہا کا یہ کہنا کہ ذبیحہ کھایا جائے گا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سر بھی کھایا جائے گا۔
علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں کہ ذبح کیے جانے والے حلال جانور کو بے فائدہ کوئی بھی تکلیف دینا مکروہ ہے جیسے جانور کے ٹھنڈا ہونے اور ساکن ہونے یعنی جان نکلنے سے پہلے سر کاٹ دینا اور کھال اتارنا۔
جان نکلنے تک گردن کے بدن کے ساتھ جڑے رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ دماغ کا بدن کے ساتھ تعلق قائم رہتا ہے اور ذبح کے وقت بہنے والا خون جو حرام ہے، پوری طرح بدن سے نکل آتا ہے۔
دوران جماعت ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا
سوال:ہماری مسجد میں چوتھی صف کے درمیان میں دو ستون ہیں۔ کیا ان کے درمیان صف بنائی جاسکتی ہے؟
(قاری رب نواز، امام و خطیب جامع مسجد فاروقیہ، نئی کراچی)
جواب: پنج وقتہ نمازوں کی جماعت میں کہ جب مسجد بڑی بھی ہے، نمازیوں کی تعداد اتنی زیادہ بھی نہیں کہ تنگی ہو تو ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ ہاں، عیدین و جمعۃ المبارک کے اجتماعات میں لوگوں کی کثیر تعداد کے سبب ستونوں کے درمیان بھی صفیں بنائی جاسکتی ہیں۔